اردوئے معلیٰ

آج عظیم اداکارہ اور شاعرہ مینا کماری ناز کا یوم وفات ہے

مینا کماری ناز(پیدائش : 1 اگست 1933ء -وفات : 31 مارچ 1972ء)
——
مینا کماری: ٹریجڈی کوئین کی ٹریجڈی دنیا میں آنے سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی
تحریر : طاہر سرور میر
——
مینا کماری اپنی کہانی سناتی ہیں کہ میری ٹریجڈی میرے دنیا میں آنے سے بھی پہلے شروع ہوگئی تھی۔ میرا پیدائشی نام مہ جبین تھا۔ میں نے جب اس دنیا میں آنکھ کھولی تو میرے اپنے باپ نے فیصلہ کیا کہ مجھے یتیم خانے میں چھوڑ دیا جائے۔
میرے والد کے اس فیصلے کے سامنے میری ماں نے بھی سر تسلیم خم کیا تھا لیکن پھر وہ اپنے اس ارادے سے باز رہے۔ میرے والد اولاد نرینہ کے خواہشمند تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ اُن کے ہاں بیٹا پیدا ہو جو بڑھاپے میں خاندان کا سہارا بنے۔
پھر مینا کماری نے اپنے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے لیے اس سے بھی زیادہ کیا جو گھر والوں نے لڑکا پیدا ہونے کی صورت میں سوچا تھا۔ مہ جبین صرف چار سال کی عمر میں فلموں میں کام کرنے لگی تھیں۔
ننھی سی جان دو، دو شفٹوں میں 16 گھنٹے کام کر کے رات دیر گئے گھر پہنچتی تو بستر پر گر جاتی۔ ابھی اس کی نیند پوری بھی نہیں ہوتی تھی کہ صبح ہونے پر ماں اسے اگلی شوٹنگ کے لیے تیار کرتی اور باپ اسے لے کر سٹوڈیو پہنچ جایا کرتا۔
وہ چائلڈ سٹار کے طور پر اس وقت کی فلموں کا لازمی حصہ بن گئی تھیں۔
چار سے تقریباً 11 سال کی عمر تک وہ چائلڈ سٹار کے طور پر کام کرتی رہیں۔ کوئی 14 سال کی عمر میں وہ ابھی پوری طرح جوان بھی نہیں ہو پائی تھیں کہ اُنھیں خاص قسم کے کردار دیے جانے لگے۔ مینا کماری کو لڑکپن میں ایک جوان لڑکی کا کردار نبھانے کے لیے خاص میک اپ اور مصنوعی اعضا کا استعمال کرنا پڑتا تھا۔
مینا کماری کے والد ماسٹر علی بخش کا تعلق پاکستانی پنجاب کے علاقے بھیرہ سے تھا۔ ماسٹر علی بخش پارسی تھیٹر میں ہارمونیم بجاتے تھے اور موسیقی کی تعلیم بھی دیتے تھے۔
اُنھوں نے فلم ‘شاہی لٹیرے’ کے گیت لکھے اور موسیقی ترتیب دی تھی۔ ماسٹر علی بخش ہر فن مولا قسم کے فنکار تھے۔
اُنھوں نے بعض فلموں میں اداکار کے طور پر چھوٹے موٹے کردار بھی کیے تھے جبکہ مینا کماری کی ماں پربھ وتی بنگالی تھیٹر سے رقاصہ کے طور پر وابستہ تھیں اور ماسٹر علی بخش سے شادی کے لیے ہندو مذہب چھوڑ کر مسلمان ہو گئی تھیں۔
مینا کماری کے والدین اگرچہ دونوں کام کرتے تھے لیکن اس کے باوجود گھر بار چلانے میں دقت پیش آ رہی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب ان کے ہاں ایک اور بیٹی پیدا ہو گئی تو اُنھوں نے فیصلہ کیا کہ اسے اناتھ آشرم (یتیم خانے) چھوڑ آتے ہیں۔ لیکن وہ اس پر عمل نہ کر پائے اور پھر اس بچی نے گھر والوں کی دنیا بدل دی۔
‘صاحب بی بی اور غلام’ سے وہ ٹریجڈی کوئین کہلائیں
