آج معروف صحافی ، شاعر اور فلمی نغمہ نگار طفیل ہوشیارپوری کا یوم پیدائش ہے

(پیدائش: 17 جولائی، 1914ء – وفات: 4 جنوری، 1993ء)
——
طفیل ہوشیارپوری 17 جولائی، 1914ء کو ہوشیارپور، اترپردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے ہوشیارپور کے اسکول سے بطور استاد ملازمت کی ابتدا کی۔ تحریک پاکستان کے متحرک کارکن تھے اور تحریک پاکستان کے اجتماعات میں شاعری پڑھتے تھے۔ اسی پاداش میں اسکول کی ملازمت سے نکال دیے گئے۔
مشہور اداکار آغا سلیم رضا نے انہیں فلمی پروڈیوسروں سے متعارف کریا۔ انہوں نے 1946ء میں فلمی نغمہ نگاری کی ابتدا کی۔ تقسیم ہند کے بعد ہوشیارپور سے لاہور منتقل ہو گئے اور صحافت کو ذریعۂ روزگار بنایا۔ لاہور سے روزنامہ محفل اور ہفت روزہ صاف گو نکالا۔ 1952ء میں ریڈیو پاکستان میں ملازمت اختیار کی۔
1950ء کی دہائی میں ان کا فلمی نغمہ نگاری کے حوالے سے مصروف ترین وقت گزارا۔
انہوں نے جن فلموں کے نغمات تحریر ان میں ریحانہ، چپکے چپکے، پرائے بس میں، گلنار، شمی، دلا بھٹی، بے قرار، چن ماہی، پتن، سرفروش، چنگیز خان، موسیقار، شعری بابو، روحی، وعدہ اور قسمت شامل ہیں۔
ان کے شعری مجموعوں میں ‘رحمت یزداں’ (نعتیہ کلام)، ‘تجدید شکوہ’، ‘شعلہ جام’، ‘ساغر خورشید’، ‘جام مہتاب’ اور ‘میرے محبوب وطن’ شامل ہیں۔
طفیل ہوشیارپوری کو ادبی خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا۔
طفیل ہوشیارپوری 4 جنوری، 1993ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور کے ماڈل ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے
——
یہ بھی پڑھیں : ہم زمانے میں پھرے ، دل کو حرم میں رکھا
——
طفیل ہوشیار پوری از سعد اللہ شاہ
——
مجھے کبوتر بہت اچھے لگتے ہیں۔ خاص طور پر جنگلی کبوتر‘ کہ وہ کسی روشندان میں بیٹھا ہو تو ایسے لگتا ہے جیسے کوئی صوفی دھیان گیان میں گم ہے۔ یہ بڑا معصوم پرندہ ہے۔ اگرچہ ناصر کاظمی اس شعبے کے عالم بھی تھے اور عامل بھی مگر کبوتر کے حوالے سے گانا طفیل ہوشیارپوری کا مشہور ہوا:
——
واسطہ ای رب دا توں جاویں وے کبوترا
چٹھی مرے ڈھول نوں پچاویں وے کبوترا
——
کیسا زمانہ تھا کہ پیغام رسانی کے لیے کبوتر سے کام لیا جاتا تھا اور ’ڈھول‘ کو چٹھی بھجوائی جاتی تھی۔ کہتے ہیں اس وقت بھی مس کال (Miss Call) ہوا کرتی تھی یعنی کبوتر کے ہاتھ خالی کاغذ بھیج دیا جاتا تھا۔ اصل میں کبوتر پر میں مزید نہیںلکھنا چاہتا کہ یہ تو بہانہ ہے طفیل ہوشیارپوری کو یاد کرنے کا کہ وہ جنوری 1993ء کو ہمیں داغِ مفارقت دے گئے۔ ان کا دور ادب کا زرّیں دور تھا۔ ان کے ساتھ کئی مشاعرے پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ وہ انتہائی انکساری‘ رواداری اور وضع داری کی مثال تھے۔ ہم بہت جونیئر تھے مگر وہ ہمیں اتنا احترام دیتے کہ مثال میں صرف عارف عبدالمتین کا نام پیش کیا جا سکتا ہے۔ آج بھی میرے کانوں سے ان کی دل سوز آواز ٹکراتی ہے کہ جب وہ ترنم سے غزل سرا ہوتے تو مجمع دم بخود رہ جاتا۔ ہر شعر پر انہیں خواب داد ملتی۔ پچیس تیس سال بعد بھی مجھے ان کی غزل کے شعر ازبر ہیں:
