آج نامور شاعر سید سبط علی صبا کا یومِ وفات ہے۔
——
سید سبطِ علی صبا اردو کے خوش گو شاعر 11 نومبر 1935ء کو کوٹلی لوہاراں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کے والد زین العابدین برٹش انڈین آرمی میں ملازم تھے۔
1953ء سے 1960ء تک وہ پاکستان کی بری فوج کے ساتھ وابستہ رہے اور پھر پاکستان آرڈیننس فیکٹری ، واہ کینٹ سے منسلک ہوئے۔
ان کا مجموعہ کلام جس کا نام انہوں نے خود ابرسنگ تجویز کیا تھا ان کی وفات کے بعد ان کے احباب نے طشت مراد کے نام سے 1986ء میں شائع کیا۔ سید سبط علی صبا کی کلیات بھی ابر سنگ کے نام سے اشاعت پزیر ہوچکی ہے
14 مئی 1980ء کو سبط علی صبا واہ کینٹ میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے
——
سبطِ علی صبا، کچھ شخصی یادیں از شاہد ملک
——
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنالئے
——
اِس لافانی شعر کے خالق، میرے سیالکوٹی ہم وطن اور شاعری میں ہمارے سینئر سید سبطِ علی صبا کا چالیسواں یومِ وفات 14مئی کو گزر ا۔ صبح ہی صبح فیس بُک پر اُن کے فرزند میشاق علی جعفری کی تحریر پڑھ کر مجھے صبا مرحوم کی دنیا سے اچانک روانگی کا وہ المناک دن یاد آ گیا جس کا نقش میرے ذہن سے کبھی محو نہیں ہو گا۔ اُس وقت برٹش ہائی کمیشن اسلام آباد میں ایک سال بطور انٹرپرٹر نو کری کر کے مجھے گورنمنٹ کالج لاہور میں انگریزی کا لیکچرار مقرر ہوئے چوتھا سال تھا۔ مہینے میں ایک دو مرتبہ میرا وِیک اینڈ والدین کے پاس واہ کینٹ میں گزرتا۔ وہی شہر جہاں میری ابتدائی تعلیم ہوئی اور جو پاکستان آرڈنینس فیکٹری سے طویل وابستگی کی بنا پر عملی طور پہ سبطِ علی صبا اور اُن کے کئی ہم عصر شعرا کا شہر بھی شمار ہوا۔
——
یہ بھی پڑھیں : سبطِ حسن کا یومِ وفات
——
خوب اچھی طرح یاد ہے کہ مذکورہ وِیک اینڈ پہ مَیں نے معمول سے ہٹ کر تین دن کی اضافی چھٹی اتوار کے ساتھ ملا لی تھی۔ سوچا کہ واپسی پہ بدھ کی صبح راولپنڈی سے بس پکڑ کر کھاریاں پہنچوں گا، جہاں واہ کالج میں انگریزی کے استاد اور میرے دوست افتخار یوسف رشتہء ازدواج میں منسلک ہونے والے تھے۔ ارادہ یہی کہ اُن کی تقریبِ شادی میں شریک ہو کر کھاریاں سے لاہور روانہ ہو جاؤں گا اور پھر اگلے روز سے کالج میں تدریسی فرائض۔ میرا منصوبہ کیسے تہس نہس ہوا، یہ بھی عجب کہانی ہے۔ پہلے تو صبحِ کاذب کے وقت میرے والد پہ ہائی بلڈ پریشر کا حملہ ہوا اور مجھے فوری طور پہ انہیں بے ہوشی کے عالم میں پی او ایف اسپتال لے جانا پڑا۔ مریض کی صور ت حال کے پیشِ نظر یہ طے تھا کہ انہیں کئی روز تک وہیں رہنا ہو گا۔
چند ہی گھنٹے گزرے ہوں گے کہ اسپتال ہی میں سبطِ علی صبا کے بارے میں یہ روح فرسا خبر ملی کہ صبح ڈیوٹی پہ جاتے ہوئے دل کا دورہ پڑا اور چوالیس برس کی عمر میں حدودِ وقت سے آگے نکل گئے۔ میرے مولا، یہ کیا ہوا؟ کوئی نہ پوچھے کہ ہمارے لئے یہ کتنا عجیب و غریب، کسِ قدر غمناک اور کیسا ناقابلِ یقین واقعہ تھا۔ تب تک صبا کے بہنوئی اور ہمارے بہت پیارے مشترکہ دوست سید حسن ناصر ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کی غرض سے ریڈیو پاکستان راولپنڈی کے لئے نکل چکے تھے۔ وہاں فون کیا گیا۔ ناصر کو بستی کاریگر (موجودہ لالہ رخ) سے موٹر سائیکل پہ لینا میری ذمہ داری تھی۔ ناصر، جو پاکستان آرڈنینس فیکٹری میں ورکس مینجر تھے، میرے سامنے بس سے اترے اور شدید صدمہ کی حالت میں ایک دھماکے کے ساتھ سڑک پہ گر پڑے۔ کچھ نہ پوچھئے کہ انہیں صبا کے گھر تک کیسے پہنچایا ہے۔
