اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے معروف اور مقبول شاعر کیفی اعظمی کا یومِ وفات ہے

 کیفی اعظمی(ولادت 14 جنوری، 1919ء، وفات 10 مئی، 2002ء)
——
کیفی اعظمی کا اصل نام اطہر حسین رضوی تھا اور وہ 14 جنوری 1919ء کو اتر پردیش کے ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے تھے ۔ کیفی اعظمی نے اپنی پہلی نظم 11 سال کی عمر میں تحریر کی ۔ 19 سال کی عمر میں وہ بھارت کی کمیونسٹ پارٹی میں شامل ہو گئے
1940 کے اوائل میں کیفی اعظمی بمبئی آ گئے اور صحافت کے شعبے سے منسلک ہوگئے یہیں ان کی شعری کا پہلا مجموعہ “جھنکار” شائع ہوا۔
قیام ممبئی کے دوران کیفی اعظمی نے لاتعداد فلموں کے لئے نغمے اور مکالمے لکھے، جن میں بزدل، کاغذ کے پھول، ہیر رانجھا، گرم ہوا، سات ہندوستانی، پاکیزہ، ہنستے زخم اور ارتھ کے نام سرفہرست ہیں ۔
ان کے مقبول گیتوں میں فلم کاغذ کے پھول کا گیت “وقت نے کیا کیا حسیں ستم”
پاکیزہ کا گیت “یونہی کوئی مل گیا تھا، سر راہ چلتے چلتے”،
ہیر رانجھا کا گیت’’یہ دنیا یہ محفل‘‘
اور ارتھ کا گیت “تم اتنا جو مسکرا رہے ہو‘‘ شامل ہیں ۔
ان کی غزلوں اور نظموں کی مقبولیت کی اصل وجہ ان میں جذبات کا بے پناہ اظہار، الفاظ کی خوبصورتی اور غیر منصفانہ معاشرے کے خلاف بغاوت کا عنصر تھا۔
اردو شاعری کے فروغ کے لئے انتھک کام کرنے پر انہیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ، ساہتیہ اکیڈمی فیلوشپ، پدم شری ، نیشنل فلم ایوارڈ اور فلم فئیر ایوارڈ سے نوازا گیا، کیفی اعظمی معروف بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کے والد اور شاعر جاوید اختر کے سسر تھے
کیفی اعظمی 10 مئی 2002 کو اس دنیا سے رخصت ہو ئے۔ وہ ممبئی میں آسودہ خاک ہیں۔
——
کیفی اعظمی : اردو شاعری کی پُر اثر آواز از پروفیسر شارب ردولوی
——
کیفی اعظمی اپنی سیاسی فکر، لہجے کی انفرادیت زندگی کے اپنے نظریے اور اپنے سیاسی نقطۂ نظر کی وجہ سے تاریخی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری صرف ان کے جذباتی نشیب و فراز کی شاعری ہے، نہ صرف خیال آرائی اور تخیّل آفرینی کی شاعری ۔ کیفی اعظمی کی شاعری کا محرک وہ تاریخی و سماجی عوامل ہیں جو گزشتہ صدی کو محیط ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر اور ماہر تعلیم پروفیسر انجم اعظمی کا یوم پیدائش
——
کیفی اعظمی کی شاعری کی ابتدا رومانی شاعری سے ضرور ہوئی۔ اس کا سبب یہ تھا کہ وہ عہد رومانی شاعری کا عہد تھا۔ فضا میں عظمت اللہ خاں اور اختر شیرانی کی آوازیں گونج رہی تھیں۔ اس کے سحر سے کسی کا نکل پانا آسان نہیں تھا۔ سلمیٰ ناہید، عذرا یا بنت عم کا ذکر شاعری میں عام تھا۔ اس ادبی فضا اور اظہار عشق کے جذباتی ماحول میں کیفی اعظمی کی شاعری کی ابتداء ہوئی اور انفرادی لب و لہجے اور جذباتی شدت کی وجہ سے وہ اس ماحول پر چھاگئے۔
