اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر عزیز بگھروی کا یومِ پیدائش ہے ۔

عزیز بگھروی(پیدائش: 23 جون 1932ء – وفات: 24 اکتوبر 2004ء)
——
عزیز بگھروی کا پورا نام عزیز احمد اور قلمی نام عزیز بگھروی تھا۔ وہ مظفر نگر (یوپی) کے ایک قصبہ بگھرہ میں ۲۳؍جون ۱۹۳۲ء کو پیدا ہوئے۔ علی گڑھ سے بی اے، بی ایڈ کیا اور دہلی کے قدیم ترین اینگلو عربک اسکول میں انگریزی کے استاذ کی حیثیت سے پڑھاتے رہے یہاں تک کہ اس عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ عزیز صاحب غالباً اپنی ملازمت کے زمانے ہی سے دہلی میں مستقل سکونت اختیار کرچکے تھے۔
عزیز صاحب کے پانچ مجموعے شائع ہوچکے ہیں۔ ۱۹۸۸ء میں پہلا غزل کا مجموعہ جہاد حرف منظر عام پر آیا۔ دوسرا مجموعہ ناموس قلم کے نام سے ۱۹۹۳ء میں اور تیسرا مجموعہ ۱۹۹۸ء میں ’حرمت فن‘ کے نام سے شائع ہوا۔ چوتھا مجموعہ ’قندیل حرم‘ جو کہ نعتوں کا مجموعہ ہے، ۲۰۰۱ء میں منظر عام پر آیا۔ پانچواں ’’تقدیس ہنر‘‘ کے نام سے ۲۰۰۲ء میں آیا۔
عزیز صاحب طویل عرصے تک ادارہ ادب اسلامی کے ترجمان ’’پیش رفت‘‘ کے مدیر بھی رہے۔ اس سے قبل ’’نمائندہ نئی نسلیں‘‘ کے معاون مدیر بھی رہے۔
——
جہاد حرف کے شاعر ، عزیز بگھروی مرحوم از تسنیم فرزانہ
——
زخموں کے پھول، داغ جگر چھوڑ جاؤں گا
دامن میں زندگی کے گہر چھوڑ جاؤں گا
دنیا سنے گی میرے ترانوں کی بازگشت
میں جاؤں گا تو اپنا اثر چھوڑ جاؤں گا
——
عزیز بگھروی مرحوم اردو کے ایک معتبر اور مستند شاعر ہوتے ہوئے بھی اردو کے قارئین کے درمیان غیر معروف رہے، جب دنیا سے رخصت ہوئے تب بھی ان کی رحلت کی خبر عام نہیں ہو سکی، وجہ یہ تھی کہ نہ وہ سیاست دان تھے نہ فلم ساز نہ کھلاڑی، شاعر بھی تھے تو کسی ازم سے ان کا کوئی تعلق نہ تھا اور نہ جدیدئے پھر ایسے شخص کی یاد کسے رہتی آور ان کی رحلت کی خبر کیسے عام ہو سکتی تھی
عزیز بگھروی مرحوم کا وطن قصبہ بگھرہ ضلع مظفر نگر تھا، جہاں وہ 23 جون 1932 کو ایک علمی خاندان میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں ہوئی اعلیٰ تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں حاصل کی، تمام عمر دہلی کے سب سے قدیم تعلیمی ادارے اینگلو عربک اسکول میں تدریس میں گزاری.
