آج کینیڈا میں رہنے والے پاکستانی شاعر حامد یزدانی کا یومِ پیدائش ہے۔

(پیدائش: 12 اکتوبر 1962ء )
——
سیّد حامد یزدانی 1961ء میں فیصل آباد میں گیلانی سادات گھرانے میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا ذوق اپنے والد ممتاز شاعر یزدانی جالندھری سے وراثت میں پایا۔80 کے عشرے میں ادبی منطر نامے پر بطورشاعرنمودار ہوئے۔ تعلیم و تربیت پاکستان کے ادبی و ثقافتی مرکزلاہور میں ہوئی۔ دوران تعلیم یونیورسٹی گورنمنٹ کالج لاہور کے مجلہ "راوی” کے مدیر معاون رہے اور مجلس اقبال، انجمن فارسی، پنجابی مجلس اور دیگر ادبی تنظیوں میں بھی عہدیدار رہے۔ گورنمنٹ کالج لاہور ہی سے بی-اے اور جامعہ پنجاب سے ایم-اے سوشیالوجی کیا جبکہ ماسٹر آف سوشل ورک کی ڈگری ولفریڈ لوریے یونیورسٹی، واٹرلو کینیڈا سے حاصل کی اور سماجی خدمات کے شعبے سے منسلک ہو گئے۔
حامد یزدانی کی شاعری فنون، اوراق، افکار، تخلیق، سیپ، محفل، شام و سحر اور بیسویں صدی جیسے ادبی جرائد میں شائع ہوئی۔ ماہنامہ "سورج”، ماہنامہ فانوس” اور ماہنامہ "بازگشت” کے مدیر رہے۔ روزنامہ "امروز” اور روزنامہ "جنگ” کے ادبی صفحات کے لیے بھی کام کیا اور ساتھ ہی ساتھ وہ حلقہء ارباب ذوق لاہور کے جائنٹ سیکریٹری رہے۔ ریڈیو پاکستان لاہور اور پاکستان ٹیلی وژن کے ادبی پروگراموں میں شریک ہوئے۔ ان کی غزلیں اور گیت استاد حامدعلی خان، ثریا ملتانیکر، غلام عباس، ترنم ناز،استاد قادر علی شگن، استاد امجد امانت علی خان،مریم رامے، کوثر علی، انجم شیرازی، استاد اختر علی اور دیگر گلوکاروں کی آوازوں میں ریڈیو پاکستان اور پی ٹی وی سے نشر ہو چکے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : بشر کی تاب کی ہے لکھ سکے حلیہ محمد کا
——
حامد یزدانی نے ریڈیو ڈوئچے ویلےکولون-وائس آف جرمنی-کی اردو سروس میں بہ طور پروڈیوسر جبکہ ریڈیو پاکستان میں بہ حیثیت براڈکاسٹر خدمات انجام دیں۔ اب مستقل طور پر کینیڈا میں سکونت پزیر ہیں۔ حلقہء ارباب ذوق ٹورانٹو کے سیکریٹری ہیں اور لاہور اور ٹورانٹو سے شائع ہونے والے ادبی مجلّہ ترسیل کے شریک مدیر ہیں۔
——
حامد یزدانی کے افسانے از شبیر احمد قادری
——
کینیڈا سے یزدانی خاندان کے چشم چراغ ممتاز شاعر محترم حامد یزدانی صاحب کے اردو افسانوں کا پہلا مجموعہ ، اس سے پہلے ان کے چار شعری مجموعے چھپ چکے ہیں ۔ ان مجموعوں کے نام یہ ہیں :
” ابھی اک خواب رہتا ہے ” ، 1992 ء
” رات دی نیلی چپ ” ، 2002 ء
” گہری شام کی بیلیں ” ، 2007 ء ،
اور
اطاعت ” ، 2010 ء ،
