اردوئے معلیٰ

رقص کرتی ہوئی جاتی ہے صدا کیف میں ہے

نامِ احمد کے سبب میری دعا کیف میں ہے

 

رات خوشبو میں نہائی ہے دیا کیف میں ہے

ذکرِ پر نور کی برکت سے فضا کیف میں ہے

 

اُن کے آنے سے ہوا باغ معطّر ایسا

ہر کلی لطف میں ہے بادِ صبا کیف میں ہے

 

آمدِ نور میں لپٹا ہے جہاں کا منظر

جشنِ میلاد ہے اور آب و ہوا کیف میں ہے

 

اس کے ہر ذرّے سے پھوٹی ہے ضیا آج کی رات

” چھو کے نعلینِ کرم غارِ حرا کیف میں ہے “

 

تازگی جتنی ہے دنیا میں اُسی در سے ہے

سبز گنبد کو جو چھوتی ہے ہوا کیف میں ہے

 

ایسا لگتا ہے کہ سرکار نے سن لی اس کی

آج ہنستا ہوا جاتا ہے فدا کیف میں ہے

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