اردوئے معلیٰ

Search

آج ممتاز شاعر حمایت علی شاعر کا یومِ وفات ہے ۔

حمایت علی شاعر(پیدائش: 14 جولائی 1926ء – وفات: 16 جولائی 2019ء)
——
نام میر حمایت علی اور شاعرؔ تخلص ہے۔ 14 جولائی 1926ء کو اورنگ آباد(دکن) میں پیدا ہوئے۔ روزنامہ ’خلافت‘ میں کام کیااور ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔۱۹۶۳ء میں سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے ۔ شاعری میں ایک نیا تجربہ’’ثلاثی‘‘ کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔ حمایت سندھ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو سے بھی منسلک رہے۔آپ کی تصانیف کے نام یہ ہیں:’آگ میں پھول‘، ’شکست آرزو‘، ’مٹی کا قرض‘، ’تشنگی کا سفر‘، ’حرف حرف روشنی‘، ’دود چراغ محفل‘(مختلف شعرا کے کلام)، ’عقیدت کا سفر‘(نعتیہ شاعری کے ساتھ سو سال، تحقیق)، ’آئینہ در آئینہ‘(منظوم خودنوشت سوانح حیات)، ’ہارون کی آواز‘(نظمیں اور غزلیں)، ’تجھ کو معلوم نہیں‘(فلمی نغمات)، ’کھلتے کنول سے لوگ‘(دکنی شعرا کا تذکرہ)، ’محبتوں کے سفیر‘(پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام)۔ حمایت علی شاعر کونگار ایوارڈ(بہترین نغمہ نگار)، رائٹرگلڈآدم جی ایوارڈ، عثمانیہ گولڈ مڈل (بہادر یار جنگ ادبی کلب) سے نوازا گیا۔ ان کی ادبی اور دیگر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا۔
——
یہ بھی پڑھیں : آل احمد سرور کا یوم وفات
——
16 جولائی 2019ء کو آپ کینیڈا کے شہر ٹورانٹو میں بعارضہ قلب رحلت فرما گئے، جہاں اپنے بیٹے بلند اقبال کے پاس مقیم تھے، حمایت کی تدفین ٹورانٹو میں ہوئی
——
حمایت علی شاعر : تحمل اور تجسس کے احساس کا شاعر از عطا محمد تبسم
——
اک جبر وقت ہے کہ سہے جا رہے ہیں ہم
اور اس کو زندگی بھی کہے جا رہے ہیں ہم
——
وقت کا جبر جھیل کر حمایت علی شاعر بھی رخصت ہوگئے۔ اردو شاعری کو ان کے شعروں نے نئی جہت اور نئے افکار دیئے، فیض احمد فیض نے حمایت علی شاعر کی شاعری کو ’’تحمل اور تجسس کے احساس کی شاعری‘‘ کہا تھا۔ وہ حمایت علی شاعر کے بارے میں کہتے ہیں ’’شاعر بہت ضبط اور نظم کے تحت لکھتے ہی۔ آج کل لوگوں کو پرانی رویات توڑنے پھوڑنے کا شوق ہے جو یقینا صحتمند بات ہے۔ لیکن روایات کو پاؤں تلے روند دینا اچھی بات نہیں، شاعر نے پرانی روایات کو پائمال نہیں کیا۔ حمایت علی شاعر نے اپنے اشعار میں جمہوریت اور انسان دوستی کو بھی مقدم رکھا، وہ حاکم وقت کی کسی مصلحت کا بھی شکار نہ ہوئے، ان کا ایک شعر ہے، راہ زن کے بارے میں اور کیا کہوں کھل کر۔ میر کارواں یارو، میر کارواں یارو