مرحوم عزیز بگھروی اعلیٰ تہذیبی روایات اور مثبت قدروں کے ساتھ صحیح فکر رکھنے والوں میں ایک ممتاز مقام کے حامل شاعر تھے، وہ زندگی کی حقیقتوں کو بڑی سادگی مگر حسن کے ساتھ پیش کرنے کا حسن جانتے تھے – ان کے لہجے سے زندگی کی کربناک سچائیوں کی پرچھائیاں جھلکتی ہیں نا مساعد حالات اور اردگرد کے ناموافق ماحول کی وجہ سے کہیں کہیں لہجہ سخت اور احتجاجی ہو گیا ہے، مگر جھنجھلاہٹ یا مایوسی نہیں ہے-
وہ ہمیشہ اسلامی افکار واقدار کی علمبرداری کرتے رہے – چنانچہ ان کی شعری دنیا میں ہمیں مایوسی نا امیدی، پست حوصلگی اور قنوطیت نہیں ملتی، وہ اس دنیا ایک تبدیلی چاہتے تھے جس کے لئے وہ عمل پیرا بھی تھے :
——
پیغام سکون راحت جاں لے کے اٹھے ہیں
ہم جذبۂ تعمیر جہاں لے کے اٹھے ہیں
——
سنگینیٔ حالات کی پرواہ نہ کریں گے
مر جائیں گے ایمان کا سودا نہ کریں گے
——
یہ بھی پڑھیں : پروفیسر عزیز احمد کا یوم وفات
——
ان کے اشعار میں اسلام کا انقلابی پیغام بھی ہے للکار بھی اور طنز کے تیر و نشتر بھی اپنے کلام میں انقلاب کی باتیں بھی کی ہیں، قربانی اور جان نثاری کے گیت بھی گائے ہیں ساتھ ساتھ باطل سے نبرد آزما بھی ہوئے ہیں-
——
جادہ جادہ چھوڑ جاؤ اپنی یادوں کے نقوو
آنے والے قافلوں کے رہنما بن کر چلو
دور تک پھیلا ہے شب کا سناٹا عزیز
آؤ پھینکیں زندگی کے بحر میں پتھر چلو
——
عزیز بگھروی مرحوم کی شاعری ذہنوں سے نقش کدرورت مٹانے، تفریق کے بھڑکتے ہوئے شعلوں کو بجھانے اور انسان سے انسان کو ملانے کا کام کرتی ہے وہ دنیا کو ایک بہتر دنیا چاہتے تھے۔
——
دل تیرگی کا مرکز، آنکھیں ہیں شب گزیدہ
ظلمت کدوں میں جشن تنویر چاہتا ہوں
سچ بولنے کی میں نے پھر ڈال لی روایت
اب شہر شہر اس کی تشہیر چاہتا ہوں
ایک چاند بن کے چمکے جو وقت کی جبین پر
تیرہ شبی میں ایسی تحریر چاہتا ہوں
——
آج کی جدید اردو شاعری کا ایک خوبصورت اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ ہر خوش فکر اور خوش گو شاعر حمد و نعت کی روشنی اور خوشبو سے اپنے شعری جذبے اور فن کو جلا بخشتا ہے، عزیز بگھروی اس سعادت سے کیسے محروم رہ سکتے تھے ان کے کلام کا چوتھا مجموعہ "قندیلِ حرم” ان کی حمدیہ و نعتیہ شاعری کا بیش بہا نمونہ ہے حمد باری تعالیٰ کے دو شعر ملاحظہ ہوں۔
——
میں اپنا ہر عمل یوں لائقِ اعزاز کرتا ہوں
خدا کا نام لے کر کام کا آغاز کرتا ہوں
عمل پیرا میں جب ہوتا ہوں اپنے رب کی مرضی پر
سکون و امن سے دنیا کو سرفراز کرتا ہوں
——
ساتھ ہی نذرانہ نعت کے دو شعر :
——
تابانی حیات میں آپ کے طفیل
ظلمات سے نجات ملی آپ کے طفیل
دونوں جہاں میں ہوگئے ہم جس سے سرفراز
ایک ایسی ہم کو بات ملی آپ کے طفیل
——
یہ بھی پڑھیں : عزیز احمد کا یوم پیدائش
——
عزیر بگھروی مرحوم اپنا ایک خاص مزاج اور نظریہ رکھتے تھے اور آخر تک وہ اپنے نظریات پر پوری طرح قائم رہے، اپنے افکار. میں ان کا کھل کر اظہار کرتے رہے اس پر بعض اہلِ نقد کی جبینوں پر شکنیں بھی آئیں مگر عزیز صاحب نے ان کا اثر لئے بغیر اپنی تعین کردہ منزل کی طرف سفر جاری رکھا –
ان کا وسیلۂ اظہار بالعموم غزل رہا، یوں دوسری اصناف پر بھی انہیں دسترس حاصل تھا پھر بھی ان کا واضح رجحان غزل کی طرف ہی رہا.
