آج مولانا ابو الکلام آزاد کا یوم پیدائش ہے

——
ابوالکلام محی الدین احمد آزاد آزاد ہند کے پہلے وزیرِ تعلیم اور قومی رہنما تھے۔ مولانا ابو الکلام آزاد کا اصل نام محی الدین احمد تھا۔ ان کے والد بزرگوار محمد خیر الدین انھیں فیروزبخت (تاریخی نام) کہہ کر پکارتے تھے۔
مولانا 11 نومبر 1888ء کو مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے۔ والدہ کا تعلق مدینہ سے تھا سلسلہ نسب شیخ جمال الدین سے ملتا ہے جو اکبر اعظم کے عہد میں ہندوستان آئے اور یہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
1857ء کی جنگ آزادی میں آزاد کے والد کو ہندوستان سے ہجرت کرنی پڑی۔ کئی سال عرب میں رہے۔ مولانا کا بچپن مکہ معظمہ اور مدینہ میں گزرا۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی۔ پھر جامعہ ازہر(مصر) چلے گئے۔ چودہ سال کی عمر میں علوم مشرقی کا تمام نصاب مکمل کر لیا تھا۔ مولانا کی ذہنی صلاحتیوں کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ انہوں نے پندرہ سال کی عمر میں ماہوار جریدہ لسان الصدق جاری کیا۔ جس کی مولانا الطاف حسین حالی نے بھی بڑی تعریف کی۔
1914ء میں الہلال نکالا۔ یہ اپنی طرز کا پہلا پرچہ تھا۔ ترقی پسند سیاسی تخیلات اور عقل پر پوری اترنے والی مذہبی ہدایت کا گہوارہ اور بلند پایہ سنجیدہ ادب کا نمونہ تھا۔
مولانا ابو الکلام آزاد بیک وقت عمدہ انشا پرداز، جادو بیان خطیب، بے مثال صحافی اور ایک بہترین مفسر تھے۔ اگرچہ مولانا سیاسی مسلک میں آل انڈیا کانگریس کے ہمنوا تھے لیکن ان کے دل میں مسلمانوں کا درد ضرور تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تقسیم کے بعد جب علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وقار کو صدمہ پہنچنے کا اندیشہ ہوا تو مولانا آگے بڑھے اور اس کے وقار کو ٹھیس پہنچانے سے بچا لیا۔
مولانا ابوالکلام آزاد، آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے۔ ان کے یوم پیدائش 11 نومبر 1888ء کو ہندوستان میں قومی یومِ تعلیم منایا جاتا ہے۔
منسوب کیے گئے ادارے
مولانا ابو الکلام آزاد کے نام سے ہندوستان میں حسبِ ذیل تعلیمی اور سرکاری ادارے منسوب کیے گئے:
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی،(MANNU) حیدرآباد (ہند)
مولانا آزاد نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی، (MANIT) بھوپال
مولانا آزاد میڈیکل کالج نئی دہلی
مولانا آزاد انسٹی ٹیوٹ آف ڈینٹل سائنسز ، نئی دہلی
مولانا آزاد اڈوکیشن فونڈیشن، نئی دہلی
کانگریس لیڈر
بھارت کی سیاست میں مشہور، معروف اور مقبول ناموں میں سے مولانا آزاد کا نام تھا۔ بھارت کے عظیم لیڈروں میں مولانا کا شمار ہوتا تھا۔ انڈین نیشنل کانگریس ورکنگ کمیٹی کے لیڈر کے عہدہ کے ساتھ ساتھ پارٹی کے قومی صدر بھی کئی مرتبہ منتخب ہوئے۔
