آج ممتاز شاعر برق دہلوی کا یومِ وفات ہے ۔

——
منشی مہاراج بہادر ورما برق دہلوی ۔
ولادت 1884ء دہلی۔
آبائی وطن ضلع ایٹہ۔ وطنِ ثانی دہلی۔
تلمذ: آغا شاعر قزلباش۔
پوسٹل آڈٹ آفس ، دہلی میں سپرنٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز رہے ۔
وفات 9 فروری 1936ء پانی پت۔
——
جناب برق دہلوی یعنی منشی مہاراج بہادر صاحب برقؔ ماہ جولائی 1884ء میں بمقام دہلی پیدا ہوۓ ۔ آپ کے آباؤ اجداد کا قدیم وطن سکیٹ ضلع ایٹہ ہے۔
پہلا شعر اور اس کی شانِ نزول
——
ابتداۓ سنِ شعور کا زمانہ تھا ۔ آپ کی آنکھیں دُکھتی تھیں ۔ ایک دوست نے پوچھا ۔
کہو کیا حال ہے۔
بیساختہ آپ کی زبان سے یہ شعر نکلا
——
دل تو آتا تھا مگر اب آنکھ بھی آنے لگی
پختہ کاری عشق کی یہ رنگ دکھلانے لگی
——
ماہِ فروری 1905ء میں شفیق باپ کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ ایک کوہِ الم ٹوٹ پڑا تعلیم ناتمام رہ گئی اور حوادثِ زمانہ سے مجبور ہو کر اکتساب علم کا شوق آتشِ پوش کی طرح دل میں دبا رہا ۔ بالآخر موقع ہاتھ آنے پر 1918ء میں آپ نے منشی فاضل کا امتحان پاس کیا ۔ دوسرے سال ایف اے اور 1920ء میں بی اے پنجاب یونیورسٹی سے پاس کیا ۔ بعد ازاں 1923ء میں سب آرڈیننٹ اکاؤنٹ سروس کے ڈیارٹمنٹل امتحان میں کامیابی حاصل کی اور پوسٹل آڈٹ آفس دہلی میں سپرٹنڈنٹ کے عہدے پر فائض رہے۔
ابتدائی زمانہ میں آپ نے نواب فصیح الملک بہادر داغؔ دہلوی کے ایما سے جن سے اولاً رجوع کیا تھا کچھ غزلیں افسر الشعرا جناب آغا شاعر صاحب قزلباش دہلوی کو دکھائیں اور ان سے استفادہ سخن کیا ۔ لیکن تھوڑے ہی عرصہ بعد آپ کی طبیعت غزل گوئی کی بہ نسبت ادبی ۔ اخلاقی اور نیچرل نظموں کی جانب مائل ہوئی۔
آپ کی سب سے پہلی نظم ” عمل خیر” کے عنوان سے جنوری 1908ء میں رسالہ زبان دہلی میں شائع ہوئی جو بہت پسند کی گئی اس کا ایک بند ملاحظہ ہو
——
شریکِ دردِ دل ہو کر کسی کا دکھ بٹایا ہے
مصیبت میں کسی آفت زدہ کے کام آیا ہے
پرائی آگ میں پڑ کر کبھی دل بھی جلایا ہے
کسی بیکس کی خاطر جان پر صدمہ اٹھایا ہے
کبھی آنسو بہاۓ ہیں کسی کی بد نصیبی پر
کبھی دل تیرا بھر آیا ہے مفلس کی غریبی پر
——
آپ 9 فروری 1936ء کو پانی پت میں وفات پا گۓ تھے۔
——
یہ بھی پڑھیں : دل میں اب کوئی ترے بعد نہیں آئے گا
——
برق کا مرتبۂ سخن حضرتِ علامہ کیفی دہلوی کی نظر میں
——
