اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعرہ زہرا نگاہ کا یوم پیدائش ہے

زہرا نگاہ(پیدائش: 14 مئی، 1937ء)
——
محترمہ زہرا نگاہ 14 مئی، 1937ء حیدرآباد دکن، برطانوی ہندوستان میں علمی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔
ان کا اصل نام فاطمہ زہرہ ہے۔ آپ کے والد قمر مقصود کا شمار بدایوں کے ممتاز لوگوں میں ہوتا ہے۔ جبکہ مشہور ڈراما نویس فاطمہ ثریا بجیا آپ کی بڑی بہن اور مقبول عام ہمہ جہت رائٹر انور مقصود بھائی ہیں۔
زہرا نگاہ کا خاندان تلاش معاش میں حیدر آباد دکن میں آباد ہو گیا۔ تقسیم ہند کے بعد زہرا نگاہ اپنے خاندان کے ساتھ حیدر آباد دکن سے ہجرت کر کے کراچی آ گئیں اور یہیں پر اپنی تعلیم مکمل کی۔
زہرا نگاہ کو شعر و سخن کا ذوق ورثہ میں ملا۔ اس لیے آپ نے صرف گیارہ سال کی عمر میں ایک نظم گڑیا گڈے کی شادی لکھی۔ زہرا نگاہ نے جگر مراد آبادی کو اصلاح کی غرض سے ابتدائی کلام دکھایا مگر جگر مراد آبادی نے یہ کہہ کر اصلاح سے انکار کر دیا کہ تمہارا ذوقِ مستحسن خود ہی تمہارے کلام کی اصلاح کر دے گا۔
——
یہ بھی پڑھیں : قیوم نظر کا یومِ پیدائش
——
اعزازات
——
حکومت پاکستان نے ان کی خدمات کے صلے میں صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی کا اعزاز عطاکیا۔
——
تصانیف
——
شام کا پہلا تارا
ورق
مجموعہ کلام (کلیات)
فراق
——
زہرا نگاہ از فیض احمد فیض
——
برسوں پہلے جب ہم نے زہراؔ کو سنا تب تبھی مشاعرے کے نقار خانے میں ان کا طُوطی بول رہا تھا لیکن ان کے مداح انہیں داد کچھ اس طرح کے الفاظ میں دیا کرتے تھے کہ یہ منخنی سی لڑکی ایسا عمدہ کلام کیسے کہہ سکتی ہے ؟ ضرور کوئی بزرگ لکھ کر دیتے ہوں گے ۔
اگر ان خیالی بزرگ کا کوئی وجود ہوتا اور وہ اب تک بقید حیات ہوتے تو نجانے سن کر خوش ہوتے یا آزردہ کہ یہی صاحبزادی ان سے کس درجہ بہتر شعر کہنے لگی ہیں ۔
ویسے زہراؔ کا ابتدائی کلام دیکھیے تو ان حضرات کا یہ گمان کچھ ایسا بے جا بھی نہیں تھا ۔ مثلاََ :
——
یہ کیا ستم ہے کوئی رنگ و بو نہ پہچانے
بہار میں بھی رہے بند تیرے میخانے
——
کہاں کے عشق و محبت ، کدھر کے ہجر و وصال
ابھی تو لوگ ترستے ہیں زندگی کے لیے
——
ترا خیال فروزاں ہے دیکھیے کیا ہو
خموش گردشِ دوراں ہے دیکھیے کیا ہو
——
ہم جو پہنچے تو رہگزر ہی نہ تھی
تم جو آئے تو منزلیں لائے
——
یہ ابتدائی کلام غزلوں کی صورت میں ہے جس میں غزل کی تمام خوبیاں سہی مگر ایک نو عمر حساس لڑکی کی اپنی شخصیت کا سراغ مشکل سے ملتا ہے ۔
مشاعرہ لوٹنے کے بہت سے مجرب اور آزمودہ نسخے پہلے سے موجود ہیں جو زہراؔ نے چھوٹی عمر میں سیکھ لیے تھے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : سیادتوں کا حسیں انتخاب ہیں زہرا
