اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر اور نقاد احمد صغیر صدیقی کا یوم وفات ہے

احمد صغیر صدیقی(پیدائش: 20 اگست 1938ء – وفات: 12 ستمبر 2017ء)
——
نام احمد صغیر صدیقی ۲۰؍اگست ۱۹۳۸ء کو بہرائچ (بھارت) میں پیدا ہوئے۔
تقسیم ہند کے بعد احمد صغیر پاکستان آگئے۔
کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کیا۔
انھیں زرعی ترقیاتی بنیک میں ملازمت مل گئی۔۱۹۹۴ میں ڈپٹی ڈائرکٹر کے عہدے پر پہنچنے کے بعد انھوں نے اختیاری ریٹائرمنٹ لے لی۔
انھیں لکھنے کا شوق لڑکپن سے ہے۔۱۹۵۴ء سے انھوں نے باقاعدہ طور پر لکھنے کا آغاز کیا۔ ابتدا انھوں نے نظموں اور افسانے سے کی۔
دوران ملازمت بھی انھوں نے لکھنے پڑھنے کا شغل جاری رکھا۔ وہ ایک اچھے کہانی نویس، ادیب، نقاد اور شاعر تھے۔
ان کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’’کالی کہانیاں‘‘، ’’دنیا کی بہترین کہانیاں‘‘(ترجمہ چار مجموعے)، ’’بوجھو تو جانیں‘‘(منظوم پہیلیوں کی کتاب بچوں کے لیے) ، ’’گوشے اور اجالے‘‘(تنقید)، ’’اطراف‘‘ (شعری مجموعہ)
آپ نے 12 ستمبر 2017 کو امریکا میں وفات پائی۔
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر اور ڈرامہ نگار عدیم ہاشمی کا یوم پیدائش
——
احمد صغیر صدیقی کی شاعری از ظفر اقبال
——
احمد صغیر صدیقی کی شاعری پر میرا پہلا کالم شائع ہوا تو مجھے ایک ایس ایم ایس موصول ہوا کہ آپ نے اسے ایک بہت بڑا شاعر قرار دیا ہے لیکن اس کے اشعار دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میں نے اسے بہت بڑا شاعر قرار ہی نہیں دیا اور نہ ہی اپنے آپ کو کوئی بڑا شاعر سمجھتا ہوں اور نہ ہی اپنے آپ کو ایسا سرٹیفکیٹ جاری کرنے کا مجاز سمجھتا ہوں۔ جو شاعری مجھے اچھی لگتی ہے میں لکھ کر اس کا اعتراف کرتا ہوں تاکہ یہ دوسروں تک بھی پہنچ جائے۔
اسی دوران کراچی سے ایک دوست کا فون آیا کہ ان اشعار میں تو سارے کا سارا ظفراقبال ہی نظر آتا ہے، وہی لب ولہجہ ، وہی لفظیات ،شعر کہنے کا وہی طریقہ، اس میں احمد صغیر صدیقی کہاں ہے ؟
میں اس سے اتفاق نہیں کرتا، ماسوائے اس کے کہ مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ وہاں وہاں زیادہ بہتر ہے جہاں جہاں میرے قریب تر ہوتا ہے۔ دوسرے یہ کہ میں نے اپنے لب ولہجہ کو پیٹنٹ نہیں کروا رکھا کہ کوئی دوسرا اسے چھو بھی نہیں سکتا۔ پھر میرے تو کئی لہجے ہیں کہ میں ایک لہجے پر ٹک کر بیٹھنے والا کب ہوں۔ تاہم میں لب ولہجے کو ایک صدقہ جاریہ سمجھتا ہوں اور میرے نزدیک کسی دوسرے کے لہجے میں بات کرنا کوئی عیب کی بات بھی نہیں ہے۔
برادرم شمس الرحمن فاروقی نے کوئی دس سال پہلے کہا تھا کہ گزشتہ 35 سال سے ظفراقبال کے رنگ میں غزل کہنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
