آج معروف شاعر، نقاد اور محقق ڈاکٹر صفدر حسین زیدی کا یوم پیدائش ہے
——
ڈاکٹر صفدر حسین زیدی 12 مئی، 1919ء کو تحصیل جنستھ، مظفرنگر ضلع، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
وہ محکمہ تعلیم میں اہم مناصب پر فائز رہے تاہم ان کی اصل شناخت ان کی تحریریں ہیں۔
وہ اردو کے قادر الکلام شاعر، محقق، نقاد اور مؤرخ تھے۔ ان کا لکھنؤ کی تاریخ، تہذیب و ادب پر تحقیقی کام انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
ان کی اہم کتب میں تاریخ پر لکھنؤ کی تہذیبی میراث، تاریخ سادات بارہہ اور سید التاریخ، شاعری میں جلوۂ تہذیب، نگار غزل، رقص طاؤس، چراغ دیر و حرم اور آدابِ جنوں سرِ فہرست شامل ہیں۔
تصانیف:
لکھنؤ کی تہذیبی میراث (تاریخ)
تاریخ سادات بارہہ (تاریخ)
سید التاریخ (تاریخ)
جلوۂ تہذیب (شاعری)
نگار غزل (شاعری)
رقص طاؤس (شاعری)
مرقع جمال (شاعری)
آدابِ جنوں (شاعری)
چراغ دیر و حرم (شاعری)
رقص خیال (شاعری)
رقص کواکب (شاعری)
لبِ فرات (شاعری)
زندگی اور ادب (شاہان اودھ کے عہد میں)
کارنامہ انیس (تنقید)
رزم نگاران کربلا
آئینِ وفا
نقشِ بیان
چراغِ مصطفوی
رنگِ شہادت
——
یہ بھی پڑھیں : وہ روشنی ہے علیؓ کی گھر میں فلک سے جو نور بہہ رہا ہے
——
1999ء میں پروفیسر زریں حبیب ڈاکٹر صفدر حسین زیدی کی مرثیہ نگاری اور تحقیقی نظر کا مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ڈاکٹر صفدر حسین 15 جنوری، 1980ء کو شیخوپورہ، پاکستان میں مجلس عزا کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے وفات پا گئے۔ وہ لاہور میں ساندہ کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں
——
احمد ندیم قاسمی از نگار غزل
——
سید صفدر حسین زیدی نے یقیناََ اس قسم کے اشعار بھی کہے ہیں جنہیں گزشتہ ڈیڑھ دو صدی کے غزل شعراء میں کوئی بھی کہہ سکتا تھا ۔ مثال کے طور پہ :
——
انگڑائی لی تھی آئینے پر جا پڑی نظر
تصویر بن کے رہ گئے ، انداز دیکھنا
——
مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان کا اصل جوہر اُن اشعار میں کھلا ہے جن میں وہ زندگی کے مسائل کو اپنا موضوع بناتے ہیں یا انسانی ارتقاء کو اپنی حکیمانہ گرفت میں لیتے ہیں یا مروجہ نظامِ معاشرت اور اقدارِ تہذیب پہ طنز کرتے ہیں ۔
یہ ایک عجیب بات ہے کہ صفدر صاحب کلاسیکی غزل کی زبان ، الفاظ ، لہجے اور تراکیب کے خلاف کوئی بغاوت کیے بغیر ان جدید مسائل سے بہت کامیابی سے نمٹے ہیں ۔
یوں انہوں نے جدید فکر و احساس کے لیے زبان کی جدید تشکیلات کا روگ ہی نہیں پالا اور یوں نئی زبان گھڑنے کے ڈھکوسلے پر کاری وار کیا ہے ۔
