آج نامور خطیب، عالم دین اور شاعر علامہ رشید ترابی کا یوم پیدائش ہے

(ولادت: 9 جولائی 1908ء – وفات: 18 دسمبر 1973ء)
——
رضا حسین المعروف علامہ رشید ترابی پاکستان سے تعلق رکھنے والے عالم اسلام کے بلند پایہ خطیب، عالم دین اور شاعر تھے۔
علامہ رشید ترابی 9 جولائی 1908ء کو برطانوی ہند کی ریاست حیدرآباد میں پیدا ہوئے۔ ان اصل نام رضا حسین تھا لیکن رشید ترابی کے نام سے مشہور ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم علامہ سید علی شوستری، آغا محمد محسن شیرازی، آغا سید حسن اصفہانی اور علامہ ابوبکر شہاب عریضی سے حاصل کی، شاعری میں نظم طباطبائی اور علامہ ضامن کنتوری کے شاگرد ہوئے اور ذاکری کی تعلیم علامہ سید سبط حسن صاحب قبلہ سے اور فلسفہ کی تعلیم خلیفہ عبدالحکیم سے حاصل کی۔ عثمانیہ یونیورسٹی سے بی اے اور الہ آباد یونیورسٹی سے فلسفہ میں ایم اے کیا۔ علامہ رشید ترابی نے 10 برس کی عمر میں اپنے زمانے کے ممتاز ذاکر مولانا سید غلام حسین صدر العلماء کی مجالس میں پیش خوانی شروع کردی تھی۔ سولہ برس کی عمر میں انہوں نے عنوان مقرر کرکے تقاریر کرنا شروع کیں۔ تقاریر کا یہ سلسلہ عالم اسلام میں نیا تھا اس لیے انہیں جدید خطابت کا موجد کہا جانے لگا۔ 1942ء میں انہوں نے آگرہ میں شہید ثالث کے مزار پر جو تقاریر کیں وہ ان کی ہندوستان گیر شہرت کا باعث بنیں۔ علامہ رشید ترابی اس دوران میں عملی سیاست سے بھی منسلک رہے اور نواب بہادر یار جنگ کے ساتھ مجلس اتحاد المسلمین کے پلیٹ فارم پرفعال رہے۔ محمد علی جناح کی ہدایت پر انہوں نے مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور 1940ء میں حیدرآباد دکن کی مجلس قانون ساز کے رکن بھی منتخب ہوئے۔ عقیل ترابی ونصیر ترابی ان کے فرزند تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : علامہ رشید ترابی کا یوم وفات
——
دسمبر 1947ء میں علامہ رشید ترابی کو قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان مدعو کیا تاکہ حضرت مالک اشتر کے نام لکھے گئے حضرت علی ابن ابی طالب کے مشہور خط کا انگریزی میں ترجمہ کریں۔ یہ صفر کا مہینہ تھا، رشید ترابی کی کراچی میں موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے کراچی کے ایک مہتممِ مجالس سید محمد عسکری نے رشید ترابی کو خالق دینا ہال کراچی میں صفر کے دوسرے عشرہ مجالس سے خطاب کرنے کی درخواست کی۔ علامہ نے یہ درخواست قبول کرلی اور 10 صفر، 1367ھ (24 دسمبر، 1947ء) سے چہلم تک خالق دینا ہال میں اپنے پہلے عشرہ مجالس سے خطاب کیا۔ اس کے بعد (سے 26 سال تک) وہ جب تک زندہ رہے وہ خالق دینا ہال میں ہر برس مجالس کے عشرے سے مستقل خطاب کرتے رہے۔
انہوں نے 1951ء سے 1953ء تک کراچی سے روزنامہ المنتظرکا اجرا کیا۔ اس سے قبل انہوں نے حیدرآباد دکن سے بھی ایک ہفت روزہ انیس جاری کیا تھا۔ 1957ء میں ان کی مساعی سے کراچی میں 1400 سالہ جشن مرتضوی بھی منعقد ہوا۔
علامہ رشید ترابی ایک قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ ان کے کلام کا ایک مجموعہ شاخ مرجان کے نام سے شائع ہوچکا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی مرتب کردہ کتابیں طب معصومین، حیدرآباد کے جنگلات اور دستور علمی و اخلاقی مسائل بھی شائع ہوچکی ہیں۔
