اردوئے معلیٰ

Search

آج اردو کے نامور ادیب، افسانہ نگار، صحافی اور مترجم جناب غلام عباس کا یومِ وفات ہے۔

غلام عباس——
(پیدائش: 17 نومبر 1909ء – وفات: 2 نومبر 1982ء)
——
غلام عباس 17 نومبر 1909ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے لیکن ان کی زندگی کا بیشتر حصہ لاہور، دہلی اور کراچی میں بسر ہوا۔
انہوں نے اپنی تعلیم لاہور میں مکمل کی۔ آل انڈیا ریڈیو کے رسالے "آواز” اور ریڈیو پاکستان کے رسالے "آہنگ” کے مدیر رہے۔ 1954ء سے لے کر 1967ء تک بی بی سی کی اردو سروس سے منسلک رہے۔
ان کی پہلی کہانی کا نام بکری تھا جو انہوں نے 1922ء میں تحریر کی تھی۔ تاہم ان کا پہلا باقاعدہ افسانہ جلاوطن کو سمجھا جاتا ہے جوٹالسٹائی کے ایک افسانے سے ماخوذ تھا۔ 1928ء میں جناب غلام عباس لاہور سے شائع ہونے والے بچوں کے مشہور ماہنامے پھول سے وابستہ ہو گئے۔
1938ء میں غلام عباس صاحب آل انڈیا ریڈیو سے منسلک ہوئے اور اس دوران انہوں نے ریڈیو کے رسالوں آواز اور سارنگ کی ادارت کی۔ قیام پاکستان کے بعد وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور اس کے رسالے آہنگ کے مدیر مقرر ہوئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : شاعر عباس تابش کا یوم پیدائش
——
اسی دوران غلام صاحب کا پہلا طبع زاد افسانہ ”مجسمہ“ شائع ہوا۔ لیکن غلام عباس کی شہرت کا باقاعدہ آغاز آنندی سے ہوا جو سب سے پہلے 1939ء میں شائع ہوا تھا۔ یہی ان کے افسانوں کے پہلے مجموعے کا نام بھی تھا جو 1948ء میں شائع ہوا تھا۔
انہوں نے متعدد افسانے اور ناول لکھے اور صدر ایوب خان کی کتاب "فرینڈز ناٹ ماسٹرز” کا اردو زبان میں ترجمہ بھی کیا تھا۔
اُن کے افسانوی مجموعوں میں ‘آنندی’، ‘جاڑے کی چاندنی’، ‘کن رس’، ‘دھنک’ اور’گوندنی والا تکیہ’ جبکہ تراجم میں ‘زندگی نقاب چہرے’، ‘الحمرا کے افسانے’ اور ‘انگریزی افسانے’ شامل ہیں۔
وہ ماہنامہ "تہذیب نسواں” اور بچوں کے رسالے "پھول” کے ایڈیٹر بھی رہے۔ انہوں نے بچوں کے لیے نظموں کی کتاب "چاند تارا” بھی لکھی۔
آنندی کے بعد غلام عباس صاحب کی متعدد کتابیں شائع ہوئیں۔ جن میں افسانوں کے مجموعے جاڑے کی چاندنی، کن رس، زندگی نقاب چہرے، ناول گوندنی والا تکیہ، انگریزی افسانوں کے تراجم الحمرا کے افسانے، فرانسیسی ادب پارے سے ماخوذ جزیرہ سخنوراں، ناولٹ دھنک اور بچوں کے لئے نظموں کا مجموعہ چاند تارا شامل ہیں۔
غلام عباس کے افسانوں میں زبان و بیان کی سادگی کمال کو پہنچی ہوئی ہے۔ وہ ایک حقیقت نگار بھی تھے۔ انہیں اپنے انداز بیان کی سادگی کا اور واقعات کی صداقت کا یقین ہوتا تھا۔ ان کے افسانے زندگی کے دائمی عمل کو پیش کرتے ہیں۔ وہ فرد کی بجائے معاشرے کی تشکیل کو موضوع بناتے تھے۔
