اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو دنیا کے شہنشاہ ظرافت دلاور فگار کا یوم پیدائش ہے ۔

دلاور فگار(پیدائش: 8 جولائی 1929ء – وفات: 25 جنوری 1998ء)
——
دلاور فگار کا تعارف از پروفیسر ولی بخش قادری
——
دلاور فگار نے 8 جولائی 1928ء کو بدایوں کے ایک "حمیدی صدیقی” خاندان میں آنکھ کھولی۔ ان کا نام دلاور حسین ہے۔ 1942ء میں وہ ہائی سکول کے امتحان کامیاب ہوئے۔ ان کے والد ماسٹر شاکر حسین صاحب مرحوم مقامی اسلامیہ سکول میں استاد تھے اور ان کے لئے اعلی تعلیم کا انتظام نہیں کر سکتے تھے۔ اس وقت بدایوں میں صرف دسویں جماعت تک کی تعلیم ممکن تھی۔
میں درجہ چہارم میں ان کا ساتھی بنا تھا، ہم دونوں کا شمار جماعت کے چھوٹے بچوں میں تھا۔ لہذا اگلی صف میں بٹھائے گئے تھے۔ یہ قرب ایک دوسرے کو کچھ ایسا راس آیا کہ اسکول کی ساری زندگی ساتھ ساتھ بیٹھتے اٹھتے گزری۔ مگر ہائی اسکول کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد میں مزید تعلیم کے لیے وطن سے باہر چلا گیا اور وہ صغر سنی کے باوجود کسی طور ڈاک خانے کی عرضیاں بھگتانے پر لگا دیے گئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : دلاور علی آزر کا یوم پیدائش
——
بدایوں میں ہمیشہ ہی چھوٹے موٹے مشاعرے ہوا کرتے ہیں اور ہر انداز سے ہوا کرتے ہیں۔ کبھی ان کا انعقاد کسی تقریب کے طفیل میں ہوا کرتا ہے کبھی وہ خود ہی اپنی تقریب آپ ہوتے ہیں اور کبھی محض بہر تقریب ملاقات۔ مگر موسم گرما کی تعطیلات کے زمانے میں ان کے لیے عموماً تیز ہو جایا کرتی ہے۔ کیونکہ اس زمانے میں پڑھنے اور پڑھانے والوں کی صورت میں شہر کا برآمد کیا ہوا مال اکثر و بیشتر لوٹ آتا ہے میں بھی ایک تعلیمی سال باہر گزار کر پہلی بار جب گھر لوٹا تو اسی زمانے میں اپنے دوست کو بااہتمام شاعرانہ ایک مشاعرے میں غزل پڑھتے ہوئے دیکھا۔ پتا چلا کہ گذشتہ چند ماہ سے وہ ‘شباب بدایوں’ کی حیثیت سے مقامی مشاعروں میں باضابطہ شرکت کر رہے ہیں۔ ان دنوں وہ لہک لہک کر اپنی غزل سنایا کرتے۔ ان کی آواز میں ایک دلآویز نقاہت ہوتی اور ایسا لگتا کہ اب سانس ٹوٹی۔
چار سال بعد وہ کسی طور انٹرمیڈیٹ کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بریلی کالج جا سکے اور اس کے بعد وہیں سے معلمی کا ڈپلومہ بھی لے ڈالا۔ اس دوران میں وہ اپنے والد کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے اور 1950ء میں اپنے والد ہی کے نقش قدم پر اسی ادارے میں استاد بن گئے جہاں آج تک برابر کام کر رہے ہیں۔ ان کا تعلیمی مشغلہ ہنوز جاری ہے۔ 1953ء میں بی اے ہوئے اور اس کے بعد معاشیات میں ایم اے کر ڈالا۔ امسال (یعنی: 1966) انھوں نے اردو کے ایم اے میں فرسٹ ڈویژن حاصل کی ہے۔