حامد یزدانی کے افسانوں کے مجموعے کا دیباچہ ممتاز افسانہ نگار امجد طفیل اور اختتامیہ جواں سال ناول نویس زاہد حسن نے لکھا ہے ۔
” حامد یزدانی کے پہلے افسانوی مجموعے کا تعارف تحریر کرتے ہوئے مجھے بہت مسرت کا احساس ہو رہا ہے اور یہ خوش کن گمان بھی گزرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں افسانہ ، یاد نگاری ہو سکتا ہے کہ ناول ان کے تخلیقی جوہر کا اظہار بن جاۓ ۔ زیرِ نظر مجموعہ کا مطالعہ کرنے کے بعد کوئی بھی جان سکتا ہے کہ حامد مین افسانہ نگاری کی بے پناہ صلاحیت موجود ہے ۔ موضوعات کا تنوع ، سلجھے ہوئے زبان وبیان اور بات کو سلیقے سے کہنے کا ڈھنگ ان کی تحریر کا خاصا ہے ۔ مجھ امید ہے کہ اس کتاب کے قارئین حامد یزدانی کے ہر افسانے کو ذوق و شوق سے پڑھیں گے اور اس سے اسی طور لطف اندوز ہوں گے جس طور میں ہؤا ہوں ۔ ” (ص15 ) ،
زاہد حسن لکھتے ہیں :
” حامد یزدانی اور میرا ناسٹلجیا ، ایک ہی سا ہے ۔ رنگ ڈھنگ ، قد قامت یہاں تک کہ عمر میں بھی ۔میں 1985 ء میں اپنی بستی چھوڑ کر لاہور آیا ۔حامد 1989 ء میں لاہور چھوڑ کر جرمنی اور پھر کینیڈا چلا گیا ۔ اور اب بتیس برس سے لاہور سے دور ہے ۔ میں پینتیس برس سے لاہور میں ہوں ۔ اچھنبے کی بات یہ نہیں کہ میں اتنے برس سے لاہور میں ہوں بلکہ حیرت کی بات یہ ہے کہ حامد اتنے برس سے لاہور میں نہیں ، لیکن لاہور اس میں ہے ۔ لاہور اس میں زندگی بھر رہے گا ۔ حامد یزدانی کے ان افسانوں کے مطالعے کے بعد یہ بات کی اور کہی جا سکتی ہے کہ یہ افسانے نہ صرف اپنے موضوعات ، زبان وبیان بلکہ اپنی تکنیک کے اعتبار سے بھی ہم پر اک جہانِ نو کے در وا کرتے ہیں ۔ یہ جہان نو بظاہر ہمارے افسانہ نگار کے تجربہ اور مشاہدہ میں رہا ہے تاہم اب ہم بھی اس کے ذائقوں ، رنگوں اور لطافتوں سے ہم آہنگ و آشنا ہو سکتے ہیں ” ( ص 187 -190) ،
——
یہ بھی پڑھیں : وَرَفَعنا لَکَ ذِکرَک
——
حامد یزدانی ، ممتا شاعر سید یزدانی جالندھری کے صاحبزادے ہیں ۔ وہ 1961 ء میں میرے شہر لائل پور میں پیدا ہوۓ ۔ وہ کینیڈا کے شہر اونتاریو میں مقیم ہیں ، اس سے پہلے موصوف جرمنی میں بھی مقیم تہے ۔ موصوف امریکہ ، برطانیہ ،بیلجیم ، لکسمبرگ ،متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی بھی سیاحت کر چکے ہیں ۔ ” خالی بالٹی اور دوسرے افسانے ” میں شامل ان کے افسانے بہت خوبصورت اور ان کے ذاتی مطالعات اور مشاہدات و تجربات کے آئینہ دار ہیں ۔ ان کے شامل کتاب اٹھارہ افسانوں کے عنوان ملاحظہ ہوں :
° دیوار ° خاکی تھیلا ° چار سدہ ° دھمال
