اردوئے معلیٰ

آج معروف شاعر فراغ روہوی کا یومِ وفات ہے ۔

فراغ روہوی(پیدائش: 16 اکتوبر 1956ء – وفات: 13 جولائی 2020ء)
——
مختصر سوانحی خاکہ
——
نام : محمد علی صدیقی
قلمی نام : فراغ روہوی
والدین :جناب محمد انعام الحق صدیقی(مرحوم) و محترمہ زینب خاتون
ولادت : ۱۶؍ اکتوبر ۱۹۵۶ ئ، بمقام موضع : روہ، ضلع : نوادہ، بہار
تعلیم : بی ۔ کام پارٹ 1
شغل : تجارت
آغاز شاعری : ۱۹۸۵ ء
شرف تلمذ : حضرت قیصر شمیم
تصانیف : چھیاں چھیاں (ماہیے ) ۱۹۹۹ ء ، ذرا انتظار کر ( ۲۰۰۲ ء ) ، مرا آئینہ مدینہ ( ۲۰۰۳ء ) ہم بچے ہیں پڑھنے والے ( ۲۰۱۲ ء ) ، جنوں خواب ( ۲۰۱۳ ) ، بوجھ سکھی رے بوجھ ( ۲۰۱۷ ء ) ، ہاتھ جل نہ جائے ( ۲۰۱۷) ، ہم رنگ غزل چہرہ ( ۲۰۱۷ء ) ، حمد کا عالمی انتخاب ( ۲۰۱۹ ء) ،
ادارت : سہ ماہی ’’ترکش‘‘ کلکتہ، دو ماہی ’’دستخط‘‘ بارک پور، ماہنامہ ’’تبصرہ‘‘ کلکتہ اور ماہنامہ ’’کلید خزانہ‘‘ کلکتہ
انتخاب : کئی نظمیں نصابی کتب میں شامل ہیں
وفات : ۱۳ جولائی ۲۰۲۰ ء
——
فراغ روہوی ایک تعارف: از انسان گروپ مغربی بنگال
——
غزل ایک تہذیب کا نام ہے۔ اس جملے میں تہذیب کا لفظ کئی فکری و فنی جہات کو روشن کرتا ہے۔ جن میں غزل کی خاص ہیئت اور اس کا ایمائی انداز نیز موضوع و مضامین کی داخلی صورت گری شامل ہوکر کثرت میں وحدت کو جنم دیتی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ اکثر اوقات غزل کی تہذیب سے عدم آگہی بہت سے شعرا و قارئین کو منصبِ خاص تک پہنچنے میں حائل ہوتی ہے۔ قارئین غزل کی تفہیم سے محروم اور شعرا اپنے خیال کو الفاظ کا جامہ پہناتے وقت معنوی اکہرے پن کا شکار ہوجاتے ہیں‘ چنانچہ ان کے مجموعے میں اشعار کے درمیان غزل یا غزل کا شعر دکھائی نہیں دیتا۔ بسا اوقات شعرا کی جلدبازی بھی ان کے اشعار کو غزل کے فکری و فنی مزاج سے الگ کر دیتی ہے۔ جس کی مثال کلاسیکی شعرا کے دواوین سے بھی دی جاسکتی ہے۔ اس ضمن میں زمانۂ حال کا شعری منظر نامہ بھی خوش کن نہیں ہے۔غزل کے جتنے مجموعے اشاعتی مراحل سے گزر کر ہمارے ہاتھوں تک پہنچتے ہیں‘ ان میں سے زیادہ ترمجموعوں میں غزل کی تہذیب عنقا ہوتی ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : اظہر فراغ کا یوم پیدائش
——