اس دور میں حالیؔ کبھی کی غزل چھوڑ چکے تھے ، داغؔ برسوں وطن سے دور تھے ، شہر میں رہے سہے ادیب ، راسخؔ ، ارشدؔ ، بیخودؔ ، سائلؔ ، شیداؔ ، اور لالہ سری رامؔ جیسی چند ہستیاں رہ گئی تھیں جو اس کی ادبی حیثیت کو سنبھالے ہوئے تھیں ۔ مولوی سیف الحق ادیبؔ اور مرزا ارشدؔ اگرچہ آزادؔ کی نئی تحریک کے زیرِ اثر کبھی کبھار نظمیں لکھ لیتے تھے ۔ حالیؔ کی سخن سرائی علی گڑھ کی تحریک تک محدود ہو گئی تھی ۔ شہر میں مشاعرے کبھی بند نہیں ہوئے ، لیکن عام پسند صنفِ شعر صرف غزل جیسی پہلے تھی ویسے ہی رہی ۔ چنانچہ برقؔ کی شاعری بھی غزل سے شروع ہوئی ۔ اور جب ہم غزل کے سوا ان کے دوسرے کلام پہ نظر ڈالتے ہیں تو ان کی نظموں اور منظری کلام میں بھی غزل کا رنگ اور اسلوب غالب پایا جاتا ہے ۔ اور اس میں ان کے فن کا کمال مضمر ہے۔
وہ ہر موضوعِ سخن میں رنیگینی ادا بھر دیتے ہیں ۔ تخیل بلند ہے ، ان کے تخیل کے پاؤں زمین پر رہتے ہیں ۔ اُکھڑتے نہیں ۔ ان کا قلم اور جذبات دونوں نظم اور انضباط کے ہم آہنگ ہیں ۔
برق دہلوی کے کلام میں ہر قسم کے موضوع ملتے ہیں ۔ داخلی بھی اور خارجی بھی ۔ وہ تخیل پردازی اور منظر نگاری دونوں میں برق تھے ۔
ان کی زبان دہلی کی ٹکسالی زبان تھی ۔ شروع میں برق دہلوی آغا شاعر مرحوم سے مشورۂ سخن کرتے تھے لیکن یہ تعلق بہت دیر تک قائم نہ رہا ۔
کیونکہ اُستاد اور شاگرد کی طبیعتوں کی افتاد مختلف واقع ہوئی تھی ۔ پھر بھی برقؔ ہمیشہ استاد کا ادب اور خدمت کرتے رہے ۔ یہ بات اس زمانے میں بہت کم دیکھی جاتی ہے ۔
مجھے برق دہلوی کے ابتدائی زمانے میں اُن کو دیکھنے کا موقع ملا ۔ صلاحیت مگر طراری کے ساتھ ، ذوقِ سخن کلاسیکل مگر نو آئینی کے ساتھ ۔ بڑوں کا ادب مگر خود داری کے ساتھ ۔ یہ ان کے مزاج کا تجزیہ کیا جا سکتا ہے ۔
طبیعت بعض باتوں میں حساس تھی اسی وجہ سے مکروہاتِ حیات کا اثر ان پر بہت ہوتا تھا ۔ اور آخری زمانے میں حُزنیت کا دھندلا رنگ برق دہلوی کے کلام میں نمایاں ہو گیا تھا ۔ دیکھیے :
——
نہ اب وہ خندۂ پیہم ، نہ اب وہ دل ، نہ دماغ
نہ اشتیاقِ مسرت نہ ذوقِ دورِ ایاغ
تفکرات سے دم بھر نہیں نصیب فراغ
دئیے ہیں گردشِ دوراں نے برقؔ داغ پہ داغ
——
بسنت پر بہت شگفتہ اور جوشیلی نظم ہے مگر مقطع میں سچا داخلی رنگ پُھوٹ نکلا ہے ۔
——
برقؔ اور فصلِ گل میں بھڑکتے ہیں داغِ دل
میرے لیے تو باعثِ حرماں بسنت ہے
——
اس عہد کے کلام سے قطع نظر برق دہلوی کے ہاں ولولے اور بشاشیات کی کمی نہیں ہے ۔ اس کے نمونے زیادہ تر ” مطلعِ انوار ” میں ملتے ہیں اور اسے ہی برقؔ کا شاہکار سمجھنا چاہیے ۔
شہر میں نظم گوئی کا چرچا انہیں کے دم سے تازہ ہوا ۔ اور عام لوگوں کے مذاق نے غزل کے سوا اور اصنافِ سخن خاص کر قومی اور وطنی رنگ کی نظموں کا اثر لینا شروع کیا۔