° نو شاپنگ زون ° Love Letter °دروازہ
° حوض ° پیڑ ° ٹیوب ° مرغولے ° خالی بالٹی
°وہ اور وہ ° رات ° دھند ° کہانی ° کوے
° ایک جلا وطن شہر کا حزنیہ ۔
——
منتخب کلام
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
یہ عجب دل کی تمنّا ہے تِرے دور میں ہو
کبھی دربانِ حرا ہو تو کبھی ثور میں ہو
کیسے ممکن ہے کوئی اور ہو تیرے جیسا
کیسے ممکن ہے جو تجھ میں ہے کسی اور میں ہو
تیرا منکر تو ابوجہل ہی کہلاۓ گا
وہ کسی ملک کا باسی ہو کسی دور میں ہو
جب بھی فہرست مرتب ہو غلاموں کی، حضور
درج ہو نام ہمارا بھی کسی طور میں ہو
روح کا ایک ہی مسکن ہے مدینہ تیرا
جسم کا کیا ہے ہیملٹن میں ہو، لاہور میں ہو
——
اللہَ ! یہ اعزازِ رَفَعنَا لکَ ذِکرَک
آقا ہیں سرافرازِ رَفَعنَا لکَ ذِکرَک
جُز آپ کے ہےکون کہ ممدوحِ خدا ہو
ہے مدح بہ انداز ِ رَفَعنَا لکَ ذِکرَک
یہ رُوح کہ اِک صلّ ِ وسلم کی صدا ہے
وجدان کہ آوازِ رَفَعنَا لکَ ذِکرَک
کیا کیا نہ تھے زیر و بمِ آہنگِ زمانہ
دِھیما نہ پڑا سازِ رَفَعنَا لکَ ذِکرَک
وہ فخرِ رُسُل، فخرِ بشر، فخرِ ملائک
ہے شان ِ نبی نازِ رَفَعنَا لکَ ذِکرَک
موجود سےامکان تلک وجد کا عالم
یہ حُسن،یہ اعجازِ رَفَعنَا لکَ ذِکرَک
اِس باب میں تاریخِ دوعالم بھی ہے حیراں
کب ہوتا ہے آغازِ رَفَعنَا لکَ ذِکرَک
خورشید ِ ازل تاب سے مہتابِ ابد تک
تفصیل ہے ایجازِ رَفَعنَا لکَ ذِکرَک
اے فہم ِبشر! تجھ پہ تو اپنا نہ کھلا بھید
کیا تجھ پہ کُھلے رازِ رَفَعنَا لکَ ذِکرَک
——
یُوں سلامِ ابنِ حیدر ہے مِرے وجدان میں
ہُوں ازل کے دن سے میں جیسے ثنا خوانِ حُسین
——
جہانِ شب گزیدہ کے مکیں اے صبح کے طائر
میں کیسے کھول دوں آنکھیں ابھی اک خواب رہتا ہے
——
آہوں نے آنسوؤں کی نمی کو چھپا لیا
بارش تھمی تو شہر کو کُہرے نے آ لیا
——
کچھ پل کلام چھاؤں بھرے رُوپ سے رہا
پھر عمر بھر مکالمہ اِک دھوپ سے رہا
——
پیشِ نظر تھی وسعتِ دامانِ شامِ ہجر
سو ہم نے تیرے غم کو پس انداز کرلیا
——
وہ ایک سادہ سی شام تھی پرکسی نظرنے
اُس ایک منظر سے کتنے منظر بنا لیے تھے
——
عجیب کیا ہے جو مہتاب سے پرےتک ہوں
میں روشنی ہوں ترے خواب سے پرے تک ہوں
——
ریت کی سلوٹوں میں ڈھونڈتا ہوں
ایک دریا کہ آئنہ تھا مجھے
——
دھوپ کا قرض ہی چکا دوں میں
چند بادل جو مستعار ملیں
——
رات سے دُور کوئی چاند اچھالا نہ گیا
میرے ساۓ سے پرے میرا اجالا نہ گیا
——
گردشِ وقت کی زد میں یہ جہاں ہے کہ جو تھا
یہ ترا غم مرے سینے میں جواں ہے کہ جو تھا
شبِ تنہائی کی بجھتی ہوئی خاموشی میں !
