اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر، نقاد اور ماہر تعلیم پروفیسر منظور حسین شور کا یوم وفات ہے

منظور حسین شور (پیدائش: جولائی، 1910ء – وفات: 8 جولائی، 1994ء)
——
منظور حسین شور جولائی، 1910ء کو امراوتی، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔
انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو، فارسی اور انگریزی میں ایم اے کیا۔ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوئے۔ 1938ء میں ناگپور یونیورسٹی کے شعبۂ ادبیات فارسی اور اردو میں بطور ریڈر صدر شعبہ تقرر ہوا۔ اس کے علاوہ وہ جامعہ عثمانیہ سے بھی منسلک رہے۔
——
تقسیم ہند کے بعد وہ پاکستان آ گئے اور پروفیسر کی حیثیت سے پہلے زمیندار کالج گجرات، پھر اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج لائل پور (فیصل آباد) سے منسلک رہے۔ ریٹائر منٹ کے بعد شور کراچی آ گئے جہاں ان کے کچھ ہم وطن پہلے سے موجود تھے ۔ کراچی ہی میں ان کا انتقال ہوا ۔
منظور حسین شور بنیادی طور پر نظم کے شاعر ہیں ۔ ان کی تمام نظمیں مقفیٰ اور پابند ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ردیف و قافیہ کے حسن اور ترنم کے قائل ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ وہ اپنے اسلوب میں الفاظ کے مناسب اور برمحل استعمال سے خاص دل نشینی پیدا کرنے میں کامیاب ہیں ۔
ان کے یہاں لطیف تشبیہات ، تمثیلات اور استعارات کے پہلو بہ پہلو معنی خیز اشاریت خاص لطف کا سبب ہے ۔
ان کی بیشتر نظمیں بیانیہ شاعری کی عمدہ مثال ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : رام ریاض کا یومِ وفات
——
پروفیسر منظور حسین شور علیگ فارسی زبان و ادب کے استاد تھے مگر ان کا عام مطالعہ بھی کم نہیں تھا ۔
قیامِ پاکستان سے قبل براہِ راست ان کا تقرر یونیورسٹی استاد کی حیثیت سے ہوا مگر ہندوستان کی فضا اور ماحول ان کی طبیعت کے مطابق نہیں تھا اس لیے ہجرت کر کے پاکستان آ گئے اور عمر کا بیشتر حصہ گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں مدرس کی حیثیت سے گزار دیا ۔
یہ تمام باتیں ڈاکٹر ریاض احمد ریاض نے ایک دن برسبیلِ تذکرہ بیان کیں جو فیصل آباد کالج میں ان کے رفیقِ کار رہے ہیں ۔
ریاض نے بتایا کہ منظور حسین شور کی طبیعت میں لاابالی پن بہت تھا ۔ بات کرتے تو آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی بجائے ادھر اُدھر دیکھتے رہتے ۔ راہ چلتے ہوئے بھی سر اونچا کر کے خلا میں گھورتے رہتے جیسے کچھ تلاش کر رہے ہوں ۔
مشاعروں میں شعر سنانے کا انداز بھی ایسا ہی تھا ۔ اپنے نظریات و خیالات میں شدید تھے ۔
ذرا سی بات پر غصہ آ جاتا تو انہیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا ۔ علم کے نتیجہ میں جو خاص رکھ رکھاؤ ، سنجیدگی اور بردباری پیدا ہو جاتی ہے ان کے یہاں اس کی کمی تھی ۔