برقؔ مرحوم کو ہم سے بڑی امیدیں تھیں ۔ اُن کی شاعری کا درخت ابھی پھولا تھا ۔ اس کے پھولوں کی خوشبو دماغ کو تازگی بخشنے لگی تھی ۔ اِس کے پھلنے کا انتظار تھا کہ موت کی بجلی نے اسے ختم کر دیا ۔
اس کا افسوس اور غم تمام ادبی دنیا کو ہے اور مدتوں رہے گا ۔
——
منتخب کلام
——
وہ آئے بزم میں اتنا تو برقؔ نے دیکھا
پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی
——
یہ دو لفظوں میں ہے تفسیر جنت اور دنیا کی
وہ اِک نقشِ خیالی ہے ، یہ اک خوابِ پریشاں ہے
——
دل تری زد پر نگاہِ فتنہ ساز آ ہی گیا
بچتے بچتے بھی تہِ شمشیرِ ناز آ ہی گیا
ہوتے ہوتے ہو گئی آخر حقیقت میں نظر
آتے آتے راہ پر عشقِ مجاز آ ہی گیا
——
دل کی مراد پہلے ہے منزل سے ہو حصول
کعبہ کے راستے میں صنم خانہ چاہیے
——
جب آنکھیں پھر لیتے ہو تو کوئی رُخ نہیں کرتا
گراتے ہو نظر سے تم جسے مشکل سے اُٹھتا ہے
——
اشک ریزی اس کی فطرت ہے بدل سکتی نہیں
قبرِ بیکس پر جلے یا شمع محفل میں رہے
——
کیوں نہ رودادِ محبت ہو سراپا رنگیں
کونِ امید اگر سرخیٔ افسانہ بنے
——
خستہ حالوں کی خوشی بھی نہیں غم سے خالی
خون روئے گا لبِ زخم جو خنداں ہو گا
——
کِھل کے مرجھا بھی گیا آنکھ کسی کی نہ پڑی
میں چمن زارِ جہاں میں گلِ صحرائی تھا
——
نہ مژگاں سے وفورِ ضبط نے ڈھلنے دئیے آنسو
یہ دریا غرق ہو کر رہ گیا اپنے کناروں میں
——
شیرازہ بندِ دفترِ امکاں ہے شانِ حق
سرچشمۂ حیات ہے فیضِ روانِ حق
بارانِ لطف ہے کرمِ جاودانِ حق
ذرے زبانِ حال سے ہیں تر زبانِ حق
رنگِ نوائے راز ہے ہستی کے ساز میں
در پردہ بس رہی ہے حقیقت مجاز میں
تابش فزائے ماہِ نظر تاب ہے وہی
ضو بخشِ برقِ غیرتِ سیماب ہے وہی
نزہت دِہِ رخِ گلِ شاداب ہے وہی
زینت فروزِ عالمِ اسباب ہے وہی
حق کی ضیا سے نور کا مطلع جہان ہے
ذروں میں آفتابِ درخشاں کی شان ہے
روئے مجاز عکس ہے حق کی صفات کا
پرتو اس آئینے میں ہے انوارِ ذات کا
حق اصلِ کُل ہے سلسلۂ کائنات کا
اعجازِ حق ہے راز طلسمِ حیات کا
ظلمت سرائے دہر میں ہے حق کی روشنی
جلوہ فشاں ہے قادرِ مطلق کی روشنی
زیبِ ریاضِ دہر اگر فیضِ حق نہ ہو
رنگیں کتابِ خندۂ گل کا ورق نہ ہو
نیرنگِ دل فریب بہارِ شفق نہ ہو
مہرِ مبیں سے چرخ کا روشن طبق نہ ہو
ایوانِ شش جہت میں برستا جو نور ہے
حق تو یہ ہے یہ جلوۂ حق کا ظہور ہے
——
گورِ غریباں
عبرت کا سماں گورِ غریباں سے عیاں ہے
ویرانہء خاموش پہ بستی کا گماں ہے
خوابیدہ یہاں ہستیء گم کردہ نشاں ہے
گنجینیہء نایاب تہِ خاک نہاں ہے
جو زیست نہ رُولے تھے گہر دھول ہوۓ ہیں
گُلچہرہ حسینوں کے یہیں پھول ہوۓ ہیں
راحت کدہء اہلِ جہاں ہے یہی منزل
ہنگامہء ہستی سے سکوں ہے یہیں حاصل
