اردوئے معلیٰ

Search

آج جدید اردو نظم کے بنیاد سازوں میں شامل ، صف اول کے فلم مکالمہ نگار اختر الایمان کا یوم وفات ہے۔

اختر الایمان(پیدائش: 12 نومبر 1915ء – وفات: 9 مارچ 1996ء )
——
فلم ’وقت‘ اور ’قانون‘ کے مکالموں کے لئے مشہور۔ فلم ’ وقت ‘ کا ان کا مکالمہ ’ جن کے گھر شیشے کے ہوں وہ دوسروں پر پتھر نہیں پھینکتے‘ آج بھی زبانوں پر ہے۔
——
اختر الایمان ضلع بجنور (اترپردیش) کی تحصیل نجیب آباد میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد کا نام مولوی فتح محمد تھا ۔ اختر الایمان جدید نظم کے مایہ ناز شاعر ہیں اور انہوں نے بالی ووڈ کو بھی خوب سیراب کیا ہے۔ اخترالایمان کا پیدائشی نام راؤ فتح محمد رکھا گیا تھا۔ راؤ اس راجپوت گھرانے کی وجہ سے تھا، جن سے ان کا تعلق تھا۔ اسی نام کی مناسبت سے ان کے گاؤں کا نام راؤ کھیڑی تھا۔ انہیں 1963ء میں فلم دھرم پوتر میں بہتری مکالمہ کے لیے فلم فیئر اعزاز سے نوازا گیا۔ یہی اعزاز انہیں 1966ء میں فلم وقت (فلم) کے لیے بھی ملا۔ 1962ء میں انہیں اردو میں اپنی خدمات کے لیے ساہتیہ اکیڈمی اعزاز ملا۔ یہ اعزاز ان کا مجموعہ یادیں کے لیے دیا گیا تھا۔
——
ابتدائی زندگی اور تعلیم
——
ان کی ولادت 1915ء میں پتھر گنج، نجیب آباد ، بجنور ضلع، اتر پردیش، بھارت میں ہوئی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم بجنور میں ہی حاصل کی جہاں ان کی ملاقات اردو شاعر خورشید الاسلام سے ہوئی۔ وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں معلم تھے اور رالف رسل سے ان کا گہرا واسطہ تھا۔ اختر الایمان نے ذاکر حسین دہلی کالج سے گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔
——
کیرئر
——
یوں تو اردو شاعری میں غزل کا بول بالا رہا ہے اور ابتداءا ہر شاعر غزل میں طبع آزامائی کرتا ہے مگر اخترالایمان نے غزم کی بجائے نظم کو ترجیح دی اور ایک کامیاب نظم کے شاعر بن کر ابھرے۔ یہ بات الاگ ہے کہ ان کی زبان غیر شاعرانہ ہے۔ لیکن ان کا پیغام بہت موثر ہے۔
——
شاعرانہ نام کی وجہ
——
اس قلمی نام کو چننے کی وجہ یہ تھی کہ اس سے 1334ھ کا سال نکلتا ہے جو 1915ء اور 1916ء کو محیط ہے۔ اختر الایمان کی ولادت 12 نومبر 1915ء کو ہوئی تھی۔
——
تعلیم اور ابتدائی ملازمت
——
اختر الایمان نے دہلی یونیورسٹی سے بی اے پاس کیا تھا۔ انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔
اس کے بعد کچھ عرصے تک وہ محکمہ سول سپلائز سے جڑے رہے۔ پھر انہوں نے آل انڈیا ریڈیو، دہلی میں بھی کام کیا تھا ۔
——
ممبئ منتقلی
——
اختر الایمان ابتدائی ملازمتوں کے بعد میں فلموں میں کرنے سے پہلے پونے گئے تھے۔ پھر وہ ممبئی نقلِ مقام کر گئے تھے جہاں تاحیات فلموں میں مکالمہ نگار اور اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔
——
ذاتی زندگی
——
اختر الایمان نے اپنی سوانح اور کچھ نظموں میں کئی لڑکیوں یا عورتوں کا ذکر کیا ہے جن سے ان کے قریبی تعلقات تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر اور گیت کار جان نثار اختر کا یوم وفات
——
یہ ان کی سلطانہ منصوری سے شادی سے پہلے کے واقعات تھے۔ اختر کی یہ شادی ہندوستان کی تقسیم کے دور میں ہوئی تھی۔ ان کی اولاد کی تعداد چار ہے۔ ان کی ایک لڑکی کا نام اسما ہے جبکہ سب سے بڑی لڑکی کا نام شہلا ہے۔ ان کی ایک اور لڑکی کا نام رخشندہ ہے۔ ان کے علاو ایک لڑکا ہے جس کا نام رامش ہے، یہ تیسرے نمبرپ رہے۔
——
ادبی تخلیقات
——