——
اور اگر ایسا نہ بھی ہوتا تو اسے لحن کا ایسا گداز عطا ہوا ہے جو اپنی اپنی جگہ زہراؔ کو مشاعرہ اسٹار بنانے کے لیے کافی تھا لیکن زہراؔ اس مشاعرانہ دور سے بہت جلد گزر گئیں اور جس سُرعت سے یہ نسخے یاد کیے تھے اسی عجلت میں انہیں بھول گئیں اور پھر اگلے دور میں قدم رکھتے ہوئے جسے شاید رومانوی واقعیت کا دور کہہ سکتے ہیں اس کے مرحلہ ہائے ہنر بھی اتنی ہی جلدی طے کر لیے :
——
دل بجھنے لگا آتشِ رخسار کے ہوتے
تنہا نظر آتے ہیں غمِ یار کے ہوتے
——
ہمیں تو عادتِ زخمِ سفر ہے کیا کہیے
یہاں پہ راہِ وفا مختصر ہے کیا کہیے
حکایتِ غمِ دنیا طویل تھی کہہ دی
حکایتِ غمِ دل مختصر ہے کیا کہیے
——
رُک جا ہجومِ دل کہ ابھی حوصلہ نہیں
دل سے خیالِ تنگیِ داماں گیا نہیں
——
رومانوی واقعیت کا یہ دور زہراؔ کی نظم کا آغاز بھی ہے :
——
آج پھر حلقہ بگوشوں میں اٹھا ہے کچھ شور
کوئی ہم جیسوں پہ مائل بہ کرم ہے شاید
——
ہم ہیں ٹھکرائے ہوئے اپنی تمناؤں کے
اک نظر پائیں تو افسانہ بنا لیتے ہیں
کوئی کرتا ہے اگر پیار بھری بات تو ہم
شہر کے شہر ستاروں سے سجا دیتے ہیں
——
آنگن ، متاع الفاظ ، دلاسا بھی اسی دور میں شامل ہیں ۔ اس دور کی شاعری میں آپ بیتی کے خونِ جگر کی نمود اور جگ بیتی کی پرچھائیوں کا وجود روایت اور ایجاد دونوں کے تلازمے کچھ اس صناعی سے یکجا ہوئے ہیں کہ اگر زہراؔ اسی پر اکتفا کر لیتیں جب بھی جریدۂ سخن پر ان کا نقش یقیناََ دوام حاصل کر لیتا ۔
لیکن اب تو انہوں نے ستاروں بھرے شہر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے اور اس رنگ کو تج کر ایک بالکل نیا اسلوب اختیار کیا ہے اور اس کی طاقت سے اپنے موضوعِ سخن میں بہت کچھ ترمیم کر لی ہے ۔
اس کلام میں روزمرہ زندگی کے جذباتی معاملات بھی ہیں جنہیں زہراؔ صنفِ نازک کی شاعری کہتی ہیں ، جیسے ملائم گرم سمجھوتے کی چادر ، قصیدۂ بہار ، نیا گھر ، علی اور نعمان کے نام ، سیاسی واقعات کے تاثرات بھی ۔ وہ وعدہ بھی جو انسانوں کی تقدیر میں لکھا ہے اور محض تغزل بھی ۔ ان منظومات میں نہ جدیدیدیت کے غیر شاعرانہ جذبات کا کوئی پرتو ہے نہ رومانویت کی شاعرانہ آرائش پسندی کا کوئی دخل ہے ۔ روایتی نقش و نگار اور آرائشی رنگ روغن کا سہارا لیے بغیر دل لگتا ہوا شعر کہنا بہت دل گردے کا کام ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : گل رسول کی زینت حسین ابن علی
——
تشبیہہ و استعارے سے عاری ایک آدھ بلیغ مصرع جس سے پوری نظم کا سراپا جھلملانے لگے اس کی سب سے اچھی مثال زہراؔ کی نظم ” شام کا پہلا تارا ” ہے جو دو انسانوں کی مدارات کے لیے وقت سے پہلے بھی نکل آتا ہے اور پھر انہی دونوں کے دکھ میں شرکت کے لیے
شب بھر جاگتا بھی ہے :