آراستہ گوشہ میں محفل تہِ محفل
مہمانوں سے خالی کوئی جا ہو گی مشکل
کھنچ کھنچ کے چلے آتے ہیں سب کی یہ روش ہے
کیا جانیۓ اس خاک میں کس درجہ کشش ہے؟
آغوشِ زمیں میں خاک کے پُتلوں سے ہے آباد
ہر ذرہ ہے اک ہستیء برباد کی روداد
ہر لحظہ ہے تاراجِ اجل ، عالمِ ایجاد
پیش آنی ہے انجام میں سب کو یہی افتاد
شیرازہ عناصر کا بکھر جاتا ہے آخر
پیمانہ ہے جو عمر بھر جاتا ہے آخر
مٹی کے کھلونوں کا ہے گھر شہرِ خموشاں
بربادوں سے آباد ہے یہ خطہء ویراں
شاہوں کا تجمل ہے یہاں خاک بداماں
اسرارِ ہستیء فانی کے ہین عریاں
مٹنے سے اماں کس کو تہِ چرخ بریں ہے؟
جو نقش ابھرتا ہے وہ پیوندِ زمیں ہے
غافل! یہ ہے انجامِ بقا بھر کے نظر دیکھ
اس منظرِ دلدوز کو بادیدہء تر دیکھ
کیا دیکھتا ہے دہر کے جلوؤں کو ادھر دیکھ
تجھ کو اسی منزل کا ہے در پیش سفر دیکھ
اس جادہء پُر پیچ میں رکھ پاؤں سنبھل کر
عمر اپنی یہاں وقف ہے حُسنِ عمل کر
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
راضی برضا
شکوہ نہ بیش و کم کا ، غم کا نہ کچھ گلا ہے
جس چیز کے تھے قابل، ملنا تھا جو ، ملا ہے
شانِ کرم سے قائم ہستی کا سلسلہ ہے
شکرِ کریم دل کے آئینہ کی جِلا ہے
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
جو نعمتیں ملیں ہیں وہ کم ہیں یا ہیں وافر
ہر حال میں ہے لازم تقدیر پر ہوں شاکر
رنگَ ظہورِ قدرت ہر ذرے سے ہے ظاہر
اول بھی تو ہے برحق مالک ہے تو ہی آخر
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
فیض عجیم تیرا دنیا میں چار سُو ہے
تاروں میں نور تیرا ، پھلوں میں تیری بو ہے
سر بہرِ شکر نعمت خم تیرے روبرو ہے
پُتلے ہیں ہم خطا کے بندہ نواز تو ہے
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
جس حال میں رکھے تو داتا ہمیں ہے رہنا
پھولوں میں یا تُلنا، یا درد و رنج سہنا
ہم نے ہے سر سے پا تک ملبوسِ شکر پہنا
دل میں یہی تمنا منہ سے یہی ہے کہنا
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
حاصل ہو سر بلندی یا ہو نصیب پستی
دوسرِ مۓ طرب ہو ، یا عہدِ فاقہ مستی
ہو عیش و شادمانی یا رنج و تندستی
تسلیم اپنا شیوہ ، مسلک ہے حق پرستی
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
سازَ حیات کیا ہے سامان ہے یہ تیرا
جو اصلِ زندگی ہے ، عرفان ہے یہ تیرا
سر چشمہء کرم تو ، فیضان ہے یہ تیرا
بخشی ہیں نعمتیں جو احسان ہے تیر
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
خوانِ کرم پہ تیرے مہمان ہے زمانہ
ملتا ہے رزق بن کر قسمت کا دانہ دانہ
جود و سخا کا مخزن ہے تیرا آستانہ
