اردوئے معلیٰ

Search

صاحبو زندگی بس اک سر مستی کے عالم میں گزرتی جاتی ہے ۔ پوری رات چھت پہ لگے مصنوعی تارے گنتے گزرتی ہے ۔ گنتی ابھی دو تک ہی پہنچی ہوتی ہے کہ ہم تھک سے جاتے ہیں ۔ دنیا ایک کمرے میں سمٹ سی گئی ہے ۔ سرہانے پانی کی بوتل کئی کئی دن دھری رہتی ہے کہ پینے پلانے کے کام کو ہم معیوب خیال کرتے ہیں ۔ ساون آئے پون لہرائے کوئل کوکے یا کرلائے ہم ان کھکیڑوں سے کوئی لینا دینا نہیں ۔ ہم اپنے بستر پہ براجمان کبھی پنکھے کو دیکھ لیتے ہیں کبھی الماری کو ۔
ان دو چیزوں کو دیکھنے سے آنکھیں تھک سی جاتی ہیں اب بھلا دیکھنے کی ایسی مشقت کون کرے ۔
آنکھیں موندتے ہی نیند آ لیتی ہے ۔ اور یقین جانیے خواب دیکھنا بھی کارِ دشوار است ۔۔۔
بھلا کہاں خوابوں کے پیچھے خوار ہونگے ۔ جانے دیتے ہیں ۔
بستر پہ کروٹ لیتے سوچتے ہیں یہ کروٹ لینی بھلا کس نے ایجاد کی ہو گی کیسامشکل کام ہے بھلا ۔
صاحب نے کہا بیگم کچھ کام کاج ہی کر لیا کریں سارا دن کرتی کیا ہیں ۔
سہیلیو ! خدا لگتی کہو آج کے زمانے کے میاں کیا کبھی کسی بیگم سے راضی ہوئے ہیں جو ہمارے صاحب ہم سے ہو جائیں۔ نہ کسی کی اچھائی نہ برائی ۔ نہ اونچ نہ نیچ۔ ایک خاموش مرنجانِ مرنج بیوی سے بھی اگر وہ راضی نہ ہوئے تو جان رکھیے کہ انکی عاقبت کوشدید خطرات لاحق ہیں ۔
اب ایسےناعاقبت اندیش کی باتوں پہ کیا دل برا کرنا ۔ ہم دوبارہ سے لیٹ رہتے ہیں۔ نیندآجاتی ہے اونگھ لیتے ہیں۔ آنکھ کھل جائے تو پھر سے سو رہتے ہیں ۔
والدہ محترمہ کوتشویش ہے کہ دختر نیک اختر نے ضرور کسی نشے کی لت پال لی ہے ۔بھلا ایسا کون سوتا ہے ۔مہینہ گزرا نیند نہ پوری ہو پائی۔
کوئی فون کرے تو ہوں ہوں میں ٹال دیا ۔ اب بھلا منہ کون ہلائے ۔ کہ اس میں لگتی ہے محنت زیادہ ۔
اب یہ جو لکھ لیا تو تھکاوٹ کے مارے بخار ہی ہوگیا ۔ اورنیندسے آنکھیں بند ہوئی جاتی ہیں ۔
اب اجازت ۔
پتا نہیں دنیا کس کھکیڑ میں الجھی پڑی ہے ۔ ہماری تو نیند کم بخت پوری نہیں ہوتی۔
والسلام

یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