——
وہ مقابل جو آئنے کے ہوا
روشنی روشنی سے ٹکرائی
خشک آنکھوں سے عمر بھر روئے
ہو نہ جائے کسی کی رسوائی
جب کبھی تجھ کو بھولنا چاہا
انتقاماً تمہاری یاد آئی
——
طفیل ہوشیارپوری کا شمار ان تخلیق کاروں میں ہوتا ہے جو سر تا پا پاکستانی روایات و اقدار کا مجسمہ تھے۔ شرافت کے پیکر اور محبِ وطن۔ ان میں بہت شائستگی تھی۔ نوجوانوں کو وہ بہت سراہتے اور نئے لکھنے والوں کو اپنے رسالے ’محفل‘ میں جگہ دیتے۔ ان کے اَن گنت شاگرد تھے۔ میں ان کے دفتر ان سے ملنے گیا تو انہوں نے ’محفل‘ کے کچھ پرانے نمبر بھی مجھے دئیے۔ یونیورسٹی آف پنجاب میں ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی حمد و نعت کا ایک مشاعرہ ہر برس کرواتے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : خالی اس آستاں سے نہ دریوزہ گر پھرے
——
طفیل صاحب بھی ان شعراء میں شامل تھے جنہیں لانا میری ذمہ داری تھی۔ کیفے ٹیریا میں پرتکلف کھانا ہوتا۔ طفیل صاحب اپنی چھڑی ٹکاتے ہوئے ہال میں داخل ہوتے۔ وہ خوش خوراک بھی تھے۔ خاص طورپر عطاء الحق قاسمی اور امجد اسلام امجد اس حوالے سے ان کے ساتھ چھیڑ خوانی کر لیا کرتے تو وہ ان پر چھڑی اٹھا لیتے۔ بڑے مزے کے دن تھے۔
ان کی شاعری میں موسیقیت اور تغزل بدرجہ اتم موجود تھا او پرسے ان کی خوش الحانی غزل کو چار چاند لگا دیتی۔ ان کے کئی اشعار زبان زد خاص و عام ہوئے۔ مثلاً یہ شعر تو لاجواب ہے:
——
شمع نے لے لیا آغوش میں پروانے کو
جب یہ دیکھا مرے معیار تک آ پہنچا ہے
——
اس دور میں فلم کے لیے لکھنا شاید رواج تھا۔ منیر نیازی‘ مظفر وارثی‘ قتیل شفائی‘ ساحر لدھیانوی اور سیف الدین سیف کی طرح طفیل ہوشیارپوری نے بھی فلم کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو شاعری میں بھی زندہ رکھا کہ ان کے گیتوں میں بھی شعریت نظر آتی ہے۔ انہوں نے مشہور نغمے بھی لکھے مثلاً
——
اللہ کی رحمت کا سایا
توحید کا پرچم لہرایا
اے مردِ مجاہد جاگ ذرا
اب وقتِ شہادت ہے آیا
——
اب ویسے لوگ کہاں! ان کی توانائی پر حیرت ہوئی تھی۔ گیت لکھ رہے ہیں‘ غزل کہہ رہے ہیں‘ شہر کی تقاریب اور مشاعروں میں ہر صورت میں موجود ہوتے اور ساتھ ہی ساتھ ماہنامہ ’محفل‘ بھی نکال رہے ہیں۔ وہ حقیقتاً راست اور مثبت دھڑے کے نمائندہ تھے اور انہوں نے اپنے اصولوں پر پوری زندگی بتا دی۔ اللہ ان کی مغفرت کرے۔ آمین
——
منتخب کلام
——
تیری قُربت بھی قیامت تِری دُوری بھی عذاب
دِل کو تسکین کی صُورت کِسی پہلُو نہ مِلی!
