کس کو سامع کرے سخن میرا

رائیگاں جا رہا ہے فن میرا آنچ کچھ کم نہ تھی محبت کی اب چٹخنے لگا ہے تن میرا میں کہ اپنا ہی بن نہیں پاتا کیا کہوں گا تجھے کہ بن میرا رہنِ بے چارگی ، ترے جلوے رزقِ آشوب ، بانکپن میرا رُوح کی پیاس بجھ نہیں پاتی سخت مشکل میں ہے بدن […]

کھو چکا قبل ازیں بول کے گویائی بھی

چھین لی جائے نہ گستاخ کی بینائی بھی آگہی ، جادوئی زنبیل ہے ، جس میں سمٹی وسعتِ خواب بھی ، تعبیر کی گہرائی بھی وہ سخن پوش بھی خاموش ہے عریاں ہو کر دم بخود ہیں سرِ بازار ، تماشائی بھی کوچہِ عشق میں گم نام نہیں مر سکتا خود نُما شوق کو منظور […]

کیف عظیم آبادی کا یومِ وفات

آج معروف شاعر کیف عظیم آبادی کا یومِ وفات ہے (پیدائش: 8 جون 1937ء – وفات: 24 جنوری 1994ء) —— کیف عظیم آبادی 8 جون 1937ء کو شہر عظیم آباد ، پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔ 19 نومبر 1979 ء کو ایک حادثے کے نتیجے میں ان کو داہنی ٹانگ سے محروم ہونا پڑا ۔ […]

خیال

پھسلنے لگ گئے ہیں ریت کے ذرات مٹھی سے وہ ایسے عشقِ لا حاصل پہ قانع کب تلک رہتا عطائےِ دست گیری ، دست کَش ہونے کے عالم تک بس اِک احساس مانع تھا سو مانع کب تلک رہتا بھلا کب تک نظر محدود رہتی ایک منظر میں شکستِ خواب کی تکلیف کب تک جھیلتی […]

خاک تھا ، جزو ِ خاکداں ٹھہرا

خاک تھا ، جزوِ خاکداں ٹھہرا میں بہر حال رائیگاں ٹھہرا ہو گئے آر پار ہاتھ ترے میں ترے واسطے دھواں ٹھہرا درد میں کس طرح کمی ہو گی عشق کم بخت جاوداں ٹھہرا چیختا رہ گیا میں رستوں میں وقت ٹھہرا ، نہ کارواں ٹھہرا مضمحل ہو گئے قوی ، لیکن جذبہِ جستجو جواں […]

کرتا ہے جنوں شام و سحر ورق سیاہ بھی

ہے طنز مگر عشق کو احباب کی ”واہ“ بھی اشعار مرے داخلی منظر کی جھلک ہیں یہ عین سعادت بھی ہوئے اور گناہ بھی لگ جائے کہیں میری نظر ہی نہ مجھی کو بھرتی ہے تخیل کی پری ناز سے آہ بھی گلشن ہوں تو میں رشکِ خیابانِ ارم ہوں صحرا ہوں تو بے انت […]

کوہ و دامان و زمین و آسماں کچھ بھی نہیں

ہاتھ دو پھیلے ہیں جن کے درمیاں کچھ بھی نہیں حسرت و وحشت میں آتش ہو گئی بے چارگی راکھ ہے باقی جہاں دل تھا وہاں کچھ بھی نہیں خاک کا جب لمس پیشانی پہ اُترا تو کھلا خاک سب کچھ ہے جبین و آستاں کچھ بھی نہیں طاق میں اب گرد ہے یا صرف […]

دے نہیں سکتا جنوں یوں تو کوئی تاویل تک

پر ترا ہی ذکر ہے عنوان سے تفصیل تک گر چکا منظر پہ پردہ ، گل ہوئی ہے روشنی کھیل آخر کار پہنچا ، پایہِ تکمیل تک تم ہوئے عریاں تو جیسے جم گئی شمعوں کی لو دم بخود جیسے کھڑی تھی دودھیا قندیل تک ہاتھ چاہے شل ہوئے جاتے ہیں لیکن آندھیاں کر نہ […]

فراموش شدہ خدائے سخن

اَئے کسی عہدِ گزشتہ کے فراموش خدا عصرِ حاضر میں یہ توہین مبارک ہو تجھے سج گئے پھر سے نئے زخم ترے سینے پر جذبہ مرگ کی تسکین مبارک ہو تجھے کون تسلیم کرے گا کہ کسی کی خاطر تُو نے وہ کچھ بھی نہ پایا کہ میسر تھا تجھے تُو تہی دست سرِ دشت […]

میں ہوں شکست خوردہ و ناکام و مضمحل

دَم لے مری حیات ، مجھے ہانکتے ہوئے آخر ہوا ہوں جزو اُسی گردِ راہ کا اک عمر ہو گئی تھی جسے پھانکتے ہوئے مبہوت کر رہا تھا مرا عکس آب پر عرشے سے گر گیا ہوں مگر جھانکتے ہوئے اب ہاتھ کانپتے ہیں تمہارے خیاط کے تارے بکھر گئے ہیں تبھی ٹانکتے ہوئے