آج اردو کے نامور شاعر بشیر بدر کا یوم پیدائش ہے

——
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نجانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
——
یہ خوبصورت اور مشہورِ زمانہ شعر ہمیں گزشتہ دنوں فیس بک کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس لیے یاد آیا کہ آج کل مختلف فیس بک پر ڈاکٹر بشیر بدر کی وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے ایک ویڈیو بہت مقبول ہو رہی ہے۔ یہ ویڈیو اصل میں بھارت کے کسی ٹی وی چینل نے بنائی اور نشر کی۔ جیسے ہی ڈاکٹر بشیر بدر کے متعلق ویڈیو آن ایئر ہوئی تو دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگوں نے اس پر رائے کا اظہار کیا۔ اتنے ہی لوگوں نے اسے پسند کیا کہ اس ویڈیو کو دیکھ کر یہ یقین ہو گیا کہ بشیر بدر کی زندگی کی شام ہوا چاہتی ہے۔ اب یادوں کے اُجالے بھی اندھیروں میں گم ہو رہے ہیں۔ وہ بشیر بدر جس نے کہا تھا:
——
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
شب ہجر تک تو یہ تشویش ہے
مسافر نے جانے کہاں رات کی
کئی سال سے کچھ خبر ہی نہیں
کہاں دن گزارا کہاں رات کی
——
مندرجہ بالا غزل کا آخری شعر تو حسبِ حال ہے کہ انہیں اپنے اشعار بھی یاد کرانے پر یاد ہیں۔ یعنی ”کئی سال سے کچھ خبر ہی نہیں“ والا معاملہ درپیش ہے۔ جس ویڈیو کا ہم تذکرہ کر رہے ہیں اس میں ٹی وی کی میزبان کچھ ادھورے اشعار پڑھتی ہیں لیکن بے بسی کے عالم میں بشیر بدر دیکھتے ہیں اور بڑی مشکل سے اپنے شعر سے یاد کر کے خوش بھی ہوتے ہیں۔
——
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
——
کبھی وہ روتے ہیں اور روتے روتے تھک جاتے ہیں۔
——
محبت اِک خوشبو ہے ہمیشہ ساتھ چلتی ہے
کوئی انساں تنہائی میں بھی تنہا نہیں رہتا
——
بھوپال میں مقیم ڈاکٹر بشیر بدر آج کل اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ آخری دن بسر کر رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ تیمارداری بھی کر رہی ہیں۔ بے بسی کے عالم میں اپنے اردگرد موجود لوگوں کا ہاتھ تھامتے ہیں۔ جملہ بھی ادا نہیں کر پاتے، آنکھوں میں بھی نامعلوم التجا ہے، شکوہ ہے، شکایت ہے، اہلِ بھوپال سے جو انہیں بھول گئے
——
سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں
بس ذرا وفا کم ہے تیرے شہر والوں میں
——
یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں آنے والے حالات کا ادراک تھی اسی لیے تو مستقبل کی تصاویر کو شعر میں محفوظ کرتے رہے۔
——
کہاں اب دُعاؤں میں برکتیں وہ نصیحتیں وہ حکایتیں
یہ ضرورتوں کا خلوص ہے یہ مقابلوں کے سلام ہیں
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز شاعر ڈاکٹر کلیم عاجز کا یومِ وفات
——
