اردوئے معلیٰ

آج معروف مرثیہ گو شاعر عظیم امروہوی کا یومِ وفات ہے

 ڈاکٹر عظیم امروہوی(پیدائش: 29 اپریل ، 1945ء- وفات: 10 اکتوبر، 2020ء)
——
مختصر سوانح
——
نام : سید عظیم حیدر نقوی
شہرت : ڈاکٹر عظیم امروہوی
عرفیت : چھمن
عظمت : چالیسیوں پُشت ، سرکارِ رسالت حضرت محمد مصطفیٰ
ولدیت : سید نور الحسن ابنِ معجز حسن راقمؔ
ولادت : 16 جمادی الاول 1364 ھ ، مطابق 29 اپریل 1945 ء
شہرت : مرثیہ نگار
تربیت : حضرت نسیم امروہوی ، حضرت مولانا محمد عبادت کلیم ، حضرت فضل نقوی
شخصیت : شاعر ، ادیب ، دانشور ، محقق ، مورخ
لیاقت : ایم اے ، پی ایچ ڈی اردو
زوجیت : شمیم فاطمہ بنت سید اکرام حسین
ذُریت : محمد مہران ، محمد افنان ، زعیم فاطمہ
ملازمت : مینیجر فوڈ کارپوریشن آف انڈیا 1968 ء سے 2005 ء
سیاحت : متحدہ عرب امارات ، شام ، عراق ، پاکستان
رحلت : 22 صفر المظفر 1442 ھ ، مطابق 10 اکتوبر 2020
تربت : احاطہ مسجد ابدال محمد ، دربارِ شاہ ولایت ، امروہہ
تخیلقات : نثر و نظم میں 50 مطبوعہ کتب
سکونت : محلہ دربارِ شاہ ولایت ، امروہہ
——
سوانح عظیم امروہوی کی کتاب غمِ عظیم کے صفحہ نمبر 3 اور 4 سے لی گئی
پیشکش : اردوئے معلیٰ انتظامیہ
——
عظیم قلمکار ڈاکٹر عظیم امروہوی
تحریر: جمال عباس فہمی،چیف ایڈیٹر قومی خبریں
——
عظیم امروہوی ایک مرثیہ گو، نعت گو، منقبت گو، قطعہ گو، رباعی گو نظم گواورقصیدہ گو شاعر ہیں۔ ان کا میدان عمل محض شاعری تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے تحقیقی کارنامے بھی انجام دیئے۔
کسی ادیب شاعر اور مصنف کی ادبی عظمت اور قدر و منزلت کا اندازہ لگانے کے کم از کم دو پیمانے تو ادبی دنیا مں رائج ہیں ہی۔ اولاً اس ادیب شاعر اور مصنف کے چھوڑے ہوئے ادبی سرمایہ کا معیار اور دوسرا مشاہیر، ادیبوں و شاعروں اور ادب کے ناقدین کی اس کے بارے میں رائے۔ ان دونوں پیمانوں پر جب عظیم امروہوی کی شخصیت، ان کی ادبی خدمات اور تخلیقی صلاحیتوں و کاوشوں کو پرکھا جاتا ہے تو عظیم امروہوی واقعی اسم با مسمیٰ نظر آتے ہیں۔
جس شاعر نے درجنوں مراثی، ہزاروں قصائد، سلام، منقبتیں، نوحے، قطعات، رباعیات، دوہے، ہائکو اور نظمیں نظم کی ہوں۔ جس شخص نے تحقیق اور تدوین کرکے نثر میں درجنوں کتابوں کو پیرایہ تخلیق بخشا ہو۔ جس فرد نے درجنوں کتابیں مختلف موضوعات پر مرتب کردی ہوں اس کی ادبی صلاحیتوں اور قلمی سرگرمی کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔
آئیے ادب کے ان پیمانوں پر عظیم امروہوی کی قلمی خدمات کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ عظیم امروہوی ایک مرثیہ گو، نعت گو، منقبت گو، قطعہ گو، رباعی گو نظم گواورقصیدہ گو شاعر ہیں۔ ان کا میدان عمل محض شاعری تک محدود نہیں تھا بلکہ انہوں نے تحقیقی کارنامے بھی انجام دیئے۔ فرزدق ہند شمیم امروہوی کو بحیثیت مرثیہ نگار عظیم امروہوی نے ہی تاریخ کے نہاں خانوں سے نکال کرمنظر عام پر متعارف کرایا۔ شمیم امروہوی کے غیر مطبوعہ مراثی کو شائع کیا یہی نہیں بلکہ خاندان شمیم کے مرثیہ گو شعرا تک سے رثائی ادب کی دنیا کو متعارف کرایا۔
شمیم امروہوی نے مرثیہ گو شاعر کی حیثیت سے جو عظمت پائی وہ عظیم امروہوی کی تحقیقی اور تصنیفی کاوشوں کی مرہون منت ہے۔ عظیم امروہوی نے شمیم سخن اور شمیم عطش کے عنوان سے شمیم امروہوی کے مراثی شائع کئے۔ شمیم عقیدت کے عنوان سے شمیم امروہوی کی نعتیں، منقبتیں، سلام اور نوحے منظر عام پر پیش کئے۔ نسیم امروہوی کے مراثی کو تحقیق و تدوین کے بعد منظر عام پر پیش کیا۔ تحقیق جان فشانی کے بعد عظیم امروہوی نے وطن عزیز امروہا کے مرثیہ نگاروں اور قصیدہ گویوں کی تخلیقات کو رثائی اور مدحیہ ادب کی دنیا کے سامنے پیش کیا۔
عظیم امروہوی نے ایسے ایسے شعرا کے مراثی اور قصائد منظر عام پر پیش کر دیئے کہ ان شعرا کی اولادوں تک کو ان کا علم نہیں تھا۔ ان اولادوں کو اپنے اجداد پر فخر کرنے کا سبب عظیم امروہوی نے مہیا کیا۔ عظیم امروہوی نے تحقیق کے بعد اردو صحافت میں امروہا کا حصہ کے عنوان سے بھی ایک کتاب تصنیف کی۔ جو ایک تاریخی اور دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ عظیم امروہوی کی نثری نگارشات میں دو سفر نامے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب اور ایران کے اپنے دوروں کے روحانی اور جذباتی تجربات قلم بند کئے۔ رثائی ادب میں عظیم امروہوی کی قلمی سرگرمیوں کا اندازہ ان کی تصنیف کردہ حمدوں، نعتوں مراثی، قصائد، سلاموں اور نوحوں کے مجموعات کا مطالعہ کرکے لگایا جاسکتا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : مشفق خواجہ کا یوم وفات
——
عظیم امروہوی کی قلمی کاوشیں تقریباً پچاس کتابوں کی صورت میں ادبی سرمایہ کے طور پر محفوظ ہیں۔ عظیم امروہوی کا بہت سا رثائی ادبی سرمایہ اب بھی شائع ہونا باقی ہے۔ اب ادب کے دوسرے پیمانے پر عظیم امروہوی کی رثائی ادبی خدمات کا اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ معروف شعرا، ادبا اور تنقید نگاروں نے ان کے کلام کو کس نظر سے دیکھا ہے اور عظیم امروہوی کے تعلق سے انکے تاثرات کیا ہیں۔
مہذب لکھنوی رثائی اور مدحیہ شاعری کا بہت بڑا نام ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’ حدیث غم۔ (عظیم امروہوی کا مجموعہ کلام) کو پڑھ کر دل ہاتھوں بڑھ گیا۔ بہت صاف صاف مصرعے نکالے ہیں۔ طبیعت کی روانی نے کلام میں چار چاند لگا دیئے ہیں‘‘۔
