آج معروف شاعر ، ادیب ، نقاد اور مترجم مرزا جعفر علی خاں اثر لکھنوی کا یوم وفات ہے ۔

——
ولادت
——
اثر لکھنوی اپنے والدین کی اکلوتی اولادِ نرینہ تھے اور اپنے خاندانی مکان کٹرہ ابوتراب خان لکھنؤ میں 12 جولائی 1885 ء کو پیدا ہوئے ۔ وہ حقیقی معنوں میں منہ میں سونے کا چمچ لے کے پیدا ہوئے تھے ۔ وہ اپنے بزرگوں کی آغوش اور ادب و زبان و محاورات کی لوریوں میں پلے بڑھے ۔
ان کے گھر میں دولت کی ریل پیل تھی ۔ ان کا گھرانہ لکھنؤ کے عزت دار گھرانوں میں شمار کیا جاتا تھا ۔
اثر لکھنوی کا خاندان مشرقی روایات کا حامل و علمبردار تھا لیکن ان کی تربیت خاندانی روایات کے خلاف مغربی انداز میں ہوئی ۔
——
تعلیم و تربیت
——
اثر لکھنوی کی ابتدائی تعلیم گھر پہ ہوئی چنانچہ اردو اور فارسی گھر میں پڑھائی گئی ۔ عربی کے استاد سید محمد جعفر تھے ۔
خوش نویسی مرزا علی حسین نے سکھائی ۔
شہسواری چارلی نامی ایک ایسے انگریز سے سیکھی جو بعد میں مسلمان ہو گیا ۔
——
یہ بھی پڑھیں : امداد امام اثر کا یوم وفات
——
انگریزی کی ابتدائی کتابیں ماسٹر عبد المجید اور واجد حسین سے پڑھیں اور 1896 ء میں بہ عمر گیارہ سال جوبلی ہائی اسکول لکھنؤ کے درجہ ششم میں داخلہ لیا ۔
1904 ء میں انٹرنس کا امتحان پاس کر کے کیننگ کالج لکھنؤ میں داخل ہوئے اور وہیں سے 1906ء میں بی اے پاس کیا ۔
سال بھر انگریزی ایم اے کا کورس پڑھا اور ایل ایل بی میں بھی داخلہ لے لیا ۔
لیکن ایک سال بعد اس کا سلسلہ منقطع ہو گیا ۔
تنقید کا شعور اپنے چچا نواب دلاور حسین سے پایا ۔
——
تلمذ
——
دورانِ تعلیم اثر لکھنوی کبھی کبھی شعر موزوں کر لیا کرتے تھے لیکن 1906 ء سے ان کا یہ شغل مستقل صورت اختیار کر گیا ۔
شاعری میں اثرؔ کو باقاعدہ اول و آخر تلمذ صرف مرزا ہادی عزیزؔ لکھنوی سے رہا جن سے ان کے خاندانی مراسم تھے اور شاگردی سے قبل دوستانہ بلکہ برادرانہ تعلقات قائم تھے کیونکہ عزیزؔ لکھنوی بہ لحاظ عمر صرف دو چار سال ہی بڑے تھے ۔
عزیزؔ لکھنوی اپنے اس شاگرد کو بہت عزیز رکھتے تھے اور شاگرد کی صلاحیتوں پر بہت نازاں بھی تھے ۔
——
ملازمت
——
اثر لکھنوی نے 1907 ء میں سیتا پور سے اپنی ملازمت کا آغاز کیا اور 1909 ء میں ڈپٹی کلکٹر کے عہدے پر ان کا تقرر ہوا ۔
1922 ء تک کانپور میونسپلٹی میں بحیثیت ایگزیکٹو آفیسر خدمات انجام دیں ۔
انہوں نے 1915 ء کے کانپور فساد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔
1935 ء تک ڈپٹی کلکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیتے رہے اور اس کے بعد ترقی پا کر 1937 ء سے 1940 ء تک کلکٹر رہے ۔
اپریل/ مئی 1940 ء میں الٰہ آباد ڈویژن کے ایڈیشنل کمشنر رہے ۔
1941 ء سے 1945 ء تک کشمیر کی ریاست کے وزیر ترقیات اور وزیرِ داخلہ کی حیثیت سے نمایاں کام انجام دئیے ۔
اوائل 1950 ء میں انہیں وظیفہ ہو گیا ۔
دورانِ ملازمت ایم بی ای اور خان بہادر کے خطابات اور بے شمار تمغے حاصل کئے ۔
ریاستِ کشمیر کی وزارت کے دوران چار ماہ تک وزیرِ اعظم کی قائم مقامی بھی کی تھی ۔
1945 ء میں کشمیر سے واپسی کے بعد کوئی ملازمت نہیں کی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : منور لکھنوی کا یوم وفات
