آج ممتاز ادیب اشرف صبوحی کا یومِ پیدائش ہے۔

——
اشرف صبوحی ڈپٹی نذیر احمد دہلوی کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے پاکستان کے نامور ادیب، صحافی، افسانہ نگار اور مترجم تھے جو اپنی تصنیف "دلی کی چند عجیب ہستیاں” کی وجہ سے دنیائے اردو میں شہرت رکھتے ہیں۔
——
حالات زندگی
——
اشرف صبوحی کا اصل نام سید ولی اشرف تھا۔ وہ 11 مئی، 1905ء کو دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ڈپٹی نذیر احمد کے خاندان سے تھا ۔ ڈپٹی نذیر احمد کے صاحبزادے مولوی بشیر احمد ان کے سگے پھوپھا تھے۔ ان کے جدی خاندان کا سلسلہ حضرت سید اشرف جہانگیر سمنانی سے ملتا ہے۔ ان کے والد جناب علی اشرف محکمہ ریلوے کے شعبۂ انجینئری میں ملازم تھے۔ وہ ایک عالم دین بزرگ تھے۔ اشرف صبوحی کی ابتدائی تعلیم والدہ کی نگرانی میں گھر میں ہوئی۔ بعد ازاں انہیں انگلو عربک ہائی اسکول میں داخل کیا گیا جہاں سے 1922ء میں سیکنڈ کلاس میں میٹرک پاس کیا۔ صبوحی صاحب کو فارسی سے شروع ہی سے لگاؤ تھا۔ میٹرک کے بعد انہوں نے پرائیویٹ طور پر ادیب فاضل، منشی فاضل، ایف اے اور بی اے کے امتحانات جامعہ پنجاب سے پاس کیے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر اشرف کمال کا یوم پیدائش
——
صبوحی صاحب بجلی کے کاموں میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ جب اس کام میں ان کا شغف زیادہ بڑھا تو جرمنی اور انگلستان سے بجلی کا سامان منگوا کر خود بیٹریاں بنانی شروع کر دیں جس سے خاصی آمدنی ہو جاتی تھی۔ 1929ء میں انہوں نے اپنی ملازمت کا آغاز محکمہ ڈاک و تار سے کیا لیکن لکھنے پڑھنے کا شوق اپنی جگہ قائم رہا۔ ان کی پہلی تحریر جو بڑی شان سے منظر عام پر آئی وہ ایک تقریظ تھی جو دیوانِ بشیر میں مولانا مولوی اشرف صبوحی کے نام سے شائع ہوئی تھی۔ شاہد احمد دہلوی ایڈیٹر ساقی صبوحی صاحب کے قریبی دوستوں میں تھے۔ ماہنامہ ساقی میں صبوحی صاحب کے بہت سے مضامین، افسانے اور خاکے شائع ہوتے تھے۔
——
ادبی خدمات
——
اشرف صبوحی دہلی کے ان نثر نگاروں میں تھے جنھوں نے 1947ء سے قبل ادب میں اپنے لیے ممتاز مقام بنا لیا تھا۔ انہوں نے 1929ء سے بچوں کے رسالوں میں چھوٹی چھوٹی سینکڑوں خوبصورت کہانیاں اور ادبی رسالوں میں مضامین لکھنا شروع کر دیے تھے۔ صبوحی صاحب نے ارمغان کے نام سے ایک ماہنامہ بھی دہلی سے جاری کیا۔ دو سال تک یہ رسالہ محلہ چوڑی والا گلی تخت والی سے شائع ہوتا رہا۔ اس رسالے میں لکھنے والوں میں خواجہ حسن نظامی کا نام بہت مشہور ہے۔ ان کا ایک معروف مضمون اللہ میاں کی سوانح اسی رسالے میں شائع ہوا تھا۔ صبوحی صاحب کے چھوٹے بھائی جو اس رسالے کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے، دو سال کے لیے مدینہ چلے گئے۔ بھائی کے چلے جانے سے رسالے کی اشاعت بہت متاثر ہوئی اور اسے بند کرنا پڑا۔ رسالوں میں مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ جب دہلی میں ریڈیو اسٹیشن قائم ہوا تو 1927ء میں وہاں سے صبوحی صاحب نے پہلی تقریر نشر کی جو انہوں نے اس طرح شروع کی تھی۔