زبانیں گھڑی نہیں جاتیں بلکہ نئی فکر اپنے ساتھ زبان کے نئے تیور خود بخود لے آتی ہے ۔
یوں لسانیات کی کوئی فیکٹری قائم کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی ۔ زبانیں بے ساختگی کے ساتھ بدلتی ، پھیلتی اور بڑھتی ہیں ۔ دیکھ لیجیے کہ سیدصفدر حسین زیدی نے انسانی ارتقاء کی تصویر کشی کے لیے جو الفاظ منتخب کیے ہیں وہ بالکل سامنے کے الفاظ ہیں ۔ مگر ان اشعار کے تاثر میں تازگی بھی ہے اور ہمہ گیری بھی ۔ مثال کے طور پہ :
——
جب بڑھا سوئے فلک فکر و نظر کا قافلہ
کوکب و انجم غبارِ راہ گردانے گئے
——
اُٹھ گیا انساں کے دل سے بندہ و آقا کا فرق
آدمی کو آدمی کا احترام آ ہی گیا
——
کر کے ہمت جو بڑھا ہوں تو ہوا ہے محسوس
میری امداد کو ہر سمت خدا ہو جیسے
——
در آیا دل میں مرے ایک اجنبی سایہ
فضائے ماہ میں جا پہنچے آدمی جیسے
——
ان اشعار میں کسی غیر ملکی اصطلاح کا ترجمہ موجود نہیں ہے ۔ کہیں بھی یہ شبہہ نہیں ہوتا کہ شاعر کو نیا خیال پیش کرنے کے لیے نئے الفاظ کے نئے مفاہیم کی شعوری تشکیل کی مصیبت مول لینا پڑی ہو ۔ بے ساختگی ہر صنفِ شاعری کی اور خاص طور پہ غزل کی جان ہے ۔ اور اتنی بے ساختگی کے ساتھ طویل نظموں کے موضوعات پر غزل کا محض ایک شعر کہہ دینا صفدرؔ صاحب کی پختگیٔ اظہار اور سلامتیِ فکر کا نتیجہ ہے ۔
انسان عمر بھر زندگی کے گوناگوں مسائل سے دوچار رہتا ہے ۔ اگر شاعر کے یہاں یہ مستقل انسانی جدوجہد بار نہ پا سکے تو اس کی فکر نامکمل اور اُس کا اظہار ناپختہ رہتا ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : مے کفر کی در جامِ اسلام نہیں لوں گا
——
سید صفدر حسین زیدی نے اس ضمن میں بھی اپنی اسی بے ساختگی اور سلاستِ اظہار کا ثبوت دیا ہے ۔ یہ وہ موضوع ہے جس میں شعراء کو بڑے پیچ ڈالنے پڑتے ہیں مگر صفدرؔ صاحب کا بے تکلفانہ اور مؤثر انداز دیکھیے :
——
بدلتی جاتی ہے اب قہقہوں میں میری فغاں
سمجھ میں آ گیا مفہومِ زندگی جیسے
——
محفلیں عہدِ گذشتہ کی ہوئیں خواب و خیال
کھو گئے اپنے غموں میں رفقاء میرے بعد
——
آسماں ناپے گئے اور بحر و بر چھانے گئے
پر نہ تیور زندگی کے ہم سے پہچانے گئے
——
طنز سید صفدر حسین زیدی کا خاص ہتھیار ہے ۔ طنز کے استعمال میں اگر احتیاط نہ برتی جائے تو صاحبِ طنز ہی اس ہتھیار سے زخمی ہو جاتا ہے ۔
مگر صفدر صاحب کا طنز مہذب اور بھر پور ہے ۔ ساتھ ہی ان کے طنز سے کسی دوسرے کا دل نہیں دکھتا ۔
ملاحظہ کیجیے :
——
ہجومِ شوق میں تعمیلِ فرض کا احساس
گُھس آئے محفلِ رنداں میں مولوی جیسے
——
ہر طرف دانش و دیں کی دکانیں ہیں صفدرؔ
