اردوئے معلیٰ

آج پاکستان کے نامور مورخ، افسانہ نگار اور تحریک پاکستان کے کارکن ڈاکٹرعاشق حسین بٹالوی کا یومِ وفات ہے ۔

عاشق حسین بٹالوی(پیدائش: 1903ء- وفات: 17 جولائی 1989ء)
——
ڈاکٹرعاشق حسین بٹالوی 1903ء میں بٹالہ، ضلع گرداسپور، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے جامعہ لندن کے اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کی تصانیف میں ہماری قومی جدوجہد، اقبال کے آخری دو سال، چند یادیں چند تاثرات، ‘تاریخ اور افسانہ، راہ گزر اور شاخسار کے نام شامل ہیں۔
آپ نے کئی کتب تحریر کیں جن میں اقبالیات پر آپ کی کتاب ’اقبال کے آخری دو سال‘ مقبولِ عام ہے۔ بقول عاشق حسین بٹالوی اس کتاب کے لکھنے کی ترغیب چراغ حسن حسرت نے دلائی تھی کیونکہ اقبالیات کے بہت سے موضوعات پر کام ہو چکا تھا اور یہ زمانہ ایسا تھا جب علامہ اقبال آل انڈیا مسلم لیگ پنجاب کے صدر تھے اور خود عاشق حسین بٹالوی بھی مسلم لیگ کا حصہ تھے۔
عاشق حسین بٹالوی کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا گیا ۔
ڈاکٹر عاشق حسین بٹالوی 17 جولائی 1989ء کو لندن، برطانیہ میں وفات پاگئے ۔ وہ لاہور میں ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہیں۔
——
مجھے عاشق حسین بٹالوی کی تحریروں میں جو نمایاں خصوصیات نظر آئی ہیں وہ یہ ہیں کہ ان کا ادب قدیم وجدید ، سرمایہ دارانہ اور ترقی پسند وغیرہ کی تعیین کا متحمل نہیں ۔
وہ اپنے موضوع ، اپنے بیان اور اپنی زبان کے اعتبار سے مستقل اور پائدار ہے ۔ نہ اس میں قدامت کی فرسودگی و بے جانی ہے نہ جدت کی بے اعتدالی اور ابتذال ہے ۔
وہ ایک پہاڑی ندی کی طرح رواں دواں اور نغمہ پذیر ہے اور اس کے شفاف پانی کی تہہ میں کنکریاں تک صاف نظر آ رہی ہیں ۔
ان کا ادب آج کل کے رومان کی علالت آمیزی سے پاک ہے اور ان کی تحریروں کی دلآویزی اس مشہور عوام عقیدے کی نہایت فصیح تردید ہے کہ عورت کے ذکر کے بغیر ادب میں رنگ و آہنگ مفقود رہتا ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : محی الدین نواب کا یوم وفات
——
عاشق حسین بٹالوی اپنے تصورات ، اپنے مشاہدات اور اپنے تجربات کے بیان میں از سر تا پا اوریجنل ہیں ۔ آج کل کے بعض افسانہ نگاروں کی طرح ان کی گزران خیالاتِ مستعار اور متاعِ دزدیدہ پر نہیں ۔ ان کی دنیا ان کی اپنی دنیا ہے ۔
وہ اس کے کرداروں اور تقاضوں کو جس بے تکلفی سے بیان کرتے چلے جاتے ہیں وہ بڑے بڑے کامل انشا پردازوں کے لیے باعثِ رشک ہے ۔
اُن کی تحریروں پر سرسری نظر ڈالنے والا بھی یہی رائے دے گا کہ جس طرح بعض ادیبوں کی دلچسپی کے مرکز عورت ، اشتراکیت ، حسن و عشق اور انقلاب وغیرہ ہیں اسی طرح عاشق حسین کے ادب کا نقطۂ ماسکہ دوست ہیں ۔ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا بیشتر حصہ دوستوں کے انیس و جلیس کی حیثیت سے گزرا ہے ۔
انہیں کی سیرتوں کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں اور چونکہ اس عملِ تخلیقی میں جنسیاتی رکاوٹوں یا نفسیاتی پیچیدگیوں کا کوئی دخل نہیں اس لیے ان کی تحریر میں شروع سے آخر تک ایک خالص بے پروائی ، شگفتگی اور لاابالی پن کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے جو بعض اوقات اول درجے کی ادبی ظرافت تک بھی پہنچ جاتا ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ ایسا مفید ، تندرست ، شگفتہ اسلوبِ تحریر ہمارے ادب کو بعض مزمن بیماریوں نجات دلانے کا باعث ہو سکتا ہے بشرطیکہ ادیب اور غیر ادیب حضرات ادب کی صحیح تعداد اور اس کے واجب وظائف کو پیشِ نظر رکھ کر عاشق حسین بٹالوی کی تحریروں کا مطالعہ کریں ۔
——
حوالہ جات
——
تحریر : مولانا عبد المجید سالک مدیر روزنامہ انقلاب
کتاب : شاخسار ، مصنف : عاشق حسین بٹالوی ، شائع شدہ 1946 ، صفحہ نمبر 7 تا 9
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ

اردوئے معلیٰ

پر

خوش آمدید!

گوشے۔۔۔