اردوئے معلیٰ

آج نامور شاعر اکبر الہ آبادی کا یوم پیدائش ہے

اکبر الہ آبادی(پیدائش: 16 نومبر 1846ء – وفات: 9 ستمبر 1921ء)
——
الہٰ آباد کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ آپ کا اصل نام سید اکبر حسین رضوی تھا اور تخلص اکبر۔ آپ 16 نومبر1846ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم سرکاری مدارس میں پائی اور محکمہ تعمیرات میں ملازم ہو گئے۔ 1869ء میں مختاری کا امتحان پاس کرکے نائب تحصیلدار ہوئے۔ 1870ء میں ہائی کورٹ کی مسل خوانی کی جگہ ملی۔ 1872ء میں وکالت کا امتحان پاس کیا۔ 1880ء تک وکالت کرتے رہے۔ پھر منصف مقرر ہوئے۔ 1894ء میں عدالت خفیفہ کے جج ہو گئے۔ 1898ء میں خان بہادر کا خطاب ملا۔ 1903ء میں ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ انہوں نے جنگ آزادی ہند 1857ء، پہلی جنگ عظیم اور گاندھی کی امن تحریک کا ابتدائی حصہ دیکھا تھا۔
فن شعروسخن میں وحید الہ آبادی سے اصلاح لی، جاننا چاہیے کہ اکبر الہ آبادی اور شاہ اکبر داناپوری دونوں ہم سبق ہیں، ایک ہی استاد وحید الہ آبادی کے شاگرد اور ایک ہی پیر حضرت مولانا شاہ قاسم ابوالعلائی داناپوری کے مرید تھے اور حضرت قاسم شاہ اکبر داناپوری کے چچا اور پیر و مرشد تھے۔ شاہ اکبر داناپوری خود ہی ایک رباعی میں اس کا ذکر کرتے ہیں
شاگرد وحید کے ہیں دونوں اکبر
ہم مشق بھی دونوں رہے ہیں اکثر
لیکن قدرت کا صاد ان پر ہی ہوا
پتھر پتھر ہے اور جوہر جوہر (جذبات اکبر)
اسی طرح اکبر الہ آبادی کا ایک خط شاہ اکبر داناپوری کے نام ملتا ہے جو کتاب نذر محبوب میں درج ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : نامور شاعر اکبر الہ آبادی کا یوم وفات
——
اکبر الہ آبادی نے اپنا الگ رنگ پیدا کیا۔ ان کی شہرت ظرافت آمیز اور طنزیہ اشعار پر مبنی ہے۔ مشرقیت کے دلدادہ اور مغربی تہذیب کی کورانہ تقلید کے سخت خلاف تھے۔ مغرب زدہ طبقے کو طنز و مزاح کی چٹکیاں لے کر راہ راست پر لانے کی کوشش کرتے تھے۔ کلام میں مس، سید، اونٹ، کالج، گانے، کلیسا، برہمن، جمن، بدھو میاں مخصوص اصطلاحیں اور علامتیں ہیں۔ مخزن لاہور نے انھیں لسان العصر خطاب دیا۔ مبطوعہ کلام تین کلیات پر مشتمل ہے۔ دو ان کی زندگی میں شائع ہو گئے تھے۔ تیسرا انتقال کے بعد شائع ہوا۔
——
مزاحیہ شاعری سے اصلاح معاشرہ کرنے والا شاعر از تنویر احمد
——
اُردو ادب کے قاری جب اکبر الٰہ آبادی کے ظرافت سے بھرپور اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہنستے ہیں، مسکراتے ہیں اور جب اس شاعری کو سامنے رکھ کر اپنا محاسبہ کرتے ہیں تو شرمندہ بھی ہوتے ہیں۔ 16 نومبر 1846 میں تفضل حسین کے گھرانے میں پیدا ہوئے اکبر الٰہ آبادی، جن کا اصل نام سید اکبر حسین تھا، نے اپنی شاعری سے اصلاح معاشرہ کا وہ کام لیا جو سر سید احمد خان اور علامہ اقبال جیسی شخصیتوں کا شیوہ رہا۔ انھوں نے اپنی شاعری میں اکثر سماجی برائیوں، مغربی تہذیب اور لادینیت کو طنز و مزاح کے پیکر میں ڈال کر تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کی اس طرز شاعری کی خوبی ہی تھی کہ لوگوں کی انا کو ٹھیس بھی نہیں پہنچتی تھی اور وہ اپنا محاسبہ کرنے پر مجبور بھی ہو جاتے تھے، مثلاً
