اردوئے معلیٰ

Search

آج معروف شاعر اور نقاد جاذب قریشی کا یوم پیدائش ہے

(پیدائش: 3 اگست 1940ء – وفات: 21 جون 2021ء)
——
پروفیسر جاذب قریشی اور سید فخرالدین بلے فیملی (داستان رفاقت)
——
پروفیسر جاذب قریشی استادوں کے استاد تھے۔ نامور شاعر ، مایہ ناز ادیب ، منجھے ہوئے نقاد ، جنگ کے کالم نگار، اپنی ذات میں ایک انجمن اور خدا جانے کیا کچھ تھے۔ ان کی شخصیت کے بہت سے رنگ اور پہلو تھے۔ کچھ دنیا کے سامنے آگئے اور کچھ
سے آج کی نسل ابھی واقف ہی نہیں۔ ساری زندگی ادب کی خدمت میں نہیں گزری ۔بہت سے کام کئے اور جب ادبی دنیا میں قدم رکھے تو اپنی جاندار شاعری ، سحر طراز نثر نگاری ، تنقید ، تخلیق اور تحقیق کی بنیاد پر خوب نام اور مقام کمایا۔ داتا کی نگری سے بھی ان کی بڑی خوشگوار یادیں وابستہ رہیں ۔ جاذب قریشی بھارت سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ ان کا شمار اپنے عہد کے خوبصورت شاعروں میں ہوتا ہے۔ لیکن اس مقام تک پہنچنے کیلئے انہیں کتنے پاپڑ بیلنے پڑے ، یہ وہی جانتے ہیں یا ان کا اور ہمارا خدا۔ کبھی کبھار خوشگوار موڈ میں ہوتے تو اپنی زندگی کی کتاب کا کوئی سا ورق کھول دیا کرتے تھے۔قریباً دس برس پہلے ان کے ساتھ ایک طویل نشست ہوئی۔ اپنی زندگی کی کہانی سناتے ہوئے ان کی آنکھیں بھیگ گئیں ۔کہنے لگے میں آپ کے والد بزرگوار سید فخرالدین بلے صاحب سے قریباً 10برس چھوٹا ہوں ۔اسی لئے میں انہیں بھائی بلے کہتا ہوں۔ واقعی انہوں نے بڑا کام کیا۔ میں نے ان پر مقالہ بھارتی ادیبوں کی فرمائش پر لکھا تھا۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے گفتگو کا کانٹا اپنی طرف موڑ دیا۔ مجھے ایسا لگا کہ وہ خود کلامی کررہے ہیں اورانہوں نے اپنی خود کلامی میں مجھے بھی شریک کرلیا ہے۔
——
یہ بھی پڑھیں : وحید قریشی کا یوم وفات
——
میں ہمہ تن گوش رہا ۔کچھ سوال بھی اٹھائے۔ اپنی ولادت سے لے کر پروفیسر جاذب قریشی نے اپنی زندگی کے بہت سے ابواب کھول کر رکھ دئیے۔ کہنے لگے آپ مجھے جاذب قریشی کے نام سے جانتے اور پہچانتے ہیں حالانکہ میرے والد بزرگوار نے میرانام محمد صابر رکھا تھا ۔ دنیا مجھے اس نام سے نہیں جانتی اور نہ ہی پہچانتی ہے ۔ میری زندگی کا سورج اگست کی 03 تاریخ سن 1940 کو کلکتہ میں طلوع ہوا۔ میرے خاندان کا تعلق لکھنو سے تھا ۔ ابھی میرے شعور کی آنکھیں نہیں کھلی تھیں اورمیری عمر پانچ سال کے لگ بھگ ہوگی کہ باپ کے سایہ سر سے اٹھ گیا۔ کیا کہوں اک دھوپ تھی جو سر سے گئی ، آفتاب کے۔ وہ مجھے ایک بڑا آدمی بنانا چاہتے تھے لیکن یہ اتنا بڑا دھچکا تھا کہ میں بتا نہیں سکتا، میری تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رہ سکا ۔ گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑنے لگا ۔ہمارے پورے گھرانے کو معاشی مشکلات نے گھیر لیا۔ کم عمری میں تعلیم کے حصول پر توجہ دینے کے بجائے ناتواں کندھوں پر روزی روٹی کمانے کی ذمے داریاں آگئیں ۔