مجھے یہ ڈاکٹر بشیر بدر کے اشعار اس لیے یاد آ رہے ہیں کہ انہوں نے تقریباً ساٹھ برس مشاعروں کے ذریعے پوری دنیا میں حکمرانی کی۔ ان کا پڑھنے اور داد وصول کرنے کا انداز ہی منفرد تھا۔ وہ ہر شعر کو کئی بار پڑھتے اور ایک غزل پڑھنے میں پندرہ سے بیس منٹ لگ جاتے۔ یوں کسی بھی مشاعرے میں ان کے پڑھنے کا دورانیہ ایک گھنٹے سے کم نہ ہوتا۔ ادھر بشیر بدر اپنی شاعری کے ساتھ مائیک پر آتے اُدھر ہزاروں لوگ اپنے ہاتھوں میں کاغذ قلم لے کر بیٹھ جاتے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب موبائل کا دور نہیں آیا تھا۔ بشیر بدر کی شاعری کی کتب پاک و ہند میں لاکھوں کی تعداد میں شائع ہوئیں کہ ان کی ہر کتاب کو پڑھنے والے ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ مشاعرہ میں جب تین شعر پڑھتے تو پڑھنے سے قبل یہ کہتے کہ آپ کو دو شعر تو اچھے اور تیسرا شعر تو بہت اچھا لگے گا۔
——
پھول سی بچی نے میرے ہاتھ سے چھینا گلاس
آج امی کی طرح وہ پوری عورت سی لگی
آخری بیٹی کی شادی کر کے سوئی رات بھر
صبح بچوں کی طرح وہ خوبصورت سی لگی
روٹیاں کچی پکیں کپڑے بہت گندے دھلے
مجھ کو پاکستان کی اس میں شرارت سی لگی
——
وہ اپنی غزل سنانے سے پہلے حاضرین کو بھی ساتھ لے کر چلتے تھے۔ کبھی کہتے کہ اتنے خطرناک سامعین مَیں نے کبھی نہیں دیکھتے تو کبھی حاضرین کو شریف سامعین بھی قرار دیتے یعنی وہ غزل سنانے سے قبل ہی اپنے لیے بے شمار داد سمیٹ لیتے۔ اکثر یہ کہتے کہ نئی غزل پہلی مرتبہ آپ کے سامنے ٹرائی کر رہا ہوں۔
——
محبت تم سے ہو گئی ہے
یہ دنیا خوبصورت ہو گئی ہے
خدا سے روز تم کو مانگتا ہوں
مری چاہت عبادت ہو گئی ہے
خدا، محبوب، شوہر، بال، بچے
غزل دل دار عورت ہو گئی ہے
اسے اُردو میں تم نے خط لکھا ہے
تمہاری اتنی ہمت ہو گئی ہے
——
ڈاکٹر بشیر بدر درس و تدریس سے جڑے رہے لیکن شاعری کی وجہ سے پوری دنیا میں جانے گئے۔ جن دنوں وہ مشاعروں میں شرکت کرتے تھے تو ان کا نامِ نامی کامیابی کی ضمانت تھا۔ ترنم سے جب اپنی شاعری سناتے تو مشاعرے میں سماں بندھ جاتا۔ یو ٹیوب سے لے کر فیس بک ان کے خوبصورت کلام سے بھرا پڑا ہے۔ بھارت سے تعلق ہونے کے باوجود ایک زمانے میں ان کی کتب مقبول ترین شعراءکرام کی طرح ہزاروں نہیں لاکھوں میں فروخت ہوتیں۔ ان کی کتابوں کے جتنے جعلی ایڈیشن شائع ہوئے وہ کسی اور کی کتابوں کے نہیں ہوئے۔ دُعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں مکمل صحت دے۔ یادداشت بحال کرے اور وہ ماضی کی طرح اپنی خوبصورت و منفرد شاعری سناتے رہیں۔
——
آنکھوں میں رہا دل میں اتر کر نہیں دیکھا
کشتی کے مسافر نے سمندر نہیں دیکھا
——
میرا یہ عہد ہے کہ آج سے مَیں کوئی منظر غلط نہ دیکھوں
میری بیٹی نے میری پلکوں کو کتنی پاکیزگی سے چوما ہے
——
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
گفتگو ان سے روز ہوتی ہے
مدتوں سامنا نہیں ہوتا
رات کا انتظار کون کرے
آج کل دن میں کیا نہیں ہوتا