چند ایک مجموعے ہی ایسے ہوتے ہیں‘ جن میں غزل کی تہذیب کے تمام جہات روشن دکھائی دیتے ہیں۔فراغ روہوی نے شاعری کی مختلف اصناف میں اپنے خیال کو آئینہ کیا ہے لیکن وہ بنیادی طور پر غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی متعدد کتابیں شائع ہوکر دادِ تحسین حاصل کر چکی ہیں۔ ان کی غزل کا پہلا مجموعہ ’’ ذرا انتظار کر‘‘ قارئین کے ذہن پر اپنا نقش چھوڑنے میں کامیاب ہوا تو ان سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوگئیں۔ان کی غزل کا دوسرا مجموعہ ’’درخواب پہ دستک‘‘ در اصل انہیں امیدوں کی تعبیر ہے۔ اس مجموعے کی بیشتر غزلوں کو غزل کی تہذیب کے فنی و فکری جہات کی مثال کہا جاسکتا ہے۔ کیوں کہ ان غزل کی ہیئت کے اہم رموز‘ ایمائی انداز اور مضمون کی داخلی صورت گری کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ انہوں نے معنی کا جہاں آباد کرتے ہوئے اپنی غزلوں میں ادق الفاظ‘ بے معنی تشبیہات و استعارات اور دور ازکار علامتوں سے گریز کیا ہے۔ ان کی جگہ ایسے الفاظ‘ تشبیہات و استعارات اور علامات کا استعمال کیا ہے‘ جو قارئین کی فہم کے مطابق بھی ہیں اور معنی کی کثیرالعناصری کی بھی غماز ہیں۔
غزل کے کلاسیکی دور سے اب تک اکثر شعرا شعوری اور غیر شعوری طور پر میر ؔسے متاثر رہے ہیں۔جس کا اظہار انہوں نے وقفے وقفے کے ساتھ اشعار میں بھی کیا ہے۔ میرؔکی غزلوں کے بہت سے شیڈس بھی ہیں۔ کمال یہ ہے کہ شعرا ان میں سے کتنے ہی شیڈس کو اپنی غزلوں میں آئینہ کرتے ہیں۔ فراغ روہوی نے بھی اپنے متعدد اشعار میں میرؔ سے متاثر ہونے کی بات کہی ہے۔ ان کا ایک شعر ہے:
——
بسا ہوا جو غزل کا اسیر ہے مجھ میں
وہ کوئی اور نہیں‘ صرف میرؔ ہے مجھ میں
——
فراغ روہوی کی شعری کائنات میں معنوی سطح پر میرؔ کی جو بازگشت سنائی دیتی ہے‘ اس میں حسن و عشق حاوی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ ان کا محبوب تصوراتی نہیں بلکہ گوشت پوست سے بنا ہوا اسی دنیائے فانی کا رہنے والا ہے۔ انہوں نے محبوب کے حسن اور اس کے جزیات و صفات کو لفظی پیکر عطا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی غزلوں کا مطالعہ قارئین کے حواسِ خمسہ کو متحرک کرکے معانی کے نئے دریچوں کو وا کر دیتا ہے۔ ان کی شعری کائنات دراصل بصری پیکروں کی رقص گاہ ہے‘ جہاں مفاہیم کی مختلف پرچھائیاں آنکھوں میں متحرک ہوجاتی ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھئے:
——
میں آئینے سے کہیں بدگماں نہ ہوجاؤں
نہ بار بار دکھا میرے خال و خد مجھ کو
——
تادیر ہم تو جنبشِ لب دیکھتے رہے
شاید کہ وہ سنائے ہمیں اَن کہی سی کچھ
——
یہ بھی پڑھیں : وہ سوئے لالہ زار پھرتے ہیں
——