اختر الایمان کی تصانیف میں ایک منظوم ڈراما بعنوان “سب رنگ“ 1948ء میں چھپا تھا۔ ان کے کلام کے مجموعے کا عنوان “یادیں “ تھا۔ اسے 1962ء میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا۔ انکا آخری مجموعہ کلام ان کے انتقال کے بعد “زمستان سرد مہری کا “ کے نام سے شائع ہوا تھا۔
——
شاعری کی نوعیت
——
اخترالایمان نطم کے شاعر تھے۔ ان کی تقریبًا تمام نطمیں ہیئت کے اعتبار سے آزاد یا معرا ہیں۔ اخترالایمان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ تھی کہ انہوں نے روایتی شعری وضع داری سے خود کو الگ رکھا۔ ان کی شاعری کو فکری لحاظ سے “اس عہد کا ضمیر“ کہا گیا ہے ۔
——
حلقہ احباب
——
اخترالایمان جب نوشادی شدہ تھے، میراجی ان کے گھر میں مہمان تھے۔ اختر کی سوانح کے بقول، وہ اچھے مہمان نہیں تھے، ان کی صحت خراب رہتی تھی۔ پھر بھی نوشادی شدہ جوڑا ان کی دیکھ ریکھ میں کوئی کمی نہیں چھوڑتا تھا۔
میراجی کے علاوہ راجندر سنگھ بیدی، مجروح سلطانپوری، جانثار اختر اور قاضی سلیم سے اخترالایمان کے گھریلو مراسم تھے۔
——
باقیات اختر الایمان: ایک جائزہ – ڈاکٹر نوشاد منظر
چند اقتباسات
——
اختر الایمان کا شمار اردو کے نمائندہ نظم گو شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی شاعری کے سات مجموعے تاریک سیارہ(۱۹۴۳)، گر دآب(۱۹۴۶)، آب جو(۱۹۵۹)، یادیں(۱۹۶۱)، بنت لمحات(۱۹۶۹)، نیا آہنگ(۱۹۷۷) سرو سامان(۱۹۸۳) شائع ہوئے،بادوجود اس کے ان کی بہت سی نظمیں شائع ہونے سے رہ گئیں بلکہ دوسرے لفظوں میں اختر الایمان نے اسے اشاعت کے قابل نہیں سمجھا۔بیدار بخت نے اختر الایمان کی ان نظموں اور دیگر نگارشات جو شائع ہونے سے رہ گئیں کو یکجا کر کے ’’باقیات اختر الایمان:تحریریں جو مطبوعہ کتاب میں نہیں ہیں‘‘ کے عنوان سے شائع کیا۔ اس کتاب میں اختر الایمان سے بیدار بخت کی گفتگو (شب خون میں شائع شدہ) کے علاوہ بائیس نظمیں،دس افسانے،ایک ڈرامہ،چار تنقیدی مضامین کے علاوہ چیخوف کے ایک افسانے کا ترجمہ اور ان کی ڈائری سے چند اقتباسات شامل ہیں۔
اختر الایمان بنیادی طور پر نظم کے شاعر تھے حالانکہ ابتدائی دنوں میں انہوں نے کچھ غزلیں بھی کہی مگر ان کی دلچسپی نظموں میں رہی بلکہ وہ غزل گوئی کو بہت زیادہ پسند بھی نہیں کرتے ان کاخیال ہے اختصار تو دوہے میں ہوتا ہے کیونکہ وہاں بھی سیاق و سباق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ان کا خیال ہے کہ’ غزل اپنے saturation point پر پہنچ چکی ہے۔‘(ص۱۴)۔Saturation poin سے ان کی کیا مراد ہے؟ آخراخترالایمان نے کن بنیادوں کے پیش نظر غزل کی سیرابی(Saturation) مکمل ہونے کی بات کی ہے؟یہ ممکن ہے کہ ان کے نزدیک غزل اپنے سنہری دور گزار چکا ہے اور انہیں شاید اپنے معاصرین کے یہاں دہرائے جانے کا عمل نظر آتا ہو۔ مگر اہم سوال یہ بھی قائم ہوتا ہے کہ کیا سچ میں غزل میں اب کچھ نیا کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی؟یا ان کی نظر ترقی پسند تحریک کی شاعری کا و حصہ تھا جس میں موضوع اور فن دونوں ہی لحاظ سے تقلید کا غلبہ نظر آتا ہے؟حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں بھی جب پورے ادب پر ترقی پسند تحریک کا اثر تھا اور شعرا ایک منشور کے تحت شاعری کررہے تھے بلکہ ایک دوسرے کی تقلید اور اپنے آپ کو دہرا رہے تھے اس دور میں بھی ہمارے شعرا نے نئے مزاج نئے موضوعات کو اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔اختر الایمان کے یہاں غزل سے اختلاف کی وہ صورت تو نظر نہیں آتی جو عظمت اللہ خاں اور کلیم الدین احمد کے یہاں نظر آتی ہے ہاں وہ اپنے جذبات و احساسات کی ترجمانی کے لیے نظم گوئی کو غزل گوئی پر فوقیت دیتے ہیں———-