——
یہ بھی پڑھیں : شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کا یوم وفات
——
وہ بڑا رحیم و کریم ہے مجھے یہ صفت بھی عطا کرے
تجھے بھولنے کی دُعا کروں تو مری دُعا میں اثر نہ ہو
——
مجھے اشتہار سی لگتی ہیں یہ محبتوں کی کہانیاں
جو جہا نہیں وہ سنا کرو جو سنا نہیں وہ کہا کرو
——
کبھی یوں بھی آ مری آنکھ میں کہ مری نظر کو خبر نہ ہو
مجھے ایک رات نواز دے مگر اس کے بعد سحر نہ ہو
——
سرِ راہ کچھ بھی کہا نہیں کبھی کے گھر میں گیا نہیں
مَیں جنم جنم سے اُسی کا ہوں اسے آج تک یہ پتہ نہیں
——
15 فروری 1935ءکو بھارت میں پیدا ہونے والے بشیر بدر نے اُردو غزل کو نئی جہت دی۔ علی گڑھ یونیورسٹی سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ان کی شادی راحت بدر سے ہوئی۔
زمانہ طالب علمی سے لے کر ملازمت کے دوران وہ علی گڑھ یونیورسٹی میں مقیم رہے۔
وہ اُردو اکادمی بھارت کے سربراہ بھی رہے۔ جبکہ بھارت میں ایم۔اے اُردو کے نصاب میں اُن کی شاعری شامل ہے۔
انہیں 1999ءمیں بھارت کا سب سے بڑا ایوارڈ ”پدما شری“ دیا گیا۔
1999ءمیں ان کی شاعری پر ساہیتہ اکادمی نے ایوارڈ بھی دیا۔
دنیا کے جس علاقہ میں اُردو پڑھی، لکھی اور سمجھی جاتی ہے وہاں پر ڈاکٹر بشیر بدر کا نام بڑے احترام سے لیا جاتا ہے۔بھارتی ٹی وی کی ایک ویڈیو نے ہمیں ڈاکٹر بشیر بدر کی وہ تصویر دکھائی جو ہم دیکھنا نہیں چاہتے۔ اس کے باوجود کہ وہ بیماری اور پیرانہ سالی کے اپنی شاعری بھول چکے ہیں لیکن انہیں کیا معلوم بشیر بدر کی شاعری کبھی مر نہیں سکتی کہ ان کی شاعری آج محبت کرنے والوں پر حکمرانی کرتی ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ایکسپریس)
——
یہ بھی پڑھیں : ممتاز پاکستانی شاعر ڈاکٹر پیر زادہ قاسم کا یوم پیدائش
——
منتخب کلام
——
اجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
——
زندگی تو نے مجھے قبر سے کم دی ہے زمیں
پاؤں پھیلاؤں تو دیوار میں سر لگتا ہے
——
یہاں لباس کی قیمت ہے آدمی کی نہیں
مجھے گلاس بڑے دے شراب کم کر دے
——
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملو گے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
——
سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا
——
اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری
لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے
——
پتھر مجھے کہتا ہے مرا چاہنے والا
میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
——
لوگ ٹوٹ جاتے ہیں ایک گھر بنانے میں
تم ترس نہیں کھاتے بستیاں جلانے میں
——
ابھی راہ میں کئی موڑ ہیں کوئی آئے گا کوئی جائے گا
تمہیں جس نے دل سے بھلا دیا اسے بھولنے کی دعا کرو
——
ہمارا دل سویرے کا سنہرا جام ہو جائے
چراغوں کی طرح آنکھیں جلیں جب شام ہو جائے
میں خود بھی احتیاطا” اُس طرف سے کم گزرتا ہوں