——
جس نے ہمیں ہنس کر دیکھا تھا
وہ پہلا دوست ہمارا تھا
وہ شام کا پہلا تارا تھا
جو شاید ہم دونوں کے لیے
کچھ وقت سے پہلے نکلا تھا

جس نے ہمیں دکھ سے دیکھا تھا
وہ پہلا دوست ہمارا تھا
وہ شام کا پہلا تارا تھا
جو شاید ہم دونوں کے لیے
اس رات سحر تک جاگا تھا
——
یا پھر گل چاندنی کا وہ پیڑ جس کا پھیلاؤ گھر کے آنگن کے علاوہ صحنِ جسم و جاں تک ہے :
——
اس صحنِ جسم و جاں میں بھی
گل چاندنی کا پیڑ ہے
سب پھول میرے ساتھ ہیں
پتے مرے ہمراز ہیں
اس پیڑ کا سایہ مجھے
اب بھی بہت محبوب ہے
اس کے تنے میں آج تک
آسیب وہ محصور ہے
——
یا پھر بظاہر ایک بالکل ذاتی بات جس میں کسی پورے طبقے یا معاشرے کی واردات سمٹ آئے :
——
میں تو اپنے آپ کو اس دن بہت اچھی لگی
وہ جو تھک کر دیر سے آیا اسے کیسا لگا
——
ایک خیالی تمثیل جو کسی اہم قومی یا سیاسی المیے کی تفسیر بھی ہے :
——
مرے بچے
کہانی میں تھکی ہاری جو لڑکی تھی
وہ شہزادی نہیں میں تھی
وہ جادو کا محل جو ایک پل میں جل کے صحرا ہو گیا تھا
وہ مرا گھر تھا
——
یا ایسی غزل جس کے بظاہر بے رنگ الفاظ محض خلوص جذبہ سے لو دینے لگیں :
——
برسوں ہوئے تم کہیں نہیں ہو
آج ایسا لگا یہیں کہیں ہو
——
یہ کلام پنجابی اصطلاح میں بالکل ” نخالص ” شاعری ہے جو غالباََ شاعری کا منتہی مقام ہے ۔ زہراؔ کی شاعری آج کل اسی مقام پہ ہے ۔
——
فیض احمد فیض ، بیروت ، 1980 ء
——
منتخب کلام
——
قید میں باخبر رہے ہم لوگ
چشمِ زنجیر کو کُھلا رکھا
——
حاکم دیے جاتے ہیں احکامِ فلاطونی
جب لفظ ہوں بے حرمت ، آدابِ اطاعت کیا ؟
——
دیوانوں کو اب وسعتِ صحرا نہیں درکار
وحشت کے لیے سایۂ دیوار بہت ہے
——
رہوار زیست سُست ہوا وقت تیز رو
زہرا نگاہ تم بھی چلو شام ہو گئی
——
کیسے کیسے صاحبِ ثروت بکنے کو تیار ہوئے
جتنے کوچے تھے بستی کے سب کے سب بازار ہوئے
کیسی دعائیں ، کیسی صدائیں ، جوگی ، چیلے ، پیر فقیر
تکیے خالی کر کے بھاگے ، شہر کے قصے دار ہوئے
——
رک جا ہجوم گل کہ ابھی حوصلہ نہیں
دل سے خیال تنگی داماں گیا نہیں
——
تاروں کو گردشیں ملیں ذروں کو تابشیں
اے رہ نورد راہ جنوں تجھ کو کیا ملا
——
وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے
کچھ لوگ بکھر کر بھی تماشا نہیں ہوتے
——
لو ڈوبتوں نے دیکھ لیا ناخدا کو آج
تقریب کچھ تو بہر ملاقات ہو گئی
——
ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی
دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی
——
رشتے سے محافظ کا خطرہ جو نکل جاتا
منزل پہ بھی آ جاتے نقشہ بھی بدل جاتا
اس جھوٹ کی دلدل سے باہر بھی نکل آتے
دنیا میں بھی سر اٹھتا اور گھر بھی سنبھل جاتا
ہنستے ہوئے بوڑھوں کو قصے کئی یاد آتے
روتے ہوئے بچوں کا رونا بھی بہل جاتا
