مُہر غلامی کی میں پاؤں گا مدینے سے

میں بن کے آؤں گا انساں نیا مدینے سے

جو عطر ہے وہ پسینہ مرے حضورؐ کا ہے

گلوں نے رنگ لیا تو لیا مدینے سے

مرے کریم نے اس طرح مہربانی کی

سو اذن نعت کا مجھ کو ملا مدینے سے

بروزِ حشر مری جب تلاش کی جائے

خدا کرے کہ ملے یہ گدا مدینے سے

ندا یہ آئی جو پہلو میں دل کو ڈھونڈا تو

میں ہو کے آیا ٹھہر بس ذرا مدینے سے

مجھے گماں ہے میں جنت تلک ہوں آ پہنچا

مجھے جو ڈھونڈو اٹھاؤ کُھرا مدینے سے

اِدھر اُدھر نہ بھٹک عشق کا مرض لے کر

کہ دردِ دل کی ملے گی شِفا مدینے سے

یہ جسم ہے تو ہے گنتی کے کچھ برس زندہ

ملے گی روح کی تم کو بقا مدینے سے

خدا ملے گا رسولِ خدا کی نسبت سے

بہشت جاؤں گا ہو کر عطا مدینے سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]