صحرا میں برگ و شجر ، سبزہ اُگانے والے
تیرے محتاج ہیں یہ سارے زمانے والے
کشتیِ اُمتِ سرکار ، بھنور میں آئی
پار اِس کو بھی لگا دے اے تِرانے والے
تیری ہر شے میں ہے اک حُسن نمایاں مولا !
تُو ہی قادر ہے ، دو عالم کو بسانے والے
تیرے جلوؤں سے منور ہوئی دنیا ساری
میرے دل کو بھی سجا دے اے سجانے والے
ہیں وہ فرعون بھی نمرود بھی عبرت کا نشاں
مِٹ گئے خود ہی جو تھے حق کو مِٹانے والے
رب کے احکام سے ہم کیوں ہیں گریزاں آخر
رزق اُسی کا تو یہاں کھاتے ہیں کھانے والے
اب بھی کچھ وقت ہے مولا کی عبادت کرلو !
لوٹ کر آئے ہیں واپس ، کبھی جانے والے
توہی شہ رگ سے بھی نزدیک مرے رہتا ہے
لاج رکھ لینا مری ، دل میں سمانے والے
حمد لکھنا ترے طاہرؔ کو بھی آئی یا رب
شکریہ تیرا ہے اے حمد سکھانے والے