سنہ 1951 میں فلم ‘بیجو باورا’ کا مہورت کیا گیا تو اس وقت کی سپر سٹار نرگس اس کی ہیروئن تھیں، پھر نجانے کیا ہوا کہ وہ یہ فلم چھوڑ گئیں۔
بھارت بھوشن کے ساتھ نرگس کے چھوڑے کردار میں مینا کماری آ گئیں تو اس وقت کے ایک فلمی جریدے نے کہیں یہ سرخی جما دی ’یہ منھ اور مسور کی دال۔‘
سینیئر اداکارہ بے بی تبسم بتاتی ہیں کہ ’میں نے مذکورہ فلم میں مینا کماری کے بچپن کا کردار ادا کیا ہے۔ یہ درست ہے کہ جب نرگس بیجو باورا کو چھوڑ کر گئی تھیں تو بہت باتیں بنائی گئی تھیں اور سچ تو یہ ہے کہ میں بھی بڑی مایوس ہو گئی تھی۔‘
‘نرگس اس وقت سٹار ایکٹریس تھیں اور ان کی بہت عزت بھی تھی۔ ذاتی طور پر مجھے نرگس کے ساتھ کام کرنے کا بہت شوق تھا لیکن یقین جانیں جب میں نے مینا کماری کے ساتھ کام کیا تو اتنی ہی خوشی ہوئی جتنی نرگس کے ساتھ کام کر کے ہو سکتی تھی۔‘
’بیجو باور‘ا اپنے دور کی سپر ہٹ فلم تھی۔ یاد رہے کہ یہ فلم بھی وجے بھٹ نے بنائی تھی جنھوں نے 1939 میں مینا کماری کو بطور چائلڈ سٹار اپنی فلم ‘لیدر فیس’ میں کاسٹ کیا تھا۔
مذکورہ فلم کے پوسٹر پر ’لیدر فیس‘ کے ساتھ ‘فرزندِ وطن’ بھی لکھا گیا تھا۔ ‘بیجو باورا’ کے بعد مینا کماری نے انڈین سنیما پر اداکاری کے وہ کرشمے دکھائے کہ اُنھیں خواتین اداکاراؤں کے لیے ایک مثال جانا گیا۔
ابرار علوی اور گرو دت کی فلم ‘صاحب بی بی اور غلام’ اور کمال امروہی کی فلم ‘پاکیزہ’ کے بعد تو مینا کماری کو ‘ٹریجڈی کوئین’ کہا گیا۔
خود مینا کماری سے جب پوچھا گیا کہ آپ کے کیریئر میں آپ کو اپنا کون سا کردار مشکل لگا، تو اس پر مینا کماری نے کہا کہ ‘صاحب بی بی اور غلام’ میں اُنھوں نے ایک باغی عورت کا کردار کیا تھا۔
یہ کردار پیچیدہ اس لیے تھا کیونکہ یہ عورت ظاہری طور پر جتنی باغی دکھائی دیتی ہے اندر سے اتنی ہی روایت پسند ہوتی ہے۔ کہتے ہیں کہ ’صاحب بی بی اور غلام‘ کی مینا کماری اور اصلی مینا کماری میں فرق نہیں تھا۔
——
یہ بھی پڑھیں :
——
مینا کماری نے اگرچہ دلیپ کمار کے ساتھ چار فلمیں کیں لیکن ان کی خواہش تھی کہ وہ ‘ٹریجڈی کنگ’ کے ساتھ کوئی سنجیدہ کردار کر پاتیں۔ وہ اشوک کمار کو اداکاری میں اپنا گرو مانتی تھیں اور ساتھی اداکاراؤں میں وہ نرگس سے بہت متاثر تھیں۔
مینا کماری کو قریب سے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ مینا کماری فنکارہ بڑی تھیں یا انسان؟
لیکن یہ حقیقت ہے کہ اُن کی ذاتی زندگی دکھوں کا ایک جوار بھاٹا تھی۔ بے بی تبسم نے ایک دن مینا کماری سے پوچھا زندگی میں آپ کو اتنی کامیابیاں ملی ہیں پھر بھی آپ بہت دکھی ہیں، اس کی وجہ کیا ہے؟
اس پر مینا کماری نے کہا کہ ’میں وہ بدنصیب پودا ہوں جسے زمین سے پھوٹتے ہی درخت سمجھ لیا گیا، موسموں سے پہلے ہی اس ننھے پودے سے پھل توڑے گئے۔ یہ نہیں سمجھا گیا کہ بیج، پھل اور فصل نہیں ہوتی، کیاری کو کھیت سمجھ کر اس پر فصلیں بوئی گئیں۔ میں وہ سیاہ بخت ہوں کہ جس نے اپنا بچپن دیکھا ہی نہیں۔’