——
اثر لکھنوی کے حالاتِ زندگی ، تعلیم ، ماحول ، تلمذ ، ولادت اور ملازمت کی تفصیل انہی کی زبانی معلوم ہوتی ہے ۔
——
سرکاری اعزازات
——
اثر لکھنوی لکھنؤ کے نواب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور آزادیٔ ہند سے قبل اخبارات و رسائل ان کے نام کے آگے نواب خان بہادر اور ایم بی ای کے خطابات بھی لکھتے تھے لیکن آزادی کے بعد خود اثرؔ نے ان خطابات کا استعمال ترک کر دیا تھا ۔
پھر جیسے جیسے زمانہ ترقی کرتا گیا اثرؔ کے مقام اور مرتبے میں اضافہ ہوتا گیا ۔
زمانہ انہیں پہچانتا گیا اور جب انہیں ان کی دیرینہ خدمات کا صلہ ملنے لگا تو وہ نواب مرزا جعفر علی خان سے صرف اثر لکھنوی رہ گئے اور یہی مختصر نام ان کی مکمل زندگی اور شخصیت کے تمام پہلوؤں کا احاطہ کیے ہوئے ہے ۔
” فرہنگِ اثر ” جیسے گراں قدر کام سر انجام دینے پر حکومتِ ہند نے اثرؔ کو پانچ ہزار روپے کے انعام سے نوازا ۔
اثرؔ کی بے پناہ علمی ، ادبی ، تہذیبی و ثقافتی سرگرمیوں اور خدماتِ جلیلہ کے اعتراف میں حکومتِ ہند نے انہیں 1962 ء میں ” پدم بھوشن ” کا خطاب دیا تھا ۔
——
انتقال
——
اثر لکھنوی کی زندگی کے آخری چار سال بڑی علالت میں گزرے ۔ اکتوبر 1963 ء میں ان پر فالج کا پہلا حملہ ہوا جس کی وجہ سے وہ عرصے تک بات چیت میں دشواری محسوس کرتے رہے ۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ زبان صاف ہو گئی ۔ طبیعت کے مزید سنبھلنے اور ڈاکٹر کے اجازت دینے پر مطالعے اور تحریر کا مشغلہ پھر شروع کر دیا ۔
پہلے حملے کے سوا دو سال بعد دوبارہ اسی نوعیت کی تکلیفوں کا اثرؔ کو سامنا کرنا پڑا ۔ آواز کے نحیف ہو جانے کے ساتھ ساتھ ضعف ، نقاہت اور کمزوری بڑھ گئی تھی مگر ان کی سیمابی فطرت نچلا بیٹھنے نہ دیتی تھی ۔
——
یہ بھی پڑھیں : شوق لکھنوی کا یومِ وفات
——
نتیجتاََ کچھ دن آرام کے بعد اپنا کام پھر شروع کر دیا جو انتقال سے ایک ہفتہ پہلے تک چلتا رہا ۔
17 یا 18 مئی 1967 ء کو انہیں بخار آ گیا جو اترتا اور چڑھتا رہا ۔ اور انتقال سے تین یا چار روز قبل فالج کا تیسرا حملہ ہوا جو ان کے لیے پیغامِ اجل ثابت ہوا اور یوں 82 سال کی طبعی عمر کو پہنچ کر یہ روشن ستارہ 6 جون 1967 ء کو صبح پانچ بجے غروب ہو گیا ۔
——
منتخب کلام
——
بزمِ وصالِ جاناں اس لطف سے ہے برپا
ہے شوق کا تقاضا ، اُٹھ جاؤ درمیاں سے
——
تکیہ ترے کرم پہ ہے ، خود اپنے بوجھ سے
اک روز ڈوب جائے گی کشتی گناہ کی
——
اپنے سر اوڑھ لیا جرم محبت نے
سامنے اس کے کوئی بات بنائی نہ گئی
——
زاہد کو فکر جنت و حور و قصور ہے
دنیا بھی ہاتھ سے گئی ، ایمان بھی گیا
——
وہی ہے شوریدگی جنوں کی ، وہی خلش ہے ، وہی تپش ہے
نہ دل سے سودا گیا کسی کا ، نہ دل کو آیا قرار اب تک
——
جب کہا میں نے وفا مشکل ہے
کہہ دیا سچ تو کہا ، مشکل ہے
——
جب تک اک تارِ نفس باقی ہے
تیرے ملنے کی ہوس باقی ہے
——
عاصی کو دم سرد جو بھرتے دیکھا
میں نے تری رحمت کو سنورتے دیکھا
——
نہیں ہے شوق پامالی تو مُڑ کر دیکھتا ہی جا
کوئی تو اجر ظالم خونِ اربابِ وفا رکھے
——
یہ بھی پڑھیں : اثر بہرائچی کا یوم پیدائش
——
وفورِ شوق میں تجھ پر نثار ہونے کو
ہر ایک گُل ہے سراپا بہار ہونے کو