ہماری ادبی تنقید کی یہ کمزوری رہی ہے کہ اسے مذہب اور عقیدوں کی طرح گروہ میں تقسیم کردیا گیا۔ پہلے بھی ہی ہوتا رہا ہے کہ انیسئے دبیرؔ کی اہمیت کے منکر اور دبیرے انیسؔ کے منکر۔ یہ مثال بڑی عوامی ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ہماری تنقید کا ایک بڑا حصہ گروہ بندی اور تعصب کی اسی عینک کا شکار نظر آئے گا۔
ترقی پسند شعراء کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا۔ ان سے نظریاتی اختلافات ذاتی اختلافات کی سی شدت اختیار کرلیتے ہیں۔ کبھی اخلاقاً اور احتراماً کسی کے لیے چند تعریفی کلمات کہہ بھی دیئے گئے تو فوراً کچھ ایسی باتیں لکھنی ضروری ہیں کہ کہیں یہ ’نیم مردہ دیو‘ پھر نہ اٹھ کھڑا ہو۔ کسی دور کا کُل تخلیقی اثاثہ اعلیٰ ادبی اقدار کا حامل نہیں ہوتا۔ کم مرتبہ شعری یا ادبی تخلیقات کی بنا پر سارے سرمایے کو رَد کردینا ادبی بد دیانتی ہے لیکن یہاں یہی حال ہے۔
غلط یہ لفظ وہ بندش بُری یہ مضموں سست
کیفیؔ کی شاعری پر بھی بعض لوگوں نے اسی طرح اعتراض کیے کہ وہ وقتی اور ہنگامی واقعات کی شاعری ہے۔ وہ خطیبانہ شاعری ہے۔ ان کی نظموں میں دیرپا عناصر نہیں ہیں۔ خلیل الرحمن اعظمی اور بعض دوسرے ناقدین نے صرف کیفیؔ اعظمی ہی نہیں بلکہ پوری ترقی پسند شاعری پر اسی طرح کے اعتراضات کئے اور اسے ہنگامی موضوعات کی شاعری اور نعرہ بازی قرار دیا۔
اس طرح کے اعتراضات سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں جن کی طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ کیا ہنگامی واقعات کی نظموں میں خوبصورت اظہار بیان کی مثالیں نہیں ملتیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ ہنگامی واقعات پر مبنی ساری شاعری اعلیٰ درجہ کی شاعری ہے۔ جس طرح عام شاعری کا بڑا حصہ اعلیٰ شاعری قرار نہیں دیا جاسکتا اسی طرح وقتی موضوعات کی شاعری بھی کمزور ہوسکتی ہے۔ لیکن کیا اس بنیاد پر کہ اس میں کمزور شاعری بھی ملتی ہے، سارے اثاثے کو رَد کیا جاسکتا ہے؟۔ اس طرح کی شاعری کا موضوع وقتی ہوسکتا ہے لیکن اس کی ا دبی قدر و قیمت کا تعیّن اظہار کی قدرت اور بیان کی دلکشی پر منحصر ہے۔ یعنی شاعر کہاں تک اپنے موضوع کو محدود وقتی دائرے سے نکال کر مسائل کے ایک وسیع کینوس کا حصہ بناسکا۔
دوسرا سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہنگامی واقعات کی شاعری میں واقعی ’دیرپا عناصر‘ کا فقدان ہوتا ہے؟ یا ان کا موضوع وقت کے ساتھ اپنی اہمیت کھودیتا ہے۔ اور آخری سوال یہ ہے کہ یہ دیرپا عناصر کیا ہیں۔ اگر دیرپا عناصر کا تعلق شعری جمالیات سے ہے تو یہ کہنا ادبی دیانت داری کے خلاف ہوگا کہ سردار جعفری، کیفی اعظمی یا نیاز حیدر کی نظمیں شعری جمالیات سے عاری ہیں۔ رہا موضوع کے ازکار رفتہ ہونے کا سوال تو اردو شاعری میں ایسی بہت سی نظمیں مل جائیں گی جن کے موضوعات کی اب کوئی اہمیت نہیں ہے لیکن شعری اظہار اور جمالیاتی اقدار کے لحاظ سے وہ نظمیں آج بھی متاثر کرتی ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر سعود عثمانی کا یوم پیدائش
