آج معروف شاعر عباس تابش کا یوم پیدائش ہے
عباس تابش ایسے خوش نصیب شاعر ہیں جنھوں نے اپنی زندگی میں ہی عروج،شہرت، عزت اور بے پناہ محبت کے سارے رنگ دیکھے ہیں اور وہ ان رنگوں کے سمندر میں پوری طرح غوطہ زن بھی ہیں۔ انہوں نے غزل میں جہاں اسلوب کو ایک نیا انداز دیا ہے وہاں موضوعات کی کشید میں بھی خود کو منوایا ہے۔ ان کے سامنے موضوعات ہاتھ باندھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے روایت سے ناتا جوڑ کر عصرِ رواں اور مستقبل کی غزل کے لیے راستے ہموار کر دیئے ہیں۔ انہوں نے خود کو لفظی بازی گری میں ضائع نہیں کیا بلکہ روایت سے پیوند کاری کرتے ہوئے ذائقہ دار پھل اور نئے نئے پھول دریافت کیے اور موضوعات میں نئے نئے رجحانات کو فروغ دیا ہے۔
اردو غزل کی تابناکی اور بے باکی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اس صنفِ شاعری نے ہر دور میں خود کو منوایا ہے۔اس کی مقبولیت اور فرضیت کے لیے ہر دور میں مختلف شعراء نے اپنی خدمات پیش کیں۔کوئی بھی عہد ہو، کوئی بھی دبستان ہو،اردو غزل نے اپنی روشنی سے کئی چہرے روشن اورکئی چہرے روشن تر کیے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ غزل کواپنی آبیاری اور نمو کے لیے ایسے ایسے سہارے ملے ہیں کہ جن کے دم سے اردو غزل، اصنافِ شاعری میں ایک معتبر صنف قرار پائی ہے۔ان میں ولیؔ ، میرؔ ، غالبؔ ، مومنؔ ،حسرتؔ ،اقبالؔ ،ناصرؔ اورمنیر نیازی سمیت درجنوں ایسے نام ہیں جن سے غزل کی آبرو ہے۔ ان بے مثال لوگوں نے اپنے اپنے عہد میں اردو غزل کی روایت کو مضبوط تر اور معتبر بنایا۔
——
یہ بھی پڑھیں : تابش دہلوی کا یوم پیدائش
——
۰۸ء کی دہائی میں بہت اہم نام عباس تابش کا ہے۔اردو شاعری میں ایسی مثالیں بہت کم کم ہیں کہ جب کسی شاعر کو اس کی زندگی میں ہی بے پناہ پذیرائی اور محبت ملتی ہے۔ایسانصیب بھی نصیب والوں کو نصیب ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی خود اپنا حوالہ بن جائے۔عباس تابش ایسے ہی خوش نصیب شاعر ہیں جنھوں نے اپنی زندگی میں ہی عروج،شہرت، عزت اور بے پناہ محبت کے سارے رنگ دیکھے ہیں اور وہ ان رنگوں کے سمندر میں پوری طرح غوطہ زن بھی ہیں۔
——
آدمی اب بھاگ کر جائے کہاں؟
شہر کے چاروں طرف بھی شہر ہے
——
عباس تابش ۵۱جون ۱۶۹۱ء کو میلسی میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام غلام عباس ہے اور ان کا تعلق راجپوت بھٹی گھرانے سے ہے۔عباس تابش کے آباؤ اجداد میں کوئی بھی شاعر یا ادیب نہ تھا،تاہم ان کے گھر میں علمی اور تاریخی کتب بینی کا رواج ان کے والد اور بڑے بھائی کی وجہ سے پایا جاتا تھا۔انھی کتابوں نے ان کے اندر کا شاعر جگایا۔عباس تابش نے ۵۷۹۱ء میں باقاعدہ شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔اس کے بعد ۱۸۹۱ء میں لاہور آئے تو یہ سلسلہ تاحال ،تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔۶۸۹۱ء میں ’’تمہید‘‘ کے نام سے ان کا پہلا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا۔اس کے بعد ’’آسمان‘‘ ، ’’ مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا‘‘ ، ’’ پروں میں شام ڈھلتی ہے‘‘ ، ’’رقصِ درویش‘‘ ، ’’ شجر تسبیح کرتے ہیں‘‘ اور کلیات ’’عشق آباد‘‘ شعری اور ادبی حلقوں سے دادوتحسین وصول کر رہے ہیں۔عباس تابش کی شاعری میں غزل کو ہی خاص مقام حاصل ہے۔اس ضمن میں افتخار عارف کا یہ کہنا ہے کہ:
’’ عباس تابش اردو غزل کی روایت کو ثروت مند بنانے والی نسل کے میرے نزدیک سب سے نمایاں شاعر ہیں۔ایک مکمل شاعر جو غزل کی کلاسیکی روایت کے دائروں میں رہتے ہوئے مضمونِ تازہ کی نئی راہیں نکالتا ہے اور غزل بہ غزل اور کتاب بہ کتاب بلندیوں کی طرف گام زن ہے۔ عباس تابش اپنی نسل کے مقبول ترین شاعروں میں ہیں۔‘‘
(۱)
عباس تابش نے غزل میں جہاں اسلوب کو ایک نیا انداز دیا ہے وہاں موضوعات کی کشید میں بھی خود کو منوایا ہے۔ ان کے سامنے موضوعات ہاتھ باندھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے روایت سے ناتا جوڑ کر عصرِ رواں اور مستقبل کی غزل کے لیے راستے ہموار کر دیئے ہیں۔
——
نئے سرے سے تعلق نہیں بنائیں گے ہم
جہاں سے ٹوٹ گیا تھا وہیں سے جوڑیں گے ہم
——
ہمارے جیسے وہاں کس شمار میں ہوں گے
کہ جس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے
——
انہوں نے خود کو لفظی بازی گری میں ضائع نہیں کیا بلکہ روایت سے پیوند کاری کرتے ہوئے ذائقہ دار پھل اور نئے نئے پھول دریافت کیے اور موضوعات میں نئے نئے رجحانات کو فروغ دیا ہے۔اس بات کی وضاحت ڈاکٹر اجمل نیازی اس طرح کرتے ہیں:
——
یہ بھی پڑھیں : سردار نقوی کا یوم پیدائش
——
’’عباس تابش نے شاعری کو رقصِ درویش بنا دیا ہے تو پھر یہ کچھ اور ہی شاعری ہے اور یہ شاعری سے آگے کی چیز ہے۔لفظ و خیال کی حکمرانی اور ہجرو وصال کی درویشی کے امتزاج سے شاعری کا جو مزاج بنا ہے اسے عباس تابش نے ایک ان دیکھی معراج پر پہنچا دیا ہے۔‘‘
(۲)
غزل جذب و خیال ،تنوع موضوعات کا حیرت کدہ اور جہانِ معنی کا آئینہ خانہ ہے۔ اس میں زندگی کی سی وسعت ہے ۔ جس طرح زندگی اپنے اندر تمام موسم ، رنگ، واقعات،جذبات، تحریکات، چہرے ، نظریے اور رویے سمو لینے پر قادر ہے اسی طرح غزل بھی ان سب عناصر کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔جس طرح زندگی کا ارتقائی سفر جاری رہتا ہے اسی طرح غزل بھی اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہے اور زندگی کے بدلتے مناظر اور مظاہر صنفِ غزل کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔ایسے تمام موضوعات، رنگ، موسم، مناظر اور مظاہر عباس تابش کی شاعری کی زینت ہیں۔
——
جب بن گیا تو اس کی دنیا مثال دے گی
تعمیر ہو رہا ہے ملبے سے گھر ہمارا
——
کب تمہیں عشق پہ مجبور کیا ہے ہم نے
ہم تو بس یاد دلاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
——
تصوف، عشق ومحبت، ہجرووصال، حسن و جمال، تنہائی و نارسائی،آشوبِ ذات، فطرت نگاری، تمثیل نگاری،سیاسی و سماجی حالات، تخیل اور خواب، حب الوطنی،موت و حیات کا فلسفہ، پرندے، ماں،انسانی عظمت، ہجرت اور اخلاقی قدریں ان کی غزل کا خاصہ ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے اکثر موضوعات عام لگیں لیکن عباس تابش کی شاعری میں یہ موضوعات تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند محسوس ہوتے ہیں۔انہوں نے بالخصوص تصوف اور عشق کو ’’ رَلا مِلا‘‘ دیا ہے اور اس امتزاج سے شاعری کو تابندگی بخشی ہے۔اس حوالہ سے ڈاکٹر ضیاء الحسن رقم طراز ہیں:
’’ عباس تابش کی شاعری میں شاعری، درویشی اور عشق ایک ہی کام ہے، یہی وجہ ہے کہ اُس کی شاعری میں انہی موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اُس نے ان بظاہر مختلف نظر آنے والے کاموں میں ایک تعلق تلاش کیا ہے۔‘‘
——
(۳)
اک چٹائی تھی مری ، ایک پیالہ تھا مرا
عام ہو کر بھی یہی خاص حوالہ تھا مرا
میں کہ نقصان کے مانند مِلا تھا خود کو
عشق کرنا ہی مری جان ازالہ تھا مرا
——