مینا کماری نے تبسم سے کہا کہ وہ بچپن میں ماں، باپ اور بہن، بھائیوں کے لیے کماتی رہیں اور اب شوہر (کمال امروہی) کے لیے کما رہی ہیں۔ مینا کماری نے کمال امروہی سے سچی محبت کی تھی لیکن ان کی محبت میں خود غرضی شامل تھی۔
مینا کماری اس عمر میں فلم انڈسٹری سے وابستہ ہو گئی تھیں جب ابھی اُن کے سکول جانے کے بھی دن نہیں تھے۔ ذاتی طور پر وہ علم دوست تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر بنتی یا وکیل یہ تو پتہ نہیں لیکن وہ کچھ بھی بننے سے پہلے تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھیں۔
کسی صحافی نے اُن سے عجیب سوال کیا کہ آپ نے چار سال کی عمر میں اپنے لیے اداکاری کا انتخاب کیا؟ اس پر مینا کماری ہنس دیں اور پھر قدرے سنجیدگی سے کہنے لگیں کہ چار سال کی عمر میں کون انتخاب کر سکتا ہے کہ وہ کیا بنے گا یا کیا کرے گا؟ آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ میری تقدیر اور حالات نے مجھے اداکاری کرنے کے لیے منتخب کر لیا۔
مینا کماری کو ورثے میں ملنی والی محرومیوں نے اُنھیں جذباتی اور نفسیاتی طور پر بہت متاثر کیا تھا۔ غربت کی وجہ سے بچپن میں ہی اُنھیں عام بچوں کی طرح کھیلنے کودنے اور سکول جانے کے بجائے مزدوروں کی طرح دن رات شوٹنگز کرنی پڑیں۔
ممکن ہے نگار خانوں کی روشنیاں اور رونقیں بہت سے ذہنوں کو آسودگی بہم پہنچاتی ہوں لیکن ایک ایسی بچی جس کی عمر ابھی ماں کی گود اور باپ کے کندھوں پر جھولنے کی ہو، اس کے نازک کندھوں پر گھر بار کی ذمہ داری ڈال دی جائے تو اس کے ناپختہ ذہن اور ننھی روح پر کیا اثر پڑا ہو گا؟
مینا کماری کہتی تھیں کہ وہ اپنے دکھ دنیا میں لے کر آئی تھیں۔ گڈے گڑیوں سے کھیلنے اور ماں کی لوریاں سن کر نیند کی آغوش میں چلے جانے کے بجائے اُنھیں رُوپ بہروپ کی دنیا میں اپنے آپ کو لائٹس، کیمرہ اور ایکشن کی آوازوں پر رات دیر گئے کیمرے کے سامنے جاگنا پڑا تھا۔
اپنے اندر کی اداسی اور محرومیوں سے شکست خوردہ مینا کماری نے اپنے سے 15 برس بڑے کمال امروہی سے شادی کی مگر بدقسمتی سے اور بھی دکھ اپنی جھولی میں ڈال لیے۔ مینا کماری نے اپنے عروج کے زمانے میں کمال امروہی سے شادی کی تھی۔
کمال امروہی بھی اپنے زمانے کے بہت بڑے فلم میکر تھے۔ فلم ‘محل’ کی کامیابی نے ان کے قد میں غیر معمولی اضافہ کیا تھا۔ ‘مغلِ اعظم’ جیسی فلم کے ڈائیلاگ لکھنے پر اُنھیں فلم فیئر ایوارڈ ملا تھا۔
مینا کماری کی زندگی کی نمایاں فلم ‘پاکیزہ’ بھی کمال امروہی کی تخلیق تھی۔ کمال کو ’پاکیزہ‘ کے لیے چھ مختلف کیٹیگریز کے لیے فلم فیئر ایوارڈ دیے گئے تھے۔