مجھے آصف فرخی کے سہ ماہی ادبیات ، میں شائع ہونے والے ایک مضمون کا عنوان تھا ’’ظفراقبال اور اس کے مقلدین کا سیلاب‘‘۔ کسی کے لہجے میں شعر کہنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ اس میں کسی قدر اپنا آپ بھی شامل کیا جائے اور وہ محض نقالی نہ ہو۔
امین حزیں سیالکوٹی نے اقبالؔ کے رنگ میں بہت شعر کہے، لیکن اس کا نام بھی اب کون جانتا ہے۔
شہزاد احمد بھی اول اول اقبالؔ سے متاثرتھے لیکن جلدی ہی اس کے اثر سے نکل گئے، قمر رضا شہزاد کا پہلا مجموعہ شائع ہوا تو میں نے اسے اپنی توسیع قرار دیا تھا لیکن بعد میں اس نے اپنا رنگ نکالا اور خوب نکالا۔
——
یہ بھی پڑھیں : صغیر ملال کا یومِ پیدائش
——
احمد صغیر صدیقی ایک سینئر شاعر ہے اس لیے میں اسے اپنی توسیع بھی قرار نہیں دے سکتا۔ اگر وہ مجھ سے متاثر ہے بھی تو کیا اسے میری بجائے سرشار صدیقی سے متاثر ہونا چاہیے تھا؟ سو احمد صغیر صدیقی کی شاعری میں اس کا اپنا بھی بہت کچھ موجود ہے۔ پھر وہ مرنجان مرنج اور ناک کی سیدھ میں چلنے والا شاعر ہے جبکہ میں نے ہر طرح کا شعر کہہ رکھا ہے۔
اگر کوئی کہے کہ یہ شعر فحش اور مخرب الاخلاق ہے تو میں نے وہ شعر بھی کہا ہے۔ اگر کوئی کہے کہ یہ شعر اوٹ پٹانگ اور بے معنی ہے تو میں نے وہ شعر بھی کہہ رکھا ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ کیا یہ بھی شعر ہے، تو میں نے ایسا شعر بھی کہہ رکھا ہے، اس لیے کہ یہ شعر کی تلاش ۔ہی کی ساری کڑیاں ہیں جو میرے اس سارے سفر کا ۔منتہا و مقصود ہے کیونکہ اپنی حالت تو یہ ہے کہ ؏
——
میں بھاگتا پھرتا ہوں بے سود تعاقب میں
یہ شعر کی تتلی ہے جوہاتھ نہیں آتی
——
اس لیے یہ بات کوئی اہمیت نہیں رکھتی کہ احمد صغیر صدیقی نے میرا، یا میں نے اس کا لب ولہجہ اختیار کررکھا ہے کیونکہ یہ صرف لب ولہجہ نہیں، اس میں اور بھی بہت کچھ ہے، یا یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ میری اور اس کی شاعری ہم دونوں کی مشترکہ کارگزاری ہے۔ اس سلسلے کی ایک دلچسپ بات یہ بھی رہی کہ ہمارے دوست انور شعور ؔ نے ایک بار کہا تھا کہ جون ایلیا کا جو لب ولہجہ ہے وہ دراصل ان کا ہے جو جون بھائی نے اڑا لیا۔ تاہم اگر ایسا ہوتو یہ بھی جون بھائی کی ہمت اور طاقت تھی کہ وہ کامیابی سے ایسا کر گئے۔
چنانچہ کوئی جونیئر اگر میرا لب ولہجہ اختیار کرتا ہے تو یہ میرے لیے خوشی کی بات ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر ابرار احمد نے ایک بار کہا تھا کہ آپ کو اس طرح کی شاعری ہی اچھی لگتی ہے جس طرح کی شاعری آپ خود کرتے ہیں۔ ہوسکتا ہے یہ درست ہو کیونکہ قدرتی بات ہے کہ ہر شاعر اپنی پسند کی شاعری کرتا ہے اور اسی طرح کی شاعری دیکھ کر خوش بھی ہوتا ہے اور اسے پسند بھی کرتا ہے ورنہ وہ اس طرح کی شاعری ہرگز نہ کرے، چنانچہ اگر میرے لیے یہ ناپسندیدہ بات ہوتی کہ احمد صغیر صدیقی کم وبیش میری ہی طرح کی شاعری کررہا ہے تو میں اس بات پر افسوس کا اظہار نہ کرتا کہ اس پر تفصیل سے کام ہونا چاہیے تھا اور نہ ہی میں اس کی شاعری پر قلم اٹھاتا ، بصورت دیگر تو وہ میرے نزدیک گردن زدنی ٹھہرتا۔