مولانا آزاد کو بیسویں صدی کے بہترین اردو مصنفین میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ مولانا آزاد نے کئی کتابیں لکھیں جن میں غبار خاطر، انڈیا ونس فریڈم (انگریزی)، تزکیہ، ترجمان القرآن سر فہرست ہیں۔
اس کے علاوہ الہلال نامی اردو کا ہفت روزہ اخبار جولائی 1912ء میں کلکتے سے جاری کیا۔
”غبار خاطر“ مولانا ابو الکلام آزاد کے خطوط کا مجموعہ ہے۔ یہ تمام خطوط نواب صدر یار جنگ مولانا حبیب الرحمن خاں شروانی رئیس بھیکم پور ضلع علی گڑھ کے نام لکھے گئے۔ یہ خطوط قلعہ احمد نگر میں 1942ء تا 1945ء کے درمیان میں زمانہ اسیری میں لکھے گئے۔
مولانا کی زندگی کا ایک بڑا حصہ قید و بند میں گزرا مگر قلعہ احمد نگر کی اسیری ہر بار سے سخت تھی کیونکہ اس بار نہ کسی سے ملاقات کی اجازت تھی اور نہ کسی سے خط کتابت کرنے کی۔ اس لیے مولانا نے دل کا غبار نکالنے کا ایک راستہ ڈھونڈنکالا۔ اور خطوط لکھ کر اپنے پاس محفوظ کرنا شروع کر دیے۔ مولانا نے خود اسی مناسبت سے ان خطوط کو غبار خاطر کا نام دیا ہے اور ”خط غبار من است این غبار خاطر“ سے اسے تعبیر کیا ہے۔
ایک خط میں شروانی صاحب کو مخاطب کرکے فرماتے ہیں :
” جانتا ہوں کہ میری صدائیں آپ تک نہیں پہنچ سکیں گی۔ تاہم طبع ِ نالہ سنج کو کیا کروں کہ فریاد و شیون کے بغیر رہ نہیں سکتی۔ آپ سن رہے ہوں یا نہ رہے ہوں میری ذوق مخاطبت کے لیے یہ خیال بس کرتا ہے کہ روئے سخن آپ کی طرف ہے۔ “
اردو کا ہفت روزہ اخبار جسے مولانا ابو الکلام آزاد نے جولائی 1912ء میں کلکتے سے جاری کیا۔ ٹائپ میں چھپتا تھا اور تصاویر سے مزین ہوتا تھا۔ مصری اورعربی اخبارات سے بھی خبریں ترجمہ کرکے شائع کی جاتی تھیں۔ مذہب، سیاسیات، معاشیات، نفسیات، جغرافیہ، تاریخ، ادب اور حالات حاظرہ پر معیاری مضامین اور فیچر چھپتے تھے۔ تحریک خلافت اور سول نافرمانی کا زبردست مبلغ و موید تھا۔ الہلال پریس سے دو ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی۔ اس کے بعد 18 نومبر 1914ء کو مزید دس ہزار روپے کی ضمانت طلب کر لی گئی جو جمع نہ کرائی جا سکی اور اخبار بند ہو گیا۔
1927ء میں الہلال پھر نکلا مگر صرف چھ ماہ کے لیے۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران میں ان کی اشاعت 25 ہزار تک پہنچ گئی تھی۔ اردو زبان کا یہ پہلا باتصویر سیاسی پرچہ تھا جو اپنی اعلیٰ تزئین و ترتیب ٹھوس مقالوں اور تصاویر کے لحاظ سے صحافتی تکنیک میں انقلاب آفریں تبدیلیاں لایا۔
مولانا ابو الکلام آزاد نے 22 فروری 1958ء کو وفات پائی۔اور آپ کا مزار دہلی میں جامع مسجد کے قریب ہے۔
——
مولانا ابوالکلام آزاد حیات و خدمات از ابو نُعمیٰ
——
آپ کے والد مولانا خیرالدین اپنے علاقہ کے معتبر عالم دین تھے ، مولانا آزاد نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی ، چودہ سال کی عمر میں باضابطہ رسمی تعلیم کی تکمیل کی ، تکمیلِ تعلیم کے بعد آپ کے والد نے طلبہ کا ایک حلقہ آپ کے زیر تدریس کردیا آپ طلبہ کی اس جماعت کو بحسن و خوبی پڑھانے میں کامیاب ثابت ہوئے اور ایک کامیاب مدرس کا حق ادا کیا۔