گنگناتا ہوا اک رنگ بیاں ہے کہ جو تھا
مجھ کو دھڑکن، تری آمد کا پتا دیتی ہے
دل میں اب تک تری آہٹ کا گماں ہے کہ جو تھا
میرے ہونٹ اب بھی ، ترے ضبط کی تحویل میں ہیں
دل میں اب بھی تری آہوں کا دھواں ہے کہ جو تھا
مجھ کو لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہوں ، جیسے
کربِ فرقت مری سانسوں میں رواں ہے کہ جو تھا
زرد پتوں کی وہ بارش ہے کہ تھمتی ہی نہیں
کان میں اب بھی وہی شور خزاں ہے کہ جو تھا
اب زمیں پاؤں کے نیچے نہیں ٹکتی حامدؔ
وہ توازن مرے قدموں میں کہاں ہے کہ جو تھا
——
بھڑک اٹھنے کی دھن میں دن رات بے تاب رہتا ہے
چراغِ شامِ تنہائی سحر آداب رہتا ہے
جہانِ شب گزیدہ کے مکیں ، اے صبح کے طائر
میں کیسے کھول دوں آنکھیں ، ابھی اک خواب رہتا ہے
گزرنے کو تو میں اک قلزم خوں سے گزر آؤں
مگر پیش قدم اک خطہء پایاب رہتا ہے
سر بحر یقیں ، ریگ گماں کی سرسراہٹ تھی
وہ صحراۓ امکاں بھی کویئ گرداب رہتا ہے
یہ کیسے رت جگوں میں ہو گئیں بوجھل مری آنکھیں
یہ کس کے خواب میں گم دیدہء بے خواب رہتا ہے
نۓ امکاں کے برگ و بار دیتا ہے ہر اک موسم
کوئی رُت ہو ، مر نخم سخن شاداب رہتا ہے
ابھی توڑیں نہ چپ کو لفظ کی حرمت کو پہچانیں
کتاب خامشی کا آخری اک باب رہتا ہے
اسے چبھنے لگیں کیوں دھوپ کی جلتی ہوئی کرنیں
ترا حامد تو زیرِ چادر مہتاب رہتا ہے
——
یہ بھی پڑھیں : شکر خالق کس طرح سے ہو اَدا
——
گھوم رہے ہیں آنگن آنگن چاند ہوا اور میں
ڈھونڈ رہے ہین بچھڑا بچپن چاند ہوا اور میں
بھولا بسرا افسانہ ہیں آج اس کے نزدیک
کل تک تھے جس دل کی دھڑکن چاند ہوا اور میں
خوابوں سے بے نام جزیروں میں گھومے سو بار
یادوں کا تھامے ہوۓ دامن چاند ہوا اور میں
اپنے ہی گھر میں ہیں یا صحرا میں گرم سفر
کیوں کر سلجھائیں یہ الجھن چاند ہوا اور میں
آج کے دور میں اپنی ہی پہچان ہوئی دشوار
دیکھ رہے ہیں وقت کا درپن چاند ہوا اور میں
رن کا ہالہ خوشبوں کا اک جھونکا کچھ تو ملے
کب سے ہیں آوارۃء گلشن چاند ہوا اور میں
پرچھائیں کے پیچھے بھاگے کھوۓ خلاوں میں
نکلے آپ ہی اپنے دشمن چاند ہوا اور میں
جانے کس کی کون ہے منزل پھر بھی ہیں اک ساتھ
گھوم رہے ہیں تینوں بن بن چاند ہوا اور میں
عریانی کا دوش کسے دیں اپنی ہے تقدیر
خود ہی جلا بیٹھے پیراہن چاند ہوا اور میں