——
کیفیؔ اعظمی کی شاعری کو آسانی کیلئے تین اد وار میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ ایک دور جس کا میں نے ابھی ذکر کیا جس میں کیفی سر تا پا محبوب کی چشم و لب کے شکار اور زلف گرہ گیر کے اسیر نظر آتے ہیں۔ ان کی اس دور کی شاعری ’در دستِ عشق افسانہ ام‘ کی شاعری ہے۔ یہاں پر ان کی نظموں سے صرف دو اقتباس پیش ہیں ؏
——
یہ جسم نازک، یہ نرم باہیں، حسین گردن، سڈول بازو
شگفتہ چہرہ، سلونی رنگت، گھنیرا جوڑا، سیاہ گیسو
نشیلی آنکھیں، رسیلی چتون، دراز پلکیں، تمام جادو
ہزار جادو جگارہی ہو
یہ خواب کیسا دکھا رہی ہو
یا بج رہی ہوں چھیٹے میں مندروں کی گھنٹیاں
یا منہ اندھیرے دور سے آتی ہو آواز اذاں
یا بند کردے جھینپ کر خلوت کی کوئی کھڑکیاں
اور بج رہی ہوں چوڑیاں
اے بنت مریم گنگنا
اے جان نغمہ گائے جا
جیسے شگوفوں میں سماکر گنگناتی ہو ہوا
جیسے خلا میں رات کو گھنگھرو بجاتی ہے گھٹا
جیسے کسی دوشیزہ کے دل کے دھڑکنے کی صدا
زندہ رہے نغمہ ترا
اے بنت مریم گنگنا
——
کیفی اعظمی کی شاعری اردو میں پیکر تراشی کی مثال ہے۔ میں نے کسی جگہ لکھا تھا کی کیفیؔ کی شاعری میں تصویریں زیادہ ہیں اور الفاظ کم۔ اس لیے کہ ان کے بیشتر الفاظ موقع کی ایک سے زائد تصویریں بناتے ہیں۔ مثلاً اوپر کے مصرعوں میں الفاظ کے ذریعے ایک ہی ایک بات کہی گئی ہے، خواہ وہ ہوا کے شگوفوں میں سماکر گنگنانے کی بات ہو یا خلا میں گھنگھرو بجانے کی لیکن یہ مصرعے صرف ایک تصویر نہیں بناتے وہ اُس بدلتی ہوئی کیفیت کے پیکر بناتے جاتے ہیں جو شگوفوں کے ہلنے یا ایک دو سرے سے ٹکرانے یا بادل کے گرجنے اور بجلی کے چمکنے سے قاری یا سامع کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں۔ اس طرح چند الفاظ ذہن کے پردے پر ایک کے بعد ایک تصویر بناتے چلے جاتے ہیں۔
کیفیؔ عام طور پر مشکل الفاظ اور تراکیب سے گریز کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ابہام و ایہام کی بھی گنجائش نہیں ہے لیکن استعاروں کی زبان انھیں خوب آتی ہے۔ ان کی بیشتر نظمیں خوبصورت استعاروں سے آراستہ ملیں گی۔ اس کے باوجود انھیں جو کہنا ہوتاہے وہ صاف صاف الفاظ میں کہتے ہیں۔ ان کے یہاں کوئی لاگ لپیٹ نہیں ہے۔ ایسی شاعری براہ راست اور بیانیہ ضرور ہوتی ہے لیکن بیانیہ شاعری کا اپنا ایک لطف اور حسن ہے۔ وہ شاعری کو مرصع سازی نہیں سمجھتے حالانکہ ان کی بہت سی نظمیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر وہ چاہتے تو بڑی آراستہ، دلکش اور کیف آور شاعری کرسکتے تھے۔ لیکن زندگی یک رخی چیز نہیں۔ اس میں خوبصورتی اور رنگینی کے ساتھ تلخی، کرب، مایوسی، شکست اور ناکامی بھی ہے اور زندگی کایہ دوسرا حصہ پہلے سے نسبتاً زیادہ ہے۔ اس لیے کیفی کی نظمیں زندگی کے ان دونوں رخوں کی تصویر پیش کرتی ہیں۔ انھوں نے زندگی کے اس کرب کو زیادہ قریب سے دیکھا تھا۔ وہ ہر چہرے پر مسکراہٹ دیکھنا چاہتے تھے لیکن سماجی نابرابری اور ظلم نے چہروں سے مسکراہٹ چھین کر ان پر بھوک، ناکامی اور نفرت کی تلخ لکیریں کھینچ دی تھیں۔ اسی لیے کیفی بہت دیر تک اس رومانی اور تصوراتی فضا میں سانس نہیں لے سکے اور ان کا لہجہ تلخ تر ہوتا گیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