فیلڈ مارشل ایوب خان کی سوانح عمری فرینڈز ناٹ ماسٹرز کا اردو ترجمہ ”جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی“ بھی غلام عباس صاحب کی کاوشوں کا نتیجہ تھا۔
غلام عباس صاحب نے اپنے افسانوی مجموعوں آنندی اور جاڑے کی چاندنی پر انعامات و اعزازات بھی حاصل کئے۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف مصنف اور شاعر عقیل عباس جعفری کا یوم پیدائش
——
غلام عباس کو ان کی کتاب "جاڑے کی چاندنی” پر آدم جی ادبی انعام ملا۔ اس کے علاوہ 1967ء میں حکومتِ پاکستان نے انہیں ستارہ ٔامتیاز کا اعزاز بھی عطا کیا تھا۔
غلام عباس 2 نومبر 1982ء کو کراچی میں انتقال کر گئے اور وہیں سوسائٹی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔
——
غلام عباس، ایک منفرد اور موثر افسانہ نگار از مظفر اقبال
——
امرتسر کی مردم خیزسر زمین سے جہاں صوفی غلام مصطفی تبسم ، احمد راہی اور سیف الدین سیف جیسے باکمال شعراء ابھر کر سامنے آئے، وہاں افضل احسن رندھاوا اور غلام عباس ایسے منفرد افسانہ نگاروں کا تعلق بھی اسی دھرتی سے ہے۔
غلام عباس 17نومبر 1909 کو مشرقی پنجاب کے اسی مشہور شہر میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم دیال سنگھ ہائی سکول لاہور سے حاصل کی۔ جماعت نہم میں تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ اس لیے تعلیمی سلسلہ جاری نہ رہ سکا۔ انہوں نے 1942میں میٹرک اور 1944 میں ایف اے کا امتحان پاس کیا۔
وہ نویں جماعت میں ہی تھے جب انہوں نے اپنی پسندیدہ انگریزی کہانیوں کا اردو ترجمہ کرنا شروع کر دیا۔ غلام عباس خود کہتے ہیں ’’میں نے جب پہلا افسانہ لکھا، اس وقت میری عمر 15 سے 16 برس تھی۔ یہ دراصل ٹالسٹائی کے افسانے لانگ ایگزائیل کا ترجمہ تھا۔‘‘ بعد ازاں انہوں نے واشنگٹن ارونگ کے افسانوی مجموعے Tales from Alhamraکو الحمرا کے افسانے کے نام سے ترجمہ کیا۔
بچوں کے رسالے پھول اور خواتین کے رسالے تہذیب نسواں کے نائب مدیر بھی رہے۔ 1938 میں آل انڈیا ریڈیو دہلی سے منسلک ہو گئے اور ریڈیو کے رسالے آواز کی ادارت سنبھالی۔ 1948میں ریڈیو پاکستان کے رسالے آہنگ کی ادارت بھی انہیں سونپی گئی۔ 1949 میں بی بی سی لندن سے وابستہ ہوئے اور یہاں سے واپس آ کر 1952میں دوبارہ آہنگ کی ادار ت سنبھال لی۔
ترجمے، تالیف اور عالمی ادب سے گہرے شغف کی بنا پر ایوب خاں نے اپنی سوانح حیات کا اردو ترجمہ کرنے کی ذمہ داری بھی عطا کی۔ انہوں نے اس آپ بیتی کا ترجمہ ’’جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی‘‘کے نام سے کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : ناصر عباس نیر کا یوم پیدائش