غزل چونکہ اب "تنگئ داماں” کے احساس سے یا یوں کہئے کہ حصار سے نکل آئی ہے اور اس کا دامن بہت وسیع ہو گیا ہے اور اس میں ہر طرح کے خیالات پیش کرنے کی گنجائش ہے اس لئے آج کل بیشتر شعراء اس کواپنے اظہار کا وسیلہ بنائے ہوئے ہیں واقعہ بھی یہی ہے کہ اگر بات سلیقے سے کہی گئی ہو شعر کی نزاکتوں کا عرفان ہو اور فنکار اپنے تخلیقی تجربے اور مشق کے اعتبار سے باشعور ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ وہ کسی بھی نظریاتی احساس کو اپنے اسلوب و انداز میں پیکرِ شعری عطا نہ کر سکے-
——
عزیز بگھروی مرحوم کے یہ شعر اس بات کا ثبوت ہیں
——
ہو تیرے فن میں اس کے سخن کی خوشبو
رنگ اس کا تیرے انداز ہنر میں آئے
——
کھڑے تھے اہل ہنر گردنیں جھکائے ہوئے
ترا تراشا ہوا شاہکار سامنے تھا
——
ان کی غزل کا لہجہ توانا اور پر شوکت ہے اور اس لہجے میں ہمیں علامہ اقبال کی صدائے بازگشت صاف سنائی دیتی ہے۔
——
دل میں آیا ہی تھا تجدید محبت کا خیال
آنکھ سے آنسو گرا شرح تمنا کر گیا
——
ایک مہتاب ہے یادوں کے افق پر روشن
ایک چہرہ ہے جو آنکھوں سے نہ دیکھا جائے
——
عام طور پر مقصدی شعراء کے یہاں بے کیفی اور روکھا پن محسوس ہوتا ہی مگر عزیز بگھروی مرحوم کے لئے یہ بات نہیں کہی جا سکتی۔
——
رہنا ہے تجھ سے دور قیامت سے کم نہیں
بسنا بھی اک عذاب تیرے گھر کے سامنے
——
درد کے شعلوں میں جلنا تو ضروری تھا عزیز
تم نے نظریں جو ملائیں بتِ طناز کے ساتھ
——
پرسشِ بیمار غم کا شکریہ
اس عنایت اس کرم کا شکریہ
——
وہ وقت کی نبض کو اچھی طرح پہچانتے تھے ان کی شاعری میں وقت کی دھڑکن کی زور دار آواز سنائی پڑتی ہے۔
——
یہ اشعار ملاحظہ فرمائیں
——
جدید خاکے ابھر رہے ہیں، قدیم نقشے بدل رہے ہیں
زبان پہ امن و اماں کی باتیں، دلوں میں فتنے پل رہے ہیں
——
اور
——
نفرت کا زہر گھول دیا کس نے شہر میں
خندہ لبوں کے شعر بھی غم ناک ہو گئے
——
یہ بھی پڑھیں : گفتگو کب ھے کام اُداسی کا
——
وہ سوچتے تھے کہ فتنہ و شر کے ذریعے سے قتل و غارت گری کا بازار ملک میں یوں ہی گرم رہا تو ایک دن اللہ کا قہر نازل ہو کر رہے گا۔
——
نا حق قتل عام کیا ہے خون کی بارش برسے گی
ظلم بھی ایسا ظلم ہوا ہے خون کی بارش برسے گی
فتنہ و شر سے بھر جاتا ہے شہر کا جب سارا ماحول
پاک صحیفوں میں لکھا ہے خون کی بارش برسے گی
امن و سکوں سے بستی کا رشتہ کیا ہے نسبت کیا
جس بستی میں ظلم روا ہے خون کی بارش برسے گی
——