”وائرلیس کی ایجاد کے بعد بھی بجلی جو کبھی غضب الٰہی کی ایک کہر تھی قدرت کی مہر ثابت ہو رہی ہے۔“
صبوحی صاحب نے ریڈیو کے لیے تقریروں کے علاوہ ڈرامے، فیچر، عورتوں کے پروگرام،بچوں کی کہانیاں اور بچوں کے ڈرامے بھی لکھے ہیں جن کا سلسلہ پاکستان پہنچنے کے بعد تک جاری رہا۔ جولائی 1940ء میں رسالہ ساقی میں شائع شدہ افسانہ شوہر پرست بیوی پر اشرف صبوحی کو انعام ملا۔ اس کے بعد 1946ء میں دہلی کے ادبی رسالہمشہور کے افسانہ نمبر میں جو انعامی مقابلہ ہو اتو افسانہ نگاری میں انہیں اول نمبر دیا گیا۔ جب بابائے اُردو مولوی عبدالحق انجمن ترقی اردو کا دفتر دہلی لائے تو انہوں نے صبوحی صاحب کو اپنے ادارے میں چھپنے والے مسودات نظر ثانی کے لیے بھیجنے شروع کردیے اور ان کی سب سے زیادہ مشہور کتاب دلی کی چند عجیب ہستیاں شائع کی۔ پنجاب کے محکمہ تعلیم نے نویں اور دسویں جماعت کے نصاب میں صبوحی صاحب کا ایک خاکہ مرزا سکندر بخت شامل کیا تھا۔ اسی طرح کراچی کے محکمہ تعلیم نے ایف اے کے کورس کے لیے ان کا دوسرا خاکہ دیوانی آپا شامل کیا تھا۔ یہ کردار نگاری کے اعتبار سے بہت اہم ہے۔
——
پاکستان آمد
——
تقسیم ہند کے بعد اشرف صبوحی پاکستان آ گئے اور لاہور میں مقیم ہوئے۔ یہاں پر بھی وہ محکمۂ ڈاک میں ہی کام کرتے رہے اور مدت ملازمت پوری ہو نے پر یہیں سے وظیفہ یاب ہو گئے۔ صبوحی صاحب کے حکیم محمد سعید سے بہت دوستانہ تعلقات تھے۔ چنانچہ ریٹائر ہونے کے بعد حکیم محمد سعید نے انہیں ہمدرد فاؤنڈیشن میں افسر تقریبات مقرر کر دیا جہاں وہ شامِ ہمدرد کا اہتما م کیا کرتے تھے۔ آخرمیں اشرف صبوحی لاہور سے کراچی منتقل ہو گئے۔ چونکہ لاہور میں ان کا قیام زیادہ رہا تھا اس لیے انہیں لاہور چھوڑنے کا بڑا دکھ تھا۔
——
تصانیف
——
اشرف صبوحی صاحب کی تصانیف اور تراجم میں جو کتابیں چھپ چکی ہیں ان میں مندرجہ ذیل کتابیں شامل ہیں :
دلی کی چند عجیب ہستیاں
غبار کا رواں (خاکہ)
جھروکے (افسانے اور خاکہ)
بغداد کے جوہری (ناول، انگریزی سے ماخوذ)
بن باسی دیوی (وحشیانہ زندگی کی انسانی حالت، پر لطف پیرائے میں انگریزی سے ماخوذ)
——
یہ بھی پڑھیں : نسیم امروہوی کا یومِ پیدائش
——
دھوپ چھاؤں (انگریزی ناول کا ترجمہ)
ننگی دھرتی (انگریزی ناول کاترجمہ)
موصل کے سوداگر (انگریزی سے ترجمہ کہانی)
بزم آخر (مصنف فیاض مرحوم، مرتبہ اشرف صبوحی) جسے مشکل الفاظ کی فرہنگ کے ساتھ مجلس ترقی ادب پاکستان نے شائع کیا۔
بن باسی دیوی اور بغداد کے جوہری پر دیباچے مشہور عالم پروفیسر مرزا محمد سعید صاحب نے لکھے تھے۔ صبوحی صاحب نے لاہور میں چند امریکی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کیا جو دس بارہ سال بعد وائس آف امریکا سے نشر ہوا۔ اشرف صبوحی صاحب نے اپنے پیچھے علم و ادب کا ایسا خزانہ چھوڑا ہے جس سے آنے والی نسلیں ہمیشہ استفادہ کرتی رہیں گی۔
——
وفات
——