حالات نے میرے بھائی کو بھی کارخانے میں محنت کشی پر مجبور کردیا کیا بتاءوں ۔ میرا بچپن ہی حالات نے مجھے سے چھین لیا ۔ بھائی کی کاوشیں رنگ لائیں ۔ حالات نے کروٹ بدلی اور میں الہ آباد چلا گیا ۔تعلیم کے شوق میں ۔ میری والدہ کو مجھ سے بڑا پیار تھا ، وہ مجھے واپس لکھنو لے آئیں۔ یہی وہ موڑ ہے جو مجھے ادبی دنیا میں لے آیا۔ لکھنو میں میرے خالہ زاد بھائی عبدالواحد کے ساتھ شعرو ادب کی محفلوں میں جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ شمیم لکھنوی کے نام سے شاعری کیا کرتے تھے۔ انہوں نے شاعری کی چاٹ مجھے بھی لگادی ۔ یہ ذوق و شوق میرے ساتھ ساتھ پلا بڑھا اور پروان چڑھا ۔۔ 1950 میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہجرت کرکے میں بھی داتا کی نگری لاہور میں آن بسا ۔ دن بھر ایک چھاپہ خانے میں کام کرتا اور رات گئے تک غزلیں لکھتا۔ اس شہر میں آکر لگا زندگی کا نیا سفر اب شروع ہوا ہے ۔ تعلیم کے حصول کا سلسلہ بھی بحال ہوگیا ۔ ادبی ذوق کی تسکین کا سامان بھی میں نے حلقہ ارباب ذوق کی تنقیدی نشستوں میں ڈھونڈ لیا ۔ جہاں ادبی دنیا کے درخشندہ ستاروں کی کہکشاں سجا کرتی تھی ۔سعادت حسن منٹو کے افسانے سننے کی سعادت بھی انہی محفلوں میں مجھے حاصل ہوئی ۔ مجھے اورینٹل کالج میں بھی قابل اساتذہ سے مستفیض ہونے کے مواقع ملے۔ اپنے وقت کے نامور شاعر اور عالمی شہرت یافتہ شاعر حبیب جالب میرے ہم جماعت تھے ۔لاہور میں کئی ادبی تنظیموں سے وابستہ رہا۔ لاہور میں قیام کے دوران ہی مخلصین ادب سے جُڑ گیا۔ جو فروغ لکھنوی نے بنایا تھا ۔ میں اس ادبی ادارے کا سیکریٹری بھی رہا۔ اس کی خوبصورت محفلیں انارکلی کے پچھواڑے صوفی کے تکیے پر سجا کرتی تھیں۔ داتا کی نگری کی یادوں کو سمیٹتے ہوئے کئی بار ان کی آواز بھرا گئی اور میں نے ان کی آنکھوں کو نم ناک ہوتے دیکھا۔ اسی لئے میں نے موضوع بدلنا چاہا تاکہ وہ جذباتی فضا سے باہر آجائیں ۔ وہ سمجھ گئے اور بولے ظفر معین بلے صاحب ،آپ کوپتا نہیں ہوگا کہ میں نے افسانے بھی لکھےہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : محمد ابنِ عبد اللہ قریشی
——
جاذب قریشی محض ایک ادیب، شاعر، دانشور، افسانہ نویس ، تنقید نگار، صحافی اور کالم نویس ہی نہیں تھے ۔ انہوں نے ایک فلم بھی بنائی تھی ، جس کا نام تھا پتھر کےصنم ، جو کامیاب نہیں ہوسکی ۔ اگر کامیاب ہوجاتی تو ہم مدتوں پہلے پروفیسر جاذب قریشی سے محروم ہوگئے ہوتے اور جن ہزاروں افراد نے آپ کی صحبت با برکت سے استفادہ اور استفاضہ کیا ، وہ کبھی نہ کرپاتے ۔ اردو ادب اور کراچی کی تاریخ جاذب قریشی کے ذکر خیر کے بغیر ہمیشہ ادھوری رہے گی ۔ روشنیوں کے شہر میں جاذب قریشی نے اپنے فکرو خیال کے چراغ روشن کرکے مزید اجالا پھیلا دیا ۔ کچھ باتیں اپنے بارے میں انہوں نے بتائیں اور کچھ اد ب دوستوں نے ۔