اک تحفۂ نو سوئے حرم لے کے چلے ہیں

پہلو میں محبت کا صنم لے کے چلے ہیں

صحرا میں کہاں پرتوِ اندازِ گلستاں

خود اپنی نگاہوں کا بھرم لے کے چلے ہیں

کیا حال ہے دل کا اسے اب کون بتائے

محفل سے تری دیدۂ نم لے کے چلے ہیں

کانٹوں کا گلہ کیا ہے کہ ہم راہِ طلب میں

اک دشتِ بلا زیرِ قدم لے کے چلے ہیں

ہر جُنبشِ پا کاشفِ اسرارِ جہاں ہے

ہم جب بھی چلے ساغرِ جم لے کے چلے ہیں

سرمایۂ دل ، جنسِ وفا ، خوابِ تمنا

کیا کیا سرِ بازارِ ستم لے کے چلے ہیں

آئی ہے کسی جلوۂ گہِ ناز کی پھر یاد

بھولے ہوئے کچھ قول و قسم لے کے چلے ہیں

منزل پہ پہنچ کر عجب افتاد پڑی ہے

اک قافلۂ یاس و الم لے کے چلے ہیں

کام آئی نہ تدبیر کوئی اہلِ وفا کی

آخر وہی تقدیر کا غم لے کے چلے ہیں

سوزِ غمِ الفت کہ سحرؔ سوزِ غمِ دہر

ہر سوز پئے لوح و قلم لے کے چلے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]