سہ پہر کو نمازِ جنازہ کے لئے ایک ہجوم امڈ آیا۔ ذاتی عزیز اور دوست، شاعر، ادیب، ہر عمر اور طبقہ کے چاہنے والے، طرح طرح کے لوگ۔ صف بندی ہو رہی تھی کہ ہمارے ہی جاننے والے ایک نعت خواں نے بلند آواز سے کہا ”ہم اِس مولوی کے پیچھے نماز نہیں پڑھیں گے“۔ اُن کا اشارہ مسلکی اختلاف کی طرف تھا، جس کا حاضرین میں سے شائد ہی کسی کے دل و دماغ میں کوئی شائبہ ہو۔ چنانچہ چند لمحے یہ اعتراض ہماری سمجھ میں نہ آیا۔ پھر بھی قیصر عابدی نے، جو منفرد شاعر ظفر ابن متین کے داماد تھے، بہت شائستگی سے کہا ”سنی بھائی اپنا امام لے آئیں، ہم اُن کے پیچھے نماز پڑھ لیں گے“۔ مَیں ابھی نوعمر تھا، لیکن یہ مشورہ دئے بغیر نہ رہ سکا کہ دونوں مولوی صاحبان یکے بعد دیگرے امامت کرا لیں اور ہر کوئی اپنی مرضی کے امام کے پیچھے نماز ادا کر لے۔
——
یہ بھی پڑھیں : خاور رضوی کا یومِ وفات
——
الحمد للہ ایسا ہی ہوا۔ اِسے سبطِ علی صبا کی وسیع المشرب شخصیت، حریتِ فکر اور انسان دوست شاعری کا اعجاز سمجھنا چاہئے۔ آج بھی اِس واقعہ کے عینی شاہدین زندہ ہیں جو تصدیق کریں گے کہ صبا کے تمام قریبی دوستوں، مقامی شعرائے کرام، واہ کے محنت کشوں اور کئی ایک افسروں نے، جو غم سے نڈھال تھے، کسی قسم کی تنگ نظری کے بغیر، برضا و رغبت دونوں اماموں کے پیچھے نماز ادا کی تھی۔ تو کیا دنیا سے ناوقت اُٹھ جانے والے کی بڑائی اسی میں ہے کہ اُس کے اعزاز میں آگے پیچھے دو جماعتیں ہوئیں؟ یہ صبا مرحوم کی عوامی قبولیت کا محض ایک پہلو ہے۔ ذاتی بات کروں تو میرا کھاریاں اور پھر لاہور تک کا سفر بیچ میں رہ گیا تھا۔ بس، سبط علی صبا کی وہ غزل، جو انہوں نے میرے گھر کے نجی مشاعرے میں سنائی تھی، کئی دنوں تک حواس پہ چھائی رہی۔ ملاحظہ کریں:
——
ہر صبح پرندوں نے یہ سوچ کے پر کھولے
اِن آہنی پنجروں کے شائد کوئی در کھولے
زردار کے کمرے کی دیوار کے سائے میں
بیٹھے ہیں زمیں زادے کشکولِ نظر کھولے
ذہنوں پہ تعصب کے عفریت کا سایہ ہے
اولاد پہ بھی ہم نے اپنے نہ ہنر کھولے
ہم سہل پسندوں نے آنکھیں ہی نہیں کھولیں
دھرتی تو ازل سے ہے گنجینہء زر کھولے
ساون میری آنکھوں سے خوں بن کے برستا ہے
جب کوئی زمیں زادی دربار میں سر کھولے
——
اگر حافظہ غلطی نہیں کر رہا تو سبط علی نے یہ غزل ہمارے کچنار روڈ والے گھر کے نجی مشاعرے میں سنائی تھی، جس کی نظامت علی مطہر اشعر نے کی۔ شعری نشست کی تجویز میرے گورڈن کالج کے پرانے ہم جماعت زمان ملک کی تھی۔ باہمی مشورے سے ہم دونوں نے واہ کے علاوہ راولپنڈی سے اُن شعرا کو بھی شرکت کی دعوت دے دی جنہیں ہم اپنے اساتذہ سمجھتے ہیں۔ زمان نے ساری کارروائی کی صوتی ریکارڈنگ کا اہتمام بھی کیا، جو اُن کے پاس آج بھی محفوظ ہے۔ یادوں کے اِس البم میں ڈاکٹر ظہیر فتح پوری، پروفیسر سجاد شیخ، سبط علی صبا، ظفر ابن متین، حسن ناصر، نظیر اختر اور سجاد بابر کی تصویریں اب باقی نہیں رہیں۔ بس سجاد شیخ کی ’نوراں کیوں نئیں آئی‘ اور ظہیر فتح پوری کی اُس گیت نما غزل کی گونج رہ گئی ہے جس کا آہنگ یوں لگتا ہے کہ صبا کے جانے کا اشارہ دے رہا تھا:
ہم اونچی کانٹوں بھری جھا ڑیوں میں ایسے مقام پر آ گئے کہ ہر قدم پر سخت اور لمبے کا نٹے بازووں، ٹا نگوں اور جسم میں پیوست ہو نے لگے
——
جگ میلہ، جیون نو ٹنکی، سُکھ جھولا
سب دھوکا ہے لیکن جو ہمیں جینا ہو
لمحے کشکول لئے گزرے جاتے ہیں
اِک سکہ ء غم، اے زیست کہ جی ہلکا ہو
——
کم لوگوں کو یاد ہوگا کہ سیالکوٹ کے قصبہ کوٹلی لوہاراں میں پیدا ہونے والے سبط علی صبا نے اولین ملازمت پاک فوج میں کی اور 1965 میں ٹینک سے ٹینک ٹکرانے کی کارروائی میں بھرپور کردار ادا کیا۔ واہ کا یہ نجی مشاعرہ اِس لئے بھی یاد گار بن گیا کہ محفل ختم ہونے پہ ہمارے عہد کے جید نظم گو شاعر پروفیسر آفتاب اقبال شمیم نے جنگ کے دنوں کا ایک منفرد واقعہ سنایا جس کا مرکزی کردا ر سبطِ علی صبا ہیں۔ کہنے لگے ”مَیں کلاس میں پڑھا رہا تھا۔ ایک لڑکے نے آ کر بتایا کہ کوئی آپ سے ملنے آیا ہے اور اُس کا کہنا ہے کہ بہت ضروری کام ہے۔ مَیں کلاس سے نکلا۔ دیکھا کہ کالج گیٹ کے اندر ایک فوجی ٹینک کھڑا ہے، ساتھ ہی مکمل جنگی لباس میں ایک باوردی جوان۔ غور کیا تو سبطِ علی صبا۔ آواز آئی ’ہماری رجمنٹ یہاں سے گزر رہی تھی، سوچا اپنے یار کو ملتے جائیں‘۔“ گورڈن کالج کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہو گا کہ ’بیٹل ڈریس‘ میں ملبوس کوئی فوجی جوان اپنے دوست کو ملنے کے لئے ٹینک پر سوار ہو کر آیا ہو۔
——
یہ بھی پڑھیں : سبط علی صبا کا یومِ پیدائش
——
سبط علی صبا کے حوالے سے اب بہت سی باتیں نئے سرے سے ذہن میں ابھر رہی ہیں۔ فوجی جیون کے پس منظر میں کہے گئے اشعار۔ پھر یہی کہ مَیں نے اُنہیں پہلی بار کب دیکھا، ہماری نوعمری میں کس کس موقع پہ انہوں نے حوصلہ افزائی کی، ترقی پسند تنظیم فانوسِ ادب اور تعمیر پسند بزمِ فروغ ِ سخن کے درمیان کیا کیا معرکے ہوئے اور صبا کے ’دیوار کیا گری‘ والے شعر میں سجاد بابر کے مشورے پر ’کچے مکان‘ کو ’خستہ مکان‘ میں کیسے بدلا گیا؟ یہ کہانیاں اور صبا کے ہم عصروں میں سے حلیم قریشی، جلیل عالی، بشیر آذر، الیاس صدا، جاوید خان اور واہ کی انٹرنیشنل ٹیکنیکل اکیڈمی والے پرویز الطاف شاہ کے قصے ایک دلپذیر موضوع ہیں۔ فی الوقت تو ’یارِ بے پرواہ‘ کے نام سے سبط علی صبا پہ آفتاب اقبال شمیم کی نظم سنئے، جو ہمارے نجی مشاعرے کے چند ہی دن بعد ایک بار پھر پیکنگ یونیورسٹی چلے گئے اور وہاں سے پلٹے تو اُن کا دوست دنیا میں نہیں تھا:
——
مجھے ملنے نہیں آیا
عظیم الشان سناٹے کی اِس اقلیم میں
شائد مجھے تنہا، بہت تنہا حسن ابدال تک جانا پڑے گا
ایک متحرک خلا کے ساتھ
اک بے انت دُوری کے سفر پر
کیوں نہیں آیا
ہمیشہ کا وہ سیلانی
ذرا اُس کو صدا دو
وہ یہیں اُس کو صدا دو
اُن خوشبووں کی اوٹ میں شائد چھپا ہو
کیا خبر وہ یارِ بے پرواہ کسی چاہت کے کنجِ خواب میں
دبکا ہوا ہو
ہاں صدا دو نا!