چونکہ آپ کے والد محترم مع اہل و عیال بغرضِ علاج مکہ سے ہجرت کرکے کلکتہ چلے آئے تھے اور بتقدیرِ الٰہی کلکتہ ہی میں مستقل رہائش پزیر ہوگئے ، اس لئے مولانا آزاد نے اپنی سرگرمیوں کا مرکز کلکتہ ہی کو بنایا ، اس طرح آپ کا علمی و سیاسی سفر پندرہ سال کی عمر میں جریدہ "لسان الصدق” جاری کرکے ہوتا ہے ، یہ رسالہ اپنی طرز کا انوکھا اور بے مثال کا تھا جس کی تعریف مولانا الطاف حسین حالی(1837ء-1915) نے بھی کی ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف نعت گو شاعر حفیظ تائب کا یوم پیدائش
——
مولانا ابو الکلام آزاد کی شخصیت اتنی کثیرالجہت اور ہمہ گیر ہے کہ کسی قلم کارکے لئے جو آپ کی حیات و خدمات کے بارے میں کچھ اوراق سیاہ کرنا چاہتا ہو یہ انتہائی مشکل امر ہوتا ہے کہ آپ کی کن کن خدمات پر لکھا جائے اور کیا کیا لکھا جائے اور زندگی کے کن کن پہلوؤں پر توجہ مرکوز کی جائےاور کس کو نظر انداز کیا جائے ، چونکہ مکمل احاطہ ایک طرف مشکل کام ہے تو دوسری طرف طوالت سے بچنا بھی مشکل ہے، ذیل میں کچھ سرخیاں ملاحظہ ہوں ۔
اصل نام : محی الدین احمد ۔ تاریخی نام : فیروز بخت ۔
کنیت : ابو الکلام ۔ تخلص : آزاد ۔
والد : محمد خیر الدین ۔ والدہ : عالیہ بنت محمد ۔ زوجہ : زلیخا بیگم ۔
تاریخ ولادت : 11/ نومبر 1888ء (ذوالحجہ ، ۱۳۰۵ ھ ) مقام ولادت : مکہ معظمہ
تاریخ وفات : 22 / فروری 1958ء ۔ مقام وفات : دہلی ۔ مدفن : دہلی نزد جامع مسجد ۔
مکمل حیات : 69 / سال، 3 / مہینے، 11 / دن ۔
مادری زبان : عربی ۔ آبائی وطن : دہلی (ہندوستان) مادری وطن: مدینۃ المنورہ (عرب)
اعزاز: بھارت رتن(1992 ء بعد وفات دیا گیا)
چند کارہائے نمایاں :
15/اگست 1947ء تا یکم فروری 1958ء آزاد ہند کے سب سے پہلے وزیر تعلیم رہے ، وزارتِ تعلیم کے عہدہ پر فائز ہونے کے بعد بطور خاص تعلیمی میدان میں آپ کی سرگرمیاں بڑھ گئیں ، اور ممکنہ حد تک باشندگانِ ہند کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر دامن گیر رہتی تھی اور خاص طور پر مسلم معاشرہ میں تعلیمی بیداری پیدا کرنے کیلئے اہم رول ادا کیا ، جہاں تک تعلیمِ نسواں کی بات ہے تو آپ اس پر بہت زور دیا کرتے تھے کہ حدود میں رہتے ہوئے خواتین کے لئے بھی یکساں طور تعلیم کا نظم ہونا چاہئے اور انہیں بہتر سے بہتر تعلیم سے مزین کرنا چاہئے اور تاریکی و جہالت سے باہرآنا چاہئے ۔
عصری علوم (علوم جدیدہ) کو جزو لاینفک کے درجہ میں شمار کرتے تھے اور بالخصوص تعلیمِ صنعت و حرفت پر خوب زور دیا کرتے تھے ،یہی وجہ ہے کہ آپ نے مختلف تعلیمی و تحقیقی مراکز قائم کئے جو آج بھی ملک میں موجود ہیں ، اس طرح آپ نے اپنی قوم کو تعلیم کے ہر شعبے میں آگے بڑھنے اور بڑھانے کی کوشش میں لگے رہے ، آپ نے ترقی و زوال کے تمام پہلوؤں پر غور و فکر کرنے کے بعد کہا تھا کہ ؛ ہر حال میں سب سے ضروری کام عوام کی تعلیم ہے جس سے ہم دورہیں۔