جیسے ان کے اندر کوئی کھلنڈرا لڑکا تھا جس کا جی ہر وقت من مانی کرنے کو کرتا رہتا ۔
باقاعدگی اور نظم و ضبط کی پابندی جیسے ان کے بس کی بات ہی نہ ہو ۔ حتیٰ کہ کلاسیں بھی باقاعدگی سے نہیں پڑھاتے تھے ۔ اور جب کلاس میں چلے جاتے تو پیریڈ کب ختم ہو گا ، ہو گا بھی یا نہیں ، ان باتوں کی کوئی پرواہ نہ تھی ۔
کلاس میں جب بول رہے ہوتے تو طالب علم اپنی بے بضاعتی کے باوجود مسحور ہو جاتے ۔ کسی کا دل کلاس سے جانے کو چاہتا ہی نہ تھا ۔ جہ چاہتا کہ کلاس اسی طرح جاری رہے ۔
استاد کی حیثیت سے ان کے شاگرد دل سے ان کی عزت کرتے ۔ حالت یہ تھی کہ شور صاحب نے نہ تو کبھی کلاس کی حاضری لی ، نہ امتحان کے لیے پرچہ بنایا ، نہ کوئی ٹیسٹ لیا ، نہ پرچے جانچے اور نہ ہی کبھی امتحان کی ڈیوٹی دی پھر بھی نتیجہ اچھا ہی آتا ۔
جو پرنسپل ان کی طبیعت سے واقف تھے وہ ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ۔
ڈاکٹر ریاض بتاتے ہیں کہ ان ہی دنوں ڈاکٹر ریاض مجید بھی اسی کالج کے طالب علم تھے ۔ ریاض مجید اُن سے ایک آدھ سال آگے تھے ۔ ان دنوں ایبٹ آباد میں بین الکلیاتی انعامی مشاعرہ ہونے والا تھا ۔ ریاض مجید نے طرح پر غزل کہی اور اور پرنسپل کے پاس گئے کہ میں اس مشاعرہ میں حصہ لینا چاہتا ہوں ۔ پرنسپل نے غزل پڑھی اور کہا کہ شور صاحب کو دکھا دو ۔ چنانچہ ریاض مجید شور صاحب کے پاس چلے گئے ۔ شور صاحب اس وقت سٹاف روم میں تھے ، کہنے لگے برخوردار ! آپ شاعر ہیں مگر میں اس وقت بات نہیں کر سکتا ۔ جب بریک کا وقفہ ہو ، اس وقت آںا ۔
چنانچہ ریاض مجید مقررہ وقت پر دوبارہ گئے ۔ غزل کا پرچہ شور صاحب نے ان سے لے کے پڑھے بغیر جیب میں رکھ لیا اور کہا ٹھیک ہے ، میں دیکھ لوں گا ۔
دوسرے روز ریاض مجید صاحب ان سے ملے ۔ کہنے لگے کون سی غزل ؟ ریاض مجید نے کہا وہ غزل جو کل آپ کو دیکھنے کے لیے دی تھی اور آپ نے کوٹ کی جیب میں رکھ لی تھی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : جناب عالی حضور والا کا شور سنتے میں تھک گئی ہوں
——
بولے ہاں یاد آیا ، مگر وہ کوٹ تو گھر پہ ہے ، تم گھر آ جانا ۔ ریاض مجید اسی شام ان کے گھر گئے ۔ ان کا مکان کالج کے قریب ہی ڈگلس پورہ میں تھا ۔
دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے آواز آئی کون ہے ؟
حیدر! دیکھنا کون آیا ہے ؟
ان کے فرزند حیدر باہر آئے اور پھر اندر جا کر ساری بات ان کو بتائی تو کہنے لگے ، ان سے کہو گھر پر تو چین سے رہنے دیا کریں ۔ کالج کا کام ہے کالج میں ہی ہوتا ہے گھر پر نہیں ۔
ریاض مجید بیچارے واپس آ گئے ۔ دوسرے دن پھر اسٹاف روم پہنچے ۔ شور کہنے لگے وہ غزل تو میرے پاس ہے ہی نہیں ، خدا جانے کہاں چلی گئی ۔
ریاض مجید احتیاطاََ غزل کی نقل ساتھ لے گئے تھے ، کہنے لگے غزل کی نقل میرے پاس ہے ۔ یہ لیجیے ۔