——
کیا جانئے یہ کہہ کے وہ شرمندہ کیوں ہوا
ہم بے وفا ہیں ، آپ بڑے باوفا سہی
——
پہلی سی وہ چشمِ التفات نہیں ہے
مان لوں کس طرح کوئی بات نہیں ہے
——
نوبت ہے یہ جنوں کی ، خیال آتے ہی اثرؔ
ٹکڑے ہزار جا سے گریبان ہو گیا
——
وہ کام کر بلند ہو جس سے مذاقِ زیست
دن زندگی کے گنتے نہیں ماہ و سال سے
——
تسکین دل کو اشک الم کیا بہاؤں میں
جو آگ خود لگائی ہے کیوں کر بجھاؤں میں
برباد کر چکے وہ میں برباد ہو چکا
اب کیا رہا ہے روؤں اور ان کو رلاؤں میں
لاچک، نسیم صبح، پیام وصال دوست
کب تک مثال شمع رگ جاں جلاؤں میں
اے عشق کیا یہی ہے مکافات آرزو
اپنی ہی خاک ہاتھ سے اپنے اڑاؤں میں
رویا یونہی جو ہجر میں شب بھر تو کیا عجب
تارے کی طرح وقت سحر ڈوب جاؤں میں
——
بھولے افسانے وفا کے یاد دلواتے ہوئے
تم تو آئے اور دل کی آگ بھڑکاتے ہوئے
موج مے بل کھا گئی گل کو جمائی آ گئی
زلف کو دیکھا جو اس عارض پہ لہراتے ہوئے
بے مروت یاد کر لے اب تو مدت ہو گئی
تیری باتوں سے دل مضطر کو بہلاتے ہوئے
نیند سے اٹھ کر کسی نے اس طرح آنکھیں ملیں
صبح کے تارے کو دیکھا آنکھ جھپکاتے ہوئے
ہم تو اٹھے جاتے ہیں لیکن بتا دے اس قدر
کس کے در کی خاک چھانے تیرے کہلاتے ہوئے
جھاڑ کر دامن اثرؔ جس بزم سے اٹھ آئے تھے
آج پھر دیکھے گئے حضرت ادھر جاتے ہوئے
——
کس طرح کھلتے ہیں نغموں کے چمن سمجھا تھا میں
ساز ہستی پر تجھے جب زخمہ زن سمجھا تھا میں
کیا خبر تھی ہم نوا ہو جائیں گے صیاد کے
باغ کا اپنے جنہیں سرو و سمن سمجھا تھا میں
قیدیٔ بے خانماں زنداں سے چھوٹے بھی اگر
اور کچھ بڑھ جائیں گے رنج و محن سمجھا تھا میں
تابع گردش ہیں کس کے انقلابات جہاں
کیا کہے گی تیری چشم پر فتن سمجھا تھا میں
اس طرح دل چاک ہوتا ہے نہ یوں ٹکڑے جگر
لالہ و گل ہیں ترے خون کفن سمجھا تھا میں
تو ملا جس کو اسے کیا جان و تن سے واسطہ
تفرقہ تھا جس کو ربط جان و تن سمجھا تھا میں
حق و باطل کا اثرؔ مٹنے لگا جب امتیاز
تازہ ہوگا قصۂ دار و رسن سمجھا تھا میں
——
طرزِ حجاب جلوۂ دلبر لیے ہوئے
نظارہ اک نقاب ہے رُخ پر لیے ہوئے
ہر اشک ہے وفورِ الم سے اک آبلہ
ہر ابلہ ہے اک دلِ مضطر لیے ہوئے
تاحدِ شوق کوئی تمہیں دیکھے تو کس طرح
رگ رگ میں بدلے خون کے نشتر لیے ہوئے
وہ بدگماں ہیں میری خموشی سے اور میں
مرتا ہوں حرفِ شوق مکرر لیے ہوئے
میرا وجود اور ہے ، میری نمود اور
پیکر اک اور ہوں تہہِ پیکر لیے ہوئے
اب تو پلک جھپکنے دے ، گزری تمام رات
ہاتھوں میں تجھ کو اے دلِ مضطر لیے ہوئے
پھر دل میں جوش زن ہوئی اک موجِ اضطراب
تہہ میں ہزار فتنۂ محشر لیے ہوئے
پھر دل سے دود آہ شکن در شکن اٹھا
طرز شکستِ زلفِ معنبر لیے ہوئے
پھر حسرتوں کی مجلسِ ماتم بپا ہوئی
شور نشور حلقے کے اندر لیے ہوئے
جس سمت آنکھ اٹھ گئی بیہوش کر دیا
اک میکدہ ہے چشمِ فسوں گر لیے ہوئے
پھر لطفِ معدلت نہ وہ شور نشور تھا
نامہ سیاہ اٹھ گئے محشر لیے ہوئے
وہ بات پوچھ لے تو بڑی بات ہے اثرؔ
بیٹھے ہیں آپ شکووں کا دفتر لیے ہوئے
حوالہ جات
——
کتاب : اثر لکھنوی ، حیات اور کارنامے از محمود خاور
شائع شدہ : دسمبر 1977 ء ، صفحہ نمبر 15 تا 36
شعری انتخاب از بہاراں ، شائع شدہ 1939 ء ، متفرق صفحات