آج اردو کے نامور ادیب، محقق، نقاد ، شاعر اور ماہر تعلیم سید ابو الخیر کشفی کا یوم وفات ہے۔
——
نامور ادیب، شاعر اور ماہر تعلیم ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی 12 مارچ 1932ء کو کانپور میں پیدا ہوئے۔ کشفی صاحب نے ایک ایسے خانوادے میں آنکھ کھولی جو پشتوں سے علم و ادب اور شعر و سخن کا گہوارہ رہا ہے۔ ان کے دادا سید شاہ محمد اکبر ایک عالم دین بزرگ تھے جو عربی، فارسی اور اردو زبانوں پر مکمل قدرت رکھتے تھے۔ ان کے والد سید ابو محمد ایک نامور شاعر تھے اور ثاقب تخلص کرتے تھے۔ کشفی صاحب کے تایا سید محمد ہاشم جامعہ عثمانیہ میں دینیات کے پروفیسر تھے۔ وہ بھی شاعر تھے اور رسواؔ تخلص کرتے تھے۔اس دور کے بڑے بڑے نامور شاعر، ادیب جب بھی کانپور آتے تو اکثر ثاقب کانپوری کے مہمان ہوتے تھے اور اس طرح ڈاکٹر سید ابو الخیر کشفی صاحب کو بھی ایسے علمی ادبی لوگوں کی صحبت میسر آئی۔ کشفی صاحب کی تعلیم و تربیت گھر کے ماحول میں ہوئی۔ 1947ء میں انہوں نے حلیم مسلم کالج سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔
اسی زمانے میں ملک تقسیم ہو گیا اور ڈاکٹر صاحب پاکستان آگئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ یہاں آکر انہوں نے اپنی تعلیم کو جاری رکھا۔ 1952ء میں انہوں نے جامعہ کراچی سے پہلی پوزیشن میں ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ 1967ء میں نیویارک سے ’’ انگریزی کی تدریس بحیثیت غیر ملکی زبان‘‘ کے موضوع پر ایک اور ایم اے کا امتحان پاس کیا۔ 1971ء میں انہوں نے جامعہ کراچی سے اردو میں پی ایچ ڈی کیا۔ ان کے مقالے کا عنوان ’’اردو شاعری کا تاریخی و سیاسی پس منظر 1707ء سے1857ء‘‘ تھا۔
ایم اے کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب تدریس کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ ابتدا میں وہ اسلامیہ کالج کراچی میں لیکچرار مقرر ہوئے۔ اس کے بعد 1959ء میں وہ جامعہ کراچی کے شعبہ اردو سے منسلک ہو گئے۔اس شعبہ میں ڈاکٹر صاحب نے دو مرتبہ بحیثیت سر براہ اپنی خدمات انجام دیں۔ کشفی صاحب تین سال جاپانی یونیورسٹی میں بھی پروفیسر رہے۔ 18 فروری 1992ء کو جامعہ کراچی کی باقاعدہ ملازمت سے سبکدوش ہو گئے۔ ڈاکٹر صاحب نے تدریس کے ساتھ ساتھ تصنیف و تالیف کاکام بھی جاری رکھا۔ وہ کانپور کے زمانے ہی سے متعدد علمی و ادبی رسالوں کی مجلس ادارت میں شامل رہے ہیں مثلاً ’’ مضراب‘‘ کانپور،’’ قومی زبان‘‘ کراچی، ’’ مہر نیمروز‘‘ کراچی، ’’منزل نیویارک‘‘ اور ’’اردوئے معلی‘‘ جاپان۔ مجلس مطبوعات و تحقیقات اردو کراچی کے ڈائریکٹر جنرل کی حیثیت سے تقریباً بارہ کتابوں کی تالیف و اشاعت کی نگرانی کی۔ تنقید و تحقیق ڈاکٹر صاحب کا خاص موضوع رہا ہے۔ وہ اس موضوع پر تقریباً بتیس کتابیں تالیف یا مرتب کر چکے ہیں۔
