سخن کے شہرِ حبس میں ہَوا کا باب کھُل گیا
گدائے حرف کے لئے ثنا کا باب کھُل گیا تکلفاً بھی اب کسی صدا کی آرزو نہیں دُعا کے آس پاس ہی عطا کا باب کھُل گیا غضب کا کرب تھا رواں، بڑا عمیق زخم تھا تری گلی کی خاک لی، شفا کا باب کھُل گیا وہاں پہ تھے تو جیسے لفظ ساتھ ہی نہ […]