اس کی کتابوں پر مختلف زعماء نے جورائے دے رکھی ہے، اس پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے، اگرچہ ایسی آراکی حیثیت فرمائشی ہی ہوتی ہے ۔ آپ کی دلچسپی کے لیے کچھ آرا نقل کرتا ہوں :
——
یہ بھی پڑھیں : مولوی عبدالحق کا یوم وفات
——
آپ کی نظموں میں ایک گہری کسک ہے ۔آپ کی امیجری بھی تازہ ہے (وزیر آغا)
آپ کی غزل تازہ اور تراشیدہ دکھائی دیتی ہے، عام ڈگر سے ہٹ کر اپنا راستہ بناتی ہوئی (ڈاکٹر رؤف امیر )
احمد صغیر صدیقی غزل جیسی روایتی صنف میں بھی ذرا جداگانہ روش دکھاتے ہیں۔ ان غزلوں میں غیرمفرس الفاظ کے استعمال سے انہوں نے ایک مخصوص لہجہ تراشا ہے (مظہرجمیل )
بیان کی مانوسیت کو ختم کرکے اسے نامانوس لہجہ عطا کرنے کا عمل جسے رومن جیکسن نے ادبیت اور ایزراپاؤنڈنے نئی تشکیل کہا ہے ،آپ کے ہاں بہت نمایاں نظر آتا ہے ۔(پروفیسر ریاض صدیقی)
احمد صغیر صدیقی کی شاعری میں انوکھے لہجے کی جوبازگشت ہے وہ کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے ۔(سرور جاوید) احمد صغیر صدیقی کی شاعری میں احساس کے بالکل نئے زاویے ہیں (پروفیسر سحر انصاری)
آپ کے کلام کی تازگی نے مجھے متاثر کیا (ڈاکٹر جمیل جالبی کے خط سے اقتباس)
احمد صغیر صدیقی کا کمال یہ ہے کہ قاری جونہی اس شاعرانہ فضا میں داخل ہوتا ہے وہ اتنا مسحور ہوجاتا ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی اس سے نکلنا مشکل ہوجاتا ہے (ڈاکٹر محمدعالم خان ،ماہنامہ تخلیق لاہور)
احمد صغیر صدیقی کا شعر تازہ ہوا کا ایک جھونکا ہے جو اپنے ساتھ خوشبو سمیٹ کر وارد ہوتا ہے (ڈاکٹر توصیف تبسم)
احمد صغیر صدیقی کی شاعری پڑھے جانے اور یاد رکھے جانے کے قابل ہے (ڈاکٹر عنوان چشتی)
ایک اور بات جو احمد صغیر صدیقی کو بے شمار شاعروں سے الگ کرتی ہے وہ شاعر کی پروقار اور اناپرست شخصیت ہے جو کمال ملائمت کے ساتھ شعری پیکروں میں ڈھلتی چلی گئی ہے (ڈاکٹر سجاد نقوی)
آپ نے دیکھا کہ ان میں سے کسی نے بھی اسے ظفراقبال کا ہم لہجہ قرار نہیں دیا۔ لیکن ان پہ اتنا گلہ ضرور ہے کہ شاعر کے بارے میں اتنی اچھی رائے رکھنے کے باوجود کسی نے اس کی شاعری کا تنقیدی جائزہ لینے کی زحمت نہیں اٹھائی ۔ اس کی تازہ ترین کتاب ’’تجرید‘‘ہے جو بعد میں شائع ہوئی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وہ جوکچھ کہنا چاہتا تھا، ’’لمحوں کی گنتی‘‘ ہی میں کہہ چکا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : آفاق صدیقی کا یومِ وفات
——
البتہ اس کی تازہ شاعری کے نمونے کافی جاندار ہیں، اور اس نے اپنا لہجہ برقرار رکھا ہوا ہے ۔میں اس سارے کام پر اسے مبارکباد دیئے بغیر نہیں رہ سکتا کہ جیسی شاعری ہمارے اردگرد ٹنوں کے حساب سے لکھی جارہی ہے، اس کے تناظر میں یہ واقعی تازہ ہواکا ایک جھونکا ہے اور ہمیں ایسی ہی شاعری کی ضرورت بھی ہے!
