شعرِ مدحت کی مجھے کاش یہ قیمت دی جائے

یعنی خوشنودیٔ آقا کی بشارت دی جائے

اک نگاہِ کرمِ خاص کی پاؤں میں خبر

محفلِ شاہ کو دیکھوں وہ بصارت دی جائے

شعر لفظوں میں ڈھلیں اور اجالے ہوں رقم

بے عمل فکر کو تعبیر میں حَرَکت دی جائے

دور رہ کر جو کرے مدح و ثنائے سرور

عرضِ طیبہ کی اُسے مُزْد میں، قربت دی جائے

سامعیں پائیں دل و جاں میں عجب سا طوفان

میرے افکار کو کچھ ایسی حرارت دی جائے

بابِ جبریلؑ پہ پہنچوں تو پکاروں آقا

بوسۂ پا ئے مبارک کی اجازت دی جائے

شعرِ مدحت سے ہر اک سمت اُجالے ہوں اگر

فکرِ روشن کو پنپنے کی سعادت دی جائے

غلغلہ سیرتِ سرور کا ہر اک جانب ہو

یوں عزیزؔ اُن کی غلامی کی شہادت دی جائے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

تخلیق کا وجود جہاں تک نظر میں ہے

جو کچھ بھی ہے وہ حلقہء خیرالبشر میں ہے روشن ہے کائنات فقط اُس کی ذات سے وہ نور ہے اُسی کا جو شمس و قمر میں ہے اُس نے سکھائے ہیں ہمیں آدابِ بندگی تہذیب آشنائی یہ اُس کے ثمر میں ہے چُھو کرمیں آؤں گنبدِ خضرا کے بام و در یہ ایک خواب […]

نعتوں میں ہے جو اب مری گفتار مختلف

آزارِ روح میرا ہے سرکار ! مختلف الحاد کیش دین سے رہتے تھے منحرف معیارِ دیں سے اب تو ہیں دیندار مختلف بھیجا ہے رب نے ختم نبوت کے واسطے خیرالبشر کی شکل میں شہکار مختلف نورِ نبوت اور بھی نبیوں میں تھا مگر تھے مصطفیٰ کی ذات کے انوار مختلف تھا یوں تو جلوہ […]