ان کی شاعری میں موضوعات کے رجحانات بدلتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شاعری کے سفر میں مشاہدے اور تجربے کو ہم سفر بنائے رکھتے ہیں اور ان کی شاعری میں ایک بھر پور تحریک ہے جو ہر قسم کا جمود توڑنے کے کام آتی ہے۔عباس تابش کی شاعری میں موضوعاتی تنوع اور خیال کی رنگا رنگی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔
——
عشق نے ظلم کمانے کی اجازت ہی نہ دی
ورنہ یہ شہرِ ستم ایک نوالہ تھا مرا
——
انہوں نے نرگسیت سے حیات شناسی تک کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے جس میں مظہریات اور جمالیات کو خاص مقام حاصل ہے۔انھوں نے علامت و استعارہ کا اک نیا جہان آباد کیا ہے جو ان کی خاص پہچان ہے۔ گھر، پیڑ اور پرندے ان کی محبوب و مرغوب علامتیں ہیں اور یہی علامتیں ان کی غزل کی پیامبر بھی ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : دہر کے اجالوں کا، جوبن آپ کے عارض
——
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
——
میرے اعصاب معطل نہیں ہونے دیں گے
یہ پرندے مجھے پاگل نہیں ہونے دیں گے
یار ! اک بار پرندوں کو حکومت دے دو
یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے
——
اس لیے میں نے درختوں سے اجازت مانگی
اچھا لگتا ہے مجھے اپنوں سے مل کر رونا
——
پھر اس کے بعد پھلوں میں مٹھاس آئی نہیں
شجر نے کام لیا تھا غلط بیانی سے
——
انہوں نے پیغام پہنچانے کا جو ڈھنگ اور قرینہ سیکھا ہے اس کو سلیقے کے ساتھ نبھایا بھی ہے۔ایک ہی خیال کو مختلف پہلوؤں میں بیان کرنے کا فن ہی دراصل ان کی انفرادیت ہے اور یہ انفرادیت ہی ان کی طاقت اور محبت ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے موضوعات قلب اور روح کی گہرائیوں میں اُتر کر اذہان کی تطہیرو تنویر کرکرتے ہیں جن میں اثر آفرینی کا اعجاز پوری طاقت سے موجود ہے۔
کوئی افواہ بھی آنگن میں اُتر سکتی ہے
یہ ضروری نہیں کھڑکی سے ہوا ہی آئے
ان کا یہ سلسلہ تاحال کامیابی سے جاری ہے۔ ان کے حوالہ سے جاوید اختر پاشا کا ایک جملہ ہی کافی ہے :
’’ عباس تابش ایک ازلی شاعر ہے جس میں ابدیت بھی پوشیدہ ہے۔‘‘
(۴)
اکثر و بیشتر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ ادبا و شعراء کو ان کا صحیح مقام ان کے قیدِ حیات سے آزاد ہونے کے بعد ملتا ہے لیکن ایک سچے تخلیق کار کا بروقت اعترافِ کمال بھی ایک نیکی ہے اور اس کو زندگی میں ہی پذیرائی ملنا چاہیے۔ عباس تابش بھی عصرِ حاضر کے جدید اور اہم ترین شاعر ہیں۔وہ ایسے خوش نصیب شاعرہیں کہ انہیں ان کی زندگی میں ہی عروج و پذیرائی حاصل ہے۔ کسی بھی محفل میں ان کو وجود طمانیت کا باعث ہوتا ہے۔ عباس تابش نے جس مہارت اور ضرورت کے تحت اپنے موضوعات سے نبھا کیا ہے وہ انھی کا خاصہ ہے۔ اردو جدید شاعری کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو عباس تابش کی غزل کو ایک مستند حوالہ کے طور پرپیش کیا جائے گا۔اس وقت بہت سے شعراء موجود ہیں جو اپنا مخصوص اسلوب اور اندازِ کلام رکھتے ہیں لیکن عباس تابش کو ان کی زندگی میں باقی ہم عصروں کے مقابلہ میں زیادہ پذیرائی ملی ہے تو یقینی بات ہے کہ وہ کسی خاص انفرادیت کے حامل ہوں گے ۔
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
——
وہ اکثر خواب میں آکر مری حالت پہ روتی ہے
کہ زیرِ خاک بھی ماں کی پریشانی نہیں جاتی
کلاہ و تخت سے شہزادگی بالکل نہیں مشروط
کہ جب تک ماں ہو زندہ ، بوئے سلطانی نہیں جاتی
——
