شہرِ بطحا کی یاد آتی ہے
مجھ کو ہر پل بڑا رُلاتی ہے
کاش! مِل جائے اِذن طیبہ کا
آرزُو ہے کہ بڑھتی جاتی ہے
اِس طرف بھی کرم کی ایک نظر
غَم کی دُنیا مجھے ستاتی ہے
عیب کاری میں مُبتلا ہے جاں
ہائے! راحت کہیں نہ پاتی ہے
قبر وحشت کی جا ہے کیا ہو گا
فکر جاں لیوا ہے، ڈراتی ہے
دُور بیٹھا ہوں جو مدینے سے
ہائے! ہائے! یہ عیب ذاتی ہے
لاج رکھیں گے حشر میں آقا
یہی اُمید ڈر مِٹاتی ہے
اب تو آ جائیں دِل کی دھڑکن بھی
آپ کو ہر گھڑی بُلاتی ہے
اِس لیے مانگتا ہوں رحمت ہی
اُن کی رحمت سدا نِبھاتی ہے
نعت کہنا رضاؔ عقیدت سے
یہ مِری ماں مجھے سکھاتی ہے