مُہر غلامی کی میں پاؤں گا مدینے سے
میں بن کے آؤں گا انساں نیا مدینے سے
جو عطر ہے وہ پسینہ مرے حضورؐ کا ہے
گلوں نے رنگ لیا تو لیا مدینے سے
مرے کریم نے اس طرح مہربانی کی
سو اذن نعت کا مجھ کو ملا مدینے سے
بروزِ حشر مری جب تلاش کی جائے
خدا کرے کہ ملے یہ گدا مدینے سے
ندا یہ آئی جو پہلو میں دل کو ڈھونڈا تو
میں ہو کے آیا ٹھہر بس ذرا مدینے سے
مجھے گماں ہے میں جنت تلک ہوں آ پہنچا
مجھے جو ڈھونڈو اٹھاؤ کُھرا مدینے سے
اِدھر اُدھر نہ بھٹک عشق کا مرض لے کر
کہ دردِ دل کی ملے گی شِفا مدینے سے
یہ جسم ہے تو ہے گنتی کے کچھ برس زندہ
ملے گی روح کی تم کو بقا مدینے سے
خدا ملے گا رسولِ خدا کی نسبت سے
بہشت جاؤں گا ہو کر عطا مدینے سے