——
غلام عباس نے دو شادیاں کیں، پہلی 1939 (علی گڑھ) میں جبکہ دوسری شادی 1952 (برطانیہ) میں کی۔ 1967 میں ریٹائرڈ ہونے کے بعد کی زندگی انہوں نے کراچی میں گزاری۔ آنندی، سرخ گلاب، کتبہ اور اوور کوٹ جیسے شاہکار تخلیق کرنے والے غلام عباس یکم نومبر 1982 کو اس فانی جہاں سے رخصت ہوئے۔
اپنے ابتدائی تخلیقی سفر کے بارے میں غلام عباس کہتے ہیں ’’ہمارے عہد میں مشہور لکھنے والوں میں سجاد حیدر یلدرم، نیاز فتح پوری، پر یم چند اور رابند راناتھ تیگور تھے۔ نیاز فتح پوری سے ہم مرعوب تھے۔ تین چار آدمی بڑے عروج پر تھے۔ ہم سب ان چاروں سے متاثر تھے۔ علی عباس حسینی منشی پریم چند کی تقلید کرتے تھے۔ کچھ ایسے تھے جو نیاز فتح پوری کے انداز میں لکھتے تھے۔ جو سب سے بھاری تھے وہ تیگور تھے۔ مجھے یاد ہے سب سے پہلے میں رابند ناتھ ٹیگور سے ہی متاثر ہوا اور میں نے دو افسانے محبت کا دیپ اور مجسمہ لکھے۔ جب ہم نے چیخوف اور میکسم گور کی کو پڑھا تو خیال آیا کہ افسانے تو یہ ہیں۔‘‘
غلام عباس کے افسانی مجموعے جاڑے کی چاندنی، کن رس اور آنندی کے نام سے شائع ہوئے جبکہ گوندنی والا تکیہ، جزیرہ سخن وراں اور دھنک کے نام سے ان کے ناولٹ قارئین اور ناقدین سے داد و تحسین حاصل کر چکے ہیں۔
غلام عباس نے بھی اگرچہ اپنے ہم عصر افسانہ نگاروں کی طرح تراجم ہی سے ادبی سفر کا آغاز کیا مگر انہوں نے اپنے ہم عصروں کے ’’مشہور و معروف موضوعات‘‘ کو چھونا بھی پسند نہیں کیا۔ انہوں نے رواجی موضوعات مثلاً تقسیم، ہجرت، جنس اور بے رحم منظر نگار ی کی بجائے عام آدمی کی زندگی کے گوشے نمایاں کرنے کی کوشش کی۔ روایتی موضوعات با لخصوص عورت سے پہلو تہی کرنے پر ڈاکٹر سلیم اختر اپنی حیرت کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں ’’غلام عباس عورت کے معاملے میں اتنا شرمیلا کیوں ثابت ہوا؟ عورت اور اس کے حوالے سے جنس کے متنوع مظاہر سے اسے دلچسپی نہ تھی یا اس کے ذہن میں عورت کا کوئی واضح تصور نہیں تھا۔‘‘
غلام عباس کے افسانوی موضوعات اور کرداروں کو مدنظر رکھتے ہوئے لگتاہے کہ یہ ان کا شعوری اور شاعرانہ انحراف ہے۔
شکیب اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں جو رستہ عام ہو جائے
خاص موضوعات اور اہم کرداروں کے ذریعے قاری کو جکڑنے کی بجائے غلام عباس نے عام انسان کے چھوٹے چھوٹے مسائل کو اپنی کہانیوں کاموضوع بنایا ہے۔ اوور کوٹ کا نوجوان، کتبہ کا شریف حسین، کن رس کا فیاض اور بہروپیہ سادہ زندگی کے پیچیدہ مسائل سے گزر نے والے افراد ہیں جن کی حسرتوں اور محرومیوں کا کوئی شمار نہیں، جو بنیادی ضروریات زندگی کو تا عمر ترستے رہتے ہیں، جنہیں ظاہر داری، تصنع اور بناوٹ کی عادت پڑ چکی ہے، جن کی زندگی جہد مسلسل اور سعی نا کام سے عبارت ہے، جو زندگی بھر اپنی ضروریات کی چادر اور خواہشات کے پاؤں پھیلانے میں توازن قائم کرنے کی تگ و دو میں مصروف رہتے ہیں اور آخر میں شریف کلرک کی طرح اپنے مکان پر اپنے نام کی تختی تو نہیں لگا سکتے مگر وہی تختی کچھ ترامیم اور اضافوں کے بعد ان کا کتبہ ضرور بنا دی جاتی ہے۔
——
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان ولیکن پھر بھی کم نکلے
——
یہ بھی پڑھیں : عباس تابش کا یوم پیدائش
——
غلام عباس کے افسانوں میں موجود کرداروں کا حال بیان کرتے ہوئے ن م راشد ’’جاڑے کی چاندنی‘‘ کی تمہید میں لکھتے ہیں ’’اس کے کرداروں میں کہیں ایسے نوجوان ہیں جن کی آرزوئیں دل ہی دل میں رہ جاتی ہیں۔ کہیں وہ جو ایک آئینے میں دو صورتیں دیکھ کر دل بہلا لیتے ہیں۔ جو روتے ہیں تو ایک عورت کے کندھے پر سر رکھ کر، اور پرستش کرتے ہیں تو دوسری عورت کی، جن میں ایک غائب ہے اور دوسر ی حاضر ہے اور دونوں ایک دوسرے میں مخلوط ہوتی چلی جاتی ہیں۔ کہیں وہ ادھیڑ عمر کے مرد ہیں جو کسی مجبور عورت پر رحم کھا کر اس سے عقد کر لیتے ہیں۔ کہیں وہ جو دوسروں پر احسان کرنے کی کوشش میں دن رات ایک کر دیتے ہیں اور پھر اس احسان کو بھلا دینا بھی انہیں گوارا نہیں ہوتا۔ وہ عمر رسیدہ لوگ ہیں جو زندگی کی دوڑمیں نئی پود سے پیچھے رہ گئے ہیں اور اس کا غصہ ایک ایسے غریب پر نکالتے ہیں جسے وہ اپنی خیال میں فضول جدیدیت کی تمثیل سمجھتے ہیں۔ پھر وہ غریب لوگ ہیں جو روایتی انداز میں امیروں کی خدمت گزاری کو اپنی پوری زندگی کا مقصد بنا لیتے ہیں۔ ایسے تعلیم یافتہ لوگ جو ان پڑھوں کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اٹھا کر ان کے کرتا دھرتا بن جاتے ہیں ایسے لوگ جنہیں بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے لالچ دوست داری کے اصولوں سے بھی منحرف کر دیتے ہیں ۔‘‘
نظریہ فن کے حوالے سے غلام عباس بہت واضح موقف رکھتے تھے۔ اس سلسلہ میں وہ پریم چند کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس نے متاثر تو بہت کیا مگر بعد میں اس کے ہاں آرٹ کم اور صلاح زیادہ گئی۔ وہ سنسنی خیز ی، مہم جوئی اور فقر ے بازی کے قائل نہیں تھے۔ کسی خاص نقطہ نظر کو مد نظر رکھ کر اس کی تشہیر یا پرچار کرنے کے حق میں بھی نہیں تھے۔ وہ افسانے میں کہانی پن کے قائل تھے۔ ایسی کہانی جس میں ابلاغ آسانی سے ہو جائے۔ وہ عام انسانوں کی زندگی سے کوئی ایسا واقعہ یا پہلو تلاش کر لیتے تھے جو اکثر لوگوں سے چھپا ہوتا تھا۔ جو ان چھوا رہ گیا تھا وہ غلام عباس کے افسانوں کا موضوع بنا اور انہوں نے تقربیاً ہر افسانہ ایک مختلف انداز اور تکنیک سے لکھا۔ ان کے تما م افسانے خواہ حیر ت انگیز نہ ہوں مگر اثر انگیز ضرور ہیں ۔