شور صاحب نے غزل ایک دو بار پڑھی اور اسی کاغذ پہ لکھ دیا ” مریل گھوڑا ہے ، نہیں چلے گا ” ۔
ریاض مجید نے جملہ پڑھا تو مایوس ہو گئے ۔ پرنسپل کے پاس گئے اور کہا میری غزل اچھی ہے ، مجھے یقین ہے یہ انعام کی حقدار ہو گی ۔ آپ اجازت دیں تو میں ایبٹ آباد چلا جاوٗں ؟
پرنسپل نے کہا ٹھیک ہے چلے جاوٗ ۔ اور جب ریاض مجید ایبٹ آباد سے واپس آئے تو اول انعام کی ٹرافی ان کے ہاتھ میں تھی ۔
منظور حسین شور حد درجہ ذہین انسان تھے مگر ایک بے ترتیبی اور بے ربطی ان کی شخصیت میں تھی ۔
حافظہ بھی اچھا تھا ، جب موڈ میں ہوتے تو گفتگو کے دوران فارسی اور اردو کے شعر سناتے چلے جاتے ۔
شور صاحب ایک آزاد خیال انسان تھے ۔ مذہب اور رسومات سے تعلق نہ ہونے کے برابر تھا حتیٰ کہ عید کے دن بھی کسی سے بغل گیر نہیں ہوتے تھے ۔
کہتے بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی جو چاہے آپ کو پکڑ لے اور جب تک چاہے پکڑے رکھے ۔
ویسے عاشورے کے ایام میں برابر مجالس میں نہ صرف شریک ہوتے بلکہ سلام و منقبت بھی پڑھتے تھے ۔ کسی دوست نے وجہ پوچھی تو بتانے لگے میں تو اپنے شعر سنانے جاتا ہوں ۔ لوگ خوب اچھل اچھل کر داد دیتے ہیں ۔ ان کو پتا ہی نہیں کہ میں انہیں بے وقوف بنا رہا ہوں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : ملک زادہ منظور احمد کا یوم پیدائش
——
تصانیف
——
نبضِ دوراں (1959ء)
دیوارِ ابد (1969ء)
سواد نیم تنا (1983ء)
میرے معبود (1984ء)
صلیب انقلاب (1985ء)
ذہن و ضمیر (1991ء)
منظور حسین شور 8 جولائی، 1994ء کو کراچی میں وفات پاگئے اور سخی حسن کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے
——
منتخب کلام:
——
جاہل بھی ہیں سقراط سند زاد بھی ہیں
صید تا فتراک بھی صیاد بھی ہیں
باہر سے پیمبر نظر آتے ہیں مگر
اندر سے یہ بوجہل کے ہم زاد بھی ہیں
——
انسان ہے خود اتنا کثیر الاطراف
انسان کو انساں نظر آتا نہیں صاف
ہر شخص ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ابھی کچھ
ہر چہرے پہ اتنے پر اسرار غلاف
——
یہ دور ہے یوں اپنی بصیرت کا قتیل
جیسے نفس قم سے مسیحا ہو علیل
فطرت کی ہے تسخیر نہ آدم کا عروج
یہ وقت کے تابوت میں ہے آخری کیل
——
روش روش پر جنوں کے آگے خرد کے ظالم مقام کب تک
جھکی جھکی سی نظر کہاں تک رکا رکا سا خرام کب تک
یہ احتیاط کرم کہاں تک یہ زحمت گام گام کب تک
نفس نفس میں پیام کب تک نظر نظر میں سلام کب تک
یہ بندگی ہے تو بندگی کا فریب رسوائے عام کب تک
لبوں پہ صبحیں تو ہیں مسلم مگر یہ سینوں میں شام تک
رکی سی آہیں جھکی نگاہیں وہی حقیقت وہی فسانہ
سکوت تیرا سکوت کب تک کلام تیرا کلام کب تک
ترے کنارے نہ تیرے دھارے تری ہلاکت نہیں تو کیا ہے
ترے سفینوں سے ساحلوں پر یہ موج کا انتقام کب تک
یہی جمال گل و سخن ہے تو آ چمن سے دھواں اٹھاویں
روش روش پر بچھے رہیں گے یہ لالہ و گل کے دام کب تک
