ساتھ کب تک کوئی چلا مت پوچھ

کس نے کی کس قدر وفا مت پوچھ

مختصر یہ کہ ہو گئے آزاد

کون کس سے ہوا رِہا مت پوچھ

تھی قیامت مگر گزر ہی گئی

تذکرہ اس کا بارہا مت پوچھ

پوچھ مجھ سے جو میرے دل میں ہے

لوگ کہتے ہیں کس سے کیا، مت پوچھ

تب مجھے بھی نہیں تھی اپنی خبر

جو ہوا اس کو بھول جا مت پوچھ

صبر کا میرے امتحاں مت لے

کیا تھی وہ آہِ نارسا مت پوچھ

ٹوٹ جائے گا ضبط کا بندھن

ظلم مجھ پر ہیں جو روا، مت پوچھ

اپنی وقعت بھی جانتا ہوں مگر

خود فریبی کی انتہا مت پوچھ

کہہ دیا جب کہ خوش ہوں تیرے بغیر

مان لے، دل کا مدعا، مت پوچھ

تابشیں دیکھ شمع کی عاطفؔ

جلنے والوں کا ماجرا مت پوچھ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]