جنگ آزادی میں آپ کا کردار بہت نمایاں نظر آتاہے ، تاریخ ِجنگ آزادی آپ کے ذکر کے بغیر ناقص ہے ، جس کے لئے آپ کی ایک بڑی اور اہم کوشش ہندو مسلم کے درمیان اتحاد کی رہی ہے ، ہندو مسلم اتحاد کے عَلم بردار تھے جس کے لئے زندگی بھر کوشش کرتے رہے ۔
تقسیمِ ہند کے وقت فرقہ وارانہ کشیدگی اپنی انتہاء کو پہونچی ہوئی تھی آپ اس کشیدگی کو ختم کرنے کے لئے بہت اہم اقدامات کئے ۔
بہت سارے حالات سے گزرنے اور تجربہ و مشاہدہ کے بعد آپ نے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا ؛
اگر دنیا دس ہزار سال یا دس لاکھ سال مزید قائم رہے تو پھر بھی دو چیزیں ختم نہیں ہوں گی : ایک تو ہندو قوم کی تنگ نظری ، دوسرے مسلمان قوم کی اپنے سچے رہنماؤں سے بد گمانی۔
مولانا ابو الکلام آزاد ایک ہمہ گیر ہمہ جہت شخصیت کا نام ہے ، یہ شخصیت مختلف پہلؤں پر محیط تھی ،ان کی زندگی مختلف اور متضاد حیثیتوں میں بٹی ہوئی ہے، وہ بیک وقت بے باک مجاہد آزادی ہیں ،مصنف بھی ہیں، عظیم خطیب بھی ہیں، مفکر بھی ہیں، فلسفی بھی ہیں، ایک طرف ادب کے شہسوار ہیں تو دوسری طرف ماہر عالم دین ، ان تمام خوبیوں کے ساتھ ایک عظیم قومی لیڈر اور سیاسی میدان کے شہنشاہ ہیں ۔ مختصراً ا گرہرفن مولا کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ، آپ کی ایک خاصیت تھی کہ شرعی معاملات کو چھوڑ کر دیگر معاملات میں تقلیدی اور رواجی ذہن نہیں رکھتے تھے بلکہ تخلیقی ذہن کے مالک تھے ۔
آپ کی پیدائش کے دو سال بعد آپ کے والد محترم مولاناخیرالدین نے مکہ مکرمہ سے ہجرت کرکے ہندوستان کے مشہورشہر کلکتہ میں سکونت پذیر ہوگئے۔،پھر ہندوستانی ہنگامہ کے وقت واپس مکہ مکرمہ چلے گئے ۔
علامہ آزاد ایسے تعلیم یافتہ گھر میں آنکھیں کھولتے ہیں جو قرآن و حدیث اور عربی زبان و ادب میں مشہور تھا آپ کی تعلیم وتربیت اسی دینی اوراخلاقی گھر میں ہوتی ہے۔آپ کی تعلیم و تربیت کے انتظام میں والد محترم بہت محطاط تھے اس لئے جہاں تک ہوسکا پہلے اپنے ہی ذمہ رکھی پھر بڑی جانچ پڑتال کے بعد کچھ ماہر فن اساتذہ کے سپر د کیا ۔ آپ بہت ذہین و فطین اور نیک سیرت انسان اورغیر معمولی صلاحتیوں کے مالک تھے، ان کی ذہانت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ عمر کے پندرہویں سال میں درس نظامیہ سے فارغ ہوچکے تھے اور پھر طلبہ کے ایک حلقہ کو درس دینے لگے تھے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید نصیر الدین نصیر گیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا یوم وصال
——
مولانا ابو الکلام آزاد کی قلمی کاوشیں :