نہ دوش طوفاں نہ آشیانہ نہ بجلیوں پر کمند تیری
یہی چمن ہے تو اس چمن میں ترے نشیمن کا نام کب تک
نہ نور تیرا نہ آگ تیری رباب ٹوٹے شراب چھوٹی
یہ ظلمت انجمن کہاں تک یہ تہمت جام جام کب تک
اگر نہ برہم ہوں اہل محفل تو اہل محفل سے شورؔ پوچھوں
کوئی بتا دے کہ میرے ہونٹوں پہ اس کا نغمہ حرام کب تک
——
مآل شب بعنوان سحر کہنا ہی پڑتا ہے
کوئی رستہ ہو اس کی رہ گزر کہنا ہی پڑتا ہے
وو سناٹا خرد کہتی ہے جس کو گھر کی ویرانی
اسے بھی رونق دیوار و در کہنا ہی پڑتا ہے
سلگ جاتا ہے سینہ جس کی ٹھنڈی سرسراہٹ سے
اس آتش کو بھی یاں باد سحر کہنا ہی پڑتا ہے
شریک رہ گزر کوئی نہیں ہوتا مگر پھر بھی
یہاں ہر راہرو کو ہم سفر کہنا ہی پڑتا ہے
مسلم گل کدوں کی لالہ سامانی مگر ہمدم
شرار و برق کو بھی معتبر کہنا ہی پڑتا ہے
بہ ہر صورت گزر جاتی ہے جو دل پر گزرتی ہے
مگر پھر اپنے گھر کو اپنا گھر کہنا ہی پڑتا ہے
کچھ ایسے بھی فسانے محفلوں میں چھیڑے جاتے ہیں
کہ جن کو احتیاطاً مختصر کہنا ہی پڑتا ہے
خموشی ایک مجبوری تکلم ایک محرومی
کسی سے کہہ نہیں سکتے مگر کہنا ہی پڑتا ہے
——
دیدہ و دانستہ دھوکا کھا گئے
ہم فریبِ زندگی میں آ گئے
جب ہجومِ شوق سے گھبرا گئے
کھو گئے خود اور تم کو پا گئے
چین بھی لینے نہیں دیتے مجھے
میں ابھی بھولا تھا پھر یاد آ گئے
میں کہاں جاؤں نظر کو کیا کروں
آپ تو ساری فضا پر چھا گئے
دل ہی دل میں اف وہ درد ناگہاں
آنکھوں ہی آنکھوں میں کچھ سمجھا گئے
رخ سے آنچل بھی نہ سرکا تھا ابھی
نیچی نظریں ہو گئیں شرما گئے
اف یہ غنچوں کا تبسم یہ بہار
حیف اگر یہ غنچے کل مرجھا گئے
جس قدر غنچے کھلے تھے نو بہ نو
میری آنکھوں سے لہو برسا گئے
پوچھتے کیا ہو ان اشکوں کا سبب
واقعاتِ رفتہ پھر یاد آ گئے
اب تو شور اپنا فسانہ ختم کر
ان کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے
——
ملاح
——
یہ گاتے زلزلے یہ ناچتے طوفان کے دھارے
ہوا کی نیتوں سے بے خبر ملاح بے چارے
وہ طوفانوں کے حل چلنے لگے سیال کھیتی میں
وہ کشتی آ کے ڈوبی گوہریں قطروں کی ریتی میں
وہ ٹوٹیں موج کی شفاف دیواریں سفینوں پر
وہ پھر لہریں ابھر آئیں ارادوں کی جبینوں پر
وہ ٹکرانے لگی آواز نیلے آسمانوں سے
وہ خط رہ گزر پر جل اٹھیں شمعیں ترانوں سے
ہوائیں تھم نہیں سکتیں تلاطم رک نہیں سکتے
سفینے ہیں کہ طوفاں کے تھپیڑے کھائے جاتے ہیں
مگر ملاح گیت اپنے برابر گئے جاتے ہیں
ہیں کتنے غم کہ جن کی مے سرور انگیز ہوتی ہے
ہیں کتنے گیت جن کی لو ہوا سے تیز ہوتی ہے
کھنچا ہو جن کا خط رہ گزر طوفاں کے دھاروں پر
بڑی مشکل سے ان کو نیند آتی ہے کناروں پر
——
حوالہ جات
——
پروفیسر منظور حسین شور کا ذکر خیر- تحریر: ڈاکٹر توصیف تبسم بعنوان بند
گلی میں شام-سہہ ماہی اجراء کے تازہ شمارے (جولائی تا ستمبر 2010) میں شائع ہوا۔
شعری انتخاب از ریختہ
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