مَیں نہیں روؤں گا
مَیں بالکل نہیں روؤں گا
کیسے مان لوں وہ میرے آنے پر مجھے ملنے نہ آئے
وہ یہیں ہوگا، یہیں ہوگا
مجھے کل تم اِسی رستے پہ اُس کے ساتھ دیکھو گے
——
احمد ندیم قاسمی کا تبصرہ ، بحوالہ طشتِ مراد
——
میں نے ایسے انسان بہت کم دیکھے ہیں جن میں صباؔ کی سی جارحیت اور ملائمت بیک وقت جمع ہوں ۔
اس سختی اور نرمی کا متوازن امتزاج اس کی غزلوں میں بھی کارفرما ہے ۔
کہیں اس کے ہاں جوشؔ کی سی گھن گرج ہے تو کہیں میرؔ کی سی دردمندی ۔
موت نے اردو شاعری سے یہ جوہرِ قابل اس وقت چھین لیا جب اس کی شناخت ہونے لگی تھی ۔ اور فن کے مستقبل نے اس کے لیے بانہیں پھیلا دی تھیں ۔
اتنا بیداد ، خود نگر ، باشعور اور انتہا درجے کا حساس شاعر اگر چند برس اور زندہ رہ جاتا تو اردو غزل کچھ زیادہ پر مایہ اور باثروت ہو جاتی ۔
اس کے باوجود آئندہ صدیوں تک اس کے بے لاگ کھرے اور سچے فن کا نقش نہیں مٹے گا ۔
——
ڈاکٹر وحید قریشی کا تبصرہ ، بحوالہ طشتِ مراد
——
سبطِ علی صبا کا تعلق 60ء کے بعد آنے والی اس نسل سے ہے جس نے شعری روایت کو اک احساسِ تازہ سے روشناس کروایا ہے ۔
نئے تجربوں اور نئے ذائقوں کو خوش آمدید کہنے والے ان شاعروں میں سبطِ علی صبا اس لحاظ سے بھی مختلف ہے کہ اس نے وارداتِ قلب و نظر کو شعر کرنے کے لیے لفظی بازی گری کا سہارا نہیں لیا ۔
روایت سے مضبوط رشتہ قائم کرتے ہوئے نئی شعری فرہنگ مرتب کر کے نئے اسلوب میں شعر کہا ۔
——
منتخب کلام
——
دنیائے بے ثبات کے دانش کدوں سے کیا
حل مسئلوں کا پوچھ رسالت مأب سے
——
جو وقت کی سُولی پر حق بات سدا بولے
اس شخص کے لہجے میں کیونکر نہ خدا بولے
——
تنکے ہوا کے دوش پہ اتنے ہوئے بلند
جیسے کہ پستیوں سے کبھی آشنا نہ تھے
——
تم اپنے پاؤں پر چلنے کی آرزو تو کر لو
تمہیں وہ منزلِ مقصود کی خبر دے گا
——
کُھل گیا بھید کہ یہ رشتۂ خوں کچھ بھی نہیں
تو نے بازار میں جب لختِ جگر بیچ دیا
——
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
——
لبوں پر پھول کھلیں اور زبان سب کو ملے
وہ گھر بناؤں کہ جس میں امان سب کو ملے
——
لفظوں میں ڈھال ڈھال کے میں حادثات کو
ترتیب دے رہا ہوں کتابِ حیات کو
گر تم مرے شریکِ سفر ہو تو ساتھ دو
آؤ گلے لگائیں غمِ کائنات کو
——
ملبوس جب ہوا نے بدن سے چرا لیے
دوشیزگانِ صبح نے چہرے چھپا لیے
ہم نے تو اپنے جسم پہ زخموں کے آئینے
ہر حادثے کی یاد سمجھ کر سجا لیے