——
یہ بھی پڑھیں : اردو کے نامور فلمی شاعر تنویر نقوی کا یومِ وفات
——
اختر الایمان کی رومانی شاعر کی حیثیت سے بھی پہچانے جاتے ہیں۔کلیات اختر الایمان میں ایسی کئی خوبصورت نظمیں موجود ہیں جن میں رومان اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔اختر الایمان کے متعلق شکیل الرحمن کا خیال درست معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی نظموں سے پوری نئی نسل کو متاثر کیا ہے۔ شکیل الرحمن کا کؤخیال ہے کہ اختر الایمان جدید اردو شاعری کے ایک منفرد رومانی شاعر ہیں۔کسی بھی فن پارے کے وجود میں آنے کا کوئی نہ کوئی محرک ہوتا ہے، اور جب بات رومانیت کی ہو تو اس کا محرک یقینا کوئی انسانی خدوخال کا محبوب ہی ہوتا ہے۔حالانکہ اختر الایمان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ حسن و عشق کے ذکر کو بہت زیادہ پسند بھی نہیں کرتے تھے مگر انسان اپنی روایت سے بھلا کس طرح کنارہ کشی اختیار کرسکتا ہے۔جو چیزین انسان نکے سرشت کا حصہ بن گئی ہو اس سے کوئی کتنا بھی بچنا چاہے خوفؤد کو محفوط نہیں رکھ سکتا۔ اپنی رومانی شاعری کے متعلق اختر الایمان لکھتے ہیں:
’’میری اکثر نظمیں جن میں رومان کی جھلک ہوتی ہے، ان سب کے پس منظر میں اکثر حمیدہ ہوتی ہے۔ اگرچہ ایک دو کے پس منظر میں ایک دو اور عورت بھی ہیں، جیسے عباسی(قیصر) اور سلطانہ۔‘‘
(باقیات اختر الایمان۔ بیدار بخت۔ ص ۲۹۱۔۲۹۲)
اختر الایمان اور حمیدہ کی دوستی کالج کے زمانے سے تھی اور یہ وہی حمیدہ ہیں جن کے نام اختر الایمان نے ایک نظم ’حمیدہ کے نام ‘‘بھی کہی تھی۔اختر الایمان کی یہ ڈائری ان کی شاعری اورزندگی دونوں کی عمدہ تصویر پیش کرتا ہے۔ ڈائری میں چونکہ ڈائری نویس خود سے مخاطب ہوتا ہے اس لیے جھوٹ کی گنجائش کم ہوجاتی ہے۔ یہی خوبی اختر الایمان کی ڈائری میں بھی نظر آتی ہے۔اس ڈائری کے مطالعے سے کہیں کہیں قاری کے دل میں اختر الایمان کے متعلق نفرت کے عناصر نمایاں ہوجاتے ہیں تو کہیں ان کی سادگی پر پیار آتا ہے۔
بیدار بخت نے ’’ باقیات اخترالایمان‘‘ کو شائع کر اختر الایمان کے قارئین کو ایک ایسا علمی تحفہ دیا ہو جس کے مطالعے سے ایک شاعر اور ادیب کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ ادب کے متعلق نظریات کی نشاندہی ہوتی ہے۔
——
منتخب کلام
——
درد کی حد سے پرے
درد کی حد سے پرے کوئی نہیں جا سکتا
درد کی حد سے پرے سوچ لو تم کچھ بھی نہیں
ایک سنّاٹا ہے، احساس کی ادراک کی موت
یہ کرہ، گھومتی پھرتی یہ ستم کوش زمیں
خاک اور آب کا اِک گولا ہے بے رونق سا
آؤ چھپ جائیں، چلو موت کے ڈر سے بھاگیں
تم مری بانہوں میں، میں زلفوں میں چھپ جاؤں یہیں
اور اس درد کا اظہار کریں
زندگی جس سے عبارت ہے تمام
درد کی حد سے پرے سوچ لو تم کچھ بھی نہیں
گرمیِ عشق، یہ بوسوں کی حرارت، یہ سد مھ
جو پسینہ میں ہے یہ جھرجھری جو تم نے ابھی
سینہ کو چھونے سے لی، سب یہ سمو لےنم کی بھوک
جسم کے ٹوٹنے اِک نشہ میں گھل جانے کا رس
رنگ میں، نغموں میں اور لمس میں ڈھلنے کی ہوس
سال، صدیاں یہ قرن، ماہ، یہ لمحے، یہ نفس
کیف، بہجت، خوشی، تسکین، مسرت سب کچھ
سب یہ اس واسطے ہے درد ہے ساتھی ہر وقت
درد پیمانہ ہے ہر چیز کا اس دنیا میں
زیست اِک واہمہ ہے ذات کے ہونے کا گماں
درد کی حد سے پرے کچھ بھی نہیں جس کا نشاں
درد کی حد سے پرے سوچ لو تم کچھ بھی نہیں
ایک سنّاٹا ہے احساس کی ادراک کی موت
درد کی حد سے پرے کچھ بھی نہیں جان کہیں
درد کی حد سے پرے کوئی گیا بھی تو نہیں!
