اب دوڑنا محال ہے ، بس لیٹ جائیے

عمرِ گریز پاء تو بہت دور جا چکی

رقاصہِ جنون کہ تھکنے لگی ہے اب

یوں بھی تماش بین کبھی کے گنوا چکی

بھٹکی ہوئی سحر کوئی دستک بھی دے اگر

کہیے گا "​ معذرت "​ ، کہ ہمیں نیند آ چکی

لگتا ہے جان بخش ہی دے گی حیات اب

جی بھر کے یوں بھی دل کو تماشہ بنا چکی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ہے داستان فقط ساتویں سمندر تک

یہ واقعہ ہے مگر آٹھویں سمندر کا جہانِ شوق کی معلوم سرحدوں سے پرے مہیب دھند میں ڈر آٹھویں سمندر کا سفینے سو گئے موجوں میں بادباں اوڑھے کھلا ہے بعد میں در آٹھویں سمندر کا وہ سند باد جہازی ہوں جس کو ہے درپیش قضاء کے ساتھ سفر آٹھویں سمندر کا

آج پھر سے دلِ مرحوم کو محسوس ہوا

ایک جھونکا سا کوئی تازہ ہوا کا جیسے مہرباں ہو کے جھلستے ہوئے تن پر اترا سایہِ ابر ، کہ سایہ ہو ہُما کا جیسے نرم لہجے میں مرے نام کی سرگوشی سی زیرِ لب ورد ، عقیدت سے دعا کا جیسے ہاتھ جیسے کوئی رخسار کو سہلاتا ہو دل نے محسوس کیا لمس بقا […]