حمایت علی شاعر ان کا ادبی نام ہے، ان کا اصل نام میر حمایت علی اور شاعر تخلص ہے۔ وہ 14جولائی1926ء کو اورنگ آباد(دکن) میں پیدا ہوئے اور20 جولائی 2019 کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ انھوں نے صحافت، تحقیق، تعلیم، شاعری، اداکاری، ڈرامہ نویسی، کہانی کار، افسانہ نگار کے طور پر کام کیا۔ وہ روزنامہ ’خلافت‘ روز نامہ جناح، منزل اور ہمدرد (حیدرآباد دکن) میں بطور صحافی خدمات دیتے رہے، اسی دوران انھوں نے ماہنامہ ’’ساز نو‘‘ کا ایک خاص نمبر بھی نکالا، یہ ایک اور ماہانہ ادبی رسالے ’’آدمیت‘‘ سے بھی وابستہ رہے۔ ساز نو (حیدرآباد دکن) اور شعور (حیدرآباد سندھ) کے مدیر بھی رہے۔ پاکستان آنے کے بعد وہ ریڈیو سے وابستہ ہوگئے۔ سندھ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ یہاں انھوں نے بہت سے تحقیقی کام کیئے، شیخ ایاز پر ان کا کام جدید سندھی ادب کا عہد آفریں شاعر، اورشخص و عکس تنقیدی مقالات اور مباحث، دکن کے اہل قلم پر ان کے مضامین کا مجموعہ، ، کھلتے کنول سے لوگ، ، کے علاوہ انھوں نے ٹیلی ویژن پر کئی تحقیقی پروگرامز پیش کیے، جن میں پانچ سو سالہ علاقائی زبانوں کے شعراء کا اردو کلام، ، خوشبو کا سفر، ، اردو نعتیہ شاعری کے سات سو سال پر ان کا پروگرام ’’عقیدت کا سفر‘‘ احتجاجی شاعری پر ان کا پروگرام ’’اب آزاد‘‘ اور سندھی شعراء کے اردو کلام کی پانچ سو سالہ تاریخ پر ان کا پروگرام ’’محبتوں کے سفیر‘‘ عوام میں بے حد پسند کیئے گئے۔ حمایت علی شاعر نے فلموں کے لیے گانے بھی لکھے اور فلمیں بھی بنائیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : ہم نے تقصیر کی عادت کر لی
——
ان کے مشہور فلمی نغموں کی ایک بڑی تعداد ہے، ان میں سے چند جو بہت مشہور ہیں۔ وہ یہ ہیں۔
جب رات ڈھلی، تم یاد آئے
اک نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
نہ چھڑا سکو گے دامن
حسن کو چاند، جوانی کو کنول کہتے ہیں
خدا وندا، یہ کیسی آگ سی جلتی ہے سینہ میں
نوازش کرم، شکریہ مہربانی
ان کی فلموں میں آنچل، میرے محبوب، دامن، کنیز، نائلہ شامل ہیں۔
انھوں نے شاعری میں ایک نیا تجربہ ’’ثلاثی‘‘ کے تحت کیا ہے جس میں تین مصرعے ہوتے ہیں۔ حمایت علی شاعر سندھ یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے بھی منسلک رہے۔ان ل کی تصانیف میں ’آگ میں پھول‘، ’شکست آرزو‘، ’مٹی کا قرض‘، ’تشنگی کا سفر‘، ’حرف حرف روشنی‘، ’دود چراغ محفل‘(مختلف شعرا کے کلام)، ’عقیدت کا سفر‘ (نعتیہ شاعری کے سات سو سال، تحقیق)، ’آئینہ در آئینہ‘(منظوم خودنوشت سوانح حیات)، ’ہارون کی آواز‘(نظمیں اور غزلیں)، ’تجھ کو معلوم نہیں‘(فلمی نغمات)، ’کھلتے کنول سے لوگ‘(دکنی شعرا کا تذکرہ)، ’محبتوں کے سفیر‘(پانچ سو سالہ سندھی شعرا کا اردو کلام)۔ حمایت علی شاعر کونگار ایوارڈ (بہترین نغمہ نگار)، رائٹرگلڈآدم جی ایوارڈ، عثمانیہ گولڈ مڈل (بہادر یار جنگ ادبی کلب) سے نوازا گیا۔ ان کی ادبی اور دیگر خدمات کے صلے میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا۔ حیدرآباد (دکن) اور حیدرآباد (سندھ) دونوں شہروں کی ادبی فضا انھیں راس آئی۔ ایک زمانے میں ان کی ادبی سرگرمیوں اور محفلوں کا مرکز سلطان ہوٹل حیدرآباد ہوا کرتا تھا، حمایت علی شاعر کی شاعری کو حیدرآباد کی شعری محفلوں نے اعتبار بخشا، یہاں قابل اجمیری، اختر انصاری سے میری پہلی ملاقات ہوئی تھی، جہاں میں پہلی بار کراچی سے اپنے حیدرآباد کے ادیب و شاعر دوستوں سے ملنے گیا تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں : عبد اللہ یوسف علی کا یوم وفات
——
ایک زمانے میں ان کی ادبی سرگرمیوں اور محفلوں کا مرکز سلطان ہوٹل حیدرآباد ہوا کرتا تھا، ان کی شاعری کو حیدرآباد کی شعری محفلوں نے اعتبار بخشا، سلطان ہوٹل حیدرآباد میں ادیبوں اور شاعروں کی ایک بیٹھک کا درجہ رکھتا تھا
سلطان ہوٹل حیدرآباد میں ادیبوں اور شاعروں کی ایک بیٹھک کا درجہ رکھتا تھا، جس طرح لاہور میں پاک ٹی ہاؤس شاعروں اور ادیبوں کا مسکن تھا، اسی ہوٹل کے کسی کونے میں حیدرآباد کے مشہور شاعر قابل اجمیری، اختر انصاری اکبر آبادی اور حمایت علی ادبی گفتگو کیا کرتے تھے۔ حمایت علی شاعر نے پی ایچ ڈی کے سلسلے میں اپنا مقالہ ’’ پاکستان میں اردو ڈراما‘‘، سندھ یونیورسٹی (حیدر آباد) میں جمع کروایا تھا۔ ان کے ڈراموں کا مجموعہ ’’ فاصلے‘‘ کے عنوان سے طبع ہوا۔1950ء میں آپ کا شعری مجموعہ ’’گھن گھرج‘‘ بھارت سے شایع ہوا۔انھوں نے حیدر آباد سندھ میں ’’ارڑنگ‘‘ کے نام سے ایک ثقافتی ادارہ بھی قائم کیا تھا۔ حمایت علی شاعر کی فلم ’’لوری‘‘ بہت کامیاب رہی تھی۔ لیکن ’’گڑیا‘‘ کی ناکامی نے انھیں فلمی دنیا سے دل برداشتہ کر دیا۔ اس بارے میں یونس ہمدم رقمطراز ہیں، ، فلم ’’ لوری‘‘ اپنی خوبصورت کہانی، عمدہ ہدایت کاری، زیبا، محمد علی کی خوبصورت اداکاری اور حمایت علی شاعر کے دل میں اترجانے والے گیتوں کی وجہ سے باکس آفس پر ہٹ ثابت ہوئی تھی، لوری کی کامیابی سے حمایت علی شاعر کے حوصلے اور بڑھتے گئے اور پھر انھوں نے ’’ گڑیا‘‘ کے نام سے دوسری فلم کا آغاز کیا۔ دوسری فلم میں بھی زیبا اور محمدعلی ہی مرکزی کردار میں تھے مگر اس بار اداکارہ زیبا فلم ’’ گڑیا‘‘ کو وقت نہیں دے رہی تھی اور اس طرح فلم ’’گڑیا‘‘ تعطل کا شکار ہوتی چلی گئی۔ پروڈکشن کے اخراجات بڑھتے چلے گئے اور حمایت علی شاعر نے فلم لوری سے جو کچھ کمایا تھا وہ بھی گڑیا کی نذرکردیا مگرگڑیا کسی طرح بھی گرفت میں نہیں آرہی تھی۔ محمد علی نے بھی چپ ہی سادھ لی تھی اور وہ زیبا پر زیادہ دباؤ ڈالنے میں بھی ناکام رہے تھے، ، یوں انھوں نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔
حمایت علی شاعر کی ادبی خدمات کا سلسلہ گذشتہ پانچ دہائیوں پر پھیلا ہے۔ ریڈیو پر صداکاری ہو یا پھر ٹی وی پروگراموں کی تنظیم، مشاعرے ہوں یا پھر تحقیقی کام، حمایت علی شاعر نے بہت سی اصناف میں کام کرکے اپنا سکہ جمایا ہے۔ ریڈیو کو وسیلہ روزگار بنانے کے بارے میں ایک انٹرویو میں حمایت علی شاعر نے بتایا، حیدرآباد دکن ظاہر ہے کہ ریاست کا شہر تھا اور میں ریڈیو پر بھی رہا ہوں اور نہ صرف یہ کہ ریڈیو ڈراموں میں کام کرتا تھا۔ اناؤنسر بھی تھا، خبریں بھی پڑھتا تھا اور کمنٹری بھی کرتا تھا۔ تو میں بہت سے زاویوں سے میں ریڈیو پر کام کرتا تھا۔ پھر اخبارات میں لکھتا بھی تھا۔ پھر جب میں پاکستان آیا تو یہاں بھی مجھے ریڈیو میں نوکری مل گئی۔، 60ء کے عشرے میں انہوں نے پاکستان کی فلمی دنیا میں بطور گیت نگار قدم رکھا اوربہت سے نگار ایوارڈز اپنے نام کیے۔صحافتی، ادبی اور تحقیقی حوالے سے بے شمار کتابوں کے اس خالق کو 2002ء میں حکومت ِ پاکستان کی جانب سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈبھی دیا گیا۔انھوں نے اپنی سوانح عمری منظوم شکل میں لکھی۔اس بارے میں وہ کہتے ہیں کہ ’’آئینہ در آئینہ‘‘ میری منظوم سوانح ِ حیات ہے۔ اردو میں سوانح حیات نہیں لکھی گئی۔ چھوٹی موٹی کہانیاں لو سٹوری ٹائپ چیزیں تو منظوم لکھی گئیں۔ لیکن پوری زندگی قلم بندکرنا مشکل ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : خواجہ دل محمد کا یوم پیدائش
——
جس میں زندگی کی مشکلات اور باقی تمام مسائل بھی ہیں۔ تو یہ پہلی بار میں نے لکھااور میری ہمیشہ ایک آرزو رہی کہ کوئی ایسا کام کروں کہ جو میرے نام سے منسوب رہے، ، حمایت علی نے ابتدا میں مختلف اخبارات میں حمایت تراب، نردوش کے نام سے بھی لکھا اور کافی عرصہ ابلیس فردوسی کے نام سے طنزیہ کالم بھی لکھتے رہے۔ اسی زمانے میں یہ افسانے اور کہانیاں بھی لکھتے رہے۔ سندھ یونیورسٹی سے اردو ادب میں ایم اے کرنے کے بعد بطور لیکچرار سچل سرمست کالج حیدرآباد میں ملازمت بھی کی۔وہ ادب کی ترقی پسند تحریک کے سرگرم کارکن تھے۔ ریڈیو میں بطور براڈ کاسٹر بھی رہے اور اسٹیج کے لیے ڈرامے بھی لکھے اور خود بھی ڈراموں میں کام کیا۔ ریڈیو کے صداکار محمد علی اور مصطفیٰ قریشی بھی ان کے ادارے سے وابستہ ہوکر ان کے ساتھ اسٹیج ڈراموں میں حصہ لیا کرتے تھے۔ حمایت علی شاعر کا خوبصورت ترنم ان کی پہچان بنا۔ اپنے خوبصورت ترنم کی وجہ سے وہ اکثر مشاعرے لوٹ لیا کرتے تھے۔کچھ عرصہ تک ٹیلی ویژن کے مقبول ترین پروگرام ’کسوٹی‘ سے بھی وابستہ رہے اور پھر اپنے تمام شعری مجموعوں کو یکجا کرکے ایک ضخیم کتاب کی صورت میں مرتب کیا اور اس کتاب کو ’’کلیات شاعر‘‘ کا نام دیا اور 960 صفحات پر مشتمل اس کلیات کو حمایت علی شاعر نے اپنی زندگی کا سرمایہ قرار دیا تھا۔