——
تصنیف و تالیف
——
شاخ مرجان
طب معصومین
حیدرآباد کے جنگلات
دستور علمی و اخلاقی مسائل
——
وفات
——
علامہ رشید ترابی 18 دسمبر 1973ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور کراچی میں حسینیہ سجادیہ کے احاطے میں آسودۂ خاک ہوئے۔
——
علامہ رشید ترابی ایک عہد کی آواز تھے وہ منبر سے ذکر حسین کے سلسلے میں بلند ہونے والی ایک بلند آھنگ و توانا صدا تھے جو مسلسل تین عشروں تک کراچی اور پاکستان کے مختلف گوشوں میں گونجتی رہی
علامہ رشید ترابی مرحوم چونکہ تحریک پاکستان کے دوران قائد اعظم محمد علی جناح کے رفقاء میں شمار ہوتے تھے تو ۱۹٤۷ میں قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے انہیں حیدرآباد دکن سے بلوا کر پاکستان کی مرکزی حکومت میں کوئی زمہ داری سونپنا چاہی لیکن علامہ نے منع کر دیا اور آپ واپس جانے لگے تو قائد کی فرمائش پر آپ نے اورئینٹ ہوٹل میں قیام کیا اور امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے مالک اشتر کو لکھے گئے اس خط کا انگلش میں ترجمہ کیا جو امیرالمؤمنین علیہ السلام نے مالک اشتر کو مصر کا گورنر مقرر کر کے بھیجتے ہوئے انکے حوالہ کیا۔ علامہ نے اس خط کو اس عنوان سے ترجمہ کیا
Do’s & Don’ts of a Successful Administration
——
یہ بھی پڑھیں : نصیر ترابی کا یومِ پیدائش
——
قائد نے یہ ترجمہ تمام وزارتوں کو بھجوانے کی ھدایات جاری کیں
آپ دوبارہ ۱۹٤۹ میں کراچی آ کر مقیم ہوئے اور باقاعدہ اپنی مذھبی و ملّی خدمات کا آغاز کیا
استاد قمر جلالوی جن کا نام سید محمد حسین تھا کو علامہ نے میرِ ثانی کا لقب دیا تھا وہ استاد کے بڑے مداح تھے اور زندگی کے آخری حصے میں استاد کے معاشی مسائل کے پیش نظر انہیں علامہ اپنے گھر پہ لے آئے تھے اور انکے شایان شان انکے قیام و طعام کے انتظامات کئے گئے تھے استاد کا ۱۹٦۹ میں انتقال ہوا
استاد قمر جلالوی کا ادبی قدوقامت کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن مرحوم امیر حسین چمن کی کتاب ” منبر کا دوسرا نام – علامہ رشید ترابی ” میں شائع شدہ استاد کے ایک خط کی عکسی تصویر میں استاد نے علامہ مرحوم کے متعلق یہ اعتراف کیا ہے کہ اگر علامہ کے کلام کی تفہیم سے آج کی نسل کو متعارف کرایا جائے تو یہ علامہ اور ادب دونوں کی بہت بڑی خدمت ہو گی
علامہ نے قیام پاکستان کے وقت جب تاج برطانیہ نے پاکستان کے حصے کے مکمل مالیاتی ریزروز reserves پاکستان کو نہیں دئے تو قومی حکومت کو ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا تو جہاں راجہ صاحب محمود آباد امیر علی خان نے اس میں بہت contribute کیا وہیں پر علامہ مرحوم نے ریاست حیدرآباد دکن کے حکمران نواب میر عثمان علی خان سے حکومت پاکستان کی اس فوری مشکل کو حل کروایا اور وفاقی ملازمین کی تنخواھوں کی ادائیگی ممکن ہو سکی
سیٹھ حبیب پہلے بمبئی میں بینکنگ کرتے تھے لیکن علامہ کے کہنے پر انہوں نے کراچی کو اپنے بینک کا مرکز بنایا جب ۱۹۷۲ میں بھٹو صاحب نے تمام بینکوں کو قومیا لیا تو اسکے باوجود حبیب فیملی دل شکستہ نہ ہوئی اور آج اس فیملی کے تیرہ سے زائد بینکوں کے علاوہ دیگر بزنسز بھی جاری ہیں جو ملکی ترقی میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں
گوکل فیملی جو کہ شپنگ کی صنعت کا ایک بڑا معروف حوالہ ہے ان پر حکومتی ظلم و ستم کے دور میں علامہ نے اپنی بریٹو روڈ والی رہائش گاہ کا بالائی پورشن انکے حوالے کر دیا اور انکی حتی المقدور بحران سے نکلنے میں استعانت بھی کی اور پھر اسی گوکل فیملی نے پاکستان کے نیوکلئیر پروگرام میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا
——
یہ بھی پڑھیں : رشید احمد صدیقی کا یوم پیدائش
——
آغا حسن عابدی بینکنگ انڈسٹری کا ایک بہت بڑا نام ہے وہ اسوقت UBL بینک سے وابستہ تھے وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی بینکنگ انڈسٹری کو بین الاقوامی سطح پر روشناس کرانے کا آئیڈیا ہمیں علامہ رشید ترابی صاحب نے دیا اور ہماری رہنمائی بھی کی وہ کہتے ہیں کہ BCCI کے ساتھ تھرڈ ورلڈ فاؤنڈیشن کے قیام میں علامہ کا مشورہ بھی ہمارے پیش نظر تھا
گویا کہ علامہ رشید ترابی محض ایک مذھبی اسکالر اور خطیب ہی نہیں تھے بلکہ وہ ایک کثیر الجہت شخصیت اور کردار کے حامل انسان تھے
——
نمونہ کلام
——
رہے جو شام و سحر اُن کے آستاں کو سلام
یہی ہے خلد ، اب آرامِ قلب و جاں کو سلام
دعائیں دیتی ہوئی بے کسی آگے بڑھی
کیا جو برق نے جُھک جُھک کے آشیاں کو سلام
پرائے تنکے تھے آندھی کا اک بہانہ تھا
گھر اپنا دیکھ لیا ، عمرِ رائیگاں کو سلام
کوئی سنے گا کہاں تک ہوش کی باتیں
مذاقِ عشق بگڑتا ہے ، رازداں کو سلام
میں جا رہا ہوں نگاہوں میں لے کے جلوۂ دوست
حیاتِ عقل ملی ، مرگِ ناگہاں کو سلام
ترے نثار نشیمن کو پھونکنے والے
مکاں کی قید میں مشکل تھا لامکاں کو سلام
رشیدؔ پاؤں کے چھالے بہت ستاتے ہیں
میری طرف سے کہو میرِ کارواں کو سلام
——
داستاں صبر کی غیروں کو سنائی نہ گئی
جُز رَسی دردِ خداداد میں پائی نہ گئی
فکرِ آزاد کو پروائے نشیمن کب تک
تہمتِ تنگ دلی مجھ سے اُٹھائی نہ گئی
حرکتِ نفس طلب اور طلب لامحدود
لطفِ ساقی ہے کہ یہ پیاس بجھائی نہ گئی
اے گزرتی ہوئی دنیا سے لپٹنے والے
کیا گلہ ہے جو تری آبلہ پائی نہ گئی
ذائقہ کون بدل دیتا ہے ہر منزل پر
موت کہتے ہیں جسے وہ تو نہ آئی نہ گئی
ایک سجدے میں کیا کون و مکاں کو اپنا
مر گئے اور ترے بندوں سے خدائی نہ گئی
حیف اُس طائرِ بے حال کے نغموں پہ رشیدؔ
آشیانہ تو گیا تلخ نوائی نہ گئی
——
ہوائے دوست میں فکرِ صراط کیا کرتے
زمیں پہ پاؤں نہ تھے احتیاط کیا کرتے
شراب نام ہے خود ساختہ تغافل کا
خرد کو آگ لگی تھی نشاط کیا کرتے
جو ہم نشیں تھے گل و خار کہہ دیا ، ہمسر
فریبِ عہد ہے یہ ، بے بساط کیا کرتے
قدم قدم پہ نئے گل کُھلا رہی ہے ہوس
حیا سے گڑ گئے ہم انبساط کیا کرتے
رچائے بیٹھے ہیں ہو موڑ پر جو عشق کا ڈھونگ
جُنوں کو عقل سے کیا ارتباط کیا کرتے
گراں ہیں گوش ، نظر میں ضرر ، خرد میں فساد
تلاشِ طُور ، دمِ انحطاط کیا کرتے
خمیرِ نورِ ولایت ہے ان کی طینت میں
پھر آب و گل سے رشیدؔ اختلاط کیا کرتے
——
یہ وہ بستی ہے جہاں دل کو قرار آتا ہے
ذرہ ذرہ میں نظر نقش و نگار آتا ہے
قطرہ پانی کا خمِ مےِ بہ کنار آتا ہے
بہمن و دے میں بھی یاں لطفِ بہار آتا ہے
زندہ ہوں آج جو یہ شہر بسانے والے
خلد کا نام نہ لیں خلد کے جانے والے
——
حوالہ جات
——
تحریر : تبسم نواز وڑائچ ، 28 جون 2022 کو فیس بک پہ رشید ترابی صاحب کے فین کلب گروپ میں شائع ہوئی۔
شعری انتخاب از شاخِ مرجان ، متفرق صفحات :