ان باتوں کےتانے بانے جوڑ کر میں ان کی داستان حیات رقم کررہاہوں ۔جاذب قریشی 1962 میں داتا کی نگری کو خیر باد کہہ کر روشنیوں کے شہر کراچی میں آن بسے تھے ۔ 1964میں درس و تدریس سےوابستہ ہوگئے ۔ادبی ہنگامہ آرائیوں میں شریک رہ کر اپنی پہچان کرائی ۔1967 میں ارباب قلم کیلئے کے لئے اہم خدمات انجام دیں ، یہ ایک ادبی ادارہ تھا ، جس نے ارباب قلم و ادب کو جگائے رکھا ۔ کچھ جرائد و رسائل سے وابستگی کے دوران بھی اپنی فکری اور قلمی جوہر دکھائے ، ان جرائد و رسائل میں کائنات،نقش نگارش، نمک دان اور سات رنگ شامل ہیں ۔ اردو کے مجلے ’’کائنات‘‘ کی ادارت بھی کی ، ہفت روزہ ’’نصرت میں کالم نگار کی حیثیت سے جلوہ افروز ہوئے ۔روزنامہ جنگ کےادبی ایڈیشن کے نگراں کی حیثیت سے اپنے رنگ دکھائے ۔اسی قومی روزنامے میں کالم نگار کی حیثیت سے بھی اپنی تخلیقی توانائیوں کے جوہر دکھا کر خوب داد و تحسین سمیٹی ۔جاذب قریشی نے جامعہ کراچی سے ایم اے کی سند حاصل کی اور جناح کالج میں لیکچرر بن کر اپنے معاشی کیرئیر کاآغاز کردیا ۔وہ ایک ناکام فلم ساز اور کامیاب شاعر ، کامران ادیب ، دیدہ ور نقاد اور اعلی پائے کے دانشور تھے ۔۔ انہوں نے ایک فلم پتھر کے صنم‘‘ بھی بنائی ،جوبری طرح فلاپ ہوگئی ، لیکن انہوں نے جتنی بھی کتابیں لکھیں ، انہیں ادبی دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ ان کی کتابیں نثر نگاری ، تنقید ، شاعری اور ادب کے مختلف موضوعات سے متعلق ہیں ۔ ان کے عنوانات بھی بتارہے ہیں کہ وہ ذرا ہٹ کر دنیا کودیکھتے تھے۔ذرا آپ بھی ان کی کتابوں کے عنوانات پر ایک نظر ڈالئے تو آپ میرے خیال کی تائید کریں گے کہ واقعی وہ پامال راستوں کے مسافر نہیں تھے ۔جاذب قریشی کی کچھ کتابوں کے عنوانات یہ ہیں ۔تخلیقی آواز ، آنکھ اور چراغ ، شاعری اور تہذیب ، دوسرے کنارے تک ، میری تحریریں ، میں نے یہ جانا ، پہچان ، نیند کا ریشم ، شیشے کا درخت آشوبِ جاں، اجلی آوازیں ، شکستہ عکس، شناسائی، جھرنے، عقیدتیں، مجھے یاد ہے، نعت کے جدید رنگ۔،
——
یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا یومِ وفات
——
پروفیسر جاذب قریشی کی مطبوعات کےنام یہ ہیں ۔
تخلیقی آواز
آنکھ اور چراغ
شاعری اور تہذیب
دوسرے کنارے تک
میری تحریریں
میں نے یہ جانا
پہچان
نیند کا ریشم
شیشے کا درخت
آشوب جاں
اجلی آوازیں
شکستہ عکس
شناسائی
جھرنے
عقیدتیں
مجھے یاد ہے
نعت کے جدید رنگ
میری شاعری
میرے بڑے بھائی سید عارف معین بلے نے بھی ان کےاعزاز میں تقریب پذیرائی پر ایک نظم لکھ کر فیس بک پر شئیر کی تھی ، جسے پڑھ کر وہ بہت خوش ہوئے تھے اور کہا تھا کہ آپ کے خانوادے میں سب کیلئے اتنا پیار کیسے امڈ آتا ہے ۔ خدا کرے آپ لوگ ہمیشہ خوش و خرم رہیں ۔اب وہ منظوم تاثرات جو سید عارف معین بلے نے قلمبند کئے تھے، قارئین کی نذر ہیں ۔
——
نسلِ نو کو خوب یہ فیضان بخشا آپ نے
زندہ شعروں کا نیا دیوان بخشا آپ نے
ذوق کی تسکین کا سامان بخشا آپ نے