فضل لکھنوی بھی رثائی اور مدحیہ شاعری کا مستند نام ہے۔ وہ فرماتے ہیں۔’’ان کی تمام تر نظموں میں اسلوب جدید کی جھلک ہے۔ اللہ نے طبع سلیم عطا فرمائی ہے اور دماغ کو وہ صلاحتیں بخشی ہیں جن کو محسوس کرکے ھذا من فضل ربی کے سوا کچھ نہیں کہا جاسکتا‘‘۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو رہ چکے پروفیسر منظر عباس کے مطابق ’’میں پوری ذمہ داری سے کہہ سکتا ہوں کہ امروہا کی نئی نسل میں عظیم امروہوی کی شاعری ہر اعتبار سے قابل توجہ ہے۔ ان کے مراثی میں آپ کو ایک بالکل نیا انداز ملے گا۔ اس طرز جدید میں روایت سے انحراف کا پہلو غالب نظر آتا ہے‘‘۔
رئیس امروہوی۔ مفکر، شاعر، صحافی، دانشور۔ ’’جدید مرثیہ نگاروں میں قدر اول کی اہمیت عظیم امروہوی کو حاصل ہے۔ اس جواں فکر شاعر نے صنف مرثیہ میں جو اضافے کئے ہیں۔ ان کو دیکھ کر مسرت بھی ہوتی ہے اور حیرت بھی‘‘۔
جوش ملیح آبادی۔ ’’یہ بات وجہ مسرت ہے کہ ہندستان کا شاعر عظیم امروہوی فکر و نظر سے کام لے رہا ہے اور حسین ابن علی کے معرکہ حق سے درس عمل دینے پر آمادہ نظر آتا ہے‘‘۔
ڈاکٹر ہلال نقوی۔ ادیب، شاعر ناقد۔ ’’تقسیم کے بعد امروہا سے مرثیہ سے نا آشنا فضا کے جمود کو جس آواز نے توڑا ہے وہ عظیم امروہوی کی آواز ہے‘‘۔
روفیسر گوپی چند نارنگ۔ تنقید نگار اور دانشور۔ ’’عظیم امروہوی بڑی خوبیوں کے مالک ہیں۔ شاعر بھی نہایت قادر الکلام ہیں اور مختلف اصناف سخن میں داد دے کر اپنا سکہ جما چکے ہیں۔ انہوں نے جدید وضع کے مرثیے کہے ہیں۔ جن سے علوئے نفس، خود داری، ایثار و قربانی، حق گوئی، بے باکی، پا مردی، بلند ہمتی اور سرفروشی کی اعلیٰ اقدار کی ترویج کو تقویت ملتی ہے۔”
سید عاشور کاظمی۔ ادیب شاعر اور مصنف۔ ’’اگر موت و حیات پر قادر معبود نے مہلت حیات عطا کی تو جی چاہتا ہے کہ عظیم امروہوی پر ایک کتاب لکھی جائے‘‘۔
ڈاکٹر تقی عابدی کنیڈا۔ ادیب۔ ناقد، دانشور۔ ’’ڈاکٹر عظیم امروہوی رثائی ادب کے معمار، تہذیب امروہا کے پاسدار، مداح آل احمد مختار، دبستان انیس و دبیر کے طرفدار بیک وقت انیس یئے بھی ہیں اور دبیریئے بھی۔”
جون ایلیا۔ شاعر، ادیب دانشور۔ ’’امروہا کے محلہ لکڑہ کی جس گلی میں بڑے بڑے ادیبوں فقیہوں،علما نے قیام کیا۔عظیم میری اس گلی کا بائرن ہے‘‘۔