[1] ترجمان القرآن [2] تصورات قرآن [3] قرآن کا قانون عروج و زوال [4] یاجوج ماجوج [5] رسول رحمت ( سیرت رسول پر مشتمل مقالات کا مجموعہ ) [6] سیرت رسول کے عملی پہلو [7] صدائے حق [8] حقیقت زکوٰۃ [9] حقیقت حج [10] حقیقت الصلوٰۃ [11] جامع الشواہد فی دخول غیر المسلم فی المساجد [12] تحریک آزادی [13] ایمان اورعقل [14]اولیاء اللہ و اولیاء الشیطان
[15] انسانیت موت کے دروازے پر [16] اسلام میں آزادی کا تصور [17] ارکان اسلام [18] رسالہ عزیمت و دعوت [19] ہجر و وصال [20] ہماری آزادی [21] غبار خاطر [22] حیات سرمد [23]آزادئ ہند (Indian wins freedom) [24] تحریک نظم جماعت [25]اسلام اور نیشنلزم [26]عروج و زوال کے فطری اصول [27] اسلام کا نظریہ جنگ [28] شہادت حسین [29] مسئلہ خلافت [30] غضب ناک محبوبہ (ایک افسانہ کا ترجمہ) [31]صدائے رفعت [32] ذکرٰی [33] درس وفا [34] قول فیصل ۔
مولانا ابو الکلام آزاد کی حیات و خدمات پرچند کتابیں :
[1] مولانا ابو الکلام آزاد کی قرآنی خدمت (افضل حق قرشی) [2] مولانا ابو الکلام آزاد بحیثیت صحافی و مفسر (عبد الرشید عراقی) [3] نقوش ابوالکلام و مقالات آزاد (عبد المجید سوہدروی) [4] تذکرہ آزاد (عبد الرشید عراقی) [5] ذکر آزاد (عبد الرزاق ملیح آبادی) [6] امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد (ابوعلی اثری) [7] خطوط ابوالکلام آزاد (مالک رام) [8]مولانا ابوالکلام آزاد کی صحافت (ڈاکٹر ابوسلمان شاہجہاں پوری) [9] ابو الکلام آزاد (شورش کاشمیری ) [10]ملفوظات آزاد (محمد اجمل خان) ۔
اخبار و رسائل:
مولانا ابو الکلام آزاد کے زیر ادارت چلنے والے مختلف اخبارو رسائل ہیں ، اخبار : الہلال اور البلاغ ۔ رسائل : لسان الصدق اور نیرنگ عالم۔وغیرہ
شاعری
مولانا آزادصرف نثر کے ہی بے تاج بادشاہ نہیں،انھیں شعر گوئی کا ملکہ بھی حاصل تھا۔مولانا کی ایک غزل بہ طور نمونہ پیش ہے۔
——
کوئی اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
اُس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فدائے دستِ قاتل ہو گیا
کوئی نالاں کوئی گرریاں کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی دِگر گوں رنگِ محفل ہو گیا
قیس مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولہ دشتِ لیلیٰ کا محمل ہو گیا
انتظار اُس گل کا اس درجہ کیا گُلزار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کازائل ہو گیا
یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمندِ زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا
——
مختصرا ً آپ نے تقریبا ہر میدان میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں خواہ وہ شعر گوئی ہو یا نثر نویسی ، تقریر و خطابت ہو یا تصنیف و تالیف ، سیاسی میدان ہو یا علمی میدان الغرض آپ کی شخصیت مختلف پہلؤں پر محیط ہونے کی وجہ سے اس مختصر تحریر میں احاطہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ (یہ تحریر سمندر کے مقابلہ میں ایک قطرہ سے زیادہ نہیں ہے )۔
