اک تحفۂ نو سوئے حرم لے کے چلے ہیں
پہلو میں محبت کا صنم لے کے چلے ہیں
صحرا میں کہاں پرتوِ اندازِ گلستاں
خود اپنی نگاہوں کا بھرم لے کے چلے ہیں
کیا حال ہے دل کا اسے اب کون بتائے
محفل سے تری دیدۂ نم لے کے چلے ہیں
کانٹوں کا گلہ کیا ہے کہ ہم راہِ طلب میں
اک دشتِ بلا زیرِ قدم لے کے چلے ہیں
ہر جُنبشِ پا کاشفِ اسرارِ جہاں ہے
ہم جب بھی چلے ساغرِ جم لے کے چلے ہیں
سرمایۂ دل ، جنسِ وفا ، خوابِ تمنا
کیا کیا سرِ بازارِ ستم لے کے چلے ہیں
آئی ہے کسی جلوۂ گہِ ناز کی پھر یاد
بھولے ہوئے کچھ قول و قسم لے کے چلے ہیں
منزل پہ پہنچ کر عجب افتاد پڑی ہے
اک قافلۂ یاس و الم لے کے چلے ہیں
کام آئی نہ تدبیر کوئی اہلِ وفا کی
آخر وہی تقدیر کا غم لے کے چلے ہیں
سوزِ غمِ الفت کہ سحرؔ سوزِ غمِ دہر
ہر سوز پئے لوح و قلم لے کے چلے ہیں