مینا کماری کو بطور ہیروئن ان کی پہلی فلم ’بیجو باورا‘ کے لیے سنہ 1954 میں فلم فیئر سمیت انڈیا کے تمام قابل ذکر ایوارڈز دیے گئے تھے۔ سنہ 1955 میں اُنھیں ‘پری نیتا’ اور سنہ 1963 میں اُنھیں ‘صاحب بی بی اور غلام’ کے لیے فلم فیئر دیا گیا۔ اس سال بہترین ہیروئن کی تینوں نامزدگیاں مینا کماری سے منسوب ہوئیں۔
کمال نے پانچ سالہ مینا کماری کو بطور چائلڈ ایکٹر مسترد کیا تھا
سنہ 1966 کا فلم فیئر بھی مینا کماری نے اپنے نام کیا تھا۔ یہ ان کا چوتھا ایوارڈ تھا۔ وہ غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک تھیں لیکن پھر بھی اُنھیں احساس دلایا گیا کہ وہ قطرہ ہیں قلزم نہیں۔
وہ صرف ایک بے ترتیب لفظ ہیں، شعر، نغمہ اور غزل نہیں۔ ان کی حیثیت سنگ کی ہے۔ وہ ہمیشہ اس سنگ تراش کی محتاج ہیں جو پتھر سے وہ شاہکار بناتا ہے جس کی پوجا کی جاتی ہے۔
مینا کماری پر کمال امروہی کے علمی و خاندانی پس منظر اور ذاتی لیاقت کا رعب و دبدبہ رہا۔ مینا کماری کو شاعری کا شوق تھا اور ‘ناز’ تخلص رکھتی تھیں۔ کمال امروہی نے ہمیشہ ان کی شاعری کو عامیانہ کہہ کر ان کی حوصلہ شکنی کی تھی۔
سہراب مودی نے ایک مرتبہ مہاراشٹر کے گورنر سے تعارف کرواتے ہوئے کہہ دیا کہ یہ مشہور اداکارہ مینا کماری ہیں اور یہ ان کے شوہر کمال امروہی ہیں۔ اس پر کمال نے فوراً کہا کہ میں کمال امروہی ہوں اور یہ میری بیوی مشہور اداکارہ مینا کماری ہیں۔
’صاحب بی بی اور غلام‘ کو جرمنی میں ہونے والے برلن فلم فیسٹیول کے لیے منتخب کیا گیا تھا اور نمائندگی کے لیے مینا کماری کو بھی دعوت دی گئی لیکن کمال امروہی نے مینا کماری کے ساتھ جرمنی جانے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
کمال کے طرف سے مینا کو مسترد کرنے کا پہلا موقع 1938 میں آیا تھا جب سہراب مودی کی فلم ‘جیلر’ جس کا سکرپٹ کمال امروہی لکھ رہے تھے، اس فلم کے لیے ایک بچی کے کردار کے لیے چائلڈ ایکٹریس کو دیکھنے ماسٹر علی بخش کے ہاں گئے۔
مینا (بے بی مہ جبین) نے کیلا کھاتے ہوئے اپنے چہرے پر مل لیا تھا جس پر کمال نے مینا کو مسترد کر دیا اور پھر ایسا ہوا کہ 14 برس بعد 1952 میں دونوں نے شادی کر لی۔
معروف صحافی ونود مہتا نے مینا کماری کی سوانح حیات میں لکھا ہے کہ مینا کماری شادی کے بعد جسمانی تشدد کا نشانہ بنائی جاتی رہی تھیں۔ اگرچہ کمال امروہی نے ایسے الزامات کی تردید کی تھی لیکن متذکرہ صحافی کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے چھ مختلف ذرائع سے تصدیق کی تھی کہ مینا کماری کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھا گیا تھا۔
کمال امروہی سے علیحدگی کے بعد دھرمیندر اور گلزار مینا کماری کی زندگی میں آئے۔ مینا کماری نے دھرمیندر کے ساتھ کئی فلموں میں کام کیا جن میں ‘پورنما’، ‘پھول اور پتھر’، ‘دائرہ’، اور ‘بہو بیگم’ سمیت دیگر فلمیں شامل تھیں۔ مینا کماری نے اپنے اثر و رسوخ سے دھرمیندر کو کریئر میں فائدہ پہنچایا اور جب دھرمیندر نے محسوس کیا کہ اب ان کے کریئر کی گاڑی چل پڑی ہے تو اُنھوں نے اپنی راہ جدا کر لی۔