کیوں برقؔ کے ہو لب پر ہر دم نہ یہ ترانہ
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
——
اُدھر محشر میں وہ کھینچے ہوئے خنجر نکلتے ہیں
اِدھر زخموں کی ہم اوڑھے ہوئے چادر نکلتے ہیں
محبت میں ہتھیلی پر جو رکھ کر سر نکلتے ہیں
وہی جانباز راہِ عشق میں کچھ کر نکلتے ہیں
یہ سب عشاق کے حق میں تو غارت گر نکلتے ہیں
بُتوں سے وصل کے ارماں کیا پتھر نکلتے ہیں
کرے عرضِ تمنا خاک کوئی اس ستمگر سے
زباں کٹتی ہے اب تو بات پر خنجر نکلتے ہیں
قفس میں بھی تو مجھ پر یہ ستم صیاد ڈھاتا ہے
کتر دیتا ہے دس ، گنتی کے جب دو پر نکلتے ہیں
ہے کُشتہ اک زمانہ حسنِ عالمگیر کا تیرے
شہیدانِ ادائے ناز اب گھر گھر نکلتے ہیں
سِوا ہے فتنۂ محشر سے بھی طولِ امل ان کا
ترے گیسو ترے قامت سے بھی گز بھر نکلتے ہیں
نگاہِ غور سے دیکھے کوئی نیرنگِ عالم کو
دورنگی کے یہاں ہر بات میں تیور نکلتے ہیں
کوئی خونِ جگر پیتا ہے ، کوئی عیش کرتا ہے
کہیں آنسو نکتے ہیں ، کہیں ساغر نکلتے ہیں
کوئی باغِ جناں میں بے سروساماں نہیں آتا
کہ غُنچے خاک سے مُٹھی میں لے کر زَر نکلتے ہیں
بندھا رہتا ہے شیرازہ جو مُٹھی بند رہتی ہے
بھرم کھوتے ہیں جب جامہ سے گُل باہر نکلتے ہیں
دورنگی کا مرقع ہے تماشا گاہِ عالم میں
نظر کے سامنے دن رات جو منظر نکلتے ہیں
شبا شب شمع پروانہ کی ہے ہنگامہ آرائی
سحر محفل سے دونوں ہو کے خاکستر نکلتے ہیں
چلو پھر برقؔ میخانہ چلیں پھر توڑ لیں توبہ
ابھی تو اپنے ہی کچھ دام ساقی پر نکلتے ہیں
——
یہ دو لفظوں میں ہے تفسیر جنت اور دنیا کی
وہ اِک نقشِ خیالی ہے ، یہ اک خوابِ پریشاں ہے
——
دل تری زد پر نگاہِ فتنہ ساز آ ہی گیا
بچتے بچتے بھی تہِ شمشیرِ ناز آ ہی گیا
ہوتے ہوتے ہو گئی آخر حقیقت میں نظر
آتے آتے راہ پر عشقِ مجاز آ ہی گیا
——
دل کی مراد پہلے ہے منزل سے ہو حصول
کعبہ کے راستے میں صنم خانہ چاہیے
——
جب آنکھیں پھر لیتے ہو تو کوئی رُخ نہیں کرتا
گراتے ہو نظر سے تم جسے مشکل سے اُٹھتا ہے
——
اشک ریزی اس کی فطرت ہے بدل سکتی نہیں
قبرِ بیکس پر جلے یا شمع محفل میں رہے
——
کیوں نہ رودادِ محبت ہو سراپا رنگیں
کونِ امید اگر سرخیٔ افسانہ بنے
——
خستہ حالوں کی خوشی بھی نہیں غم سے خالی
خون روئے گا لبِ زخم جو خنداں ہو گا
——
کِھل کے مرجھا بھی گیا آنکھ کسی کی نہ پڑی
میں چمن زارِ جہاں میں گلِ صحرائی تھا
——
نہ مژگاں سے وفورِ ضبط نے ڈھلنے دئیے آنسو
یہ دریا غرق ہو کر رہ گیا اپنے کناروں میں
——
شیرازہ بندِ دفترِ امکاں ہے شانِ حق
سرچشمۂ حیات ہے فیضِ روانِ حق
بارانِ لطف ہے کرمِ جاودانِ حق
ذرے زبانِ حال سے ہیں تر زبانِ حق
رنگِ نوائے راز ہے ہستی کے ساز میں