ڈاکٹر عظیم امروہوی 29 اپریل 1945 میں امروہا کے ایک علمی اور ادبی گھرانے سے تعلق رکھنے والے سید نور الحسن کے گھر پیدا ہوئے۔ عظیم امروہوی کو محض دو سال چند ماہ کی عمر میں ہی ماں کے شفیق سایہ سے محروم ہونا پڑا۔ ان کی پرورش ان کی ننیہال کے اس گھر میں ہوئی جو محلہ دربار شاہ ولایت (لکڑہ) کی اسی گلی میں واقع ہے جہاں اپنے دور کے مشاہیر ادیب، علما، فقہا، صحافی اور دانشور رہا کرتے تھے۔ عظیم امروہوی نے الگ الگ وقتوں میں فضل لکھنوی، مولانا محمد عبادت کلیم اور نسیم امروہوی جیست شعرا سے کسب فیض کیا۔ پاکستان میں مقیم نسیم امروہوی کو عظیم امروہوی اپنا کلام اصلاح کے لئے ڈاک کے ذریعے بھیجا کرتے تھے۔ اور نسیم امروہوی ڈاک کے ذریعے ہی اصلاح کرکے کلام بھیج دیا کرتے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں :
ان کے سلاموں منقبتوں اور نوحوں کا پہلا مجموعہ حدیث غم 1972 میں لکھنؤ سے شائع ہوا۔
عظیم امروہوی 1965 سے 1968 تعلیم کی غرض سے لکھنؤ میں رہے۔ 1972 میں عظیم امروہوی نے اپنے پہلے مرثیہ حسین اور زندگی کا آغاز کیا۔ یہ ان کے قیام رامپور کے دور کی بات ہے۔ اپنے اسی مرثیہ کو پہلی مرتبہ انہوں نے 1975 میں محلہ بگلہ کے عزا خانے میں دو محرم کی مجلس میں پیش کیا۔ عظیم امروہوی کے پہلے مرثیہ کا پہلا بند نمونہ کے طور پر پیش ہے۔
——
زندگی اشک بھی ہے گوہر نایاب بھی ہے
زندگی قطرہ شبنم بھی مئے ناب بھی ہے
زندگی ساز بھی ہے نغمہ و مضراب بھی ہے
زندگی تشنہ بھی ہے زندگی سیراب بھی ہے
زندگی درد بھی ہے سوز بھی ہے راگ بھی ہے
زندگی ابر بھی ہے برق بھی ہے آگ بھی ہے
——
مراثی عظیم کا آخری مرثیہ حسین اور عصر حاضر کے عنوان سے ہے۔ یہ مرثیہ اصلاحی رنگ لئے ہوئے ہے۔ اس مرثیہ میں ضمیر فروشوں کی بخیہ ادھیڑی گئی ہے۔ اس مرثیہ کے کچھ بند بند بطور نمونہ پیش ہیں۔
——
کہیں عزت کہیں انساں نے شرافت بیچی
کہیں کردار کو بیچا کہیں سیرت بیچی
آج انسان نے اجداد کی عظمت بیچی
اور پردے میں کہیں عصمت و عفت بیچی
اس سے بڑھ کر بھی ہے ذلت کی کوئی حد یارو
بیچ ڈالے کہیں اسلاف کے مرقد یارو
اہل ایماں میں وہ ایماں کی حرارت نہ رہی
حافظ و قاری کی بے لوث تلاوت نہ رہی
مولوی رہ گئے لیکن وہ امانت نہ رہی
قاضی شہر کے بھی پاس شریعت نہ رہی
یہ عبائیں یہ قبائیں یہ عمامے لے لو
چاہے جس بھاؤ بھی بازار سے فتوے لے لو
ہوس جاہ میں منصب کے طلبگار ہوئے
اپنوں کے واسطے ہی در پئے آزار ہوئے
بھائی پر ایسی نظر جیسے کہ خونخوار ہوئے
جس سے ہم ڈرتے ہیں بس اس کے طرف دار ہوئے
صرف کرسی کے لئے رال بھی ٹپکاتے ہیں
عہدہ مل جائے کوئی اس پہ مرے جاتے ہیں
——
عظیم امرووی کے کلام میں ایک نظم عشق عظیم کے عنوان سے موجود ہے۔ 310 اشعار پر مشتمل اس نظم کو عظیم امروہوی نے جدید مرثیہ قرار دیا۔
عشق عظیم نظم کرنے کی تحریک انہیں میر تقی میر کی غزل: کیا بتاؤں تمہیں کہ کیا ہے عشق… جان کا روگ ہے بلا ہے عشق سے ملی۔ اس نظم یا جدید مرثیہ میں عام عشق سے لے کر اولیا اللہ کے عشق، رسولوں اور انبیا کے عشق کا ذکر کرتے ہوئے شاعر کربلا تک پہنچ جاتا ہے جہاں امام حسینؑ اور ان کے رفقا پروردگار عالم کے عشق میں اپنی جانوں کا نزرانہ تک پیش کرنے سے دریغ نہیں کرتے، اس نظم کے کچھ اشعار پیش ہیں۔