اردو کے صاحبِ اسلوب ادیب اشرف صبوحی 22 اپریل، 1990ء کو کراچی میں دار فانی سے کوچ کر گئے۔ ان کا مزار کراچی میں یاسین آباد گلشن اقبال کے قبرستان میں واقع ہے۔
——
اشرف صبوحی بطور شاعر
——
صبوحیؔ صاحب نے اگرچہ شاعری میں کوئی خاص حصہ نہیں لیا پھر بھی انھوں نے نظم مین بچوں کی چند کہانیاں اور نظمیں ان کے علاوہ چند غزلیات ، تاریخ ، قصے ، سجع یا برمحل اشعار بھی کہے ہیں ۔
تاریخِ وفات کے قطعات میں سے ایک قطعہ جو انہوں نے اپنے دوست پروفیسر شیخ عبد الطیف تپشؔ کی وفات پر کہا تھا :
——
خدا بخشے تپشؔ خوب آدمی تھے
کہاں ہیں ایسے الفت آشنا آج
جدائی میں تڑپتے رہ گئے ہم
وصال ان کا خدا سے ہو گیا آج
صبوحیؔ آہ کیا تاریخ لکھے
مٹی ہے کیسی تصویرِ وفا آج
——
حکیم عبد الوہاب صاحب نابینا حیدر آباد میں دوبارہ صدر الاطباء کے معزز عہدے پر فائر ہوئے تو آپ نے فرمایا :
——
پل میں سچا ہو گیا ہے چشمِ نابینا کا خواب
——
غزل کے چند اشعار ملاحظہ ہوں
——
بیمار محبت کو دعاؤں کے اثر سے
پھیرا تو ہے جاتے ہوۓ اللہ کے گھر سے
دنیا مجھے ایک حُسن کا پیکر نظر آئی
دیکھا تھا زمانے کو جوانی کی نظر سے
اک ہم ہیں کہ مرنے کا مزا لیتے ہیں پیہم
اک خضر بیچارے ہیں جو مرنے کو بھی ترسے
ملجا یہی ماویٰ یہی ، یہی درِ مقصود
ہم اٹھ کے کہاں جائیں گے مولا ترے در سے
——
شعر
——
دل ہو اور ترے وصل کی خواہش
کیسی توہین ہے محبت کی
——
1940ء میں ٹوکیو کے سکول آف فارن لینگویج کے اردو کے پروفیسر آر گامو صاحب اردو زبان میں اپنی معلومات کا اضافہ کرنے کی غرض سے چھ ماہ کے لیے دلی آۓ تھے تو صبوحیؔ صاحب نے ان کی بہت مدد کی تھی اور اپنے ساتھ تاج محل آگرہ کی سیر بھی کرائی تھی وہ یہاں کے اردو ادیبوں سے مل کر بہت خوش ہوۓ تھے ۔ ان کی الوداعی پارٹی میں صبوحیؔ صاحب نے ان کی خدمت میں جو اشعار پیش کیے تھے ان میں تین چار ذیل میں درج ہیں
——
چین و جاپان سے سیاح تو آۓ ہیں بہت
تیری گنتی ہے مگر ہند کے مہمانوں میں
کتنی جاذب ہے خدا رکھے زبان اردو
تو بھی شامل ہوا اس شمع کے پروانوں میں
طے کیا گامو نے دو گاموں میں اللہ رے شوق
باقی میدان جو تھا علم کے میدانوں میں
یاد آئی جو تری بزم طرب میں تو الگ
بھر کے رکھ دیں گے ترے نام کی پیمانوں میں
——
یہ بھی پڑھیں : خواجہ عزیز الحسن مجذوب
——
میاں ایم اسلم (مشہور ناول نگار) کی حویلی میں چند شاعر اور ادیب بیٹھے چائے پی رہے تھے اور مزے مزے کی باتیں ہو رہی تھیں ۔ ایک صاحب کو جنہیں نزلے کی شکایت تھی ، چھینکوں کے ساتھ ناک بہنی بھی شروع ہو گئی ۔
ان کی حالت دیکھ کر ان کے حسبِ حال یہ شعر موزوں کر کے صبوحی صاحب نے سب کو سنایا جس سے محفل میں ہنسی کی لہر دوڑ گئی :
——
آئی جو ان کی ناک تو آتی چلی گئی
نتھنوں سے اشکِ چشم بہاتی چلی گئی
——
یہ شعر دراصل حضرت جگر مراد آبادی کی ایک مطلع کی پیروڈی تھی جو کہ یہ تھا :
——
آئی جو ان کی یاد تو آتی چلی گئی
ہر نقش ماسوا کو مٹاتی چلی گئی
——
بحوالہ : اردو ادب نئی دہلی ، شمارہ نمبر 001 تا 003
مصنف : خلیق انجم ، صفحہ نمبر 30 تا 32