وطنِ عزیز میں حکومت کی تبدیلی پر

ایک چہرہ بدل گیا ہو گا ایک پرچم اتر گیا ہو گا ایک دنیا سَنور چلی ہو گی ایک عالَم بکھر گیا ہو گا نشر گاہوں سے پھر فضاؤں میں وعدۂ خوب تر گیا ہو گا پھر خوشامد کا حرفِ بے توقیر سرخیوں میں اُبھر گیا ہو گا کچھ سیاسی بیان بازوں کا آج قبلہ […]

ورثۂ درد ہے تنہائی چھپا لی جائے

اپنے حصے کی یہ جاگیر سنبھالی جائے کون دیکھے گا تبسم کی نمائش سے پرے ٹوٹی دیوار پہ تصویر لگا لی جائے چہرے پڑھنا بھی اُسے آہی گیا ہو شاید غم زدہ چہرے پہ مسکان سجالی جائے اختلافات نہ بن جائیں تماشہ اے دوست بیچ میں اب کوئی دیوار اٹھا لی جائے اپنی رفتار سے […]

عشق

پیکرِ خاک میں تاثیرِ شرر دیتا ہے آتشِ درد میں جلنے کا ثمر دیتا ہے اک ذرا گردشِ ایّام میں کرتا ہے اسیر دسترس میں نئے پھر شام و سحر دیتا ہے پہلے رکھتا ہے یہ آنکھوں میں شب تیرہ و تار دستِ امکان میں پھر شمس و قمر دیتا ہے دل پہ کرتا ہے […]

سفر حضر کی علامتیں ہیں، یا استعارہ ہے قافلوں کا

یہ شاعری تو نہیں ہماری، یہ روزنامہ ہے ہجرتوں کا یہ رُوپ سورج کی دھوپ جیسا، یہ رنگ پھولوں کی آنچ والا یہ سارے منظر ہیں بس اضافی، یہ سب تماشہ ہے زاویوں کا ہر ایک اپنی انا کو تانے دُکھوں کی بارش میں چل رہا ہے دیارِ ہجرت کے راستوں پر عجیب موسم ہے […]

منظر وہی پرانا ہے، موسم نیا نیا

بدلا جو میں نے زاویہ، عالم نیا نیا تازہ ہے دوستی ابھی لہجے نہ جانچئے کھُلتا ہے تار تار یہ ریشم نیا نیا دل کی خلش بڑھی ہے تری قربتوں سے اور زخموں کو جیسے ملتا ہے مرہم نیا نیا ہر عکس کرچیاں سی چبھاتا ہے آنکھ میں پتھر اور آئنے کا ہے سنگم نیا […]

لہروں پہ سفینہ جو مرا ڈول رہا ہے

شاید مری ہمت کو بھنور تول رہا ہے شیریں ہے تری یاد مگر ہجر لہو میں شوریدہ ہواؤں کا نمک گھول رہا ہے پتوار بنا کر مجھے طوفانِ حوادث قامت مری پرچم کی طرح کھول رہا ہے ساحل کی صدا ہے کہ سمندر کا بلاوا گہرائی میں سیپی کی کوئی بول رہا ہے یہ وقت […]

ضربِ تیشہ سے یوں اعجاز کی صورت جاگے

سینۂ سنگ سے اک موم کی مورت جاگے ٹوٹ جائے مرے مولا یہ جمودِ شب تار کوکبِ بخت چمک جائے مہورت جاگے کاش پڑ جائے مرے غم پہ ہُما کا سایا شعلۂ درد سے عنقا کسی صورت جاگے خواہش حرف ستائش کو تھپک دو ورنہ بن کے اکثر یہ نمائش کی ضرورت جاگے بے غرض […]

وہیں تو عشق رہتا ہے

جہاں ہونے نہ ہونے کی حدیں آپس میں ملتی ہیں جہاں غم گیت گاتے ہیں، جہاں ہر درد ہنستا ہے وہیں ہے گھر محبت کا، وہیں تو عشق رہتا ہے جہاں حدِ نظر تک نیلگوں گہرے سمندر کے سنہری ساحلوں پر دھوپ کوئی نام لکھتی ہے ہوا کی موج بکھرے بادلوں سے رنگ لے لے […]

ہاتھوں میں لئے سنگ کی سوغات چلی ہے

اُترے گی مرے گھر ہی جو بارات چلی ہے ملتے ہیں گھڑی بھر کو دکھانے کے لئے زخم یاروں میں نئی طرزِ ملاقات چلی ہے لگتا ہے کہ افسانۂ رسوائی بنے گی وہ بات جو اغیار سے بے بات چلی ہے جو عشق نے چاہا ہے وہی کر کے دکھایا کب دل کے حضور اپنی […]

طعنۂ سود و زیاں مجھ کو نہ دینا، دیکھو

میرے گھر آؤ کبھی، میرا اثاثہ دیکھو در کشادہ ہے تمہارا مجھے تسلیم مگر مجھ میں جھانکو، کبھی قد میری انا کا دیکھو بس سمجھ لینا اُسے میری سوانح عمری سادہ کاغذ پہ کبھی نام جو اپنا دیکھو اِس خموشی کو مری ہار سمجھنے والو! بات سمجھو، مرے دشمن کا نشانہ دیکھو آج لگتا ہے […]