کوئی معصوم کیوں میرے لیئے بدنام ہو جائے
عجب حالات تھے یوں دل کا سودا ہو گیا آخر
محبت کی حویلی جس طرح نیلام ہو جائے
مجھے معلوم ہے اُس کا ٹھکانہ پھر کہاں ہو گا
پرندہ آسماں چھونے میں جب ناکام ہو جائے
سمندر کے سفر میں اس طرح آواز دے مجھ کو
ہوائیں تیز ہوں اور کشتیوں میں شام ہو جائے
اُجالے اپنی یادوں کے ہمارے ساتھ رہنے دو
نہ جانے کس گلی میں زندگی کی شام ہو جائے
——
جگنو کوئی سِتاروں کی محِفل میں کھو گیا
اِتنا نہ کر ملال ، جو ہونا تھا، ہوگیا
پروَردِگار جانتا ہے تُو دِلوں کا حال
مَیں جی نہ پاؤں گا، جو اُسے کُچھ بھی ہوگیا
اب اُس کو دیکھ کر، نہیں دھڑکے گا میرا دِل
کہنا کہ، مجھ کو یہ بھی سبق یاد ہو گیا
بادل اُٹھا تھا سب کو رُلانے کے واسطے
آنچل بھگو گیا کہیں دامن بھگو گیا
اِک لڑکی، ایک لڑکے کےکاندھے پہ سوئی تھی
مَیں اُجلی دُھندلی یادوں کے کے کہرے میں کھو گیا
——
سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا
اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا
ہم بھی دریا ہیں ہمیں اپنا ہنر معلوم ہے
جس طرف بھی چل پڑیں گے راستہ ہو جائے گا
کتنی سچائی سے مجھ سے زندگی نے کہہ دیا
تو نہیں میرا تو کوئی دوسرا ہو جائے گا
میں خدا کا نام لے کر پی رہا ہوں دوستو
زہر بھی اس میں اگر ہو گا دوا ہو جائے گا
سب اسی کے ہیں ہوا، خوشبو، زمین و آسماں
میں جہاں بھی جاؤں گا اس کو پتہ ہو جائے گا
——
خدا ہم کو ایسی خدائی نہ دے
کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے
خطاوار سمجھے گی دنیا تجھے
اب اتنی زیادہ صفائی نہ دے
ہنسو آج اتنا کہ اس شور میں
صدا سسکیوں کی سنائی نہ دے
غلامی کو برکت سمجھنے لگیں
اسیروں کو ایسی رہائی نہ دے
خدا ایسے احساس کا نام ہے
رہے سامنے اور دکھائی نہ دے
——
نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی
بڑی آرزو تھی ملاقات کی
اجالوں کی پریاں نہانے لگیں
ندی گنگنائی خیالات کی
میں چپ تھا تو چلتی ہوا رک گئی
زباں سب سمجھتے ہیں جذبات کی
مقدر مری چشم پر آب کا
برستی ہوئی رات برسات کی
کئی سال سے کچھ خبر ہی نہیں
کہاں دن گزارا کہاں رات کی
——
مرے دل کی راکھ کرید مت اسے مسکرا کے ہوا نہ دے
یہ چراغ پھر بھی چراغ ہے کہیں تیرا ہاتھ جلا نہ دے
نئے دور کے نئے خواب ہیں نئے موسموں کے گلاب ہیں
یہ محبتوں کے چراغ ہیں انہیں نفرتوں کی ہوا نہ دے
ذرا دیکھ چاند کی پتیوں نے بکھر بکھر کے تمام شب
ترا نام لکھا ہے ریت پر کوئی لہر آ کے مٹا نہ دے
میں اداسیاں نہ سجا سکوں کبھی جسم و جاں کے مزار پر
نہ دیے جلیں مری آنکھ میں مجھے اتنی سخت سزا نہ دے
مرے ساتھ چلنے کے شوق میں بڑی دھوپ سر پہ اٹھائے گا
ترا ناک نقشہ ہے موم کا کہیں غم کی آگ گھلا نہ دے
میں غزل کی شبنمی آنکھ سے یہ دکھوں کے پھول چنا کروں
مری سلطنت مرا فن رہے مجھے تاج و تخت خدا نہ دے