آج پھر سے دلِ مرحوم کو محسوس ہوا

ایک جھونکا سا کوئی تازہ ہوا کا جیسے

مہرباں ہو کے جھلستے ہوئے تن پر اترا

سایہِ ابر ، کہ سایہ ہو ہُما کا جیسے

نرم لہجے میں مرے نام کی سرگوشی سی

زیرِ لب ورد ، عقیدت سے دعا کا جیسے

ہاتھ جیسے کوئی رخسار کو سہلاتا ہو

دل نے محسوس کیا لمس بقا کا جیسے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ہے داستان فقط ساتویں سمندر تک

یہ واقعہ ہے مگر آٹھویں سمندر کا جہانِ شوق کی معلوم سرحدوں سے پرے مہیب دھند میں ڈر آٹھویں سمندر کا سفینے سو گئے موجوں میں بادباں اوڑھے کھلا ہے بعد میں در آٹھویں سمندر کا وہ سند باد جہازی ہوں جس کو ہے درپیش قضاء کے ساتھ سفر آٹھویں سمندر کا

حروف کیا ترے قد کی برابری کرتے

کہاں سے ہم ترے شایان شاعری کرتے تمہارا فیض نہ ہوتا تو ہم سے تن آساں محبتیں بھی جو کرتے تو سرسری کرتے بھلا ہو وہ تو تمہارا کہ پر ہی کاٹ دیے وگرنہ ہم بھی ستاروں کی ہم سری کرتے تمہارا ذکر محاسن فنون کا ٹھہرا نہیں تو کون تھے ہم کیا سخنوری کرتے