——
منتخب کلام
——
موزوں کلام میں جو ثنائے نبی ہوئی
تو ابتدا میں طبعِ رواں منتہی ہوئی
ہر بیت میں جو وصفِ پیمبر کیے رقم
کاشانۂ سخن میں مرے روشنی ہوئی
——
آزادؔ بے خودی کے نشیب و فراز دیکھ
پوچھی زمین کی تو کہی آسمان کی
——
اس قدر ضعفِ غمِ ہجراں سے ہمت گھٹ گئی
بڑھ کے زنداں سے نہ نکلا نالۂ زنجیر بھی
قید کی تکلیف سے دونوں کو چھٹکارا ہوا
میرے مرنے سے کھلی ہے قسمتِ زنجیر بھی
——
وصل سے انکار اُن کو ، یاں تمنائے وصال
واں وفا مشکل میں ہے ، یاں آرزو مشکل میں ہے
اک قدم بڑھتا ہوں تو بڑھتی ہے منزل دو قدم
یا الہٰی کس کا بختِ نارسا منزل میں ہے
راز الفت کھل گیا ، باطن جو تھا ظاہر ہوا
اب تو ہے سب کی زباں پر جو ہمارے دل میں ہے
——
ترے فراق میں جینا بشر کا کام نہیں
ہزار شکر کہ اس عمر کو دوام نہیں
——
ہوتا ہے مجازی سے حقیقت کا توصل
ہے نفع بھی اس عشق کے ہمراہ ضرر بھی
——
جوش وحشت میں مسلم ہو گیا اسلام عشق
کوچہ گردی سے مری پورا ہوا احرام عشق
میرے مرنے سے کھلا حال محبت خلق پر
سنگ مرقد بن گیا آئینہ انجام عشق
یہ صلہ پایا وفا کا حسن کی سرکار سے
چہرۂ عاشق کی زردی ہے زر انعام عشق
پہلے تھا رخ کا تصور اب ہے گیسو کا خیال
وو تھی صبح عشق گویا اور یہ ہے شام عشق
آستان یار پر ہر وقت سجدہ کیجیے
ہے یہی بس دین عشق ایمان عشق اسلام عشق
ہوں اسیر زلف ظاہر ہے خط تقدیر سے
دائرے حرفوں کے مل کر بن گئے ہیں دام عشق
عرش اعظم سے بھی اونچی ہو گئی میری فغاں
آج تک پایا نہ اے آزادؔ اوج بام عشق
——
کیوں اسیر گیسوئے خم دار قاتل ہو گیا
ہائے کیا بیٹھے بٹھائے تجھ کو اے دل ہو گیا
کوئی نالاں کوئی گریاں کوئی بسمل ہو گیا
اس کے اٹھتے ہی دگر گوں رنگ محفل ہو گیا
انتظار اس گل کا اس درجہ کیا گل زار میں
نور آخر دیدۂ نرگس کا زائل ہو گیا
اس نے تلواریں لگائیں ایسے کچھ انداز سے
دل کا ہر ارماں فداے دست قاتل ہو گیا
قیس مجنوں کا تصور بڑھ گیا جب نجد میں
ہر بگولہ دشت کا لیلیٰ محمل ہو گیا
یہ بھی قیدی ہو گیا آخر کمند زلف کا
لے اسیروں میں ترے آزادؔ شامل ہو گیا
——
ان شوخ حسینوں کی ادا اور ہی کچھ ہے
اور ان کی اداؤں میں مزا اور ہی کچھ ہے
یہ دل ہے مگر دل میں بسا اور ہی کچھ ہے
دل آئینہ ہے جلوہ نما اور ہی کچھ ہے
ہم آپ کی محفل میں نہ آنے کو نہ آتے
کچھ اور ہی سمجھے تھے ہوا اور ہی کچھ ہے
بے خود بھی ہیں ہوشیار بھی ہیں دیکھنے والے
ان مست نگاہوں کی ادا اور ہی کچھ ہے
آزادؔ ہوں اور گیسوئے پیچاں میں گرفتار
کہہ دو مجھے کیا تم نے سنا اور ہی کچھ ہے
——
وہ مقدر میں نہیں جو ہمارے دل میں ہے
اب خیالِ سعیِ حاصل سعیِ لاحاصل میں ہے
میرے دل میں ہے نہ وہ اغیار کی محفل میں ہے
یاالہٰی اب مقامِ دوست کس منزل میں ہے
وصل سے انکار اُن کو ، یاں تمنائے وصال
واں وفا مشکل میں ہے ، یاں آرزو مشکل میں ہے
اک قدم بڑھتا ہوں تو بڑھتی ہے منزل دو قدم
یا الہٰی کس کا بختِ نارسا منزل میں ہے