یہی زمانہ فگار کی شاعری کے فروغ کا ہے۔ اولاً کی غزلوں کا ایک مختصر مجموعہ "حادثے” 1954ء میں شائع ہوا غزل گوئی میں انھوں نے بدایوں کے صاحبان علم و فن مولانا جامی مرحوم، جناب جام نوائی، جناب آفتاب احمد جوہر اور جناب سبطین احمد سے فیض اٹھایا ہے۔ پھر وہ "شباب” سے "فگار” ہو گئے۔
مقامی طور پر ان کی ایک نظم "ابو قلموں کی ممبری” نے 1956ء میں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ یہ ان کی پہلی کامیاب طنزیہ نظم کہی جا سکتی ہے۔ ان کے مزاحیہ و طنزیہ قطعات اور نظموں کا پہلا مجموعہ "ستم ظریفیاں” 1963ء میں شائع ہوا۔ اسی کے ساتھ ساتھ ان کی آواز قرب و جوار کے مشاعروں میں سنائی دینے لگی اور اخبارات و رسائل میں ان کا کلام شائع ہونے لگا۔ اسی زمانے میں ان کی نظم "شاعر اعظم” شائع ہوئی۔ یہ نظم ان کی شہرت کے پہلے سنگ میل کا رتبہ رکھتی ہے۔ اب ان کو ایک ابھرتا ہوا فنکار سمجھا جانے لگا۔ ان کا دوسرا مجموعہ کلام "شامت اعمال” 1964ء میں شائع ہوا۔ اور ایک مقبول مزاح و طنز نگار شاعر کی حیثیت سے ان کا مقام مسلم ہو گیا۔ اترپردیش کی سرکار نے ان کے اس مجموعے کو سرکاری انعام کا مستحق بھی قرار دیا۔
دلاور فگار کا مزاج خوش دلی اور خوش مذاقی پر منبی ہوتا ہے اور ان کے طنز میں تہذیب نفس اور روشنی طبع کی نمود ملتی ہے۔ وہ تنگ نظر قطعی نہیں ہیں بلکہ ایسے احساسات و افکار کے اعتبار سے ترقی پسند ہی کہلائیں گے۔ وہ جھوٹی اقدار کی قلعی کھولتے ہیں اور کم نگاہی کے شاکی ہیں۔ انہوں نے تلخابۂ حیات کے گھونٹ پیے ہیں۔ اور اپنی دنیا آپ پیدا کی ہے ان کی شاعری میں ان کی زندگی کا پرتو صاف جھلکتا ہے۔ ان کی طبیعت تصنع اور تکلفات سے دور بھاگتی ہے۔ وہ منکسر مزاج اور دوست نواز واقع ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں اپنے ہم عصر شعراء کہتر و مہتر کی تخصیص کے بغیر جگہ بہ جگہ جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ یوں بھی وہ مشاعروں میں سنے ہوئے اشعار خوب سنایا کرتے ہیں۔ ان کی سادگی اور دوست داری اس بات سے بھی ظاہر ہوتی ہے کہ اس وقت اتنے معروف و مقبول ہونے کے باوجود انہوں نے اپنے ایک گمنام دوست سے اپنے بارے میں کچھ لکھنے کے لئے کہا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : مرزا ادیب کا یوم پیدائش
——
دلاور فگار کا حافظہ بہت اچھا ہے انہیں عروض سے واقفیت ہے۔ زبان پر قدرت حاصل ہے اور فطرتآ شاعر ہیں۔ آج اردو نظم میں انگریزی الفاظ کے برجستہ استعمال، پیوندکاری اور تصرف میں ایک معیار رکھتے ہیں۔ ذرا سی بات میں ایک بات کہہ جاتے ہیں بلکہ بسا اوقات کئی باتیں۔ اب ان کے بعض الفاظ پر علامتی رنگ چڑھتا ہوا نظر آتا ہے ان میں سے ایک "خر” نامشخص بھی ہے۔
وہ زندگی کی مضحک پہلو کو اجاگر کیا کرتے ہیں لیکن نیک نیتی اور بالغ نظری کے ساتھ ان کے طنز میں تہ داری ملتی ہے جو پردہ بھی ہے اور پردہ در بھی۔