——
آج کا مقطع سودا سلف کہیں نظر آتا نہیں
ظفرؔ کیسے دکاندار ہو، کیسی دکان ہے
——
منتخب کلام
——
کب سے میں سفر میں ہوں مگر یہ نہیں معلوم
آنے میں لگا ہوں کہ میں جانے میں لگا ہوں
——
ہم کہ اک عمر رہے عشوۂ دنیا کے اسیر
مدتوں بعد یہ کم ذات سمجھ میں آئی
——
یہ کیا کہ عاشقی میں بھی فکر زیاں رہے
دامن کا چاک تا بہ جگر جانا چاہیے
——
آنا ذرا تفریح رہے گی
اک محفل صدمات کریں گے
——
کبھی نہ بدلے دل با صفا کے طور طریق
عدو ملا تو اسے بھی سلام کرتے رہے
——
کسی صورت یہ نکتہ چینیاں کچھ رنگ تو لائیں
چلو یوں ہی سہی اب نام تو مشہور ہے میرا
——
زخم اتنے ہیں بدن پر کہ کہیں درد نہیں
ہم بھی پتھراؤ میں پتھر کے ہوئے جاتے ہیں
——
یہ نہ دیکھو کہ مرے زخم بہت کاری ہیں
یہ بتاؤ کہ مرا دشمن جاں کیسا ہے
——
اور سی دھوپ گھٹا اور سی رکھی ہوئی ہے
ہم نے اس گھر کی فضا اور سی رکھی ہوئی ہے
کچھ مرض اور سا ہم نے بھی لگایا ہوا ہے
اور اس نے بھی دوا اور سی رکھی ہوئی ہے
اس قدر شور میں بس ایک ہمیں ہیں خاموش
ہم نے ہونٹوں پہ صدا اور سی رکھی ہوئی ہے
وہ دعا اور ہے جو مانگ رہے ہیں کہ ابھی
دل میں اک اور دعا اور سی رکھی ہوئی ہے
قصہ اپنا بھی پرانا ہے سوائے اس کے
بس ذرا طرز ادا اور سی رکھی ہوئی ہے
——
اک جسم ہیں کہ سر سے جدا ہونے والے ہیں
ہم بھی زباں سے اپنی ادا ہونے والے ہیں
تعریف ہو رہی ہے ابھی تھوڑی دیر بعد
خوش ہونے والے سارے خفا ہونے والے ہیں
سنتے ہیں وہ انار کلی کھلنے والی ہے
کہئے کہ ہم بھی موج صبا ہونے والے ہیں
قربت میں اس کی اور ہی کچھ ہونے والے تھے
اس سے بچھڑ کے دیکھیے کیا ہونے والے ہیں
منتر کی طرح اس کو پڑھے جا رہے ہیں ہم
اک دن طلسم ہوش ربا ہونے والے ہیں
——
اک خواب ہے یہ پیاس بھی دریا بھی خواب ہے
ہے خواب تو بھی تیری تمنا بھی خواب ہے
یہ التزام دیدۂ خوش خواب بھی ہے خواب
رنگ بہار قامت زیبا بھی خواب ہے
وہ منزلیں بھی خواب ہیں آنکھیں ہیں جن سے چور
ہاں یہ سفر بھی خواب ہے رستہ بھی خواب ہے
یہ رفعتیں بھی خواب ہیں یہ آسماں بھی خواب
پرواز بھی ہے خواب پرندہ بھی خواب ہے
ہیں اپنی وحشتیں بھی بس اک خواب کا طلسم
یارو فسون وسعت صحرا بھی خواب ہے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