——
بھنور بھنور تجھے موجوں میں راستہ دے گا
خدا ہے ساتھ تو ناخدا تلاش نہ کر
——
گزری ہے گراں روح پہ کلیوں کی چٹک بھی”
ہم لوگ بہاروں میں بھی مغموم رہے ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : ساری دُنیا میں خوشی ہے اُن کے آنے کے طفیل
——
تیری کھوج میں بستی بستی جنگل جنگل چھان پھرے
جیسے ہم انجان گئے تھے ویسے ہی انجان پھرے
درشن جل کے پیاسے نینا بن درشن پتھرا بھی گئے
نینوں کی جوتی کا آخر دے کر ہم بلیدان پھرے
کھوج نہ پایا اس مندر کا جس میں باس ہے پیتم کا
پلک پلک پر کیا کیا لے کر پوجا کا سامان پھرے
دھول پیا کے چرن کنول کی ماتھے تلک لگانے کو
مسجد مسجد مندر مندر ہم اک اک استھان پھرے
کس کارن آیا تھا جگ میں آنے کا کیا مطلب تھا
بھول کے سب کچھ دھن دولت کے پیچھے ہر انسان پھرے
پی درشن کی خاطر ہم نے بھگون بھیس بنایا تھا
جوگی بن کر نکلے تھے ہم روگی بن کر جان پھرے
پی کے رنگ بھون تک پایا رستہ سوچ کی لہروں کا
درشن جل کے پیاسے نینا لے کر ہم حیران پھرے
ہم اسکو پہچان ہی لینگے اک دن من کے درپن میں
لاکھ وہ گوری سندر مکھ پر روپ کا گھونگٹ تان پھرے
سچی جوت جلاکر دیکھے کوئی من کے مندر میں
پریم بھاو سے پیچھے پیچھے بندے کے بھگوان پھرے
بحوالہ سوچ مالا صفحہ نمبر 25
——
انجُمن انجُمن شناسائی
دل کا پھر بھی نصیب تنہائی
خُشک آنکھوں سے عمر بھرروئے
ہو نہ جائے کسی کی رسوائی
جب کبھی تم کو بُھولنا چاہا
انتقاماً تمہاری یاد آئی
جب کسی نے مزاجِ غم پوچھا
دل تڑپ اُٹھا، آنکھ بھر آئی
جذبۂ دل کا اب خدا حافظ
حُسن مُحتاج، عشق سودائی
——
لاکھوں ودیا دان ملے
سب تجھ سے انجان ملے
جس کو پی سے ملنا ہو
من مندر میں آن ملے
ساجن نینا پیاسے ہیں
درشن جل کا دان ملے
چھوٹوں کی سنگت میں بیٹھ
پھر تجھ کو بھگوان ملے
وہ گیانی ہی گیانی ہے
جس کو من کا گیان ملے
جگت پتا کی پوجا کر
دنیا میں سَمان ملے
وہ من مُورکھ ہے جس میں
کرودھ ، کپٹ ، ابھیمان ملے
انسانوں کے جنگل میں
کاش کوئی انسان ملے
من کی آنکھیں کھول طفیل
تب پی کا استھان ملے
بحوالہ سوچ مالا صفحۃ نمبر 23
——
رقصِ جذبات کی لَے شُعلہِ آواز کا رنگ
اب تک آنکھوں میں ہے اُس جلوہ گہہِ ناز کا رنگ
مَیں نے سیکھی ہے تِری آنکھوں سے غزل کی تفسِیر
تُو نے بخشا مِرے نغمات کو اعجاز کا رنگ
تیرے عارِض پہ جھلکتا ہے حیا کی صُورت
میرے احساس مِری شوخیِ انداز کا رنگ
مُسکُرانے کی ادا غُنچوں نے ازبر کر لی
لے اُڑی بادِ صبا غمزہِ غمّاز کا رنگ
مَیں نے کھاۓ ہیں تِری چشمِ نوازِش کے فریب
مَیں نے دیکھا ہے تِرے حُسنِ فُسُوں ساز کا رنگ
احترامِ غمِ اُلفت کا تقاضا توبہ
اُڑ گیا دیکھ کے مُجھ کو مِرے ہم راز کا رنگ
جب قفس میں کبھی آتا ہے نشیمن کا خیال
خُوں رُلاتا ہے ہمیں حسرتِ پرواز کا رنگ
کون آئینہِ حالات میں آ کر دیکھے
میرے انجام کی صُورت مِرے آغاز کا رنگ
میری فریاد بھی ہے وجہِ نِشاطِ محفل
بھر دیا کِس نے مِرے سوز میں بھی ساز کا رنگ
تُجھ پہ کیا حادثہ گُزرا ہے بتا کُچھ تو طفیلؔ
کیوں بُجھا سا ہے زمزمہ پرواز کا رنگ