میزانِ عدل تیرا جھکاؤ ہے جس طرف
اس سمت سے دلوں نے بڑے زخم کھا لیے
دیوار کیا گری مرے خستہ مکان کی
لوگوں نے میرے صحن میں رستے بنا لیے
لوگوں کی چادروں پہ بناتی رہی وہ پھول
پیوند اس نے اپنی قبا میں سجا لیے
ہر حُرملہ کے دوش پہ ترکش کو دیکھ کر
ماؤں نے اپنی گود میں بچّے چھپا لیے
———-
ہر اک قدم پہ زخم نۓ کھاۓ کس طرح
رندوں کی انجمن میں کوئی جاۓ کس طرح
صحرا کی وسعتوں میں رہا عمر بھر جو گم
صحرا کی وحشتوں سے وہ گھبراۓ کس طرح
جس نے بھی تجھ کو چاہا دیا اس کو تو نے غم
دنیا ترے فریب کوئی کھاۓ کس طرح
زنداں پہ تیرگی کے ہیں پہرے لگے ہوۓ
پر ہول خواب گاہ میں نیند آۓ کس طرح
زنجیر پا کٹی تو جوانی گزر گئی
ہونٹوں پہ تیرا نام صباؔ لاۓ کس طرح
———-
مسافروں میں ابھی تلخیاں پرانی ہیں
سفر نیا ہے مگر کشتیاں پرانی ہیں
یہ کہہ کے اس نے شجر کو تنے سے کاٹ دیا
کہ اس درخت میں کچھ ٹہنیاں پرانی ہیں
ہم اس لیے بھی نۓ ہم سفر تلاش کریں
ہمارے ہاتھ میں بیساکھیاں پرانی ہیں
عجیب سوچ ہے اس شہر کے مکینوں کی
مکاں نۓ ہیں مگر کھڑکیاں پرانی ہیں
پلٹ کے گاؤں میں میں اس لیے نہیں آیا
مرے بدن پہ ابھی دھجیاں پرانی ہیں
سفر پسند طبیعت کو خوف صحرا کیا
صباؔ ہوا کی وہی سیٹیاں پرانی ہیں
۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پڑھیں : دیوار بھی اچھی لگے ، در اچھا لگے ہے
۔۔۔۔۔۔
زرد چہروں سے نکلتی روشنی اچھی نہیں
شہر کی گلیوں میں اب آوارگی اچھی نہیں
زندہ رہنا ہے تو ہر پہروپیۓ کے ساتھ چل
مکر کی تیرہ فضا میں سادگی اچھی نہیں
کس نے اذن قتل دے کر سادگی سے کہہ دیا
آدمی کی آدمی سے دشمنی اچھی نہیں
جب مرے بچے مرے وارث ہیں ان کے جسم میں
سوچتا ہوں حدت خوں کی کمی اچھی نہیں
گوش بر آواز ہیں کمرے کی دیواریں صباؔ
تخلیۓ میں خود سے اچھی بات بھی اچھی نہیں
———-
جلتے جلتے بجھ گئی اک موم بتی رات کو
مر گئی فاقہ زدہ معصوم بچی رات کو
آندھیوں سے کیا بچاتی پھول کو کانٹوں کی باڑ
صحن میں بکھری ہوئی تھی پتی پتی رات کو
کتنا بوسیدہ دریدہ پیرہن ہے زیب تن
وہ جو چرخہ کاٹتی رہتی ہے لڑکی رات کو
صحن میں اک شور سا ہر آنکھ ہے حیرت زدہ
چوڑیاں سب توڑ دیں دلہن نے پہلی رات کو
جب چلی ٹھنڈی ہوا بچہ ٹھٹھر کر رہ گیا
ماں نے اپنے لال کی تختی جلا دی رات کو
وقت تو ہر ایک در پر دستکیں دیتا رہا
ایک ساعت کے لیے جاگی نہ بستی رات کو
مرغزار شاعری میں گم رہا سبطؔ علی
سو گئی رہ دیکھتے بیمار بیوی رات کو