پھر ایک اور تماشہ گہِ محبت میں

جنون چلنے لگا چال اک قیامت کی مٹا سکے نہ غرورِ مسافرت اب تک نہ حادثے نہ کوئی مشکلیں مسافت کی نہ جانے کتنے مہ و سال کھو گئے ہوںگے یہ داستانِ مسافت ہے ایک مدت کی عجیب رنگِ سفر تھا کہ جس طرف بھی گئے دریچے کھولتی آئی ہوا محبت کی جو ٹھیک ٹھیک […]

مل چکی شکل یا نہ مل پائی

کوزہ گر ہم تو چاک سے اترے ہم بگولوں پہ شہسوار ہوئے خاک ہو کر ہی خاک سے اترے عکس اپنے پروں کا چمکا تو پانیوں پر چھپاک سے اترے جسم پگھلے ہوس کی دہشت سے پیرہن اس کی دھاک سے اترے پھر ہوا یوں کہ حافظے سے ترے ہم بہت انہماک سے اترے دل […]

بلندیوں کے نتائج سے ڈر چکا ہوں میں

سو اپنی سوچ کے پر ہی کتر چکا ہوں میں تجھے گنوا کے بھی جینا ، کمال کرنا تھا سو یہ کمال مری جان کر چکا ہوں میں یہ زیر و بم مرے سینے کا صرف دھوکا ہے میں سچ کہوں تو حقیقت میں مر چکا ہوں میں میں ایک شخص نہ تھا ، عشق […]

ائے تو ، کہ جسے آج بھی خوابوں پہ یقیں ہے

خوابوں کا خدا کون ہوا؟ کوئی نہیں ہے یہ شعر بھلا کس کے ہوئے تجربے آخر کیا میرے علاوہ بھی مری ذات کہیں ہے وہ جو کہ خداوندِ سخن تھا ، سو کہاں ہے اس شکل کا یہ کون ہے جو خاک نشیں ہے جائیں تو کہاں جائیں ، گئے عہد کے کم رُو اس […]

اُڑ گئے رنگ مگر خواب کا خاکہ اب تک

قابلِ دید بھی ہے ، شاملِ تزئین بھی ہے دل کی دیوار کی زینت کو ضروری ٹھہرا ایک وہ عکس کہ بے رنگ بھی ، رنگین بھی ہے سن رسیدہ ہی سہی عشق کا کرتب لیکن قابلِ داد بھی ہے ، لائقِ تحسین بھی ہے ایک لہجہ کہ فراموش ہوا، یاد بھی ہے وہ تماشہ […]

دستِ قاتل کہ نہیں اذنِ رہائی دیتا

میں نے مرنا تھا بھلے لاکھ صفائی دیتا میں کہ احساس تھا محسوس کیا جانا تھا میں کوئی روپ نہیں تھا کہ دکھائی دیتا دامنِ چاک تو گل رنگ ہوا جاتا ہے اور خیرات میں کیا دستِ حنائی دیتا اب کہیں ہو تو صدا دے کے پکارو ورنہ اس اندھیرے میں نہیں کچھ بھی سجھائی […]

سونپ دی جائے گی اب خاک کو ہر اک خواہش

پھر گلے لگ کے دفینے سے رہا جائے گا چاک ہوگا تو سلیقے سے گریبان کہ اب دشتِ وحشت میں قرینے سے رہا جائے گا میں تہہِ آب سے اس طور پکاروں جیسے اب نہیں تیرے سفینے سے رہا جائے گا شہرِ جاناں مجھے رستوں کے حوالے کر دے اور رہتا ہوں تو جینے سے […]

نہ لاتی نرم سماعت ہی تاب، ممکن تھا

ترے سوال کا ورنہ جواب ممکن تھا تمہی کہو کہ بھلا خآک موندتے آنکھیں شکستِ خواب یقینی تھی خواب ممکن تھا نہ شرمسار ہوئے ہیں نہ شرمسار کیا اگرچہ سود و زیاں کا حساب ممکن تھا تمہارے بعد بھلا کون سی امان میں تھے ہمارے سر پہ کوئی بھی عذاب ممکن تھا اُدھر کسی کا […]

اپنی تمام رونقِ تاباں کے باوجود

میں ماہِ نیم شب ہوا، رُو بہ زوال ہوں اک عہدِ مہرباں کا تراشہ ہوا ، سو میں اس عہدِ ناسپاس میں ملنا محال ہوں افسوس ہے کہ مجھ سا کوئی بھی نہیں ہوا کم بخت آج تک بھی فقید المثال ہوں حرفوں سے مطمئن نہیں ہوتی ہیں وحشتیں میں پوچھتا نہیں ہوں سراپا سوال […]

تمہارے لحن میں ابھروں تو دائمی ٹھہروں

میں اس گمان میں قصہ ہوا ہی چاہتا ہوں تم کو لکھا ہے تو لکھا ہے روشنائی سے اب اپنے نام کی خاطر سیا ہی چاہتا ہوں تو پھوٹتی ہوئی پَو ہے سو مجھ کو کیا جانے چراغِ وقتِ سحر ہوں بجھا ہی چاہتا ہوں میں ڈھل رہا تھا سو تجھ کو نہ ڈھالنا چاہا […]