——
وہ آدمی ہے تو کیوں مجھ سے دور اتنا ہے
وہ خاک ہے تو اسے کیوں غرور اتنا ہے
نظر میں کوئی بھی جچتا نہیں ہے اپنے سوا
کہ آگہی کے نشے میں سرور اتنا ہے
——
منتخب کلام
——
اُس ابر کو بھی اُڑا لے گئی یہ تیز ہوا
جو میرے سر پہ رہا دستِ مہرباں کی طرح
——
فکرِ معاش کھا گئی دل کی ہر اک امنگ کو
جائیں تو لے کے جائیں کیا ، حُسن کی بارگاہ میں
——
اس جہاں میں تو اپنا سایہ بھی
روشنی ہو تو ساتھ چلتا ہے
——
تجھ سے وفا نہ کی تو کسی سے وفا نہ کی
کس طرح انتقام لیا اپنے آپ سے
——
اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے
چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے
——
میں سچ تو بولتا ہوں مگر اے خدائے حرف
تو جس میں سوچتا ہے مجھے وہ زبان دے
——
ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ
دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ
کس لیے کیجے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جب کہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ
کتنے سادہ دل ہیں اب بھی سن کے آواز جرس
پیش و پس سے بے خبر گھر سے نکل جاتے ہیں لوگ
اپنے سائے سائے سرنہوڑائے آہستہ خرام
جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ
شمع کے مانند اہل انجمن سے بے نیاز
اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ
شاعرؔ ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ
ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ
——
منزل کے خواب دیکھتے ہیں پاؤں کاٹ کے
کیا سادہ دل یہ لوگ ہیں گھر کے نہ گھاٹ کے
اب اپنے آنسوؤں میں ہیں ڈوبے ہوئے تمام
آئے تھے اپنے خون کا دریا جو پاٹ کے
شہر وفا میں حق نمک یوں ادا ہوا
محفل میں ہیں لگے ہوئے پیوند ٹاٹ کے
کھنچتی تھی جن کے خوف سے سد سکندری
سوئے نہیں ہیں آج وہ دیوار چاٹ کے
اب تو درندگی کی نعش بھی حسن ہے
دیوار پر سجاتے ہیں سر کاٹ کاٹ کے
——
اس دشت سخن میں کوئی کیا پھول کھلائے
چمکی جو ذرا دھوپ تو جلنے لگے سائے
سورج کے اجالے میں چراغاں نہیں ممکن
سورج کو بجھا دو کہ زمیں جشن منائے
مہتاب کا پرتو بھی ستاروں پہ گراں ہے
بیٹھے ہیں شب تار سے امید لگائے
ہر موج ہوا شمع کے در پے ہے ازل سے
دل سے کہو لو اپنی ذرا اور بڑھائے
کس کوچۂ طفلاں میں چلے آئے ہو شاعرؔ
آوازہ کسے ہے تو کوئی سنگ اٹھائے
——
یوسف ثانی
——
میں چاہ کنعاں میں زخم خوردہ پڑا ہوا ہوں
زمیں میں زندہ گڑا ہوا ہوں
کوئی مجھے اس برادرانہ فریب کی قبر سے نکالے
مجھے خریدے کہ بیچ ڈالے
کہ چشم یعقوب تو مرے غم میں کل بھی گریاں تھی
آج بھی ہے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