عباس تابش کی شاعری میں اردو غزل کے روایتی اور جدید موضوعات پوری طاقت، توانائی اور وقار کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کے ہاں موضوعات میں اک نئی جان اوراور ان کی اک منفرد شان ہے اورانھوں نے ہر عہد میں زندگی کے تغیرات کو اپنی شاعری کا موضوع بنا یا ہے۔عباس تابش کے شعری موضوعات ان کی زندگی کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ اردو غزل کا جمود توڑنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں اور اس عہد کو اپنے نام کرنے کے تمام شعری لوازمات ان کی شاعری میں موجود ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : تابش دہلوی کا یوم وفات
——
بلاشبہ ان کا نام اردو غزل میں ایک معتبر حوالہ ہے اور اکیسویں صدی کی غٖزل ان پر فخر کرے گی۔ ان کی شاعری ان کا حوالہ اور وہ شاعری کا حوالہ ہیں۔
——
کہیں چراغ کہیں چشمِ تر حوالہ ہے
ہر اک حوالہ مر ا معتبر حوالہ ہے
کہیں میں کام کہیں صرف نام ہوں تابشؔ
کہیں طویل کہیں مختصر حوالہ ہے
——
چاند چہرے مجھے اچھے تو بہت لگتے ہیں
عشق میں اس سے کروں گا جسے اردو آئے
——
نہ جانے کون مرا کھو گیا ہے مٹی میں
زمیں کریدتی رہتی ہیں انگلیاں میری
——
دستک نے ایسا حشر اٹھایا کہ دیر تک
لرزاں رہا ہے جسم بھی زنجیرِ درکے ساتھ
——
کون کہتا ہے کہ وہ بھولتا جاتا ہے مجھے
اپنا چہرہ نہ سہی رہ تو دکھاتا ہے مجھے
——
صبح کے ساتھ میں کھو جاتا ہوں بچے کی طرح
شام ہوتے ہی کوئی ڈھونڈ کے لاتا ہے مجھے
——
آپ کچھ اور بتاتے ہیں مرے بارے میں
آئینہ کوئی اور شکل دکھاتا ہے مجھے
——
آج اک عمر میں یہ بھید کھلا ہے مجھ پر
وہ کوئی اور نہیں ہے جو ڈراتا ہے مجھے
——
سرد مہری میں یہ سورج بھی ہے تیرے جیسا
دور ہی دور سے جو دیکھتا جاتا ہے مجھے
——
یہ نہ میں ہوں نہ ہوا ہے نہ قضا ہے تابش
میرے لہجے میں کوئی اور بلاتا ہے مجھے
——
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ھے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ھے
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ھے
دل پر پانی پینے آتی ھیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ھے
مجھ گمنام سے پوچھتے ھیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جاسکتا ھے
یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ھے
پھٹا پرانا خواب ھے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ھے
——
یہ ہم جو ہجر میں اس کا خیال باندھتے ہیں
ہوا کی شاخ سے بوئے وصال باندھتے ہیں
ہمارے بس میں کہاں زیست کو سخن کرنا
یہ قافیہ فقط اہل کمال باندھتے ہیں
یہ عہد جیب تراشاں کو اب ہوا معلوم
یہاں کے لوگ گرہ میں سوال باندھتے ہیں
وہ خوب جانتے ہیں ہم دعا نہادوں کو
ہمارے ہاتھ بوقت زوال باندھتے ہیں
سبھی کو شوق اسیری ہے اپنی اپنی جگہ
وہ ہم کو اور ہم ان کا خیال باندھتے ہیں
تمہیں پتہ ہو کہ ہم ساحلوں کے پروردہ
محبتوں میں بھی مضبوط جال باندھتے ہیں
پھر اس کے بعد کہیں بھی وہ جا نہیں سکتا
جسے بھی باندھتے ہیں ہم کمال باندھتے ہیں
——
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
——
پاگل
——
وہ آیا شہر کی طرف
اک اس کی چاپ کی کھنک
قیام روز عشق کی پکار تھی
کہ برگ و بار خاک کا فشار تھی
وہ آیا شہر کی طرف
لپک کے اینٹ کی طرف
وہ اس طرح بڑھا کہ جیسے نان خشک پر کوئی
سگ گرسنہ گر پڑے
وہ گالیوں بھری زباں گلی گلی چھلک پڑی
ہر ایک جیب اس کی انگلیوں سے تار تار تھی
کہ اس کی تھوتھنی سے پھوٹتی گمک
قیام روز عشق کی پکار تھی
وہ گالیوں بھری زباں مرا لباس گندگی سے بھر گئی
نہ جانے کتنے لوگ
اس کے دست دشنہ دار سے گزر گئے
حیات پار کر گئے
وہ بے ہنر سبک تنی سے ڈر گیا
سب اس کی رہ سے ہٹ گئے
