آج معروف شاعر، مؤرخ اور محقق محمد باقر شمس کا یوم پیدائش ہے ۔

نوٹ : تاریخِ پیدائش کتاب شخصیت و فن ، تصنیف : حسین انجم سے لی گئی ہے ۔
——
لکھنؤ کا ایک علمی گھرانہ خاندانِ اجتہاد کے نام سے مشہور ہے ۔ اس کے مورثِ اعلیٰ حضرتِ غفرانمآب تھے ۔ اسی خاندان کے فرزندِ رشید مولانا محمد باقر شمس ہیں ۔
مولانا باقر شمس کی ولادت 10 اگست 1909 بمطابق 23 رجب 1327 ھ منگل کے دن اول نمازِ صبح کے وقت جونپور میں ہوئی ۔ ابتدائی کتابیں مولوی علی سعید صاحب سے پڑھیں ۔ ان کے بعد اپنے والد سے تحصیلِ علم کی ۔ طب بھی انہی سے پڑھی ۔
منبع الطب کالج لکھنؤ سے طب کا اور لکھنؤ یونیورسٹی سے دبیرِ کامل کا امتحان پاس کیا ۔ شیخ ممتاز حسین سے عبرانی پڑھنا شروع ہی کی تھی کہ راجا ہرپال سنگھ ہائی اسکول ضلع جونپور میں اردو اور فارسی کے معلم کی حیثیت سے تقرر ہو گیا ۔
وہاں انگریزی اور ہندی پڑھی ۔ وہ عربی ، فارسی اور ہندی پر کامل عبور رکھتے ہیں ۔ اردو ان کی مادری زبان ہے ۔ انگریزی بہت کم جانتے ہیں اور عبرانی نہ جاننے کے برابر ہے ۔
ان کے مزاج میں سختی بہت ہے ۔
——
یہ بھی پڑھیں : سجاد باقر رضوی کا یوم پیدائش
——
ابتدائی عمر میں باقر شمس نے شعر کہنا شروع کیا اور زیادہ زمانہ نہیں گزرا کہ انہوں نے محسوس کیا کہ ان کے اشعار میں نہ تخیل کی بلندی ہے ، نہ طرزِ ادا میں کوئی جدت و ندرت ، پامال مضامین سیدھے سادے طریقے سے نظم کرتے ہیں ۔
” یہ بے جان شاعری ہے ۔ خدا نے مجھے شاعر پیدا نہیں کیا ہے ۔ شہر کہنا وقت ضائع کرنا ہے ” اور انہوں نے شعر کہنا چھوڑ دیا ۔
باقر شمس شاعر بھی ہیں ، ادیب بھی ، اہلِ زبان بھی ہیں اور ماہرِ لسانیات بھی ، مورخ بھی ہیں اور محقق بھی ، معلم بھی ہیں اور نقاد بھی ۔
باقر شمس کی شخصیت کا ہر پہلو ان کی تصانیف سے نمایاں ہے ۔ ہر چند کہ انہوں نے شاعری کو مستقل مشغلہ کے طور پہ نہیں اپنایا مگر انہوں نے جو کہا ہے وہ فن کے اعتبار سے نہایت مضبوط کلام ہے ۔
بطورِ ادیب ان کی تحریریں انشا پردازی کا بہترین نمونہ پیش کرتی ہیں ۔ جن میں سلاست بھی ہے اور سادگی بھی ، لطفِ زبان بھی ہے اور حسنِ بیان بھی ۔
ان کی تحریر حشو و زوائد سے پاک ہوتی ہے ۔ ہر جملہ موضوع سے متعلق اور ہر بات اپنی جگہ پہ اٹل ۔ ایک اہم بات یہ کہ وہ جو کچھ بھی لکھتے ہیں اس میں کوئی نہ کوئی نئی بات ضرور ہوتی ہے ۔ کسی موضوع پر دوسروں کی کہی ہوئی باتوں کو دہرا کر اپنی تصانیف میں شامل کرنا ، ان کے مشرب میں حرام ہے ۔
باقر شمس تاریخ لکھتے ہیں تو تحقیق و جستجو سے نئے گوشے ابھارتے ہیں اور نئے پہلو سامنے لاتے ہیں ۔ جب انہوں نے لسانیات پہ قلم اٹھایا تو تمام مروجہ نظریات کے برخلاف ایک جدید اور قابلِ فہم نظریہ پیش کرتے ہوئے ایسے پہلوؤں پر روشنی ڈالی جن سے لسانیات کے علم میں اضافہ اور ترقی ہوئی ۔
جہاں تک اردو زبان کا تعلق ہے اس وقت اس پر ان سے بڑی کوئی سند نہیں ۔ خصوصیت کے ساتھ ” لکھنؤ کی زبان ” کے حوالہ سے وہ عہدِ موجود کی مستند ترین ہستی ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : آپ آئے ہیں تو محفل پہ شباب آیا ہے