ابو الخیر کشفی ایک بلند پایہ تنقید نگار ہیں۔ وہ تنقید نگاری کی اعلیٰ روایت کے پاسدار ہوتے ہوئے بھی اپنے لئے ایک منفرد راستہ منتخب کرتے ہیں۔ وہ ادب میں آفاقیت کے متلاشی تھے اور اسی کو ادب عالیہ پر محمول کرتے تھے جو زمان و مکان کی حدود اور قیود سے آزاد ہو۔ کشفی صاحب کی تنقیدیں تخلیق کا اعلیٰ نمونہ ہیں جو زبان کی شگفتگی اور محاورات کی برجستگی کے ساتھ ساتھ سلاست اور روانی کا ایک نادر نمونہ ہیں اور قاری کے ذہن پر جمالیاتی تاثر چھوڑتی ہیں۔ ابوالخیر کشفی اسلام او ر شارع اسلام صلی اللہ علیہ وسلم سے والہانہ عقیدت رکھتے تھے۔ وہ اسلام کو محض ایک دین ہی نہیں بلکہ ایک آفاقی حقیقت مانتے تھے اور اس کے اصولوں کو صداقتوں کا بہترین معیار مانتے تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : ساحر لدھیانوی کا یومِ پیدائش
——
کشفی صاحب اردو کی تعلیم دینے کے سلسلے میں ٹوکیو ( جاپان) تشریف لے گۓ ۔ ان کے ایک شاگرد "تاکا سان” کراچی تشریف لاۓ اور کشفی صاحب کے ہاں قیام فرمایا ۔ وہ کشفی صاحب اور ان کے اہلِ خانہ کے طرزِ عمل سے اتنے متاثر ہوۓ کہ اسلام قبول کر لیا۔ کشفی صاحب کی کوشش سے "اتاکاسان” کی شادی بھی ان کی اپنی بھانجی سے ہوئی اور اتاکاسان کو کشفی صاحب کا ایک فرد ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
ڈاکٹر احمد مرزا جمیل صاحب لکھتے ہیں :
چین میں ” نوری نستعلیق” کا چرچا ہوا ہے ۔ یہ خوش خبری ایک صاحب نے سنائی کہ جب ریڈیو بیجنگ میں یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے اساتذہ نے ڈاکٹر ابو الخیر کشفی سے پوچھا کہ اردو کے سلسلے میں آپ کے پاس سب اہم خبر کیا ہے تو انھوں نے بے ساختہ کہا ” نوری نستعلیق”۔
اس طرح 1981ء میں کشفی کے نام سے واقف ہوا ۔ کراچی آۓ تو ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا،اور میں نے انھیں کمپوٹری کتابت کے عشق میں مبتلا پایا ۔ انھوں نے اس ایجاد کو دنیا بھر میں متعارف کرانے کرانے کا خود ہی ذمہ لے لیا ۔ کہنے لگے کہ اگر ہم اپنے معاشرے کو علم کے نور سے روشن کرنا چاہتے ہیں اور نظر اور خبر کی دنیا میں دنیا کی امامت کے خواب کو حقیقت میں بدلنا چاہتے ہیں تو ہمارا راستہ ” نوری نستعلیق” سے ہو کر گزرے گا۔
پھر جب اپنے چاروں طرف انھیں کوئی خاص ردِعمل نظر نہیں آیا ، بلکہ بیشتر مقامات پر انا اور کبرِ ذات کے صنم ملے تو کشفی صاحب نے کمر کس لی ، خطوط لکھے ، اکابر و مشاہیر کو جگایا ، بہت سوں کو تو علم ہی نہ تھا کہ اردو کو کمپوٹر کی سواری مل گئی ہے ۔ پلک جھپکنے میں کتاب چھپ سکتی ہے۔
کشفی صاحب کو شعر و سخن سے بھی بڑا لگاؤ ہے۔ وہ ایک خوبصورت شاعر بھی ہیں۔ انہوں نے پابند اور آزاد دونوں قسم کی شاعری کی ہے۔ علمی و تصنیفی کاوشوں کے صلے میں 1975ء میں ڈاکٹر صاحب کو ان کی کتاب ’’شاعری کا سیاسی اور تاریخی پس منظر‘‘ پر داؤد ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ 1991ء میں صدر پاکستان کی طرف سے ’’حیات محمدی: قرآن مجید کے آئینے میں‘‘ قومی سیرت ایوارڈاور نشان عظمت ایوارڈ اور 1993ء میں قائداعظم ادبی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