تو اس نے اپنی روح کی برہنگی
زمین ماہ کی طرف اچھال دی
کہ یہ ہنر اسی کا تھا
——
حوالہ جات
——
۱۔ افتخار عارف، فلیپ،رقصِ درویش، لاہور، العصر پبلی کیشنز،۸۰۰۲ء
۲۔ اجمل نیازی، ڈاکٹر،فلیپ،رقصِ درویش، لاہور، العصر پبلی کیشنز،۸۰۰۲ء
۳۔ضیاء الحسن، ڈاکٹر، پیش لفظ، شجر تسبیح کرتے ہیں، لاہور، الحمد پبلی کیشنز،۵۱۰۲ء
۴۔جاوید اختر پاشا،بہت مجبور ہوں تابش مگر اپنا خدا ہوں، مشمولہ بیاض،لاہور، ملتان روڈ،۴۰۰۲ء
اردو غزل کی تابناکی اور بے باکی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اس صنفِ شاعری نے ہر دور میں خود کو منوایا ہے۔اس کی مقبولیت اور فرضیت کے لیے ہر دور میں مختلف شعراء نے اپنی خدمات پیش کیں۔کوئی بھی عہد ہو، کوئی بھی دبستان ہو،اردو غزل نے اپنی روشنی سے کئی چہرے روشن اورکئی چہرے روشن تر کیے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ غزل کواپنی آبیاری اور نمو کے لیے ایسے ایسے سہارے ملے ہیں کہ جن کے دم سے اردو غزل، اصنافِ شاعری میں ایک معتبر صنف قرار پائی ہے۔ان میں ولیؔ ، میرؔ ، غالبؔ ، مومنؔ ،حسرتؔ ،اقبالؔ ،ناصرؔ اورمنیر نیازی سمیت درجنوں ایسے نام ہیں جن سے غزل کی آبرو ہے۔ ان بے مثال لوگوں نے اپنے اپنے عہد میں اردو غزل کی روایت کو مضبوط تر اور معتبر بنایا۔
——
یہ بھی پڑھیں : تابش دہلوی کا یوم پیدائش
——
۰۸ء کی دہائی میں بہت اہم نام عباس تابش کا ہے۔اردو شاعری میں ایسی مثالیں بہت کم کم ہیں کہ جب کسی شاعر کو اس کی زندگی میں ہی بے پناہ پذیرائی اور محبت ملتی ہے۔ایسانصیب بھی نصیب والوں کو نصیب ہوتا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں ہی خود اپنا حوالہ بن جائے۔عباس تابش ایسے ہی خوش نصیب شاعر ہیں جنھوں نے اپنی زندگی میں ہی عروج،شہرت، عزت اور بے پناہ محبت کے سارے رنگ دیکھے ہیں اور وہ ان رنگوں کے سمندر میں پوری طرح غوطہ زن بھی ہیں۔
——
آدمی اب بھاگ کر جائے کہاں؟
شہر کے چاروں طرف بھی شہر ہے
——
عباس تابش ۵۱جون ۱۶۹۱ء کو میلسی میں پیدا ہوئے۔ان کا اصل نام غلام عباس ہے اور ان کا تعلق راجپوت بھٹی گھرانے سے ہے۔عباس تابش کے آباؤ اجداد میں کوئی بھی شاعر یا ادیب نہ تھا،تاہم ان کے گھر میں علمی اور تاریخی کتب بینی کا رواج ان کے والد اور بڑے بھائی کی وجہ سے پایا جاتا تھا۔انھی کتابوں نے ان کے اندر کا شاعر جگایا۔عباس تابش نے ۵۷۹۱ء میں باقاعدہ شعر کہنا شروع کر دیا تھا۔اس کے بعد ۱۸۹۱ء میں لاہور آئے تو یہ سلسلہ تاحال ،تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔۶۸۹۱ء میں ’’تمہید‘‘ کے نام سے ان کا پہلا شعری مجموعہ منظر عام پر آیا۔اس کے بعد ’’آسمان‘‘ ، ’’ مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا‘‘ ، ’’ پروں میں شام ڈھلتی ہے‘‘ ، ’’رقصِ درویش‘‘ ، ’’ شجر تسبیح کرتے ہیں‘‘ اور کلیات ’’عشق آباد‘‘ شعری اور ادبی حلقوں سے دادوتحسین وصول کر رہے ہیں۔عباس تابش کی شاعری میں غزل کو ہی خاص مقام حاصل ہے۔اس ضمن میں افتخار عارف کا یہ کہنا ہے کہ:
’’ عباس تابش اردو غزل کی روایت کو ثروت مند بنانے والی نسل کے میرے نزدیک سب سے نمایاں شاعر ہیں۔ایک مکمل شاعر جو غزل کی کلاسیکی روایت کے دائروں میں رہتے ہوئے مضمونِ تازہ کی نئی راہیں نکالتا ہے اور غزل بہ غزل اور کتاب بہ کتاب بلندیوں کی طرف گام زن ہے۔ عباس تابش اپنی نسل کے مقبول ترین شاعروں میں ہیں۔‘‘
(۱)
عباس تابش نے غزل میں جہاں اسلوب کو ایک نیا انداز دیا ہے وہاں موضوعات کی کشید میں بھی خود کو منوایا ہے۔ ان کے سامنے موضوعات ہاتھ باندھے کھڑے دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے روایت سے ناتا جوڑ کر عصرِ رواں اور مستقبل کی غزل کے لیے راستے ہموار کر دیئے ہیں۔