——
جب کسی کو کہیں ہوا ہے عشق
عشق کی روح پر جو ہو بنیاد
تب کہیں جا کے دیر پا ہے عشق
جو انیس و دبیر ہیں ان کا
مر بھر ذکر کربلا ہے عشق
ہیں جو اقبال شاعر مشرق
ان کے ہاں ایک فلسفہ ہے عشق
شاعر انقلاب جوش جو ہیں
ان میں تو آگ سا بھرا ہے عشق
یاد رکھیں گے اہل عشق تجھے
حشر تک تیرا تذکرہ ہے عشق
کربلا میں جو عشق خالق تھا
کہیں ایسا نہیں ملا ہے عشق
عشق کے کارواں ہو تجھ پہ سلام
ونے بتلا دیا کہ کیا ہے عشق
در حقیقت عظیم آپ کا تو
منقبت نعت مرثیہ ہے عشق
——
عظیم امروہوی کے کلام کی کل کائنات محمد و آل محمد سے ان کی بے پناہ عقیدت اور محبت کے اظہار کا وسیلہ ہے۔ واقعات کربلا کے پیغام کو عام کرنے کو انہوں نے اپنا قلمی مشن بنا لیا تھا۔ اس مشن پر وہ زندگی کے آخری ایام تک گامزن رہے۔ لیکن ان کے دل میں یہ تڑپ تھی کہ انہیں ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ تعلیمات آئمہ اطہار کی تبلیغ کے لئے عظیم امروہوی اللہ سے اور مہلت چاہتے تھے۔ اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اسپتال کے بستر پر جو انہوں نے نظم لکھی وہ اللہ سے اسی التجا پر مبنی ہے۔ اسی نظم میں وہ ایک جگہ کہتے ہیں
——
ابھی میرے قلم سے ہونا کچھ تحریر باقی ہے
ابھی اس کائنات عشق کی تسخیر باقی ہے
اسے کرنے کی قوت دے
ابھی کچھ اور مہلت دے خدارا اور مہلت دے
——
میں پیویند زمیں ہونے کو تو تیار بیٹھا ہوں
بجز نعت و مراثی کام کیا۔ بیکار بیٹھا ہوں
نہ فرصت ہے نہ فرصت دے
ابھی کچھ اور مہلت دے خدارا اور مہلت دے
——
مگر افسوس کہ کارخانہ قدرت میں ان کے لئے مزید مہلت نہ تھی اور تشہیر تعلیمات محمد و آل محمد میں مصروف یہ قلمکار 10اکتوبر 2020 کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہو کر مالک حقیقی سے جا ملا۔
——
عظیم اب خوف محشر کیا زباں پر ذکر ہے میری
احد کا، پانچ، کا بارہ کا، چودہ، کا بہتر کا
——
منتخب کلام
——
فرات تیری طرف سے ہوا جو آتی ہے
کسی کی پیاس کی خوشبو بہت ستاتی ہے
——
خدا کے دین کا بن کے وقار بولتا ہے
سناں کی نوک پہ جب ذمہ دار بولتا ہے
——
سر فرشتوں کے خم عظیم ہوئے
کربلا میں جو بندگی دیکھی
——
بچانے کے لیے قرآن تیرا
خدا نیزے پہ اک قاری بہت ہے
——
پیاس کی خوشبو سے سارا دشت حیرانی میں تھا
کیسے پہنچے پیاس تک دریا پریشانی میں تھا
——
مرا یہ عزم کہ مر کر بھی میں رہوں زندہ
اسے یہ ضد کہ ہر اک حال میں مٹانا ہے
——
وہ قتل گاہ میں آنکھیں بچھائے بیٹھی تھی
تھا خود ہی کتنا شہادت کو انتظار ترا
——
کس نے میزان دست و بازو میں