فراغ روہوی نے بصری پیکروں کے دوش بدوش محبوب کے سراپے کو لمسی پیکروں میں بھی ڈھالا ہے۔ جہاں محبوب کی بے خبری کو بھی باخبری سمجھتے ہوئے اس کے بدن کو چھونے سے جھجھکنا‘ سلگتے جسم کے لیے بدن کے سائبان کی تمنا کرنا‘ محبوب کے گرم ہونٹوں کی حرارت کو اپنے رگ و پے میں اترتے ہوئے محسوس کرنا اورمحبوب کے جسم کی کتاب کا مطالعہ کرنے کی تمنا رکھنا لمسی پیکروں کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ لمسی پیکروں کو خلق کرتے ہوئے شعرا رکاکت و ابتذال کے شکار ہوجاتے ہیں لیکن فراغ روہوی کے ان اشعار میں اس کا شائبہ تک نہیں ہوتا:
——
وہ بے خبر ہی رہے اور باخبر سا لگے
تو اُس کے جسم کو چھوتے ہوئے بھی ڈر سالگے
——
سلگ رہا ہے مرا جسم دھیان کب دوگے
بدن کا اپنے مجھے سائبان کب دوگے
——
کسی کے گرم ہونٹوں کی حرارت
رگ و پے میں اُترنا چاہتی ہے
——
تجھے تو دیکھتے ہیں سب ، مری یہ خواہش ہے
مطالعہ میں ترے جسم کی کتاب آئے
——
فراغ روہوی جس دنیا میں زندگی کررہے ہیں‘ وہاں گلوبل ولیج اور صارفی کلچر کے دوش بدوش سائبر کلچر کا جادو بھی چھایا ہوا ہے‘ ایک انگلی کے معمولی لمس سے پوری دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوجاتی ہیں۔ اس طرح دیکھا جائے تو فراق و وصل کا تصور ہی بدل کر رہ گیا ہے۔ اس کلچر میں ہر لمحہ ایک نئی صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور مواد و موضوعات بھی تیزی کے ساتھ متغیر ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ایک حساس شاعر محض حسن و عشق کی طلسمی دنیا کی سیر نہیں کرتا بلکہ اس کی نگاہیں اپنے اطراف میں موضوع و مواد تلاش کرتی رہتیں ہیں۔ فراغ روہوی بھی حساس شاعر ہیں اور زمانے کی تغیر پذیری کا انہیں احساس بھی ہے۔ وہ اپنے ایک شعر میں کہتے ہیں:
——
پچھلی بیاض طاق پہ رکھ کر فراغؔ بھی
اکیسویں صدی میں نئی شاعری کرے
——
یہ بھی پڑھیں : اُس ایک نام کو دل میں بسائے پھرتے ہیں
——
نئے زمانے کی نئی نئی صورتیں اور حالتیں ان کے ذہن پر بھی کچوکے لگاتی رہتی ہیں۔ ان کے دل میں بھی ہوک اٹھتی ہے ۔ وہ اپنی آنکھیں کھلی رکھ کر زمانے کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اپنے مشاہدے کو تخلیقی تجربات کی بھٹی میں تپاکر غزل کا حصہ بنا دیتے ہیں۔ چنانچہ ان کی غزلوں کے خارجی موضوع و مواد بھی داخلیت سے مملو نظر آتے ہیں۔ ان کے اشعار میں تند و تیز اور نرم و نازک الفاظ کی دل نشینی‘ اچھوتے تشبیہات‘ استعارے اور نئی نئی علامتوں کا جال سا بنا ہوا ہے۔ در اصل اسے فراغ روہوی کی غزل کا ایک نیا موڑ سمجھنا چاہئے۔ جس میں پختگی کے عناصرکے ساتھ شعری بنت میں بھی انفرادیت جھلکتی ہے۔ چند اشعار پیش ہیں:
——
مرے اندر سمندر موجزن ہے
میں ساحل سے اُبلنا چاہتا ہوں
——
کہرے کے سوا کچھ نہ دکھائی تجھے دے گا
مت دیکھنا اُس پار خبردار! خبردار!