——
نئے سرے سے تعلق نہیں بنائیں گے ہم
جہاں سے ٹوٹ گیا تھا وہیں سے جوڑیں گے ہم
——
ہمارے جیسے وہاں کس شمار میں ہوں گے
کہ جس قطار میں مجنوں کا نام آخری ہے
——
انہوں نے خود کو لفظی بازی گری میں ضائع نہیں کیا بلکہ روایت سے پیوند کاری کرتے ہوئے ذائقہ دار پھل اور نئے نئے پھول دریافت کیے اور موضوعات میں نئے نئے رجحانات کو فروغ دیا ہے۔اس بات کی وضاحت ڈاکٹر اجمل نیازی اس طرح کرتے ہیں:
——
یہ بھی پڑھیں : سردار نقوی کا یوم پیدائش
——
’’عباس تابش نے شاعری کو رقصِ درویش بنا دیا ہے تو پھر یہ کچھ اور ہی شاعری ہے اور یہ شاعری سے آگے کی چیز ہے۔لفظ و خیال کی حکمرانی اور ہجرو وصال کی درویشی کے امتزاج سے شاعری کا جو مزاج بنا ہے اسے عباس تابش نے ایک ان دیکھی معراج پر پہنچا دیا ہے۔‘‘
(۲)
غزل جذب و خیال ،تنوع موضوعات کا حیرت کدہ اور جہانِ معنی کا آئینہ خانہ ہے۔ اس میں زندگی کی سی وسعت ہے ۔ جس طرح زندگی اپنے اندر تمام موسم ، رنگ، واقعات،جذبات، تحریکات، چہرے ، نظریے اور رویے سمو لینے پر قادر ہے اسی طرح غزل بھی ان سب عناصر کو اپنے اندر جذب کر لیتی ہے۔جس طرح زندگی کا ارتقائی سفر جاری رہتا ہے اسی طرح غزل بھی اپنا ارتقائی سفر جاری رکھتی ہے اور زندگی کے بدلتے مناظر اور مظاہر صنفِ غزل کا حصہ بنتے جاتے ہیں۔ایسے تمام موضوعات، رنگ، موسم، مناظر اور مظاہر عباس تابش کی شاعری کی زینت ہیں۔
——
جب بن گیا تو اس کی دنیا مثال دے گی
تعمیر ہو رہا ہے ملبے سے گھر ہمارا
——
کب تمہیں عشق پہ مجبور کیا ہے ہم نے
ہم تو بس یاد دلاتے ہیں، چلے جاتے ہیں
——
تصوف، عشق ومحبت، ہجرووصال، حسن و جمال، تنہائی و نارسائی،آشوبِ ذات، فطرت نگاری، تمثیل نگاری،سیاسی و سماجی حالات، تخیل اور خواب، حب الوطنی،موت و حیات کا فلسفہ، پرندے، ماں،انسانی عظمت، ہجرت اور اخلاقی قدریں ان کی غزل کا خاصہ ہیں۔ ممکن ہے کہ ان میں سے اکثر موضوعات عام لگیں لیکن عباس تابش کی شاعری میں یہ موضوعات تازہ ہوا کے جھونکے کے مانند محسوس ہوتے ہیں۔انہوں نے بالخصوص تصوف اور عشق کو ’’ رَلا مِلا‘‘ دیا ہے اور اس امتزاج سے شاعری کو تابندگی بخشی ہے۔اس حوالہ سے ڈاکٹر ضیاء الحسن رقم طراز ہیں:
’’ عباس تابش کی شاعری میں شاعری، درویشی اور عشق ایک ہی کام ہے، یہی وجہ ہے کہ اُس کی شاعری میں انہی موضوعات کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، اُس نے ان بظاہر مختلف نظر آنے والے کاموں میں ایک تعلق تلاش کیا ہے۔‘‘
——
(۳)
اک چٹائی تھی مری ، ایک پیالہ تھا مرا
عام ہو کر بھی یہی خاص حوالہ تھا مرا
میں کہ نقصان کے مانند مِلا تھا خود کو
عشق کرنا ہی مری جان ازالہ تھا مرا
——
ان کی شاعری میں موضوعات کے رجحانات بدلتے ہیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ شاعری کے سفر میں مشاہدے اور تجربے کو ہم سفر بنائے رکھتے ہیں اور ان کی شاعری میں ایک بھر پور تحریک ہے جو ہر قسم کا جمود توڑنے کے کام آتی ہے۔عباس تابش کی شاعری میں موضوعاتی تنوع اور خیال کی رنگا رنگی بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔
——
عشق نے ظلم کمانے کی اجازت ہی نہ دی
ورنہ یہ شہرِ ستم ایک نوالہ تھا مرا
——
انہوں نے نرگسیت سے حیات شناسی تک کا سفر کامیابی سے طے کیا ہے جس میں مظہریات اور جمالیات کو خاص مقام حاصل ہے۔انھوں نے علامت و استعارہ کا اک نیا جہان آباد کیا ہے جو ان کی خاص پہچان ہے۔ گھر، پیڑ اور پرندے ان کی محبوب و مرغوب علامتیں ہیں اور یہی علامتیں ان کی غزل کی پیامبر بھی ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : دہر کے اجالوں کا، جوبن آپ کے عارض