کیوں اپنے پہاڑوں کے سینوں کو جلاتے ہم
خطرہ تو محبت کے اک پھول سے ٹل جاتا
اس شہر کو راس آئی ہم جیسوں کی گم نامی
ہم نام بتاتے تو یہ شہر بھی جل جاتا
وہ ساتھ نہ دیتا تو وہ داد نہ دیتا تو
یہ لکھنے لکھانے کا جو بھی ہے خلل جاتا
——
بھولی بسری یادوں کو لپٹائے ہوئے ہوں
ٹوٹا جال سمندر پر پھیلائے ہوئے ہوں
وحشت کرنے سے بھی دل بیزار ہوا ہے
دشت و سمندر آنچل میں سمٹائے ہوئے ہوں
وہ خوشبو بن کر آئے تو بے شک آئے
میں بھی دست صبا سے ہاتھ ملائے ہوئے ہوں
ٹوٹے پھوٹے لفظوں کے کچھ رنگ گھلے تھے
ان کی مہندی آج تلک بھی رچائے ہوئے ہوں
جن باتوں کو سننا تک بار خاطر تھا
آج انہیں باتوں سے دل بہلائے ہوئے ہوں
——
وحشت میں بھی منت کش صحرا نہیں ہوتے
کچھ لوگ بکھر کر بھی تماشا نہیں ہوتے
جاں دیتے ہیں جاں دینے کا سودا نہیں کرتے
شرمندۂ اعجاز مسیحا نہیں ہوتے
ہم خاک تھے پر جب اسے دیکھا تو بہت روئے
سنتے تھے کہ صحراؤں میں دریا نہیں ہوتے
اک تار گریباں کا رہے دھیان کہ سب لوگ
محفل میں تو ہوتے ہیں شناسا نہیں ہوتے
——
دل بجھنے لگا آتش رخسار کے ہوتے
تنہا نظر آتے ہیں غم یار کے ہوتے
کیوں بدلے ہوئے ہیں نگۂ ناز کے انداز
اپنوں پہ بھی اٹھ جاتی ہے اغیار کے ہوتے
ویراں ہے نظر میری ترے رخ کے مقابل
آوارہ ہیں غم کوچۂ دل دار کے ہوتے
اک یہ بھی ادائے دل آشفتہ سراں تھی
بیٹھے نہ کہیں سایۂ دیوار کے ہوتے
جینا ہے تو جی لیں گے بہر طور دوانے
کس بات کا غم ہے رسن و دار کے ہوتے
——
شام کا پہلا تارا
——
جب جھونکا تیز ہواؤں کا
کچھ سوچ کے دھیمے گزرا تھا
جب تپتے سورج کا چہرہ
اودی چادر میں لپٹا تھا
جب سوکھی مٹی کا سینہ
سانسوں کی نمی سے جاگا تھا
ہم لوگ اس شام اکٹھے تھے
جس نے ہمیں ہنس کر دیکھا تھا
وہ پہلا دوست ہمارا تھا
وہ شام کا پہلا تارا تھا
جو شاید ہم دونوں کے لئے
کچھ وقت سے پہلے نکلا تھا
جب جھلمل کرتا وہ کمرہ
سگرٹ کے دھوئیں سے دھندلا تھا
جب نشۂ مے کی تلخی سے!
ہر شخص کا لہجہ میٹھا تھا
ہر فکر کی اپنی منزل تھی
ہر سوچ کا اپنا رستہ تھا
ہم لوگ اس رات اکٹھے تھے
اس رات بھی کیا ہنگامہ تھا
میں محو مدارات عالم
اور تم کو ذوق تماشا تھا
موضوع سخن جس پر ہم نے
رائے دی تھی اور سوچا تھا
دنیا کی بدلتی حالت تھی
کچھ آب و ہوا کا قصہ تھا
جب سب لوگوں کی آنکھوں میں
کمرے کا دھواں بھر آیا تھا
تب میں نے کھڑکی کھولی تھی!
تم نے پردہ سرکایا تھا
جس نے ہمیں دکھ سے دیکھا تھا
وہ پہلا دوست ہمارا تھا
وہ شام کا پہلا تارا تھا
جو شاید ہم دونوں کے لئے
اس رات سحر تک جاگا تھا
وہ شام کا پہلا تارا تھا
——
زہرا نگاہ کا مجموعۂ کلام فراق ڈاؤنلوڈ کرنے کے لیے نیچے کلک کریں
——
فراق از زہرا نگاہ
——
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