چار سُو معرکۂ سود و زیاں ہے کہ جو تھا
——
ہو چکے اہلِ یقیں وادیٔ اوہام میں گُم
اہلِ شک منزلِ الہام تک آ پہنچے ہیں
——
پڑی ہے جب بھی نظر چاکِ جیب و داماں پر
خود اپنے حال پہ ہم مسکرائے ہیں کیا کیا
——
اس بظاہر سادہ مگر بباطن پُرکار اندازِ سخن کا حصول بڑی ریاضت اور استقامت چاہتا ہے اور اس وقت اس معاملے میں سید صفدر حسین یکتا حیثیت کے مالک ہیں ۔
——
احمد ندیم قاسمی : 20 اکتوبر 1972 لاہور
——
منتخب کلام
——
دِن کو دنیا کے بکھیڑے ، رات کو اُن کا خیال
صبح کا بھٹکا مسافر وقتِ شام آ ہی گیا
——
کعبے کی راہ ہو کہ کلیسا کی راہ ہو
جو پاؤں اُٹھ گیا ، تری رہ گذر میں ہے
——
ہونے لگی ہے ہوش میں دیوانگی شریک
کچھ فیض مل گیا ہے تیری نگاہ سے
——
جوانی وہ حسیں شے ہے کہ جا کر پھر نہیں آتی
یہ وہ دلکش کہانی ہے جو دُہرائی نہیں جاتی
تصور مُنفعل ہے اور بصیرت سر بہ زانو ہے
تری تصویر میں تیری ادا پائی نہیں جاتی
——
جیسے کہ ہم خفا ہیں ، منانے وہ آئے ہیں
سو بار اس خیال سے بہلے ہیں خواب میں
——
اک چیز ہے جو کھینچ رہی ہے نگاہ کو
کچھ بات ہے جو اُن کا ہوا جا رہا ہوں میں
——
تم سے کیا اس بات کا شکوہ کہ تم میرے نہیں
کیا کہوں اُس کو مجھے جس نے تمہارا کر دیا
——
مرے سجدوں کی منزل ہے حدودِ راہ سے آگے
کسی نقشِ قدم تک میری پیشانی نہیں جاتی
خدا کی شان ہے دعویٰ انہیں منزل شناسی کا
مری گردِ قدم تک جن سے پہچانی نہیں جاتی
——
تلون حسن کی فطرت ، تڑپنا عشق کی قسمت
مسلسل ایک حالت ہو تو غم کیسا ، خوشی کیسی
——
ذرہ بھی ناز کرتا ہے اپنے وجود پر
مُٹھی میں ہے وہ چیز کہ صحرا کہیں جسے
——
یہ بھی پڑھیں : امکانِ اوجِ فکر سے اعلیٰ کہوں تجھے
——
اے ماہ جبیں شکل دکھانے کے لیے آ
بے نور ہے دل شمع جلانے کے لیے آ
ماضی کے چراغوں کو جلانے کے لیے آ
سینے میں وہی آگ لگانے کے لیے آ
لے جا مری ترسی ہوئی آنکھوں کی دعائیں
مایوس نہ کر آس بندھانے کے لیے آ
بکھرائے ہوئے دوش پہ نکھری ہوئی زلفیں
بگڑی ہوئی تقدیر بنانے کے لیے آ
ہر موجِ نفس کو مری اے لعلِ نگاریں
افسانہ در افسانہ بنانے کے لیے آ
مچلی تھیں کبھی جس سے جوانی کی ترنگیں
پائل کی وہ جھنکار سنانے کے لیے آ
اے تجھ پہ فدا زمزمۂ صبحِ بہاراں
اِک روز تو بالیں پہ ، جگانے کے لیے آ
وہ چاند وہ سبزہ ، وہ ترے قُرب کے لمحے
سب خواب تھے یہ یاد دلانے کے لیے آ
چھپ چھپ کے یہ آنا بھی ترا حسنِ کرم ہے
ممکن ہو تو اک روز نہ جانے کے لیے آ
مُدت سے ہوائیں بھی تری مجھ سے خفا ہیں
آہٹ ہی کبھی اپنی سنانے کے لیے آ
نگار غزل صفحہ نمبر 17-18
——
داستاں دل کی ذرا دل کو جگا لوں تو کہوں