——
دنیا میں لذتیں ہیں نمائش ہے شان ہے
ان کی طلب میں حرص میں سارا جہان ہے
اکبرؔ سے سنو کہ جو اس کا بیان ہے
دنیا کی زندگی فقط اک امتحان ہے
——
عقائد پر قیامت آئے گی ترمیم ملت سے
نیا کعبہ بنے گا مغربی پتلے صنم ہوں گے
——
نہیں رہے گی وہ خوبی جو زن ہے بے پردہ
سبب یہ ہے کہ نگاہوں کی مار پڑتی ہے
——
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اکبر الٰہ آبادی مغربی تعلیم کے دلدادہ سر سید احمد خان کے مخالف تھے۔ لیکن دونوں شخصیتوں پر گہری نظر رکھنے والوں کو معلوم ہے کہ سر سید سے اکبر کا اختلاف شخصی نہیں بلکہ نظریاتی تھا۔ یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ اکبر الٰہ آبادی مغربی تہذیب اور برطانوی عادات و اطوار سے انتہائی درجہ نفرت کرتے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ضیائے کون و مکان لا الٰہ الا اللہ
——
سر سید سے اختلاف بھی اسی سلسلے میں تھا، ورنہ اپنی زندگی کے آخر وقت میں انھوں نے سر سید کے کاموں کی تعریف کئی اشعار کے ذریعہ کی ہے۔ اس اشعار کو پڑھ کر آپ کو یہ بھی اندازہ ہوگا کہ وہ سر سید کی کارگزاری سے خوش تھے اور ان کے ذریعہ کیے گئے کاموں کے دلدادہ بھی۔ چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
——
واہ اے سید پاکیزہ گہر کیا کہنا
یہ دماغ اور حکیمانہ نظر کیا کہنا
قوم کے عشق میں یہ سوز جگر کیا کہنا
ایک ہی دھن میں ہوئی عمر بسر کیا کہنا
——
ہماری باتیں ہی باتیں ہیں سید کام کرتا ہے
نہ بھولو فرق ہے جو کہنے والے اور کرنے والے میں
——
صدیق الرحمن قدوائی نے اپنی کتاب ’انتخاب اکبر الٰہ آبادی‘ میں اس تعلق سے بہت خوب لکھا ہے اور سرسید و حالی کی طرح اکبر کو بھی اصلاح پسند ادیب قرار دیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ’’ اکبر کے نزدیک شاعری کا مقصد زندگی کی تنقید و اصلاح تھا… سرسید تحریک کے علمبرداروں نے اور اکبر نے اپنے اپنے نقطہ نظر کے مطابق شاعری کے ذریعے قومی اصلا ح کی کوشش کی۔سماجی اعتبار سے متضاد نقطہ نظر رکھنے کے باوجود سرسید، حالی اور اکبر یکساں ادبی نقطہ نظر کے حامل تھے‘‘۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اکبر الٰہ آبادی نے انگریزی زبان یا مغرب کی اچھی چیزوں کو اختیار کرنے سے منع نہیں فرمایا، اگر اپنی شاعری میں کہیں ’انگریزی‘ یا ’انگلش‘ کی تنقید کی ہے تو ان کا اشارہ انگریزی یا مغربی تہذیب کی طرف ہے۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ انھوں نے اپنی شاعری میں جا بجا انگریزی الفاظ کا استعمال بھی کیا ہے جو ثابت کرتا ہے کہ وہ انگریزی زبان کے مخالف نہیں تھے۔ اس کی مثال ان کے ہی اشعار سے ملاحظہ فرمائیے:
——
عاشقی کا ہو برا اس نے بگاڑے سارے کام
ہم تو اے.بی میں رہے اغیار بی ۔ اے ہو گئے
——
تم شوق سے کالج میں پڑھو پارک میں پھولو
جائز ہے غباروں میں اڑو چرخ پہ جھولو
——
پر ایک سخن بندۂ عاجز کا رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