وہ قلم کو اللہ کی امانت مانتے تھے، اسی لئے فرمایا کرتے تھے کہ اگر قلم کواللہ کی امانت مانتے ہوئے اس کا استعمال کریں گے تو ایسی باتیں اور چیزیں سامنے آئیں گی جو انسانیت کی خدمت کے لئے کام آئیں گی، اگر اس سے ہٹ کر بات کریں گے تو خود بھی گمراہ ہوں گے ، دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے انسانیت کے لئے خطرہ اور قوم و ملت کے لئے مصیبت بن جائیں گے، ان کا یہ شعر اس بات کی عکاسی کرتا ہے۔
——
کون سوچوں کو عطا کرتا ہے لفظوں کا لباس
اور ان لفظوں کو پھر جادوگری دیتا ہے کون؟
——
عزیز صاحب کو اردو کی مسکنت اور بدحالی کا بے حد غم تھا ان کا یہ شعر تصویر درد ہے :
——
تحریر زخم زخم ہے، تو لہجہ لہو لہو
مجروح انگ انگ ہے اردو زبان کا
——
قلم سے جہاد کرنے والے کہنہ مشق، خوش فکر اور ہنر کی تقدیس رکھنے والے حضرت عزیز بگھروی 24 اکتوبر 2004 کو اس دار فانی سے کوچ کر کے اپنی مالک حقیقی سے جا ملے اور ادبی دنیا کو یہ احساس ہمیشہ کے لئے دے گئے
——
کل مرے نقش تھے اس بزم جہاں کی زینت
آج پڑھتے ہیں مجھے لوگ خبر کی صورت
——
ہو گئے زندگی سے بہت دور ہم
زندگی کی حکایات کہتے ہوئے
——
تسنیم فرزانہ ، بنگلور (کرناٹک ،بھارت)
——
منتخب کلام
——
ورثہ ہے یہ نبیوں کا ، امانت ہے خدا کی
جاں ہارنے والو ! دلِ خوددار نہ بیچو
——
دل کسی کے لیے ، سر کسی کے لیے
بدنما داغ ہے زندگی کے لیے
——
جہل کا رنگ جدا ، راہ فراست کی الگ
ظلمتِ شب سے نہیں نورِ سحر کا رشتہ
——
رہ جاتے ہیں ہیرے موتی
کھوٹا سکہ چل جاتا ہے
——
اُس پیکرِ حیات کی چیخیں نکل پڑیں
جب پھول پتھروں کی جگہ جسم پر لگے
——
ہر رنج میں شریک مسرت میں ساتھ ساتھ
قاتل بھی عہدِ نو کا بڑا مہربان ہے
احساس کی رمق ہے نہ جذبہ کی تازگی
جس آدمی کو دیکھیے خالی مکان ہے
——
ہم فکر کے خلاف نہ فن کے خلاف ہیں
ہم تو سخن برائے سخن کے خلاف ہیں
——
راس آتی نہیں سب کو یہ آوارہ مزاجی
اے دشت نوردو ! ابھی گھر بار نہ بیچو
——
کون ہے میرے سوا آسودۂ غم شہر میں
جس سے پوچھو گے مرے گھر کا پتہ مل جائے گا
——
اُترا سمندروں میں ، کبھی چاند پر گیا
لے کر کہاں کہاں مجھے ذوقِ سفر گیا
——
خوش فکر و خوش مذاق و محبت شعار لوگ
خواب و خیال ہو گئے باغ و بہار لوگ
——
اب اس سے بڑھ کے دورِ کم نگاہی اور کیا ہو گا
کہ دانشور بھی نادانوں کا استقبال کرتے ہیں
——
ناموسِ قلم ، فکرِ گُہر بار نہ بیچو
اے دیدہ ورو! غیرتِ فن کار نہ بیچو
چُپ رہنا تو ہے ظلم کی تائید میں شامل
حق بات کہو جُرأتِ اظہار نہ بیچو
ورثہ ہے یہ نبیوں کا ، امانت ہے خدا کی
جاں ہارنے والو ! دلِ خوددار نہ بیچو
کانٹے کبھی ہوتے نہیں پھولوں کے برابر
اے اہلِ چمن ! حُسن کا معیار نہ بیچو
روشن ہے اسی نور سے قندیلِ تمنا
افسردہ دلو ! لذتِ آزار نہ بیچو
راس آتی نہیں سب کو یہ آوارہ مزاجی
اے دشت نوردو ! ابھی گھر بار نہ بیچو
اے شعلہ رخو ! حسن کی پہچان تو رکھو