دوش اورامروز کا آئینہ فردا کی کتاب
آپ کی یہ شاعری کا پہلا پہلا انتخاب

زندہ و تابندہ ہیں یہ نثر پارے آپ کے
اہلِ دانش جان سکتے ہیں اشارے آپ کے
بندشیں یکتا, اچھوتے استعارے آپ کے

دھوپ کےصحرا میں جاذب آپ لےآئےسحاب
خوب ہے یہ نثر کا بھی پہلا پہلا انتخاب

آپ کی “پہچان” سے اردو کو دانائی ملی
قابلِ صد آفریں بے شک “شناسائی” ملی
آپ کو اردو ادب میں جو پزیرائی ملی

آپ کی طرح ہے وہ جاذب قریشی لاجواب
علم و حکمت کا خزینہ آپ کی ہر اک کتاب

اک زمانہ معترف ہے آپ کی تحقیق کا
آپ کی تنقید میں بھی رنگ ہے تخلیق کا
نیم کا ریشم نہیں , سامان ہے تشویق کا

اللّہ اللّہ معرفت ساماں محّبت کا نصاب
آپ کی تنقید کا یہ پہلا پہلا انتخاب

ہے میّسر دھوپ میں بھی ہم کو شیشہ کا درخت
اسکی شاخیں یکجا بھی ہوتے ہوئے ہیں لخت لخت
بات سختی کی بھی ہے, لہجہ نہیں لیکن کرخت