در پردہ بس رہی ہے حقیقت مجاز میں
تابش فزائے ماہِ نظر تاب ہے وہی
ضو بخشِ برقِ غیرتِ سیماب ہے وہی
نزہت دِہِ رخِ گلِ شاداب ہے وہی
زینت فروزِ عالمِ اسباب ہے وہی
حق کی ضیا سے نور کا مطلع جہان ہے
ذروں میں آفتابِ درخشاں کی شان ہے
روئے مجاز عکس ہے حق کی صفات کا
پرتو اس آئینے میں ہے انوارِ ذات کا
حق اصلِ کُل ہے سلسلۂ کائنات کا
اعجازِ حق ہے راز طلسمِ حیات کا
ظلمت سرائے دہر میں ہے حق کی روشنی
جلوہ فشاں ہے قادرِ مطلق کی روشنی
زیبِ ریاضِ دہر اگر فیضِ حق نہ ہو
رنگیں کتابِ خندۂ گل کا ورق نہ ہو
نیرنگِ دل فریب بہارِ شفق نہ ہو
مہرِ مبیں سے چرخ کا روشن طبق نہ ہو
ایوانِ شش جہت میں برستا جو نور ہے
حق تو یہ ہے یہ جلوۂ حق کا ظہور ہے
——
گورِ غریباں
عبرت کا سماں گورِ غریباں سے عیاں ہے
ویرانہء خاموش پہ بستی کا گماں ہے
خوابیدہ یہاں ہستیء گم کردہ نشاں ہے
گنجینیہء نایاب تہِ خاک نہاں ہے
جو زیست نہ رُولے تھے گہر دھول ہوۓ ہیں
گُلچہرہ حسینوں کے یہیں پھول ہوۓ ہیں
راحت کدہء اہلِ جہاں ہے یہی منزل
ہنگامہء ہستی سے سکوں ہے یہیں حاصل
آراستہ گوشہ میں محفل تہِ محفل
مہمانوں سے خالی کوئی جا ہو گی مشکل
کھنچ کھنچ کے چلے آتے ہیں سب کی یہ روش ہے
کیا جانیۓ اس خاک میں کس درجہ کشش ہے؟
آغوشِ زمیں میں خاک کے پُتلوں سے ہے آباد
ہر ذرہ ہے اک ہستیء برباد کی روداد
ہر لحظہ ہے تاراجِ اجل ، عالمِ ایجاد
پیش آنی ہے انجام میں سب کو یہی افتاد
شیرازہ عناصر کا بکھر جاتا ہے آخر
پیمانہ ہے جو عمر بھر جاتا ہے آخر
مٹی کے کھلونوں کا ہے گھر شہرِ خموشاں
بربادوں سے آباد ہے یہ خطہء ویراں
شاہوں کا تجمل ہے یہاں خاک بداماں
اسرارِ ہستیء فانی کے ہین عریاں
مٹنے سے اماں کس کو تہِ چرخ بریں ہے؟
جو نقش ابھرتا ہے وہ پیوندِ زمیں ہے
غافل! یہ ہے انجامِ بقا بھر کے نظر دیکھ
اس منظرِ دلدوز کو بادیدہء تر دیکھ
کیا دیکھتا ہے دہر کے جلوؤں کو ادھر دیکھ
تجھ کو اسی منزل کا ہے در پیش سفر دیکھ
اس جادہء پُر پیچ میں رکھ پاؤں سنبھل کر
عمر اپنی یہاں وقف ہے حُسنِ عمل کر
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر قتیل شفائی کا یوم وفات
——
راضی برضا
شکوہ نہ بیش و کم کا ، غم کا نہ کچھ گلا ہے
جس چیز کے تھے قابل، ملنا تھا جو ، ملا ہے
شانِ کرم سے قائم ہستی کا سلسلہ ہے
شکرِ کریم دل کے آئینہ کی جِلا ہے
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
جو نعمتیں ملیں ہیں وہ کم ہیں یا ہیں وافر
ہر حال میں ہے لازم تقدیر پر ہوں شاکر
رنگَ ظہورِ قدرت ہر ذرے سے ہے ظاہر
اول بھی تو ہے برحق مالک ہے تو ہی آخر