اپنے ہاتھوں وفا کو تولا ہے
——
قصیدۂ رسولِ اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
یہ میرا عمل میرے لیے حاصلِ دیں ہے
سنگِ درِ سرکار ہے اور میری جبیں ہے
جس شخص کو بھی آپ کا عرفان نہیں ہے
پھر اُس کے مقدر میں نہ دنیا ہے نہ دیں ہے
یہ افضل و اعلیٰ ہیں ، زمانے سے بلا شک
ہیں بعدِ خدا ، اس میں چناں ہے نہ چیں ہے
احمد میں اگر میم نظر آئے نہ ہم کو
یہ تب بھی حسیں ، تب بھی حسیں ، تب بھی حسیں ہے
اس فقر پہ قربان ہو شہنشاہیٔ عالم
جو خاک نشیں ہے وہی افلاک نشیں ہے
اعجازِ عمل آپ کا ہیں شبرؓ و شبیرؓ
اور علم کا اعجاز ، یہ قرآنِ مبیں ہے
اب روضۂ انور پہ بلا لیجیے آقا
بت خانۂ دنیا میں ، یہ کعبے کا مکیں ہے
جو لب پہ دعائیں ہیں عظیمِؔ جگر افگار
ہو جائیں گی پوری مجھے اس کا بھی یقیں ہے
——
قصیدۂ علی مرتضیٰؓ
——
جو ہے خدا کی بات وہی ہے نبی کی بات
جو ہے نبی کی بات وہی ہے علی کی بات
ہو فلسفی کی بات کہیں یا سخی کی بات
آ جاتی ہے زباں پہ فوراََ علی کی بات
مضرابِ کُن پہ آج چھڑی دوستی کی بات
کعبے میں ہو رہی ہے نبی سے علی کی بات
قبضہ فقط زمیں پہ نہیں بو تراب کا
ٹالی ہے آفتاب نے بھی کب علی کی بات
وہ بھی علی کے در پہ ہی آتا ہے بعد میں
بنتی نہیں بنائے سے جب بھی کسی کی بات
خندق میں بات رہ گئی دینِ رسول کی
حیدر نے کی جب آن کے مردانگی کی بات
اونچا کیا تھا جس کو نبی نے غدیر میں
اونچی اسی کے دم سے رہی ہے نبی کی بات
ان کا ہی ذکر کرتا ہوں میں روز و شب عظیمؔ
ان کے ہی دم سے میری بنی شاعری کی بات
——
قصیدۂ حضرت امام حسینؓ
——
حسین انساں کی برتری ہے ، حسین معیارِ زندگی ہے
حسین منشائے ایزدی ہے ، حسین معراجِ آدمی ہے
حسین صابر ، حسین شاکر ، حسین طاہر ، حسین ناصر
حسین دستورِ آدمیت ، حسین آئینِ زندگی ہے
حسین رہبر ، حسین برتر ، حسین سرور ، حسین لشکر
حکومتِ وقت جس سے کانپی ، حسین تنہا وہ آدمی ہے
حسین فاضل ، حسین عامل ، حسین عادل ، حسین کامل
حسین ہے محرم مشیت ، حسین عرفان و آگہی ہے
حسین افضل ، حسین اجمل ، حسین اکمل ، حسین مشعل
حسین ہی نورِ کبریا ہے ، حسین ذہنوں کی روشنی ہے
حسین عرفاں ، حسین ایمان ، حسین عترت ، حسین قرآں
حسین ہے دین کی ضرورت ، حسین سرمایۂ نبی ہے
حسین قبلہ ، حسین کعبہ ، حسین تقویٰ ، حسین سجدہ
حسین ہی دی کا آسرا ہے ، حسین ایماں کی زندگی ہے
حسین عظمت ، حسین طاقت ، حسین جرات ، حسین ہمت
حسین ہے عزم کا ہمالہ ، حسین دیوارِ آہنی ہے
حسین عالی ، حسین والی ، حسین سے گر رہے تمسُک
عظیم معراجِ زندگی ہے ، عظیمؔ معراجِ شاعری ہے
——
شعری انتخاب اور ٹائپنگ : اردوئے معلیٰ انتظامیہ
بحوالہ : غمِ عظیم ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