آپکے جب دل کی کلیاں کِھل اُٹھیں , مہکے گلاب
ہے بصیرت زا یقیناً آپ کا ہر انتخاب
( سیّد عارف معین بلّے )
——
یہ بھی پڑھیں : وحید قریشی کا یوم پیدائش
——
پروفیسر جازب قریشی دی اوایسس۔ او اینڈ اے لیول کالج کلفٹن بلاک 2 بالمقابل بلاول ہاؤس اور آغا خان کلفٹن کلینک کے عقب میں واقع تھا راقم السطور ظفر معین بلے اس ادارے سے کم و بیش گیارہ بارہ برس وابستہ رہا ۔سالانہ مشاعرہ اور مباحث ۔ تقریری ۔ تحریری مقابلے اور دیگر نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کا انعقاد بحثیت کوارڈینیٹر اور سربراہ شعبہ اردو کے فرائض منصبی کا حصہ تھا۔ سن 2004 کی ایک یادگار تقریب کی صدارت پروفیسرجازب قریشی صاحب نے فرمائی تھی مہمان خصوصی محترمہ شہناز نور صاحبہ تھیں جبکہ محترمہ گلنار آفرین مہمان اعزاز۔ محترمہ شہناز نور صاحبہ اور جازب قریشی صاحب نے شاندار تقریبات کے انعقاد پر ہماری حددرجہ حوصلہ افزائی فرمائی۔
پروفیسر جازب قریشی اور بلے فیملی داستان رفاقت جازب قریشی صاحب نے اپنے صدارتی خطاب میں اپنے اور سید فخرالدین بلے اور ان فرزندگان سے اپنے قلبی اور روحانی تعلق پر روشنی ڈالی ۔جازب قریشی فخریہ انداز میں اپنا شمار ہمارے والد گرامی قبلہ سید فخرالدین بلے شاہ صاحب اور بڑے بھائی آنس معین کے مداحوں میں کیا کرتے تھے۔
سن 2016 ماہ اکتوبر کے آخری عشرے میں سینٹ پیٹرکس کالج میں سالانہ تقریبات منعقد کی جارہی تھیں ٹیبلو اور تقریری اور دیگر مقابلوں کے لیے مجلس منصفین میں مدیر انشا جناب صفدر علی خان انشا اور (راقم السطور) ظفر معین بلے تھے ۔ جازب قریشی مہمان خاص تھے اختتام پر سالانہ مشاعرہ منعقد ہوا. میزبانی کے فرائض معروف شاعرہ فرحت آئرین نے انجام دیئے۔ ہمارے اور پروفیسر صفدر علی خان انشا اور محترمہ ہما اعظمی سمیت تقریبا“ بیس بائیس شعرا و شاعرات نے شرکت فرمائی، صدارت جناب پروفیسر جازب قریشی صاحب نے فرمائی مشاعرے کے بعد کالج لائبریری میں قبل از ظہرنہ جازب قریشی صاحب نے تمام حاضرین کو مخاطب فرماتے ہوئے سید فخرالدین بلے علیگ اور آنس معین کی شخصیت اور شاعری کے حوالے ایک ڈیڑھ گھنٹہ اظہار خیال فرمایا۔
اپنے عہد کے نامور ادیبوں اور شاعروں نے ان کی زندگی میں بھی ان کی خدمات کوبھر پور انداز میں خراج تحسین پیش کیا اور اب وہ دنیا کو خیرباد کہہ گئے ہیں تو آج بھی ان کی خدمات کو بھرپور انداز میں ارباب ی فن و ادب کی طرف سے سلامی دی جارہی ہے ۔مجھے یاد ہے کہ کراچی ہی میں ان کےاعزاز میں ایک تقریب پذیرائی کا اہتمام کیا گیا تو نامور ادبی شخصیت ڈاکٹر پیرزادہ قاسم نے انہیں کھل کر ان کے ادبی کارناموں پر داد دی اور انہیں باکمال شاعر اور معتبر نقاد قرار دیا۔ جہاں تک میری یادداشت ساتھ دے رہی ہے یہ محفل جنوری2018 میں سجی تھی۔ پروفیسر سحر انصاری کا کہنا تھا جاذب قریشی نے زندگی کے منفی رویوں کو شکست دے کر ، مثبت پہلوؤں کو اجاگر کیا ہے ۔ بزم یاور مہدی کے زیر اہتمام جاذب قریشی کے لئے یہ تقریب پذیرائی سجائی گئی تھی ۔کہنا یہ ہے کہ ان کی زندگی میں بھی ان کی عظمت کو تسلیم کیا گیا اور آج بھی انہیں تحسین و آفرین کے کلمات دریا دلی کے ساتھ پیش کرکے محبتوں کا قرض ادا کیا جارہا ہے ۔