——
تحقیق کے میدان میں بھی انہوں نے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں ۔
حضرتِ شمس کی شخصیت کا ایک بہت اہم پہلو تنقید ہے ۔ وہ شعر و ادب کے ایسے نقاد ہیں جو فکری اور فنی دونوں پہلوؤں سے شعری اور ادبی تخلیقات کا جائزہ لیتے ہیں اور نہ صرف ان کے محاسن و معائب پر بحث کرتے ہیں بلکہ ان کی اصلاح کر کے معائب کو محاسن میں بدل دینے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔
وہ زبان و بیان ، عروض و قوافی ، تشبیہہ و استعارہ ، مصطلحات و مفروضاتِ شعرا ، صنائع و بدائع ، قیاسات و سماعیات ، محاورہ ، ضرب المثل ، نیز فصاحت و بلاغت کے معیار ، معانی و بیان پر اتنی وسیع اور گہری نظر رکھتے ہیں جو کم از کم اس دور میں کسی بڑے سے بڑے استاد کو بھی نصیب نہیں ۔
مولانا باقر شمس کی تصانیف میں
در منظوم
شکست آئینہ
فلسفہ خیام* تاریخ لکھنؤ
لکھنؤ کی تہذیب
لکھنؤ کی زبان
لکھنؤ کی شاعری
انتخاب دیوان جاوید
شعرو و شاعری
نگارشات نگ رنگ
ہندوستان میں شعیت کی تاریخ
امام ابو حنیفہ کا مذہب
اسلام پر کیا گزری
پنج آہنگ (پانچ مضامین کا مجموعہ)
وغیرہ شامل ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : باقر نقوی کا یوم پیدائش
——
مولانا محمد باقر شمس 7 جنوری، 2007ء کو کراچی، پاکستان میں وفات پاگئے
——
منتخب کلام
——
نعتِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم
——
اولیں صفتِ صناع ، رسولِ قرشی
ہے جو مکی ، مدنی ، ہاشمی و مطلبی
جس کا دین پیکرِ ہستی کی حیاتِ نو ہے
جس کے آئیں میں برابر عربی و حبشی
جس پر نازل کیا قرآنِ مبیں خالق نے
اس سے انکار جو کرتا ہے ، وہ ہے بولہبی
مثل اُس کا نہ سرِ عرش ، نہ بالائے زمیں
ہے وہی بعدِ خدائے عبدی و ازلی
اے کہ از طٰہ و یٰسیں بتو حق کرد خطاب
دل و جاں بعد فدایت کے عجب خوش لقبی
انچہ تو کرد نہ کردند رسولانِ کبار
مرحبا ! سیدِ مکی ، مدنی العربی
تجھ کو خود حق نے بنایا ہے وسیلہ اپنا
تجھ سے اس وجہ سے ہم کرتے ہیں حاجت طلبی
شمسؔ پر بھی نظرِ لطف و کرم ہو جائے
تیری ہی خاکِ درِ پاک سے ہے وہ نسبی
——
دیکھا جو مجھ کو ، پھیر کے منہ مسکرا دئیے
بجلی گری تڑپ کے دلِ بیقرار پر
——
خوفِ محشر نہ رہا دل میں ، جو دیکھا میں نے
پشت پر میرے گناہوں کے ہے رحمت اس کی
——
کوئی ویرانہ میرے ذوق کے قابل نہ ملا
اب کہاں لے کے مجھے جائے گی وحشت میری
——
مے نوشی حق نے دارِ بقا میں بھی کی حلال
کہتا ہے شیخ ، دارِ فنا میں حرام ہے
——
دیکھا جو میں نے نامۂ اعمال حشر میں
قصہ لکھا تھا میرے اور ان کے شباب کا
——
آئے عدم سے گلشنِ ہستی کی سیر کو
دامن اُلجھ گیا ہے یہاں خارزار میں
——
آنکھیں لگی ہیں در پہ ، نکلتا نہیں ہے دم
ٹھہری ہوئی ہے روح تیرے انتظار میں
——
شعلۂ عشق اگر دل میں فروزاں ہو جائے
بڑھ کے یہ قطرۂ خوں مہرِ درخشاں ہو جائے
——
ہے گورِ غریباں میں وہی شمسؔ کا مدفن
تربت جو کوئی دل کے دھڑکنے کی صدا دے
——
سامنا جب ہوا محشر میں تو کچھ نہ کہہ سکا
مجھ سے دیکھا نہ گیا اُن کا پریشاں ہونا
——
اتنا ضعیف کر دیا پیری نے شمس کو