——
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
——
میرے اعصاب معطل نہیں ہونے دیں گے
یہ پرندے مجھے پاگل نہیں ہونے دیں گے
یار ! اک بار پرندوں کو حکومت دے دو
یہ کسی شہر کو مقتل نہیں ہونے دیں گے
——
اس لیے میں نے درختوں سے اجازت مانگی
اچھا لگتا ہے مجھے اپنوں سے مل کر رونا
——
پھر اس کے بعد پھلوں میں مٹھاس آئی نہیں
شجر نے کام لیا تھا غلط بیانی سے
——
انہوں نے پیغام پہنچانے کا جو ڈھنگ اور قرینہ سیکھا ہے اس کو سلیقے کے ساتھ نبھایا بھی ہے۔ایک ہی خیال کو مختلف پہلوؤں میں بیان کرنے کا فن ہی دراصل ان کی انفرادیت ہے اور یہ انفرادیت ہی ان کی طاقت اور محبت ہے یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے موضوعات قلب اور روح کی گہرائیوں میں اُتر کر اذہان کی تطہیرو تنویر کرکرتے ہیں جن میں اثر آفرینی کا اعجاز پوری طاقت سے موجود ہے۔
کوئی افواہ بھی آنگن میں اُتر سکتی ہے
یہ ضروری نہیں کھڑکی سے ہوا ہی آئے
ان کا یہ سلسلہ تاحال کامیابی سے جاری ہے۔ ان کے حوالہ سے جاوید اختر پاشا کا ایک جملہ ہی کافی ہے :
’’ عباس تابش ایک ازلی شاعر ہے جس میں ابدیت بھی پوشیدہ ہے۔‘‘
(۴)
اکثر و بیشتر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ ادبا و شعراء کو ان کا صحیح مقام ان کے قیدِ حیات سے آزاد ہونے کے بعد ملتا ہے لیکن ایک سچے تخلیق کار کا بروقت اعترافِ کمال بھی ایک نیکی ہے اور اس کو زندگی میں ہی پذیرائی ملنا چاہیے۔ عباس تابش بھی عصرِ حاضر کے جدید اور اہم ترین شاعر ہیں۔وہ ایسے خوش نصیب شاعرہیں کہ انہیں ان کی زندگی میں ہی عروج و پذیرائی حاصل ہے۔ کسی بھی محفل میں ان کو وجود طمانیت کا باعث ہوتا ہے۔ عباس تابش نے جس مہارت اور ضرورت کے تحت اپنے موضوعات سے نبھا کیا ہے وہ انھی کا خاصہ ہے۔ اردو جدید شاعری کی جب تاریخ لکھی جائے گی تو عباس تابش کی غزل کو ایک مستند حوالہ کے طور پرپیش کیا جائے گا۔اس وقت بہت سے شعراء موجود ہیں جو اپنا مخصوص اسلوب اور اندازِ کلام رکھتے ہیں لیکن عباس تابش کو ان کی زندگی میں باقی ہم عصروں کے مقابلہ میں زیادہ پذیرائی ملی ہے تو یقینی بات ہے کہ وہ کسی خاص انفرادیت کے حامل ہوں گے ۔
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
——
وہ اکثر خواب میں آکر مری حالت پہ روتی ہے
کہ زیرِ خاک بھی ماں کی پریشانی نہیں جاتی
کلاہ و تخت سے شہزادگی بالکل نہیں مشروط
کہ جب تک ماں ہو زندہ ، بوئے سلطانی نہیں جاتی
——
عباس تابش کی شاعری میں اردو غزل کے روایتی اور جدید موضوعات پوری طاقت، توانائی اور وقار کے ساتھ موجود ہیں۔ ان کے ہاں موضوعات میں اک نئی جان اوراور ان کی اک منفرد شان ہے اورانھوں نے ہر عہد میں زندگی کے تغیرات کو اپنی شاعری کا موضوع بنا یا ہے۔عباس تابش کے شعری موضوعات ان کی زندگی کا احاطہ کرنے کے ساتھ ساتھ اردو غزل کا جمود توڑنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں اور اس عہد کو اپنے نام کرنے کے تمام شعری لوازمات ان کی شاعری میں موجود ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : تابش دہلوی کا یوم وفات
——
بلاشبہ ان کا نام اردو غزل میں ایک معتبر حوالہ ہے اور اکیسویں صدی کی غٖزل ان پر فخر کرے گی۔ ان کی شاعری ان کا حوالہ اور وہ شاعری کا حوالہ ہیں۔
——
کہیں چراغ کہیں چشمِ تر حوالہ ہے
ہر اک حوالہ مر ا معتبر حوالہ ہے