اب دلاور فگار اچھے خاصے چوڑے چکلے آدمی نظر آتے ہیں مگر اکڑفوں سے دور کچھ ڈھیلے ڈھالے، سڑک پر سرجھکائے دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے آپ میں مگن چلا کرتے ہیں۔ گفتگو کے دوران عموماً آنکھیں نیچی رہتی ہیں۔ نظمیں تحت اللفظ پڑھتے ہیں۔ کچھ ایسا لگتا ہے جیسے زور لگا کر آواز نکال رہے ہو۔ بزم بے تکلف میں اب بھی ترنم سے غزل سنا دیتے ہیں جس میں لڑکپن کے آہنگ کی جھنکار سنائی دے جاتی ہے۔ ان کے مزاج میں آتش گیر مادے کی کمی نہیں ہے وہ خوب جھلاتے ہیں۔ مگر فی نفسہ نرم دل اور مروت کے آدمی ہیں۔ یہ تو خدا جانے کہ شعر ان پر کب اور کیسے وارد ہوتا ہے لیکن وہ اپنا کلام بہت کچھ حافظے میں ہی جمع رکھتے ہیں۔ کچھ مختصر اشاروں میں لکھ کر ادھر ادھر ڈالتے رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ رسائل و اخبارات کے تراشوں کی صورت میں بھی ان کی کتابوں کے انبار میں محفوظ ہوتا رہتا ہے۔ ان کی نجی زندگی میں عورت کے تینوں روپ شامل ہیں۔ یعنی ماں بیوی اور بیٹی وہی ان کے گھر کی رونق ہیں۔
آج شہرت اور نام آوری نے ان کا پتہ پا لیا۔ ان کے کلام کو قبول عام کی سند مل رہی ہے مگر ان کا والہانہ انداز اور شان بے نیازی اپنی جگہ پر بدستور موجود ہے۔ ابھی تک وہ خود بین و خود آگاہ نہیں ہوئے ہیں ان کی زندگی سراسر معصومیت میں گزری ہے، خود انھوں نے اپنے بارے میں کیا خوب کہا ہے:
——
عمر اب تک تو صاف گزری ہے
قاعدے کے خلاف گزری ہے
——
فگار کا فن ترقی پذیر ہے اب وہ اس سطح پر پہنچ گئے ہیں جہاں طاقت پرواز خود پیدا ہوا کرتی ہے ان کی طنزیہ و مزاحیہ نظموں کا مجموعہ "آداب عرض” ان کے کلام کا ایک اچھا نمونہ کہلانے کا مستحق ہے۔ وہ اپنے اندر گلِ تر کی تازگی بھی رکھتا ہے۔
——
منتخب کلام
——
پٹاخہ
اگرچہ پورا مسلمان تو نہیں لیکن
میں اپنے دین سے رشتہ تو جوڑ سکتا ہوں
نماز و روزہ و حج و زکوٰۃ کچھ نہ سہی
شب برات پٹاخہ تو چھوڑ سکتا ہوں
——
جاں دینے کو پہنچے تھے سبھی تیری گلی میں
بھاگے تو کسی نے بھی پلٹ کر نہیں دیکھا
——
چارۂ کار
خلیجِ محنت و سرمایہ مٹ ہی جائے گی
جو ٹھیک طرح سے ہم سب کے پیٹ بھر جائیں
اگر نہیں ہے یہ ممکن تو پھر یہ ہو جائے
امیر زندہ رہیں اور غریب مر جائیں
——
شاعر سے شعر سنئے تو مصرع اٹھائیے
اک بار اگر نہ اٹھے دوبارہ اٹھائیے
کوئی کسی کی لاش اٹھاتا نہیں یہاں
اب خود ہی اپنا اپنا جنازہ اٹھائیے
اغوا ہی کرنا تھا تو کئی تھے لکھ پتی
کس نے کہا تھا روڈ سے کنگلا اٹھائیے
کوئی قدم اٹھانا تو ہے راہ شوق میں
اگلا قدم نہ اٹھے تو پچھلا اٹھائیے
اسٹیج پر پڑا تھا جو پردہ وہ اٹھ چکا
جو عقل پر پڑا ہے وہ پردہ اٹھائیے
پوشیدہ بم بھی ہوتے ہیں کچرے کے ڈھیر میں
ہشیار ہو کے روڈ سے کچرا اٹھائیے
——
کل اک ادیب و شاعر و ناقد ملے ہمیں
کہنے لگے کہ آؤ ذرا بحث ہی کریں
کرنے لگے یہ بحث کہ اب ہند و پاک میں
وہ کون ہیں کہ شاعرِ اعظم کہیں جسے
میں نے کہا ‘جگر’ تو کہا ڈیڈ ہو چکے
میں نے کہا کہ ‘جوش’ کہا قدر کھو چکے