——
کس زمیں کے گوشے پر آپ حق جماتے ہیں
ہر جگہ ہمارا ہی مقبرہ نکلتا ہے
——
تمام رات میں اپنے محاصرے میں رہا
اک انتشار سا سانسوں کے قافلے میں رہا
——
فضا پہ رات چھاگئی‘ جہاں کو نیند آگئی
مگر میں جاگتا رہا کہ کوئی جاگتا رہے
——
ان اشعار میں اپنے اندر کے سمندر کو موجوں کی طرح ساحل سے ابلنے کی تمنا کرنا‘ خبردارکرتے ہوئے کہنا کہ اُس پار مت دیکھو وہاں کہرے کے سوا اور کچھ دکھائی نہ دے گا‘ خطۂ زمین پر اپنی وراثت کی باتیں کرنا اور سانس کے انتشار کے باوجود محاصرے کا گمان کرنا نیز دنیائے فانی کے خوابِ غفلت میں محو ہونے کے بعد بھی اس خیال سے رتجگے کرنا کہ زندگی کی رمق کو باقی رکھا جائے‘ ایسے مضامین ہیں جو نئی غزل کے امکانی پہلوؤں کو روشن کرتے ہیں۔ ان کے مجموعے میں بہت سے ایسے اشعار ہیں جو ہمارے ذہن پر دستکیں دیتے ہیں اور ایک نئی معنوی دنیا کی سیر کراتے ہیں۔ جن میں لفظوں کا دروبست شاعر کی فنی پختگی پر دال ہے۔ فراغ روہوی کی غزلیںفنی و فکری ہر دو سطح پر نئی غزل کا حوالہ ہیں۔ دیر یا سویر انہیں بھی نکتہ داں تلاش کر لیں گے اوران کے اس مجموعے ’’ درِ خواب پہ دستک‘‘ کو بھی شہرت و مقبولیت حاصل ہوگی۔ میں اپنی بات ان کے ہی ایک شعر پر ختم کرنا چاہتا ہوں:
——
نئی غزل کا اگر میں بھی اک حوالہ ہوں
تو اے فراغؔ کوئی نکتہ داں تلاش کرے
——
یہ بھی پڑھیں : فیض احمد فیض کا یوم وفات
——
منتخب کلام
——
اک دن وہ میرے عیب گنانے لگا فراغؔ
جب خود ہی تھک گیا تو مجھے سوچنا پڑا
——
خوب نبھے گی ہم دونوں میں میرے جیسا تو بھی ہے
تھوڑا جھوٹا میں بھی ٹھہرا تھوڑا جھوٹا تو بھی ہے
——
دماغ اہل محبت کا ساتھ دیتا نہیں
اسے کہو کہ وہ دل کے کہے میں آ جائے
——
کھلی نہ مجھ پہ بھی دیوانگی مری برسوں
مرے جنون کی شہرت ترے بیاں سے ہوئی
——
نہ جانے کیسا سمندر ہے عشق کا جس میں
کسی کو دیکھا نہیں ڈوب کے ابھرتے ہوئے
——
سنا ہے امن پرستوں کا وہ علاقہ ہے
وہیں شکار کبوتر ہوا تو کیسے ہوا
——
کون آتا ہے عیادت کے لیے دیکھیں فراغؔ
اپنے جی کو ذرا ناساز کیے دیتے ہیں
——
مجھ میں ہے یہی عیب کہ اوروں کی طرح میں
چہرے پہ کبھی دوسرا چہرا نہیں رکھتا
——
یارو حدود غم سے گزرنے لگا ہوں میں
مجھ کو سمیٹ لو کہ بکھرنے لگا ہوں میں
——
ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا
دشت وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں
——
خوب نبھے گی ہم دونوں میں میرے جیسا تو بھی ہے
تھوڑا جھوٹا میں بھی ٹھہرا تھوڑا جھوٹا تو بھی ہے