——
وہ باتیں جن سے قومیں ہو رہی ہیں نامور سیکھو
اٹھو تہذیب سیکھو، صنعتیں سیکھو، ہنر سیکھو
بڑھاؤ تجربے اطراف دنیا میں سفر سیکھو
خواص خشک و تر سیکھو علوم بحر و بر سیکھو
——
اکبر الٰہ آبادی کو انگریزوں سے سخت درجہ کی نفرت تھی، اس کی وجہ یہ تھی کہ انھوں نے 1857 کی جنگ اور انگریزوں کے مظالم کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کالج و یونیورسٹیوں میں انگریزی طرز تعلیم کے خلاف خوب آواز اٹھائی۔ سر سید نے جب اس انگریزی طرز کو اختیار کیا تو انھوں نے برجستہ یہ شعر کہہ ڈالا:
——
ابتدا کی جناب سید نے
جن کے کالج کا اتنا نام ہوا
انتہا یونیورسٹی پر ہوئی
قوم کا کام اب تمام ہوا
——
نظر ان کی رہی کالج میں بس علمی فوائد پر
گراکے چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر
——
لسان العصر کے لقب سے سرفراز اکبر الٰہ آبادی نے ہمیشہ اسلامی تہذیب کا پاس رکھا اور مسلمانوں سے ہمیشہ یہی گزارش کی کہ وہ اپنی تابناک تہذیب و ثقافت سے دستبردار نہ ہوں۔ اس معاملے میں ان کا ذہن کافی حد تک علامہ اقبال سے وابستہ تھا، بلکہ یوں کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ علامہ اقبال اکبر الٰہ آبادی کو اپنا مرشد معنوی تصور کرتے تھے۔ اقبال نے اکبر الہ آبادی کے نام 6 اکتوبر 1911 کو لکھے ایک خط میں اس بات کا اعتراف بھی کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’میں آپ کو اسی نگاہ سے دیکھتا ہوں جس نگاہ سے کوئی مرید اپنے پیر کو دیکھے اور وہی محبت اور عقیدت اپنے دل میں رکھتا ہوں، خدا کرے وہ وقت جلد آئے کہ مجھے آپ سے شرف نیاز حاصل ہو اور میں اپنے دل کو چیر کر آپ کے سامنے رکھ دوں۔ لاہور ایک بڑا شہر ہے لیکن میں اس ہجوم میں تنہا ہوں، ایک فرد واحد بھی ایسا نہیں جس سے دل کھول کر اپنے جذبات کا اظہار کیا جا سکے‘‘۔ کچھ ایسی ہی محبت اکبر الٰہ آبادی کو اقبال سے بھی تھی۔ انھوں نے اپنے ایک شعر میں اس بات کا اظہار بھی کیا جو اس طرح ہے:
——
دعویٔ علم و فرد میں جوش تھا اکبر کو رات
ہو گیا ساکت جب ذکر اقبال آگیا
——
ادب صرف شعر و شاعری یا داستان گوئی و افسانہ سازی نہیں بلکہ تنقید حیات کا بھی نام ہے۔ ہر ادیب اپنی زندگی میں الگ الگ طریقے سے تنقید حیات کا کام کرتا رہتا ہے، اور اکبر الٰہ آبادی نے بھی اپنی ایک منفرد راہ اختیار کی تھی۔ ان کی شاعری جس قدر آسان فہم اور سہل ہوا کرتی تھی وہ اس سے کہیں زیادہ ذہین تھے۔ انہوں نے ادب ‘فلسفہ اور مذہب کی کتابیں خوب پڑھی تھیں۔ اکبر الٰہ آبادی نے انگریزی کتاب’فیوچر آف اسلام ‘ کا سلیس اور با محاورہ ترجمہ بھی کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : کعبے کی رونق کعبے کا منظر، اللہ اکبر، اللہ اکبر
——
