شہرِ بطحا کی یاد آتی ہے

مجھ کو ہر پل بڑا رُلاتی ہے

کاش! مِل جائے اِذن طیبہ کا

آرزُو ہے کہ بڑھتی جاتی ہے

اِس طرف بھی کرم کی ایک نظر

غَم کی دُنیا مجھے ستاتی ہے

عیب کاری میں مُبتلا ہے جاں

ہائے! راحت کہیں نہ پاتی ہے

قبر وحشت کی جا ہے کیا ہو گا

فکر جاں لیوا ہے، ڈراتی ہے

دُور بیٹھا ہوں جو مدینے سے

ہائے! ہائے! یہ عیب ذاتی ہے

لاج رکھیں گے حشر میں آقا

یہی اُمید ڈر مِٹاتی ہے

اب تو آ جائیں دِل کی دھڑکن بھی

آپ کو ہر گھڑی بُلاتی ہے

اِس لیے مانگتا ہوں رحمت ہی

اُن کی رحمت سدا نِبھاتی ہے

نعت کہنا رضاؔ عقیدت سے

یہ مِری ماں مجھے سکھاتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]