کیا دم بھی توڑنے کے وہ قابل نہیں رہا
——
کس طرح وہ عالم کو نہ دیوانہ بنا دے
یہ حسن ، یہ انداز و ادا جس کو خدا دے
دیکھی نہیں جاتی ہے کسی سے مری حالت
اب وہ بھی یہ کہتے ہیں ” خدا اس کو شفا دے ”
پھر ہوش کے عالم میں بھلا آؤں میں کیونکر
غش میں مجھے دامن سے جو وہ اپنے ہوا دے
جانبازیِ پروانہ پہ کیجے نہ تعجب
قسمت ہے ، جسے ہمتِ مردانہ خدا دے
وہ دیکھ کے کہتے ہیں مری نزع میں الجھن
” یوں موت جوانی میں کسی کو نہ خدا دے ”
کیا جانے وہ ، کیا لطف ہے آشفتہ سری میں
جب تک نہ کسی کو دلِ دیوانہ خدا دے
موسیٰ ! طلبِ دید پہ اصرار نہ کیجے
کیا ہو ، جو نقابِ رخِ روشن وہ اٹھا دے
خلقت کی زباں کا ہے یہ ادنیٰ سا کرشمہ
تھوڑی سی ہو بات ، اور وہ افسانہ بنا دے
آئے ہیں عیادت کو سرہانے دمِ آخر
اللہ مری نزع کے لمحات بڑھا دے
کیوں سجدے میں اس کے نہ جھکیں سب کی جبینیں
اک خاک کے پتلے کو جو انسان بنا دے
——
ہے شانہ کش رقیب جو گیسوئے یار میں
رگ رگ ہے میرے دل کی غضب کے فشار میں
آدم بھی آکے روئے یہاں ہجر یار میں
یہ رسم ہے قدیم اس اجڑے دیار میں
جاگے تھے شب کو سوئے ہیں دن کو مزار میں
دنیا ہوئی ادھر کی اُدھر ہجرِ یار میں
جادو بھرا تھا اس نگہ شرمسار میں
ملتے ہی آنکھ، دل نہ رہا اختیار میں
ہم تنکے چن رہے ہیں نشیمن کے واسطے
بجلی چھپی ہے دامنِ ابرِ بہار میں
آئے عدم سے گلشنِ ہستی کی سیر کو
دامن الجھ گیا ہے یہاں خارزار میں
آنکھیں لگی ہیں در پر نکلتا نہیں ہے دم
ٹھہری ہوئی ہے روح تیرے انتظار میرے
جوشِ جنوں نے دشت کو گلزار کردیا
ہے خون میرے پاؤں کا ہر نوکِ خار میں
گیسو کی یاد ہے، کبھی رخ کا خیال ہے
کٹتی ہے عمر اب اسی لیل و نہار میں
منبر میں جاکے دیکھیے واعظ کا حالِ زار
پرہیز مے زباں پر ہے، آنکھیں خمار میں
سب زخم سر ہرے ہیں قبا ہے لہو میں تر
لایا ہے رنگ جوشِ جنوں پھر بہار میں
قاتل کو میرے سمجھے تھے دشمن کوئی مرا
نکلا تلاش سے وہ مرے دوستدار میں
عشقِ بتاں نے کردیا میرا تباہ حال
کس کو ہے دخل مصلحتِ کردگار میں
یاں جوشِ گریہ اور وہاں حکم ضبط ہے
پڑ جاتی ہے گرہ مرے اشکوں کے تار میں
گردش پہ اپنی، شمسؔ ! ہمیں صبر آگیا
کس کو ملا سکوں اس اجڑے دیار میں
——
ایک ہی قافیہ میں پوری غزل
——
کمبخت ہو برا دلِ خانہ خراب کا
مجھ پر عذاب کر دیا عالم شباب کا
دیکھا جو میں نے نامۂ اعمال حشر میں
قصہ لکھا تھا میرے اور ان کے شباب کا
ہیں یاد ان کی آج تک دل فریبیاں
کچھ دیر خواب دیکھا تھا ہم نے شباب کا
میرے لیے تو دونوں قیامت سے کم نہ تھے
طفلی کا ان کا عہد ، زمانہ شباب کا
دیکھی جو اچھی شکل طبیعت مچل گئی
کچھ پوچھیے نہ حال ہمارے شباب کا
عالم میں غفلتوں کے وہ دونوں گزر گئے
طفلی کا عہد اور زمانہ شباب کا
ہم نے بھی دل کو تھام لیا سن کے یہ خبر
اب آ گیا ہے ان کا زمانہ شباب کا
گرمی بڑھی ، رگوں میں لہو دوڑنے لگا
پیری میں یاد آیا زمانہ شباب کا
ہوتی میں دردِ دل میں بھی محسوس لذتیں
ہے حاصلِ حیات زمانہ شباب کا
——
حوالہ جات
——
تحریر و شعری انتخاب از کتاب شخصیت و فن
تصنیف : حسین انجم ، متفرق صفحات