مینا کماری نے فلمسازوں اور ہدایتکاروں سے کہہ کر دھرمیندر کو فلمیں سائن کروائیں۔ ایک مرتبہ ایک پارٹی میں دھرمیندر نے بہت زیادہ شراب پی لی۔ وہ اپنے قدموں پر بھی کھڑے نہیں ہو پا رہے تھے۔ مینا کماری اُنھیں سب کے سامنے سہارا دے کر اپنے ساتھ گاڑی میں لے گئیں۔
اس واقعے کے بعد میناکماری اور دھر میندر کے معاشقے کے چرچے ہوئے۔ تاہم جہاں کمال امروہی نے مینا کماری کے جذبات کی قدر نہ کی وہیں دھرمیندر نے فلم انڈسٹری میں عروج پانے کے لیے مینا کماری کی محبت کو سیڑھی بنایا۔
بمل رائے کی فلم ‘بے نظیر’ کے سیٹ پر مینا کماری کی گلزار سے ملاقات ہوئی تو دونوں میں قربت ہو گئی۔ شوٹنگ سے فارغ ہونے کے بعد مینا اور گلزار گھنٹوں ٹیلی فون پر بھی بات کرنے لگے تھے۔
ممبئی سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی بتاتے ہیں کہ میر تقی میر، غالب اور فیض کی شاعری پر باتیں کرتے کرتے دونوں دل کی باتیں بھی کرنے لگے تھے لیکن محبت کی یہ بیل بھی منڈھے نہ چڑھی۔
کمال نے بے وفائی کی تو گلزار نے بھی اس کے دل کے گلشن کو بہار کے بجائے خزاں دی۔
کہتے ہیں کہ مینا کماری اور گلزار کے مابین رشتے کو معاشقہ نہیں بلکہ کتاب دوستی کا نام دینا چاہیے۔ گلزار صاحب کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ مینا کماری کی شاعری جسے کمال امروہی بے کیف اور بے معنی کہا کرتے تھے وہ اسے اہمیت دیتے تھے۔
گلزار نے یہ شاعری ان کے مرنے کے بعد ‘میناکماری کی شاعری’ کے نام سے شائع کروائی تھی۔
ونود مہتا نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ کمال امروہی کے سیکریٹری اور اسسٹنٹ باقر جنھیں نگار خانوں میں ‘کمال امروہی کا جاسوس’ بھی کہا جاتا تھا اُنھوں نے مینا کماری سے انتہائی بدتمیزی کی تھی۔
باقر اتنے خود سر تھے کہ اُنھوں نے مینا کماری کو تھپڑ دے مارا تھا۔ ہوا یوں تھا کہ گلزار سٹوڈیو میں مینا کماری سے ملاقات کرنے کے لیے میک اپ روم میں آئے تو باقر نے مینا کماری سے جھگڑتے ہوئے اُنھیں تھپڑ رسید کر دیا۔
جسمانی تشدد اور بدتمیزی کے اس مظاہرے پر مینا کماری نے کمال امروہی سے باقر کو نوکری سے برخاست کرنے کے لیے کہا لیکن اُنھیں سزا دی گئی اور نہ ہی نوکری سے نکالا گیا۔
مینا کماری کو رات بھر جاگنے کی بیماری لاحق ہو گئی تھی۔ سنہ 1963 میں ڈاکٹر نے مینا کماری کو تجویز کیا کہ وہ نیند لینے کے لیے ایک جام برانڈی کا پی لیا کریں۔
نیند کا یہ نسخہ مینا کماری نے اپنے لیے موت کا نسخہ بنا لیا۔ کثرتِ شراب نوشی سے مینا کماری کو جگر کا کینسر لاحق ہو گیا تھا۔ سنہ 1968 میں اُنھیں علاج کے لیے سوئٹزر لینڈ اور لندن لے جایا گیا جہاں وہ جون سے اگست تک اپنی معالج ڈاکٹر شیلا شرلاک کے پاس زیر علاج رہیں۔
