ہمارا بخت ہی ایسا کرخت نکلے گا
کہ ہم خریدیں تو ریشم بھی سخت نکلے گا
معلیٰ
کہ ہم خریدیں تو ریشم بھی سخت نکلے گا
تیری آنکھیں بھی گِن لیں تو بارہ ہیں
لیکن اب میرا جی نہیں کرتا
تمہاری یاد کی چڑیا پھدکتی رہتی ہے
اس کمرے میں صدیوں تک اِک سانپ رہا ہے
بول، سچے عاشقوں نے اور تجھ کو کیا دیا؟
بکھرے ہوئے اوراقِ خزانی چُن کر لے جاؤں گا ایک ایک نشانی چُن کر چھوڑوں گا نہیں کچھ بھی تری آںکھوں میں کھو جاؤں گا ہر یاد پُرانی چُن کر
گو رزق کے چکر نے بہت جور کیا ہم پھرتے رہے ، صبر بہر طور کیا شانوں پہ تری یاد کی چادر لے کر یوں گُھومے کہ ہر شہر کو لاہور کیا
محفل میں جو ہم تُجھ سے پرے بیٹھے ہیں بے بس ہیں سو اشکوں سے بھرے بیٹھے ہیں فی الحال کوئی اور تواضع مت کر ہم لوگ تو پہلے ہی مرے بیٹھے ہیں
ہم آتے ہی رہے ہیں اور ہم آتے رہیں گے یہ آنسو: ان گنت قرنوں کے ماتھے کا پسینہ یہ وحشت: بے شمار ادوار کے غم کا خزینہ یہ لامحدود اذیّت ، یہ زمانوں کے کچوکے مگر ہم عشق والے ہیں، خدا بھی کیسے روکے ؟ خدا سے لڑ جھگڑ کے بھی اُسے بھاتے رہیں […]