راز الفت کھل گیا ، باطن جو تھا ظاہر ہوا
اب تو ہے سب کی زباں پر جو ہمارے دل میں ہے
آتشیں جلوے ادھر ہیں آہ شعلہ زن ادھر
مژدہ اے ذوقِ نظر ، کیا پردۂ حائل میں ہے
اُس کا گھر ، اُس کا تصور ، اُس کی یاد ، اُس کا خیال
یا ہماری آنکھ میں ہے یا ہمارے دل میں ہے
وہ ہوں اور رنجشِ اغیار ! ہے بالکل غلط
کچھ نہ کچھ طرزِ شرارت طینت ِ ناقل میں ہے
حسن پردہ در ہوا پیشِ نگاہ رخنہ گر
قیس جنگل میں ، نہ لیلیٰ پردۂ محمل میں ہے
بیٹھے بیٹھے یا الہٰی یاد کس کی آ گئی
آنکھ میں آنسو بھرے میں درد کچھ کچھ دل میں ہے
حورِ جنت کے بیاں سے آ گئی یادِ بُتاں
یہ اثر واعظ ! تری تقریر لاطائل میں ہے
ایک حسرت دل سے نکلی ایک حسرت رہ گئی
ایک پیکاں دل سے نکلا ایک پیکاں دل میں ہے
چھوڑ بھی سکتے نہیں اور ضبط بھی ممکن نہیں
عشق کے ہاتھوں ہماری جان کس مشکل میں ہے
ڈرر ہا ہے ، گو سوالِ وصل کی ہمت نہیں
پھر بھی کچھ اٹکا ہوا مطلب لبِ سائل میں ہے
بعد مدت کے مرا دل پھیرتے ہیں ہائے ہائے
سن لیا دشمن سے کوئی آرزو اس دل میں ہے
ہم تو سن لیتے ہیں جی بھر کر تمہاری گالیاں
تم بھی سن لو بندہ پرور ! جوہمارے دل میں ہے
المدد اے المدد ! شوقِ شہادت المدد
مژدہ باد اے مرگ ! خنجر پھر کفِ قاتل میں ہے
دختِ رز کا ذکر ہے یاں ، حور کا ہے واں بیاں
میکدے میں ہے وہی جو شیخ کی محفل میں ہے
کیا کریں مجبور ہو کر نذر کر دیتے ہیں جاں
لب پہ آ سکتی نہیں وہ بات جو قاتل میں ہے
ہوں تمہارا مدعی اور گردِ راہِ مدعا
خاکساری ، پائمالی ، میرے آب و گِل میں ہے
اب تو ہم سر مست صہبائے محبت ہو چکے
کیفِ مے آنکھوں میں ہے ، جوشِ مسرت دل میں ہے
سخت جانی تو نہ ہمت ہاریو ہنگام قتل
دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے
قبر پر آ کر وہ کہتے ہیں یہ کس افسوس سے
مرنے والے کی جگہ خالی مری محفل میں ہے
غیر کی دعوت میں بے حد ہے خیالِ انتظام
اک قدم محفل سے باہر ، اک قدم محفل میں ہے
سیکڑوں صدمے ، ہزاروں درد ، لاکھوں آفتیں
ایک جاں عاشق کی ، اے اللہ! کس مشکل میں ہے
واہ کیا خوب ! آپ نے سیکھی ہے یہ تیرافگنی
زہ میں ہے سوفار اور پیکاں ہمارے دل میں ہے
جب کوئی دیکھا حسیں فوراََ دل اس پر آ گیا
سخت ہوں حیراں کہ یہ کیا چیر آب و گل میں ہے
ہو گیا تیرِ محبت کا اثر دونوں طرف
کچھ تمہارے دل میں ہے اور کچھ ہمارے دل میں ہے
ہم نے کثرت میں وہی دیکھا ہے جو وحدت میں ہے
ہم کو خلوت میں وہی ہے لُطف جو محفل میں ہے
دوستی منہ پر عداوت دل میں یہ بہتر نہیں
منہ پہ کیوں کہتے نہیں جو کچھ تمہارے دل میں ہے
ہے دلِ آزادؔ اک مہماں سرائے مہوشاں
ڈھونڈئیے جس مہ جبیں کو صورت اس کی دل میں ہے
کچھ اثر آزادؔ میرے جذبِ اُلفت نے کیا
آج سنتا ہوں وہاں بھی بے قراری دل میں ہے
——
بحوالہ کتاب : کلیاتِ آزاد ، مرتب :ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری 1997 ء
مصنف : ابوالکلام آزاد ، متفرق صفحات