منبروں اور مسجدوں سے پرے

کوئی مسلک ہو سرحدوں سے پرے

اک حقائق کی نرتکی اب تک

رقص کرت ہے معبدوں سے پرے

ہم ہیں مدفون اک حکایت میں

مقبروں اور مرقدوں سے پرے

گونجتا تھا مہیب سناٹا

ضبط کی آخری حدوں سے پرے

تیرگی اوڑھ کر چلا آیا

دل ، محبت کے شبکدوں سے پرے

مرگ کے معجزوں کی سرحد ہے

عشق کے چند شعبدوں سے پرے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]