زندگی کے آخری دنوں میں کمال اور مینا کی فلم ’پاکیزہ‘ کی سنہ 1972 چار فروری کو بالآخر نمائش ہو گئی۔ یہ فلم جس کا مہورت 16 جولائی 1956 کو ہوا تھا لگ بھگ سولہ سال بعد ریلیز ہوئی تھی۔
فلم کی تکمیل میں اس قدر تاخیر کی بڑی وجہ کمال اور مینا کے بنتے بگڑتے تعلقات ہی تھے۔ اگرچہ کمال امروہی نے مینا کماری کو طلاق دی تھی۔ وہ کہتی تھیں کہ میری زندگی کا سب سے بدنصیب دن وہ تھا جب کمال نے مجھے طلاق دی تھی۔
مینا کماری کمال امروہی سے شدید ناراض تھیں لیکن اس کے باجود اُنھوں نے فلم ’پاکیزہ‘ مکمل کروائی تھی۔ کمال امروہی اور مینا کماری کی ’پاکیزہ‘ برصغیر کی وہ فلم ہے جس پر جتنا ناز کیا جائے کم ہے۔
مذکورہ فلم میں کمال امروہی اور میناکماری کا فن عروج پر دکھائی دیتا ہے۔ فلم کی ریلیز کے بعد مینا کماری کی طبیعت بگڑ گئی تھی، وہ ستمبر میں ممبئی واپس آئیں اور ساون کمار کی زیر تکمیل فلم کی شوٹنگز میں شریک ہوگئیں حالانکہ اُنھیں مکمل آرام تجویز کیا گیا تھا۔
ایک مرتبہ نرگس نے مینا کماری کا دکھ اور اضطراب دیکھتے ہوئے کہا تھا کہ ‘مینا! تمھیں آرام کرنا چاہیے۔ اس پر مینا کماری نے کہا تھا کہ ‘آرام میرے بھاگ میں کہاں۔ میں ایک ہی مرتبہ آرام کروں گی۔‘
مینا کماری اور نرگس کا رشتہ بہنوں جیسا تھا۔ مینا کماری نرگس کو باجی کہا کرتی تھیں۔
دونوں دکھ سکھ کی ساتھی تھیں۔ دو دن کومے میں رہنے کے بعد جب مینا کماری مر گئیں تو نرگس کا تعزیتی جملہ روح تڑپا دینے والا تھا۔ نرگس نے مینا کماری کی میت سے مخاطب ہو کر خشک پتھرائی ہوئی آنکھوں سے کہا تھا کہ ‘مینا! تمھیں موت مبارک ہو۔’
دکھوں اور آلام کی شاید یہی وہ منزل ہے جس کے لیے غالب نے بھی کہا تھا کہ
——
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
——
منتخب کلام
——
تیری عنایتوں کا انداز جداگانہ
کبھی رو پڑے مقدر ، کبھی ہنس پڑا زمانہ
——
تیری آواز میں تارے سے کیوں چمکنے لگے
کس کی آنکھوں کے ترنم کو چُرا لائی ہے
کس کی آغوش کی ٹھنڈک پہ ڈاکہ ڈالا ہے
کس کی بانہوں سے تو شبنم کو اُٹھا لائی ہے
——
ہاں کوئی اور ہو گا تو نے جو دیکھا ہو گا
ہم نہیں آگ سے بچ بچ کے گزرنے والے
——
نہ انتظار ، نہ آہٹ ، نہ تمنا ، نہ امید
زندگی ہے کہ یوں بے حس ہوئی جاتی ہے
——
سنبھلتا نہیں دل کسی بھی طرح
محبت کی ہائے تباہ کاریاں
——
شمع ہوں ، پھول ہوں یا ریت پہ قدموں کا نشاں
آپ کو حق ہے مجھے جو بھی چاہے کہہ لیں
——
آبلہ پا کوئی اس دشت میں آیا ہوگا
ورنہ آندھی میں دیا کس نے جلایا ہوگا
——
آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا
جب میری کہانی میں وہ نام نہیں ہوتا
——
عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے
——
کہیں کہیں کوئی تارہ کہیں کہیں جگنو
جو میری رات تھی وہ آپ کا سویرا ہے
——
یوں تیری رہ گزر سے دیوانہ وار گزرے
کاندھے پہ اپنے رکھ کے اپنا مزار گزرے
بیٹھے ہیں راستے میں دل کا کھنڈر سجا کر