کیفیؔ کی شاعری کا دوسرا دور اسی تلخی اور سماجی نابرابری کے خلاف غم و غصہ کا دور ہے، عام طور پر ان کے اسی دور کی شاعری کو سامنے رکھ کر ان کے بارے میں خطابت اور وقتی موضوعات کی شاعری کے فیصلے کیے جاتے رہے ہیں۔
ہر زمانہ شاعری اور ادب کے لیے اپنے موضوعات لے کر آتا ہے اور زمانہ ہی اظہار کی ہیئتوں کا تعیّن کرتا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ شاعر کی عظمت کا تعیّن اس کی قصیدہ گوئی کی مہارت اور قدرتِ زبان سے کیا جاتا تھا۔ لیکن آج قصیدہ گوئی کی وہ اہمیت بھی نہیں جو پچاس سال پہلے تھی۔ اب نہ دربارہے اور نہ درباری شاعر اور نہ ملک الشعراء کے خطاب لیکن اس کے باوجود قصائد کی علمی و ادبی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاتا۔ اسی طرح آزادی کی جنگ کے زمانے میں جس طرح کی نظمیں لکھی گئیں ان کی آج ضرورت نہیں لیکن ان نظموں نے اپنے عہد میں جو کام انجام دیا اور جس طرح عوام میں بیداری کی لہر پیدا کی اس کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ان میں بہت سی نظمیں ادبی اہمیت کی نہ ہوں لیکن اس زمانہ کی بیشتر نظمیں آج بھی دلوں میں گرمی، جوش اور سرفروشی کی تمنا پیدا کرتی ہیں۔ کیفیؔ کی اس دور کی نظموں میں اکثر نظمیں آج بھی ہمارے لیے اہمیت رکھتی ہیں۔ ان کی سیاسی یا وقتی موضوعات کی شاعری کے بہت سے حصے آج کے حالات میں اپنی ایک نئی معنویت Relevence رکھتے ہیں۔
ان کی نظم ’کرن‘ گاندھی اور جناح کی ملاقات سے متعلق ایک پرانی نظم ہے لیکن دونوں ملکوں کے موجودہ حالات اور امید اور ناامیدی کی کشمکش میں اس کے بعض ٹکڑے ایک تعلق کا احساس دلاتے ہیں مثلاً یہ اشعار ؏
——
خار کیا چیز ہیں دو دوست جو ملنا چاہیں
سوز رفتار سے لَو دینے لگی ہیں راہیں
وقت نے سینۂ احساس میں لے لی چٹکی
ڈال دیں گرم تقا ضوں نے گلے میں باہیں
——
یہاں پر ایسی نظموں کا ذکر نہیں جو لینن، سرخ سویرا یا کسی حادثے پر لکھی گئیں۔ کیفیؔ کے سرمایے میں ایسی نظموں کی تعداد بہت نہیں ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف ادیبہ ڈاکٹر شائستہ اکرام اللہ کا یومِ پیدائش
——
ان کی سیاسی یا موضوعاتی شاعری کو ان کے جمالیاتی احساس اور فنی پختگی نے دلکش بنادیا ہے۔ ان کی ایک اور نظم کا ایک بند ہے جس کی سیاسی رمزیت کے باوجود اس کی پیکر تراشی اور استعارے ان کے اعلیٰ جمالیاتی احساس کی ترجمانی کرتے ہیں ؏
——
آندھیاں توڑ لیا کرتی ہیں شمعوں کی لَویں
جڑ دیئے اس لیے بجلی کے ستارے ہم نے
بن گیا قصر تو پہرے پہ کوئی بیٹھ گیا
اپنی نس نس میں لیے محنتِ پیہم کی تھکن
بند آنکھوں میں اسی قصر کی تصویر لیے
دل پگھلتا ہے اسی طرح سروں پر ابتک