وہ ایک ذہین اور باصلاحیت انسان تھےجنھوں نے تحصیلداری بھی کی، عدالت خفیفہ کی منصفی بھی کی، سیشن جج بھی رہے اور اپنی خدمات کے باعث ’خان بہادر‘ کا خطاب بھی حاصل کیا۔ انہیں ہائی کورٹ میں جج بننے کا بھی موقع حاصل ہوا تاہم خرابی صحت کے سبب 1903 میں قبل از وقت وظیفہ پر سبکدوش ہوگئے۔ سبکدوشی کے بعد انھوں نے پوری طرح سے خود کو شعر و ادب اور اصلاحِ معاشرہ کے لیے وقف کر دیا۔ زندگی کے آخر وقت میں انھوں نے ایک زمانہ شناس، ماہر نباض اور حاذق حکیم کی صورت اختیار کی اور اپنی شاعری میں کھری کھری باتیں سنانے کے ساتھ ساتھ مرض کا علاج بھی بتایا۔ ان کی نظم ’تعلیم نسواں‘ اس کی بہترین مثال ہے جس میں انھوں نے انتہائی ناصحانہ انداز اختیار کیا ہے۔ اس نظم کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں:
——
تعلیم عورتوں کو بھی دینی ضرور ہے
لڑکی جو بے پڑھی ہو تو وہ بے شعور ہے
——
داتا نے دھن دیا ہے تو دل سے غنی رہو
پڑھ لکھ کے اپنے گھر ہی دیوی بنی رہو
——
مشرق کی چال ڈھال کا معمول اور ہے
مغرب کے ناز و رقص کا اسکول اور ہے
——
اکبر الٰہ آبادی کا نام جب بھی زبان پر آتا ہے تو لوگ کے چہرے پر مسکراہٹ نظر آنے لگتی ہے اور ان کے مزاحیہ اشعار ذہن میں گردش کرنے لگ جاتے ہیں۔ لیکن اس حقیقت سے قطعی انکار ممکن نہیں کہ وہ اصلاح ملت کے عظیم علمبردار ہیں۔ وہ مزاحیہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ جدید فلسفی شاعر بھی تھے۔ اس عظیم اور خاکسار شاعر کا انتقال 9 ستمبر 1921 کو الٰہ آباد میں ہوا اور یہیں کی خاک میں دفن کیے گئے۔ اس مشہور عام شاعر کے بے شمار اشعار ہیں جو لوگوں کی زبان زد ہیں۔ آخر میں پیش ہیں کچھ ایسے ہی اشعار جنھیں کبھی بھلایا نہیں جا سکتا:
——
دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں
بازار سے گزرا ہوں، خریدار نہیں ہوں
——
اک دن تھا وہ کہ دب گئے تھے لوگ دین سے
اک دن یہ ہے کہ دین دبا ہے مشین سے
——
بتاؤں آپ سے مرنے کے بعد کیا ہوگا
پلاؤ کھائیں گے احباب فاتحہ ہوگا
——
بہت ہی بگڑے وہ کل مجھ سے پہلے بوسے پر
خوش ہوگئے آخر کو تین چار کے بعد
——۔
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق ہے اتنا
کہ یہ جامے سے باہر ہے اور وہ پاجامے سے باہر ہے
——
یوں قتل سے بچوں کے وہ بد نام نہ ہوتا
افسوس کے فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
——
بے پردہ کل جو آئیں نظر چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرت قومی سے گڑ گیا
پوچھاجو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
——
برق کے لیمپ سے آنکھوں کو بچائے رکھنا
روشنی آتی ہے اور نور چلا جاتا ہے
——
منتخب کلام
——
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بد نام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
——
مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
——
پیدا ہوا وکیل تو شیطان نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
——
الٰہی کیسی کیسی صورتیں تو نے بنائی ہیں
کہ ہر صورت کلیجے سے لگا لینے کے قابل ہے
——
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
——
عشوہ بھی ہے شوخی بھی تبسم بھی حیا بھی
ظالم میں اور اک بات ہے اس سب کے سوا بھی
——
دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت
ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے
——