جنگ انا کی ہار ہی جانا بہتر ہے اب لڑنے سے
میں بھی ہوں ٹوٹا ٹوٹا سا بکھرا بکھرا تو بھی ہے
جانے کس نے ڈر بویا ہے ہم دونوں کی راہوں میں
میں بھی ہوں کچھ خوف زدہ سا سہما سہما تو بھی ہے
اک مدت سے فاصلہ قائم صرف ہمارے بیچ ہی کیوں
سب سے ملتا رہتا ہوں میں سب سے ملتا تو بھی ہے
اپنے اپنے دل کے اندر سمٹے ہوئے ہیں ہم دونوں
گم صم گم صم میں بھی بہت ہوں کھویا کھویا تو بھی ہے
ہم دونوں تجدید رفاقت کر لیتے تو اچھا تھا
دیکھ اکیلا میں ہی نہیں ہوں تنہا تنہا تو بھی ہے
حد سے فراغؔ آگے جا نکلے دونوں انا کی راہوں پر
صرف پشیماں میں ہی نہیں ہوں کچھ شرمندہ تو بھی ہے
——
دن میں بھی حسرت مہتاب لیے پھرتے ہیں
ہائے کیا لوگ ہیں کیا خواب لیے پھرتے ہیں
ہم کہاں منظر شاداب لیے پھرتے ہیں
در بہ در دیدۂ خوں ناب لیے پھرتے ہیں
وہ قیامت سے تو پہلے نہیں ملنے والا
کس لیے پھر دل بے تاب لیے پھرتے ہیں
ہم سے تہذیب کا دامن نہیں چھوڑا جاتا
دشت وحشت میں بھی آداب لیے پھرتے ہیں
سلطنت ہاتھ سے جاتی رہی لیکن ہم لوگ
چند بخشے ہوئے القاب لیے پھرتے ہیں
ایک دن ہونا ہے مٹی کا نوالہ پھر بھی
جسم پر اطلس و کمخواب لیے پھرتے ہیں
ہم نوائی کہاں حاصل ہے کسی کی مجھ کو
ہم نواؤں کو تو احباب لیے پھرتے ہیں
کس لیے لوگ ہمیں سر پہ بٹھائیں گے فراغ
ہم کہاں کے پر سرخاب لیے پھرتے ہیں
——
لبوں کے سامنے خالی گلاس رکھتے ہیں
سمندروں سے کہو ہم بھی پیاس رکھتے ہیں
ہر ایک گام پہ روشن ہوا خدا کا گماں
اسی گماں پہ یقیں کی اساس رکھتے ہیں
ہم اپنے آپ سے پاتے ہیں کوسوں دور اسے
وہی خدا کہ جسے آس پاس رکھتے ہیں
چڑھا کے دار قناعت پہ ہر تمنا کو
جو ایک دل ہے اسے بھی اداس رکھتے ہیں
زیاں پسند ہمارا مزاج ہے ورنہ
نگاہ ہم بھی زمانہ شناس رکھتے ہیں
ہمارے تن پہ کوئی قیمتی قبا نہ سہی
غزل کو اپنی مگر خوش لباس رکھتے ہیں
چلو کہ راہ تمنا میں چل کے ہم بھی فراغؔ
زمین دل پہ غموں کی اساس رکھتے ہیں
——
میری دادی
——
پیاری پیاری میری دادی
مجھ کو کہتی ہے شہزادی
میرے سو نخرے سہتی ہے
میری فکر اسے رہتی ہے
جو بھی مانگو سو دیتی ہے
ایک نہیں وہ دو دیتی ہے
مجھے منا کر خوش ہوتی ہے
ورنہ غصے میں روتی ہے
مجھے کوئی جو مارے چٹ سے
ڈانٹ اسے دیتی ہے جھٹ سے
مجھ سے دور نہیں رہ سکتی
وہ یہ بات نہیں سہہ سکتی
کرم خدا کا ہے یہ بے شک
اس کی آنکھوں کی ہوں ٹھنڈک
امبر پر تارے ہیں جتنے
یاد اسے ہیں قصے اتنے
دل کی بات کہوں گی مل کے
نظم فراغؔ انکل کر دیں گے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