رات آنکھوں میں کھٹکتی ہے سیہ تیر لیے
آج کی رات بہت گرم ہوا چلتی ہے
آج کی رات نہ فٹ پاتھ پہ نیند آئے گی
سب اٹھو، میں بھی اٹھوں تم بھی اٹھو، تم بھی اٹھو
کوئی کھڑکی اسی دیوار میں کھل جائے گی
——
کیفیؔ کی سیاسی اور ہنگامی موضوعات کی شاعری کا ذکر آگیا ہے تو ان کی ایک نظم کی طرف توجہ دلاتا چلوں۔ کیفیؔ کی ایک نظم مژدہ ہے جو انھوں نے شبلی نعمانی کی نظم ’امتحاں کب تک‘ سے متاثر ہوکر تضمین کی شکل میں لکھی ہے۔ شبلی نعمانی کی نظم انگریزوں کے ظلم و زیادتیوں کے خلاف ایک غمزدہ دل کی پکار ہے۔
کیفیؔ کی تضمین میں بڑا جوش، عزم اور حوصلہ ہے۔ دونوں کا موضوع ایک ہے لیکن دونوں نظموں میں مقصد کے حصول اور زندگی کے بارے میں نظریے کا بہت فرق ہے۔ کیفیؔ کی تضمین میں جو رجائیت اور اپنا حق حاصل کرلینے کا عزم ہے وہ حوصلے کو بلند رکھتا ہے۔ یہ نظم اپنے نظریے کی توانائی اور اظہار کی قوت کی وجہ سے ہمیشہ ہی دلوں کو گرماتی رہے گی ؏
——
لیا ہے یہ سبق ہم نے خود اپنے خوں شدہ دل سے
ستم کی خو بدل سکتی نہیں فریاد بسمل سے
تڑپ کر چھین لیں گے تیغ ہم اب دست قاتل سے
ہماری گردنوں پر اب نہ ہوگا امتحاں شبلیؔ
وہ گل شعلہ بنے جن پر ستم کروٹ بدلتا تھا
وہ رات آخر ہوئی جس سے چراغ ظلم جلتا تھا
ہمارا قصۂ غم سُن کے جن کا جی بہلتا تھا
قریب ختم آپہنچی انھیں کی داستاں شبلی
——
کیفی کی نظم جن کے خلاف تھی ان کی داستان ختم ہوگئی۔ ہندو دیو مالا میں ذکر آتا ہے کہ راکشس کے خون کی جتنی بوندیں گرتی ہیں اتنے ہی راکشس پیدا ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح سامراجی راکشسوں نے ہندوستان ہی میں نہیں ساری دنیا میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کی شکل میں نہ جانے کتنے راکشس پیدا کردیے ہیں جن سے آج انسانیت نبرد آزما ہے۔ کیفیؔ کی یہ تضمین دست قاتل سے تیغ کو چھین لینے کا حوصلہ اور یقین پیدا کرتی ہے۔
کیفیؔ کی شاعری کے تیسرے دور کو ہم انسانی درمندی کی شاعری کا دور کہہ سکتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی تقسیم اور کمیونسٹ حکومتوں کے زوال سے کیفی کو شدید کرب سے گزرنا پڑا لیکن جس طرح بڑی مایوسی یا ناکامی فنکار کے فن کو معراج کمال پر پہنچادیتی ہے، اسی طرح اس زخم نے کیفی کی شاعری کو ایک نیا رنگ و آہنگ پیدا کردیا۔ پہلے چند اشعار اُس نظم کے پیش کررہا ہوں۔ ان سے ان کے کرب اور شکستگی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ؏
——
اک یہی سوز نہاں کُل مرا سرمایہ ہے
دوستو میں کسے یہ سوز نہاں نذر کروں
کوئی قاتل سر مقتل نظر آتا ہی نہیں
کس کو دل نذر کروں اور کسے جاں نذر کروں
اپنی لاش آپ اٹھانا کوئی آسان نہیں
دست و بازو مرے ناکارہ ہوئے جاتے ہیں
راہ میں ٹوٹ گئے پاؤں تو معلوم ہوا
جُز مرے اور مرا راہ نما کوئی نہیں
——
نظم کے تاریخی اور سیاسی پس منظر کو کس خوبصورتی کے ساتھ ’پاؤں‘کے ایک استعارے سے ظاہر کیا ہے جس نے ایک عہد کی پوری سیاسی تاریخ کو اپنے اندر سمیٹ لیا ہے۔