کہیں میں کام کہیں صرف نام ہوں تابشؔ
کہیں طویل کہیں مختصر حوالہ ہے
——
چاند چہرے مجھے اچھے تو بہت لگتے ہیں
عشق میں اس سے کروں گا جسے اردو آئے
——
نہ جانے کون مرا کھو گیا ہے مٹی میں
زمیں کریدتی رہتی ہیں انگلیاں میری
——
دستک نے ایسا حشر اٹھایا کہ دیر تک
لرزاں رہا ہے جسم بھی زنجیرِ درکے ساتھ
——
کون کہتا ہے کہ وہ بھولتا جاتا ہے مجھے
اپنا چہرہ نہ سہی رہ تو دکھاتا ہے مجھے
——
صبح کے ساتھ میں کھو جاتا ہوں بچے کی طرح
شام ہوتے ہی کوئی ڈھونڈ کے لاتا ہے مجھے
——
آپ کچھ اور بتاتے ہیں مرے بارے میں
آئینہ کوئی اور شکل دکھاتا ہے مجھے
——
آج اک عمر میں یہ بھید کھلا ہے مجھ پر
وہ کوئی اور نہیں ہے جو ڈراتا ہے مجھے
——
سرد مہری میں یہ سورج بھی ہے تیرے جیسا
دور ہی دور سے جو دیکھتا جاتا ہے مجھے
——
یہ نہ میں ہوں نہ ہوا ہے نہ قضا ہے تابش
میرے لہجے میں کوئی اور بلاتا ہے مجھے
——
پانی آنکھ میں بھر کر لایا جا سکتا ھے
اب بھی جلتا شہر بچایا جا سکتا ھے
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ھے
دل پر پانی پینے آتی ھیں امیدیں
اس چشمے میں زہر ملایا جا سکتا ھے
مجھ گمنام سے پوچھتے ھیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جاسکتا ھے
یہ مہتاب یہ رات کی پیشانی کا گھاؤ
ایسا زخم تو دل پر کھایا جا سکتا ھے
پھٹا پرانا خواب ھے میرا پھر بھی تابش
اس میں اپنا آپ چھپایا جا سکتا ھے
——
یہ ہم جو ہجر میں اس کا خیال باندھتے ہیں
ہوا کی شاخ سے بوئے وصال باندھتے ہیں
ہمارے بس میں کہاں زیست کو سخن کرنا
یہ قافیہ فقط اہل کمال باندھتے ہیں
یہ عہد جیب تراشاں کو اب ہوا معلوم
یہاں کے لوگ گرہ میں سوال باندھتے ہیں
وہ خوب جانتے ہیں ہم دعا نہادوں کو
ہمارے ہاتھ بوقت زوال باندھتے ہیں
سبھی کو شوق اسیری ہے اپنی اپنی جگہ
وہ ہم کو اور ہم ان کا خیال باندھتے ہیں
تمہیں پتہ ہو کہ ہم ساحلوں کے پروردہ
محبتوں میں بھی مضبوط جال باندھتے ہیں
پھر اس کے بعد کہیں بھی وہ جا نہیں سکتا
جسے بھی باندھتے ہیں ہم کمال باندھتے ہیں
——
دشت میں پیاس بجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں
کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اٹھ کر چپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ان کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں
یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابشؔ
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں
——
پاگل
——
وہ آیا شہر کی طرف
اک اس کی چاپ کی کھنک
قیام روز عشق کی پکار تھی
کہ برگ و بار خاک کا فشار تھی
وہ آیا شہر کی طرف
لپک کے اینٹ کی طرف
وہ اس طرح بڑھا کہ جیسے نان خشک پر کوئی
سگ گرسنہ گر پڑے
وہ گالیوں بھری زباں گلی گلی چھلک پڑی
ہر ایک جیب اس کی انگلیوں سے تار تار تھی
کہ اس کی تھوتھنی سے پھوٹتی گمک
قیام روز عشق کی پکار تھی
وہ گالیوں بھری زباں مرا لباس گندگی سے بھر گئی
نہ جانے کتنے لوگ
اس کے دست دشنہ دار سے گزر گئے
حیات پار کر گئے
وہ بے ہنر سبک تنی سے ڈر گیا
سب اس کی رہ سے ہٹ گئے
تو اس نے اپنی روح کی برہنگی
زمین ماہ کی طرف اچھال دی
کہ یہ ہنر اسی کا تھا
——
حوالہ جات
——
۱۔ افتخار عارف، فلیپ،رقصِ درویش، لاہور، العصر پبلی کیشنز،۸۰۰۲ء
۲۔ اجمل نیازی، ڈاکٹر،فلیپ،رقصِ درویش، لاہور، العصر پبلی کیشنز،۸۰۰۲ء
۳۔ضیاء الحسن، ڈاکٹر، پیش لفظ، شجر تسبیح کرتے ہیں، لاہور، الحمد پبلی کیشنز،۵۱۰۲ء
۴۔جاوید اختر پاشا،بہت مجبور ہوں تابش مگر اپنا خدا ہوں، مشمولہ بیاض،لاہور، ملتان روڈ،۴۰۰۲ء