ڈاکٹر کشفی صاحب کی کتابوں میں مندرجہ ذیل سر فہرست ہیں:
۱۔ حیات محمدی، قرآن مجید کے آئینے میں
۲۔ اردو شاعری کا سیاسی اور تاریخی پس منظر
۳۔ ہمارے عہد کا ادب اور ادیب
۴۔ جدید اردو ادب کے دو تنقیدی جائزے
۵۔ ہمارے ادبی اور لاثانی مسائل
۶۔ یہ لوگ بھی غضب تھے
۷۔ غالب کی چھ غزلیں
ڈاکٹر ابوالخیر کشفی 15مئی 2008ء کو کراچی میں انتقال کر گئے۔
——
منتخب کلام
——
ہر منظرِ مدینہ ختم الرسل کا عکس
رقصاں ہے میرے دل میں چراغاں کیے ہوئے
دیکھے ہے اُن کے عہد کو میری نگاہِ شوق
اشکِ عمرؓ کو زینتِ مژگاں کیے ہوئے
راہِ وفا میں پھول کھلائے بلالؓ نے
اپنے لہو سے خود کو گلستاں کیے ہوئے
——
لبِ عیسیٰ پہ بشارت کی جو مشعل تھا کبھی
عہدِ حاضر کے اندھیروں میں دکھائی دے گا
جس کے ہونٹوں سے ملے لفظ و معانی کو گُہر
” وہ مرے حرف کو اک تازہ نوائی دے گا ”
جب سوا نیزے پہ سورج کی انی چمکے گی
سایۂ دامنِ احمد ہی دکھائی دے گا
ہر صدا حشر کے میدان میں پتھر ہو گی
نغمۂ مُرسلِ آخر ہی سنائی دے گا
میرا دل اسمِ محمد سے سکوں کا مرکز
ذہنِ بے مایہ بھی اب اُس کی دہائی دے گا
——
وہ ایک نام جو آبِ حیات ہے لوگو
مرے لہو میں مری آرزو میں زندہ ہے
صفات و ذات کے پردے اٹھا دئیے جس نے
مری شـراب اُسی اک سبُو میں زندہ ہے
دیارِ شرق سے لے کر دیارِ مغرب تک
یہ مُشتِ خاک تری آرزو میں زندہ ہے
تمہاری یاد ہے جس کے لیے مثالِ حرا
وہ کس وقار سے اس ہاؤ ہوُ میں زندہ ہے
——
تُو حرفِ دعا ہے مرے مولا ، مرے آقا
رحمت کی نوا ہے مرے مولا ، مرے آقا
گردابِ بلا میں ترا نام سفینہ
تو موج کُشا ہے مرے مولا ، مرے آقا
اس حدِ مکانی سے گزر کر ترا نغمہ
میں نے بھی سنا ہے مرے مولا ، مرے آقا
بکھرے ہوئے لمحوں میں سلامت ہیں دل و جاں
یہ تیری عطا ہے مرے مولا ، مرے آقا
جو لمحہ تری یاد سے آباد ہوا ہے
اک کُنجِ حرا ہے مرے مولا ، مرے آقا
تسکینِ دل و جاں کی ہر اک صورتِ مطلوب
طیبہ کی ہوا ہے مرے مولا ، مرے آقا
یہ گُنبدِ خضرا کے قریں طائرِ تنہا
کشفی کی نوا ہے مرے مولا ، مرے آقا
——
مناجات
خداوندا محمد مصطفیٰ کے ابرِ رحمت کو
مری ہسـتی پہ برسا دے
حُدی خوانی سے رستے سہل ہو جائیں
نسیم صبح جب شاخوں کو جھولا دے
مرے نغمے شفاعت کا وسیلہ ہوں
مجھے صدقِ ابوبکرؓ و علیؓ دے دے
عمر فاروقؓ کا جذبہ عنایت ہو
حیائے حضرتِ عثماںؓ نگاہوں کو بدل ڈالے
بصیری کی ردائے پاک کا سایہ ملے مجھ کو
میں اپنے دور کی تاریکیوں کو دور کر جاؤں
قلم کے ساتھ اپنے علم و دانش سے
محمد مصطفیٰ کے نور کو نغموں سے پھیلاؤں
ترے دینِ مبیں کو وُسعتِ عالم میں پھیلاؤں
عمل میرا نشانِ راہِ منزل ہو
مرا بچہ رسولِ پاک کا نقش بن کر
ہماری ناتمامی کو مٹا ڈالے