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
فیض عجیم تیرا دنیا میں چار سُو ہے
تاروں میں نور تیرا ، پھلوں میں تیری بو ہے
سر بہرِ شکر نعمت خم تیرے روبرو ہے
پُتلے ہیں ہم خطا کے بندہ نواز تو ہے
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
جس حال میں رکھے تو داتا ہمیں ہے رہنا
پھولوں میں یا تُلنا، یا درد و رنج سہنا
ہم نے ہے سر سے پا تک ملبوسِ شکر پہنا
دل میں یہی تمنا منہ سے یہی ہے کہنا
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
حاصل ہو سر بلندی یا ہو نصیب پستی
دوسرِ مۓ طرب ہو ، یا عہدِ فاقہ مستی
ہو عیش و شادمانی یا رنج و تندستی
تسلیم اپنا شیوہ ، مسلک ہے حق پرستی
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
سازَ حیات کیا ہے سامان ہے یہ تیرا
جو اصلِ زندگی ہے ، عرفان ہے یہ تیرا
سر چشمہء کرم تو ، فیضان ہے یہ تیرا
بخشی ہیں نعمتیں جو احسان ہے تیر
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
خوانِ کرم پہ تیرے مہمان ہے زمانہ
ملتا ہے رزق بن کر قسمت کا دانہ دانہ
جود و سخا کا مخزن ہے تیرا آستانہ
کیوں برقؔ کے ہو لب پر ہر دم نہ یہ ترانہ
راضی ہیں ہم اُسی میں جس میں تری رضا ہے
——
اُدھر محشر میں وہ کھینچے ہوئے خنجر نکلتے ہیں
اِدھر زخموں کی ہم اوڑھے ہوئے چادر نکلتے ہیں
محبت میں ہتھیلی پر جو رکھ کر سر نکلتے ہیں
وہی جانباز راہِ عشق میں کچھ کر نکلتے ہیں
یہ سب عشاق کے حق میں تو غارت گر نکلتے ہیں
بُتوں سے وصل کے ارماں کیا پتھر نکلتے ہیں
کرے عرضِ تمنا خاک کوئی اس ستمگر سے
زباں کٹتی ہے اب تو بات پر خنجر نکلتے ہیں
قفس میں بھی تو مجھ پر یہ ستم صیاد ڈھاتا ہے
کتر دیتا ہے دس ، گنتی کے جب دو پر نکلتے ہیں
ہے کُشتہ اک زمانہ حسنِ عالمگیر کا تیرے
شہیدانِ ادائے ناز اب گھر گھر نکلتے ہیں
سِوا ہے فتنۂ محشر سے بھی طولِ امل ان کا
ترے گیسو ترے قامت سے بھی گز بھر نکلتے ہیں
نگاہِ غور سے دیکھے کوئی نیرنگِ عالم کو
دورنگی کے یہاں ہر بات میں تیور نکلتے ہیں
کوئی خونِ جگر پیتا ہے ، کوئی عیش کرتا ہے
کہیں آنسو نکتے ہیں ، کہیں ساغر نکلتے ہیں
کوئی باغِ جناں میں بے سروساماں نہیں آتا
کہ غُنچے خاک سے مُٹھی میں لے کر زَر نکلتے ہیں
بندھا رہتا ہے شیرازہ جو مُٹھی بند رہتی ہے
بھرم کھوتے ہیں جب جامہ سے گُل باہر نکلتے ہیں
دورنگی کا مرقع ہے تماشا گاہِ عالم میں
نظر کے سامنے دن رات جو منظر نکلتے ہیں
شبا شب شمع پروانہ کی ہے ہنگامہ آرائی
سحر محفل سے دونوں ہو کے خاکستر نکلتے ہیں
چلو پھر برقؔ میخانہ چلیں پھر توڑ لیں توبہ
ابھی تو اپنے ہی کچھ دام ساقی پر نکلتے ہیں