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ ہیں باتیں
اس رنگ کو کیا جانے پوچھو تو کبھی پی ہے
اس مے سے نہیں مطلب دل جس سے ہے بیگانہ
مقصود ہے اس مے سے دل ہی میں جو کھنچتی ہے
اے شوق وہی مے پی اے ہوش ذرا سو جا
مہمان نظر اس دم ایک برق تجلی ہے
واں دل میں کہ صدمے دو یاں جی میں کہ سب سہہ لو
ان کا بھی عجب دل ہے میرا بھی عجب جی ہے
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے
سورج میں لگے دھبا فطرت کے کرشمے ہیں
بت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے
تعلیم کا شور ایسا تہذیب کا غل اتنا
برکت جو نہیں ہوتی نیت کی خرابی ہے
سچ کہتے ہیں شیخ اکبرؔ ہے طاعت حق لازم
ہاں ترک مے و شاہد یہ ان کی بزرگی ہے
——
یہ بھی پڑھیں : نظر خواب میں جب پڑی ہے حرم پر، پکارا مرے دل نے اللہ اکبر
——
حرم کیا دیر کیا دونوں یہ ویراں ہوتے جاتے ہیں
تمہارے معتقد گبرو مسلماں ہوتے جاتے ہیں
الگ سب سے نظر نیچی خرام آہستہ آہستہ
وہ مجھ کو دفن کر کے اب پشیماں ہوتے جاتے ہیں
سوا طفلی سے بھی ہیں بھولی باتیں اب جوانی میں
قیامت ہے کہ دن پر دن وہ ناداں ہوتے جاتے ہیں
کہاں سے لاؤں گا خون جگر ان کے کھلانے کو
ہزاروں طرح کے غم دل کے مہماں ہوتے جاتے ہیں
خرابی خانہ ہائے عیش کی ہے دور گردوں میں
جو باقی رہ گئے ہیں وہ بھی ویراں ہوتے جاتے ہیں
بیاں میں کیا کروں دل کھول کر شوق شہادت کو
ابھی سے آپ تو شمشیر عریاں ہوتے جاتے ہیں
غضب کی یاد میں عیاریاں واللہ تم کو بھی
غرض قائل تمہارے ہم تو اے جاں ہوتے جاتے ہیں
ادھر ہم سے بھی باتیں آپ کرتے ہیں لگاوٹ کی
ادھر غیروں سے بھی کچھ عہد و پیماں ہوتے جاتے ہیں
——
آنکھیں مجھے تلووں سے وہ ملنے نہیں دیتے
ارمان مرے دل کے نکلنے نہیں دیتے
خاطر سے تری یاد کو ٹلنے نہیں دیتے
سچ ہے کہ ہمیں دل کو سنبھلنے نہیں دیتے
کس ناز سے کہتے ہیں وہ جھنجھلا کے شب وصل
تم تو ہمیں کروٹ بھی بدلنے نہیں دیتے
پروانوں نے فانوس کو دیکھا تو یہ بولے
کیوں ہم کو جلاتے ہو کہ جلنے نہیں دیتے
حیران ہوں کس طرح کروں عرض تمنا
دشمن کو تو پہلو سے وہ ٹلنے نہیں دیتے
دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت
ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے
گرمئ محبت میں وہ ہیں آہ سے مانع
پنکھا نفس سرد کا جھلنے نہیں دیتے
——
عشق بت میں کفر کا مجھ کو ادب کرنا پڑا
جو برہمن نے کہا آخر وہ سب کرنا پڑا
صبر کرنا فرقت محبوب میں سمجھے تھے سہل
کھل گیا اپنی سمجھ کا حال جب کرنا پڑا
تجربے نے حب دنیا سے سکھایا احتراز
پہلے کہتے تھے فقط منہ سے اور اب کرنا پڑا
شیخ کی مجلس میں بھی مفلس کی کچھ پرسش نہیں
دین کی خاطر سے دنیا کو طلب کرنا پڑا
کیا کہوں بے خود ہوا میں کس نگاہ مست سے
عقل کو بھی میری ہستی کا ادب کرنا پڑا
اقتضا فطرت کا رکتا ہے کہیں اے ہم نشیں
شیخ صاحب کو بھی آخر کار شب کرنا پڑا
عالم ہستی کو تھا مد نظر کتمان راز
ایک شے کو دوسری شے کا سبب کرنا پڑا
شعر غیروں کے اسے مطلق نہیں آئے پسند
حضرت اکبرؔ کو بالآخر طلب کرنا پڑا
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