آنکھوں کی حیا ، تابشِ رخسار نہ بیچو
کہنے دو عزیزؔ اُس کو جو کہتا ہے زمانہ
تم اپنا لب و لہجۂ اشعار نہ بیچو
( جہادِ حرف ، صفحہ نمبر 25 )
——
دستِ ہوس میں تیغِ جفا ہے ، تم بھی چُپ ہو ہم بھی چُپ
کیسی عبرت ناک سزا ہے ، تم بھی چُپ ہو ہم بھی چُپ
شہرِ تمنا سہما سہما ، لرزاں لرزاں بزمِ خیال
سارا عالم خوف زدہ ہے ، تم بھی چُپ ہو ہم بھی چُپ
صوت و صدا کے ایوانوں سے لوح و قلم کی محفل تک
سناٹا ہی سناٹا ہے ، تم بھی چُپ ہو ہم بھی چُپ
اس پر بھی تو سوچو یارو ، اس پر بھی تو غور کرو
آج زمانہ کیوں ایسا ہے ، تم بھی چُپ ہو ہم بھی چُپ
گُھٹ گُھٹ کر مر جانا بھی تو دل والوں کی رسم نہیں
یہ جینا بھی کیا جینا ہے ، تم بھی چُپ ہو ہم بھی چُپ
کچھ تو بولو درد کے مارو ، کچھ تو جی ہلکا کر لو
ہائے یہ کیسی شرطِ وفا ہے ، تم بھی چُپ ہو ہم بھی چُپ
گویائی بھی قہرِ سراپا ، خاموشی بھی جُرم عزیزؔ
جینا جیسے کوئی سزا ہے ، تم بھی چُپ ہو ہم بھی چُپ
( جہادِ حرف ، صفحہ نمبر 61 )
——
رنج و الم اس دل کے مقابل کل بھی تھے اور آج بھی ہیں
صیادوں کی زد میں عنادل کل بھی تھے اور آج بھی ہیں
سنگ و صلیب و طوق و سلاسل ، مکر و فریب و فتنہ و شر
عزم و یقیں کی راہ میں حائل کل بھی تھے اور آج بھی ہیں
لمحہ لمحہ بوجھل بوجھل ، شامِ الم تا صبحِ طرب
جادہ جادہ سخت مراحل کل بھی تھے اور آج بھی ہیں
بستی بستی گھوم رہے ہیں حرص و ہوس کے رسیا لوگ
اہلِ وفا پابندِ سلاسل کل بھی تھے اور آج بھی ہیں
دل کے شیشہ سے ٹکرا کر کتنے پتھر ٹوٹ گئے
شعلہ رُخانِ شہر تو قاتل کل بھی تھے اور آج بھی ہیں
چلتے چلتے ایک ڈگر پر کتنی صدیاں بِیت گئیں
پائے طلب بیگانۂ منزل کل بھی تھے اور آج بھی ہیں
سنگِ ستم سے کب رکتی ہے سچائی کی راہ عزیزؔ
اہلِ جفا تو مدِ مقابل کل بھی تھے اور آج بھی ہیں
( جہادِ حرف ، صفحہ نمبر 63 )
——
رہبر جو زندگی کا مذاقِ خلیل ہے
ہر ذرہ کائنات کا اک سنگِ میل ہے
پیدا کیا گیا ہوں مٹایا بھی جاؤں گا
میرا وجود مرے عدم کی دلیل ہے
وقتِ فنا بھی کم نہیں ہوتا ترا سرور
اے زندگی تو کتنی حسین و جمیل ہے
اک میں ہوں اور جرمِ تمنا ہے میرے ساتھ
شہرِ جفا میں جو بھی ہے اُس کا وکیل ہے
ساقی ہے شکوہ سنج کہ مے کش ہیں تنگ ظرف
رِندوں کو یہ گلہ ہے کہ ساقی بخیل ہے
اے بیکسیٔ تشنہ لبی اِس کو کیا کروں
جس سمت دیکھتا ہوں سرابوں کی جھیل ہے
اک پیکرِ جفا ہے تو اک خُوگرِ وفا
اِس کا کوئی جواب نہ اُس کا مثیل ہے
دیکھو تو ایک لمحہ کی مانند زندگی
سوچو عزیزؔ اس پہ تو صدیوں طویل ہے
( جہادِ حرف ، صفحہ نمبر 76 )
——
شعری انتخاب از جہادِ حرف ، مصنف : عزیز بگھروی
شائع شدہ 1988 ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