اپنے ماضی کو قریب اپنے بلا لوں تو کہوں
وسعتِ ارض و سما کتنی کشادہ کر دی
اُن کی انگڑائی کی تصویر بنا لوں تو کہوں
دشتِ ہستی کا سفر کتنا کٹھن تھا اے دوست
سانس لے لوں تو کہوں ، ہوش میں آ لوں تو کہوں
دیر پا کتنا ہے اُس آفتِ جاں کا غصہ
سامنے جا کے ذرا آنکھ ملا لوں تو کہوں
کس طرح کہہ دوں کہ پتھر بھی پگھلتا ہے کبھی
اُن کی پلکوں پہ آنسو کوئی پا لوں تو کہوں
کتنے توڑے ہیں صنم ، کتنے تراشے ہیں خدا
اپنا بُت خانۂ افکار سجا لوں تو کہوں
کس طرح دل کو ملا چشمۂ حیواں سرِ راہ
اِس کی روداد ذرا پیاس بجھا لوں تو کہوں
عَرق آتا ہے جبیں پر کہ ستم بڑھتا ہے
اُن کو پیمانِ وفا یاد دلا لوں تو کہوں
یہ تپش زارِ محبت کا فسانہ صفدرؔ
شمعِ احساس ذرا دل میں جلا لوں تو کہوں
نگار غزل صفحہ نمبر 21-22
——
پھر آج اُن کی نامِ خدا یاد آ گئی
مجبور دل کی سعیِ وفا یاد آ گئی
یاد آ گیا وہ میرے لیے اُن کا اضطراب
بکھری ہوئی وہ زلفِ رسا یاد آ گئی
پلکوں آنسوؤں کے گُہر یاد آ گئے
سہمی ہوئی لبوں پہ دُعا یاد آ گئی
خونِ جگر ٹپکنے لگا پھر قلم سے آج
پھر اُن ہتھیلیوں کی حنا یاد آ گئی
جنگل میں دو دلوں کی وہ سرگوشیاں بہم
برگد پہ فاختہ کی صدا یاد آ گئی
پھر ہم نے ساری رات نہ تکیے پہ سر رکھا
پھر اُن کے گیسووں کی ہوا یاد آ گئی
غنچوں سے پُھوٹتی ہوئی خوشبو جو دیکھ لی
شاعر کو گُلرخوں کی حیا یاد آ گئی
مدت کے بعد شہر سے وارفتگانِ شوق
گُزرے تو دلبروں کو جفا یاد آ گئی
رکھا کسی نے دستِ حنائی جو دوش پر
صفدرؔ کو اپنی لغزشِ پا یاد آ گئی
نگار غزل صفحہ نمبر 23-24
——
ہر لحظہ تماشائے دِگر دیکھ رہے ہیں
بنتے ہوئے قطروں کو گُہر دیکھ رہے ہیں
اب گردِ کفِ پا ہیں دیارِ مہہ و انجم
قُدسی مری پروازِ نظر دیکھ رہے ہیں
رُخ چُھوٹے ہوئے مسکنِ آدم کی طرف ہے
افلاک نشیں عزمِ بشر دیکھ رہے ہیں
اے نبضِ دوعالم تری رفتار میں صفدرؔ
آج اپنے ترانوں کا اثر دیکھ رہے ہیں
نگار غزل صفحہ نمبر 37
——
جُھک گئی گردن وفا کی وہ مقام آ ہی گیا
عقل منہ تکتی رہی اور عشق کام آ ہی گیا
ہلکی ہلکی مسکراہٹ کی حسیں لہروں کے ساتھ
آج اُن نازک لبوں پر میرا نام آ ہی گیا
گوشہ گوشہ بن گیا اک محشرستانِ ظہور
دل کے آئینے میں وہ ماہِ تمام آ ہی گیا
اُٹھ گیا انساں کے دل سے بندہ و آقا کا فرق
آدمی کو آدمی کا احترام آ ہی گیا
دِن کو دنیا کے بکھیڑے ، رات کو اُن کا خیال
صبح کا بھٹکا مسافر وقتِ شام آ ہی گیا
وہ رہے بے زار ہم کیوں نازِ بے جا کھینچتے
دل کی خود داری میں رنگِ انتقام آ ہی گیا
تھے کہیں تسبیح کے پھندے ، کہیں زلفوں کے جال
طائرِ آزاد صفدرؔ زیرِ دام آ ہی گیا
نگار غزل صفحہ نمبر 47-48