میں نے کہا کہ ‘ساحر’ و ‘مجروح’ و ‘جاں نثار’
بولے کہ شاعروں میں نہ کیجیے انہیں شمار
میں نے کہا ادب پہ ہے احساں ‘نشور’ کا
بولے کہ ان سے میرا بھی رشتہ ہے دور کا
میں نے کہا ‘شکیل’ تو بولے ادب فروش
میں نے کہا ‘قتیل’ تو بولے کہ بس خموش
میں نے کہا کچھ اور! تو بولے کہ چپ رہو
میں چپ رہا تو کہنے لگے اور کچھ کہو
میں نے کہا ‘فراق’ کی عظمت پہ تبصرہ
بولے فراق شاعرِ اعظم ارا اورہ
میں نے کہا کلامِ ‘روش’ لاجواب ہے
کہنے لگے کہ ان کا ترنم خراب ہے
میں نے کہا ترنمِ ‘انور’ پسند ہے
کہنے لگے کہ ان کا وطن دیو بند ہے
میں نے کہا ‘خمار’ کا بھی معتقد ہوں میں
داڑھی پہ ہاتھ پھیر کے کہنے لگے کہ "ایں”
میں نے کہا ‘سحر’ بھی ہیں خوش فکر و خوش مزاج
بولے کہ یوں مزاح کا مت کیجیے امتزاج
میں نے کہا کہ ‘ساغر’ و ‘ آزاد’ بولے نو
پوچھا کہ ‘عرش’ بولے کوئی اور نام لو
میں نے کہا کہ ‘فیض’ کہا فن میں کچا ہے
میں نے کہا کہ ‘شاد’ تو بولے کہ بچہ ہے
میں نے کہا ‘فنا’ بھی بہت خوش کلام ہے
بولے کہ واہ نظم میں کچھ سست گام ہے
میں نے کہا کہ نظم میں ‘وامق’ بلند ہیں
کہنے لگے کہ وہ تو ترقی پسند ہیں
میں نے کہا کہ ‘شاد’ تو بولے کہ کون شاد
میں نے کہا کہ ‘یاد’ تو بولے کہ کس کی یاد
میں نے کہا ‘قمر’ کا تغزل ہے دل نشیں
کہنے لگے کہ ان میں تو کچھ جان ہی نہیں
میں نے کہا ‘عدم’ کے یہاں اک تلاش ہے
بولے کہ شاعری اسے وجۂ معاش ہے
میں نے کہا ‘حفیظ’ تو بولے کہ خود پسند
میں نے کہا ‘رئیس’ تو بولے قطعی بند
میں نے کہا ‘نیاز ‘ تو بولے عجیب ہیں
میں نے کہا ‘سرور’ تو بولے کہ نکتہ چیں
میں نے کہا ‘اثر’ تو کہا آؤٹ آف ڈیٹ
میں نے کہا کہ ‘نوح’ تو بولے کہ تھرڈ ریٹ
میں نے کہا کہ یہ جو ہیں ‘محشر عنایتی’
کہنے لگے کہ آپ ہیں ان کے حمایتی
میں نے کہا کہ یہ جو ہیں ‘گلزار دہلوی’
بولے برہمن کو بھی ہے شوق شاعری
میں نے کہا کہ ‘انور’ و ‘دائم’ بھی خوب ہیں
بولے مری نظر میں تو سب کے عیوب ہیں
میں نے کہا کہ ‘روحی’ و ‘مخفی’ ، ‘نگاہ’ و ‘ناز’
بولے کہ میرے گھر میں بھی ہے اک ادب نواز
میں نے کہا کہ یہ جو ‘دلاور فگار’ ہیں
بولے کہ وہ تو طنز و ظرافت نگار ہیں
میں نے کہا کہ طنز میں اک بات بھی تو ہے
بولے کہ اس کے ساتھ خرافات بھی تو ہے
میں نے کہا کہ آپ کے دعوے ہیں بے دلیل
کہنے لگے کہ آپ سخنور ہیں یا وکیل
میں نے کہا کہ ‘فرقت’ و ‘شہباز’ کا کلام
کہنے لگے کہ یہ بھی کوئی لازمی نہیں
میں نے کہا تو کس کو میں شاعر بڑا کہوں
کہنے لگے کہ میں بھی اسی کشمکش میں ہوں
پایانِ کار ختم ہوا جب یہ تجزیہ
میں نے کہا ‘حضور’ تو بولے کہ شکریہ
——
حوالہ جات
——
تحریر : پروفیسر ولی بخش قادری ، ٹیچرس کالج، جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی
یکم جولائی 66ء ، کتاب : آداب عرض ، صفحہ نمبر 5 تا 10
انتخاب از کلیات دلاور فگار
——
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