شاید اسی طرف سے اک دن بہار گزرے
دار و رسن سے دل تک سب راستے ادھورے
جو ایک بار گزرے وہ بار بار گزرے
بہتی ہوئی یہ ندیا گھلتے ہوئے کنارے
کوئی تو پار اترے کوئی تو پار گزرے
مسجد کے زیر سایہ بیٹھے تو تھک تھکا کر
بولا ہر اک منارہ تجھ سے ہزار گزرے
قربان اس نظر پہ مریم کی سادگی بھی
سائے سے جس نظر کے سو کردگار گزرے
تو نے بھی ہم کو دیکھا ہم نے بھی تجھ کو دیکھا
تو دل ہی ہار گزرا ہم جان ہار گزرے
——
جب چاہا اقرار کیا ہے جب چاہا انکار کیا
دیکھو ہم نے خود ہی سے یہ کیسا انوکھا پیار کیا
ایسا انوکھا ایسا تیکھا جس کو کوئی سہہ نہ سکے
ہم سمجھے پتی پتی کو ہم نے ہی سرشار کیا
روپ انوکھے میرے ہیں اور روپ یہ تو نے دیکھے ہیں
میں نے چاہا کر بھی دکھایا یا جنگل گلزار کیا
درد تو ہوتا ہی رہتا ہے درد کے دن ہی پیارے ہیں
جیسے تیز چھری کو ہم نے رہ رہ کر پھر دھار کیا
کالے چہرے کالی خوشبو سب کو ہم نے دیکھا ہے
اپنی آنکھوں سے ان کو شرمندہ ہر اک بار کیا
روتے دل ہنستے چہروں کو کوئی بھی نہ دیکھ سکا
آنسو پی لینے کا وعدہ ہاں سب نے ہر بار کیا
کہنے جیسی بات نہیں ہے بات تو بالکل سادہ ہے
دل ہی پر قربان ہوئے اور دل ہی کو بیمار کیا
شیشے ٹوٹے یا دل ٹوٹے خشک لبوں پر موت لئے
جو کوئی بھی کر نہ سکا وہ ہم نے آخر کار کیا
نازؔ ترے زخمی ہاتھوں نے جو بھی کیا اچھا ہی کیا
تو نے سب کی مانگ سجائی ہر اک کا سنگار کیا
——
آغاز تو ہوتا ہے انجام نہیں ہوتا
جب میری کہانی میں وہ نام نہیں ہوتا
جب زلف کی کالک میں گھل جائے کوئی راہی
بدنام سہی لیکن گمنام نہیں ہوتا
ہنس ہنس کے جواں دل کے ہم کیوں نہ چنیں ٹکڑے
ہر شخص کی قسمت میں انعام نہیں ہوتا
دل توڑ دیا اس نے یہ کہہ کے نگاہوں سے
پتھر سے جو ٹکرائے وہ جام نہیں ہوتا
دن ڈوبے ہے یا ڈوبی بارات لیے کشتی
ساحل پہ مگر کوئی کہرام نہیں ہوتا
——
عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
میرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے
نمی سی آنکھ میں اور ہونٹ بھی بھیگے ہوئے سے ہیں
یہ بھیگا پن ہی دیکھو مسکراہٹ ہوتی جاتی ہے
تیرے قدموں کی آہٹ کو ہے دل یہ ڈھونڈھتا ہر دم
ہر اک آواز پہ اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے
یہ کیسی یاس ہے رونے کی بھی اور مسکرانے کی
یہ کیسا درد ہے کہ جھنجھناہٹ ہوتی جاتی ہے
کبھی تو خوب صورت اپنی ہی آنکھوں میں ایسے تھے
کسی غم خانہ سے گویا محبت ہوتی جاتی ہے
خود ہی کو تیز ناخونوں سے ہائے نوچتے ہیں اب
ہمیں اللہ خود سے کیسی الفت ہوتی جاتی ہے
——
اے میرے اجنبی
——
تو چلا جائے گا
وقت آنسو ہی آنسو میں ڈھل جائے گا
وقت آہوں میں میری بدل جائے گا
وقت یادوں سے تیری بہل جائے گا
جسم لاوے کی صورت پگھل جائے گا
ذہن پارے کی صورت پھسل جائے گا
تو چلا جائے گا
اے میرے اجنبی
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