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر اور گیت نگار ، صہباؔ اختر کا یوم وفات
——
اتفاق
دیار غیر میں کوئی جہاں نہ اپنا ہو
شدید کرب کی گھڑیاں گزار چکنے پر
کچھ اتفاق ہو ایسا کہ ایک شام کہیں
کسی اِک ایسی جگہ سے ہو یوں ہی میرا گزر
جہاں ہجوم گریزاں میں تم نظر آ جاؤ
اور ایک ایک کو حیرت سے دیکھتا رہ جائے!
——
عمر گریزاں کے نام
عمر یوں مجھ سے گریزاں ہے کہ ہر گام پہ میں
اس کے دامن سے لپٹتا ہوں مناتا ہوں اسے
واسطہ دیتا ہوں محرومی و ناکامی کا
داستاں آبلہ پائی کی سناتا ہوں اسے
خواب ادھورے ہیں جو دُہراتا ہوں ان خوابوں کو
زخم پنہاں ہیں جو وہ زخم دکھاتا ہوں اسے
اس سے کہتا ہوں تمنّا کے لب و لہجے میں
اے مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں
سنتا ہوں تو ہے پری پیکر و فرخندہ جمال
سنتا ہوں تو ہے مہ و مہر سے بھی بڑھ کے حسیں
یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں کہ ابھی تک میں نے
جاننا تجھ کو کجا پاس سے دیکھا بھی نہیں
صبح اُٹھ جاتا ہوں جب مرغ اذاں دیتے ہیں
اور روٹی کے تعاقب میں نکل جاتا ہوں
شام کو ڈھور پلٹتے ہیں چراگاہوں سے جب
شب گزاری کے لیے میں بھی پلٹ آتا ہوں
یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی
خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں
ملتوی کرتا رہا کل پہ تری دید کو میں
اور کرتا رہا اپنے لیے ہموار زمیں
آج لیتا ہوں جواں سوختہ راتوں کا حساب
جن کو چھوڑ آیا ہوں ماضی کے دھندلکے میں کہیں
صرف نقصان نظر آتا ہے اس سودے میں
قطرہ قطرہ جو کریں جمع تو دریا بن جائے
ذرّہ ذرّہ جو بہم کرتا تو صحرا ہوتا
اپنی نادانی سے انجام سے غافل ہو کر
میں نے دن رات کیے جمع خسارہ بیٹھا
جاننا تجھ کو کجا پاس سے دیکھا بھی نہیں
اے مری جان مری لیلیِ تابندہ جبیں
یوں نہ ہو مجھ سے گریزاں مرا سرمایہ ابھی
خواب ہی خواب ہیں خوابوں کے سوا کچھ بھی نہیں!
——
کوئی جو رہتا ہے رہنے دو مصلحت کا شکار
چلو کہ جشن بہاراں منائیں گے سب یار
چلو نکھاریں گے اپنے لہو سے عارض گل
یہی ہے رسم وفا اور منچلوں کا شعار
جو زندگی میں ہے وہ زہر ہم بھی پی ڈالیں
چلو ہٹائیں گے پلکوں سے راستوں کے خار
یہاں تو سب ہی ستم دیدہ غم گزیدہ ہیں
کرے گا کون بھلا زخم ہائے دل کا شمار
چلو کہ آج رکھی جائے گی نہاد چمن
چلو کہ آج بہت دوست آئیں گے سر دار
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