مختصر یہ کہ غلام عباس نے اپنی تخلیقی زندگی میں آنندی، جاڑے کی چاندنی اور کن رس کی صورت میں جو تین افسانوی مجموعے (33 افسانے) اردو ادب کو دیے ہیں، یہ اپنی سادگی، انفرادیت اور اثر آفرینی کی بدولت ہر اعلیٰ سطح کے نصاب اور انتخاب کا حصہ ضرور بنتے رہیں گے۔
——
منتخب کلام
——
مرغی کی مصیبت
——
ہم نے بطخ کے چھ انڈے
اک مرغی کے نیچے رکھے
پھوٹے انڈے پچیس دن میں
بول رہے تھے بچے جن میں
بچے نکلے پیارے پیارے
مرغی کی آنکھوں کے تارے
رنگ تھا پیلا چونچ میں لالی
آنکھیں ان کی کالی کالی
چونچ تھی چوڑی پنجہ چپٹا
باقی چوزوں کا سا نقشہ
بچے خوش تھے مرغی خوش تھی
ہم بھی خوش تھے وہ بھی خوش تھی
مرغی چگتی کٹ کٹ کرتی
لے کے ان کو باغ میں پہنچی
جمع ہوئے واں بچے اس دم
کوثر تاشی نیلو مریم
کوثر جو تھی چھوٹی بچی
بھولی بھالی عقل کی کچی
اس نے جھٹ اک چوزہ لے کر
پھینک دیا تالاب کے اندر
کی یہ شرارت اس پھرتی سے
رہ گئے ہم سب نہ نہ کہتے
چوزہ جو تھا ننھا منا
ہم سمجھے بس اب یہ ڈوبا
لیکن صاحب وہ چوزہ تو
کر گیا حیراں پل میں سب کو
پانی سے کچھ بھی نہ ڈرا وہ
پہلے جھجکا پھر سنبھلا وہ
خوب ہی تیرا چھپ چھپ کر کے
چونچ میں اپنی پانی بھر کے
بچوں نے پھر باقی چوزے
ڈال دیے تالاب میں سارے
ہونے لگی پھر خوب غڑپ غپ
چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ چھپ
مرغی کانپی ہول کے مارے
جا پہنچی تالاب کنارے
کٹ کٹ کر کے ان کو بلایا
اک بھی بچہ پاس نہ آیا
شاید وہ سمجھے نہیں بولی
بڑھ گئی آگے ان کی ٹولی
——
بے چارہ شیر
——
مریم نے خواب دیکھا
جنگل میں ہے وہ تنہا
اتنے میں جھاڑیوں سے
اک شیر جھٹ سے نکلا
دیکھی جو شکل اس کی
مریم پہ خوف چھایا
بیچاری جی میں سہمی
اب شیر مجھ پہ جھپٹا
پر شیر کا تو اس دم
کچھ اور ہی تھا نقشہ
تھا وہ بہت پریشاں
سہما سا اور ڈرا سا
لٹکی ہوئی تھی گردن
اترا ہوا تھا چہرہ
آنکھوں میں اس کی آنسو
جو دم سے پونچھتا تھا
مریم کو دیکھ کر یہ
بے حد ہوا اچنبھا
ڈھارس بندھی جو اس کی
مریم نے اس سے پوچھا
اے بادشہ سلامت
ہے حال آپ کا کیا
تب اس نے جھرجھری لی
مریم کی سمت پلٹا
پہلے دکھائے پنجے
کھولا پھر اپنا جبڑا
کچھ دیر چپ رہا وہ
پھر آہ بھر کے بولا
کیا پوچھتی ہو مجھ سے
اے میری ننھی گڑیا
بگڑا مرا مقدر
پھوٹا مرا نصیبہ
یا بد دعا ہے اس کی
میں نے جسے ستایا
مجھ میں رہے نہ کچھ گن
اب دانت ہیں نہ ناخن
——
شعری انتخاب از چاند تارا ، مصنف : غلام عباس
شائع شدہ : 2013 ء ، متفرق صفحات
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