——
آپ کی طرح ہے وہ جاذب قریشی لاجواب
علم و حکمت کا خزینہ آپ کی ہر اک کتاب
(سیّد عارف معین بلے)
——
یہ بھی پڑھیں : ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی کا یومِ پیدائش
——
کوتاہی ہوگی اگر میں ان کا منتخب کلام قارئین کرام کی نذر نہ کروں ۔ ملاحظہ فرمائیے ۔ پروفیسر جاذب قریشی کا کچھ کلام ، ان میں سے کچھ کلام مجھے براہ راست ان کی زبانی سننے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ہے اور کچھ کلام ان کی کتابوں سے ماخوذ ہے۔
——
منتخب کلام
——
کیوں مانگ رہے ہو کسی بارش کی دعائیں
تم اپنے شکستہ در و دیوار تو دیکھو
——
تیری یادوں کی چمکتی ہوئی مشعل کے سوا
میری آنکھوں میں کوئی اور اجالا ہی نہیں
——
دفتر کی تھکن اوڑھ کے تم جس سے ملے ہو
اس شخص کے تازہ لب و رخسار تو دیکھو
——
مری شاعری میں چھپ کر کوئی اور بولتا ہے
سر آئنہ جو دیکھوں تو وہ شخص دوسرا ہے
——
دیکھ لے ذرا آ کر آنسوؤں کے آئینے
میں سجا کے پلکوں پر تیرا پیار لایا ہوں
——
تیری خوشبو پیار کے لہجے میں بولے تو سہی
دل کی ہر دھڑکن کو اک چہرہ نیا مل جائے گا
——
کچھ میرے دھڑکتے ہوئے دل نے بھی پکارا
کچھ آپ کو بازار میں دھوکا بھی ہوا ہے
——
کاغذی گھر سے نکلنا ہے مجھے
اپنی تصویر بدلنا ہے مجھے
جس نے پرچھائیں کو خوشید کیا
اُسی شعلے میں پگھلنا ہے مجھے
ہے ترے لمس کی خواہش مجھ میں
زرد موسم کو بدلنا ہے مجھے
تیرے چہرے کا تعاقب ہے عجب
عمر بھر نیند میں چلنا ہے مجھے
میں چراغ ایسا کہ اک تیرے لیے
گھر کی دہلیز پہ جلنا ہے مجھے
شام رستے میں کھڑی ہے جاذب
اور صحرا سے نکلنا ہے مجھے
——
اس کا لہجہ کتاب جیسا ہے
اور وہ خود گلاب جیسا ہے
دھوپ ہو چاندنی ہو بارش ہو
ایک چہرہ کہ خواب جیسا ہے
بے ہنر شہرتوں کے جنگل میں
سنگ بھی آفتاب جیسا ہے
بھول جاؤ گے خال و خد اپنے
آئنہ بھی سراب جیسا ہے
وصل کے رنگ بھی بدلتے تھے
ہجر بھی انقلاب جیسا ہے
یاد رکھنا بھی تجھ کو سہل نہ تھا
بھولنا بھی عذاب جیسا ہے
بے ستارہ ہے آسماں تجھ بن
اور سمندر سراب جیسا ہے
——
چہروں پہ لکھا ہے کوئی اپنا نہیں ملتا
کیا شہر ہے اک شخص بھی جھوٹا نہیں ملتا
چاہت کی قبا میں تو بدن اور جلیں گے
صحرا کے شجر سے کوئی دریا نہیں ملتا
میں جان گیا ہوں تری خوشبو کی رقابت
تو مجھ سے ملے تو غم دنیا نہیں ملتا
زلف و لب و رخسار کے آذر تو بہت ہیں
ٹوٹے ہوئے خوابوں کا مسیحا نہیں ملتا
میں اپنے خیالوں کی تھکن کیسے اتاروں
رنگوں میں کوئی رنگ بھی گہرا نہیں ملتا
ڈوبے ہوئے سورج کو سمندر سے نکالو
ساحل کو جلانے سے اجالا نہیں ملتا
——
نیند آنکھوں میں رہے پھر بھی نہ سویا جائے
میں وہ پتھر ہوں کہ روؤں تو نہ رویا جائے
اجنبی ہے ترے خوش رنگ بدن کی خوشبو
اک ذرا لمس وفا تجھ میں سمویا جائے
شب کے صحرا نے عجب پیاس لکھی ہے مجھ میں
مجھ کو خورشید کے شعلوں میں ڈبویا جائے
میں نے تنہائی میں جل کر بھی یہی چاہا ہے
خوشبوؤں سے ترے آنچل کو بھگویا جائے
زندگی کو ہے ضرورت نئے پیراہن کی
اپنے ہی خون میں اپنے کو ڈبویا جائے
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