نہ سکون دے نہ قرار دے ، مجھے امتحاں سے گذار دے

اُسے جیت دے اُسے پیار دے ، مجھے مات دے مجھے ہار دے مِری آنکھ میں تِرا خواب ہے ، اُسے نوچ لے ذرا سوچ لے کوئی پھانس دل میں اُتار دے ، مِرا زخم زخم نکھار دے کسی شام کو مرے نام کر ، کوئی بات ہو تِرا ساتھ ہو مِری ایک شبـ تو […]

یوں تو صبح بھی سُندر ہے پیاری ہے

پر اپنی عادت شب بیداری ہے سہما سہما سا ہے ہر اِک منظر چہرہ چہرہ اِک خوف سا طاری ہے سوچو تو کوئی مخلص دوست نہیں جو دیکھو تو ڈھیروں سے یاری ہے کھوج ہو جس میں اَن دیکھی منزل کا ایسے ایک سفر کی تیاری ہے اُس کے ترکش میں تیر نہیں شاید گھائل […]

تھکن سے جب بدن ٹوٹے گا تو آرام کر لیں گے

ابھی دن ہے جہاں سورج ڈھلے گا شام کر لیں گے ہمیں اپنے ارادوں کی ثباتی پر بھروسہ ہے ہم اپنی منزلوں کے راستوں کو رام کر لیں گے چراغِ زیست کی افسانویت کے جو قائل ہیں وہی اندھے خنک جھونکوں کو اپنے نام کر لیں گے کبھی ہم میں طلب جاگی اگر بادہ گساری […]

گوریاں ہوتی ہیں جیسے ساجنوں کی قید میں

میری آنکھیں ہیں مسلسل ساونوں کی قید میں کس طرح پھر درمیاں کے فاصلوں کو دوش دیں جب رہے ہم ہی انا کے معبدوں کی قید میں منتظر ہیں کتنی ہی افلاس ماری لڑکیاں شاہزادوں کی ، گھروں کی چوکھٹوں کی قید میں اِک پری کا خواب توڑا تھا اُسی پاداش میں مرتضیٰ میں آج […]

تتلی سی کوئی پنکھ کی چادر سے اُڑی ہے

یہ نیند مِری خواب کی ٹھوکر سے اُڑی ہے شاید کسی بھوکے کو سُلا دے گی سکوں سے گھنٹی کوئی پیتل کی جو مندر سے اُڑی ہے آسیب زدہ ہوگا کہ اژدر کا ٹھکانہ اُس پیڑ سے وہ چیل کسی ڈر سے اُڑی ہے کیا ’’سنگ نظر‘‘ آگیا تھا شیشہ گروں میں؟ وہ کانچ کا […]

کچھ اِس خیال سے شہ کے قریں نہیں جاتے

ہم ایسے لوگ جھکا کر جبیں نہیں جاتے ستارے آب دکھاتے نہیں ہیں سورج کو کہ آئنے کے مقابل حسیں نہیں جاتے تمام شہر میں یوں تو بھٹکتے ہیں رستے مگر جہاں پہ ہو جانا وہیں نہیں جاتے تمھاری سوچ کے پنچھی نجوم کی صورت فلک نشین ہیں سوئے زمیں نہیں جاتے تمھارا مشغلہ تھا […]

اندھیرے میں سیہ شب ہوں کسی شب مجھ میں بس بھی

اگر تو ابر ہے تو ٹوٹ کر مجھ پر برس بھی تجھے تصویر کرنے کی اجازت چاہتا ہوں ہے میرے پاس ایزل بھی ، برش بھی ، کینوس بھی میں تیرے دھیان سے کیسے نکل پاتا کہ جب تھے ترے پابند میرے دائیں بائیں ، پیش و پش بھی فقط اس کے ہی بالوں سے […]

وہ ذرا انتظار کر لیتا

میں خزاں کو بہار کر لیتا ہم نہ تم کو بھُلا سکے ورنہ ہم سے بھی کوئی پیار کر لیتا دیپ رکھ کر منڈیر پر دِل کی زندگی کو مزار کر لیتا کچھ بھی تو حوصلہ نہ تھا اُس میں جتنے دریا تھے پار کر لیتا کاش میں اُس کے ’’آج‘‘ سے اشعرؔ اپنا ’’کل‘‘ […]

فضا کا ہول نہ ٹوٹی ہوئی کمان کا ہے

اگر ہے خوف شکاری کو تو مچان کا ہے میں اُس کو بھولنا تو چاہتا ہوں لیکن پھر وہ اِک اٹوٹ تعلق جو درمیان کا ہے تمہارے نام کی ناؤ اُتاری ہے دِل میں بھروسہ ہم کو ہوا کا نہ بادبان کا ہے گذر ہے دھوپ کے صحرا سے اب کے اشعرؔ اور ہمارے ساتھ […]