اردوئے معلیٰ

دہر میں کون ہمیں تیرے سوا جانتا ہے

تو بھی افسوس نہیں جانتا کیا جانتا ہے

 

ہم نے وہ بوجھ اٹھائے ہیں کہ اٹھنے کے نہ تھے

عمر جس طور سے کاٹی ہے خدا جانتا ہے

 

تیرے بے کس نے سنا ہے جو کہا ہے تو نے

اور وہ بھی جو کہا جا نہ سکا جانتا ہے

 

جانتا ہے دلِ کم بخت کہ اب ٹوٹنا ہے

دل کہ اس کھیل کا عادی جو ہوا، جانتا ہے

 

مضمحل وقتِ سحر لو نہیں یونہی ناصر

رات پھر لوٹ کے آنی ہے دیا جانتا ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