اس سانحہ کے بعد کیفیؔ نے خود اپنا راستہ چن لیا۔ جو درمندی، غریب نوازی اور انسان دوستی کا راستہ تھا۔ اس جگہ سے ان کی شاعری میں ایک ٹھہراؤ آیا۔ ٹھہراؤ سے میری مراد ٹہر جانا یا جمود نہیں، وہ ایک باغی شاعر تھے اور ہمیشہ باغی شاعر رہے۔ یہ ضرور ہے کہ جس شورش اور بغاوت کی گھن گرج ان کے یہاں تھی اس میں کمی آئی۔ انسان، زندگی اور اس کے مسائل پر انھوں نے نئی طرح سوچنا شروع کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : چرواہا
——
اب تک ان کے نظریات ایک بڑے عالمی سیاسی نظریے کا حصہ تھے لیکن اب ان کے نظریات ان کے اپنے تھے۔ ’’جز مرے اور مرا راہ نما کوئی نہیں‘‘ اس لیے محبت، امن، انصاف، سماجی نابرابری اور فرقہ واریت کے خلاف وہ آخر وقت ک جنگ کرتے رہے اور دوسروں کو اپنے ساتھ چلانے کی کوشش کرتے رہے ؏
——
کبھی آگے کبھی پیچھے کوئی رفتار ہے یہ
ہم کو رفتار کا آہنگ بدلنا ہوگا
ذہن کے واسطے سانچے تو نہ بدلے گی حیات
ذہن کو آپ ہی ہر سانچے میں ڈھلنا ہوگا
یہ بھی جلنا کوئی جلنا ہے کہ شعلہ نہ دھواں
اب جلادیں گے زمانے کو جو جلنا ہوگا
راستے گھوم کے سب جاتے ہیں منزل کی طرف
ہم کسی رخ سے چلیں ساتھ ہی چلنا ہوگا
——
کیفیؔ انسانی درمندی کے ساتھ امید اور رجائیت کے شاعر ہیں۔ وہ جنگ یا فسادات سے افسردہ ہوجاتے ہیں۔ خواہ وہ فلسطین کی جنگ ہو، اجودھیا میں مسجد کے ڈھائے جانے اور اس کے بعد فرقہ وارانہ خون خرابے کا واقعہ ہو یا دلتوں پر مظالم کا، ہر ایسے موقع پر کیفیؔ پہلے زخم خوردہ انسان نظر آتے ہیں، کبھی وہ حضرت عیسیٰ سے کہتے ہیں ؏
——
جاؤ اک بار پھر ہمارے لیے
تم کو چڑھنا پڑے گا سولی پر
——
اور کبھی رام چندر جی کے دوسرے بن باس کا ذکر کرتے ہیں لیکن اس مایوسی کی تاریک فضا میں ان کی امید کا دیا ہمیشہ روشن رہتا ہے۔
کیفیؔ وہ شاعر ہیں جو نفرت، عداوت، ظلم، مذہبی تنگ نظری اور فرقہ واریت کے خلاف ہمیشہ لڑتا رہا۔ آج بار بار ان کی نظم دوسرا طوفان کے یہ مصرعے ذہن میں گونجنے لگتے ہیں ؏
——
اک مجاہد ادیب
زندگی کے لیے
جو مشیّت سے لڑتا رہا
لڑتے لڑتے وہ اک روز چپ ہوگیا
اپنے ہی اک صحیفہ سے منہ ڈھاپ کر سو گیا
لیکن اس کا قلم
——
لڑرہا ہے اسی ڈھنگ سے آج تک
چل رہا ہے اسی رنگ سے آج تک
گاہ اِس ہاتھ میں
گاہ اُس ہاتھ میں
——
کیفیؔ کا قلم بھی اسی طرح چلتا رہے گا اور ناانصافی اور تنگ نظری کے خلاف لڑتا رہے گا۔
——
منتخب کلام
——
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
——
بس اک جھجک ہے یہی حال دل سنانے میں
کہ تیرا ذکر بھی آئے گا اس فسانے میں
——
انساں کی خواہشوں کی کوئی انتہا نہیں
دو گز زمیں بھی چاہیئے دو گز کفن کے بعد
——
رہنے کو سدا دہر میں آتا نہیں کوئی
تم جیسے گئے ایسے بھی جاتا نہیں کوئی
——
گر ڈوبنا ہی اپنا مقدر ہے تو سنو
ڈوبیں گے ہم ضرور مگر ناخدا کے ساتھ
——
اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں
——
پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو تھا
جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہوگا
——
لائی پھر اک لغزش مستانہ تیرے شہر میں
پھر بنیں گی مسجدیں مے خانہ تیرے شہر میں
آج پھر ٹوٹیں گی تیرے گھر کی نازک کھڑکیاں
آج پھر دیکھا گیا دیوانہ تیرے شہر میں
جرم ہے تیری گلی سے سر جھکا کر لوٹنا
کفر ہے پتھراؤ سے گھبرانا تیرے شہر میں
شاہ نامے لکھے ہیں کھنڈرات کی ہر اینٹ پر
ہر جگہ ہے دفن اک افسانہ تیرے شہر میں
کچھ کنیزیں جو حریم ناز میں ہیں باریاب
مانگتی ہیں جان و دل نذرانہ تیرے شہر میں
ننگی سڑکوں پر بھٹک کر دیکھ جب مرتی ہے رات
رینگتا ہے ہر طرف ویرانہ تیرے شہر میں
——
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں
تو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گن کے بتا
مری طرح ترا دل بے قرار ہے کہ نہیں
وہ پل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
اس ایک پل کا تجھے انتظار ہے کہ نہیں
تری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو
تجھے بھی اپنے پہ یہ اعتبار ہے کہ نہیں
——
تم اتنا جو مسکرا رہے ہو
کیا غم ہے جس کو چھپا رہے ہو
آنکھوں میں نمی ہنسی لبوں پر
کیا حال ہے کیا دکھا رہے ہو
بن جائیں گے زہر پیتے پیتے
یہ اشک جو پیتے جا رہے ہو
جن زخموں کو وقت بھر چلا ہے
تم کیوں انہیں چھیڑے جا رہے ہو
ریکھاؤں کا کھیل ہے مقدر
ریکھاؤں سے مات کھا رہے ہو
——
اتنا تو زندگی میں کسی کے خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کل پڑے
جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک
یوں دوسرا ہنسے تو کلیجہ نکل پڑے
اک تم کہ تم کو فکر نشیب و فراز ہے
اک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے
ساقی سبھی کو ہے غم تشنہ لبی مگر
مے ہے اسی کی نام پہ جس کے ابل پڑے
مدت کے بعد اس نے جو کی لطف کی نگاہ
جی خوش تو ہو گیا مگر آنسو نکل پڑے
——
جو وہ مرے نہ رہے میں بھی کب کسی کا رہا
بچھڑ کے ان سے سلیقہ نہ زندگی کا رہا
لبوں سے اڑ گیا جگنو کی طرح نام اس کا
سہارا اب مرے گھر میں نہ روشنی کا رہا
گزرنے کو تو ہزاروں ہی قافلے گزرے
زمیں پہ نقش قدم بس کسی کسی کا رہا
——
نظم : کوئی یہ کیسے بتائے
کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے
وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے
یہی دنیا ہے تو پھر ایسی یہ دنیا کیوں ہے
یہی ہوتا ہے تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے
اک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن
ان کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن
اتنی قربت ہے تو پھر فاصلہ اتنا کیوں ہے
دل برباد سے نکلا نہیں اب تک کوئی
اس لٹے گھر پہ دیا کرتا ہے دستک کوئی
آس جو ٹوٹ گئی پھر سے بندھاتا کیوں ہے
تم مسرت کا کہو یا اسے غم کا رشتہ
کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رشتہ
ہے جنم کا جو یہ رشتہ تو بدلتا کیوں ہے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