آج اردو کو سب سے پہلے اپنی سلطنت کی سرکاری زبان بنانے والے اور نامور شاعر نظام الملک حیدرآباد میر محبوب علی خان آصف جا ششم کا یومِ وفات ہے۔

——
میر محبوب علی خان 1866ء میں پیدا ہوئے۔۔ انہیں 1869ء میں مکمل اختیارات کے ساتھ قلمرو آصفی کا حضور نظام تسلیم کر لیا گیا۔حیدرآباد میں سرکاری زبان انہیں کے دور 1884 ء میں فارسی سے اردو کر دی گئی۔اردو کے بہترین شاعر تھے لیکن فارسی ، عربی اور انگریزی پر بھی عبور کھتے تھے۔فرہنگ آصفیہ ان ہی کی سرپرستی کا نتیجہ تھا۔۔مولوی عبدالحق مصنف تفسیر حقانی،قدر بلگرامی،مولانا شبلی، الطاف حسین حالی،پنڈت رتن ناتھ سرشار، مولانا عبد الحلیم شرر جیسے ان گنت ارباب علم نے ان کی سرپرستی میں ساری زندگی کسب معاش سے بے نیاز ہو کرآرام سے گزار دی۔داغ دہلوی کا سرکار آصفیہ سے پندرہ سو روپیہ وظیفہ مقرر تھا۔ان کی علمی سرپرستی کی وجہ سے انہیں شاہ العلوم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
——
کارنامے
——
1869ء میں ان کے ہی دورحکمرانی میں نظام اسٹیٹ ریلوے کا قیام عمل میں آیا جس سے حیدرآباد تا ممبئی تجارتی راہداری کھولنے میں مدد ملی۔
1884ء میں انہوں نے ہی محکمہ پولیس و محابس قائم کیا۔
——
یہ بھی پڑھیں : میر تقی میر کا یوم وفات
——
آصفیہ لائبریری جو آج اسٹیٹ سنٹرل لائبریری کی حیثیت سے موجود ہے 1884ء میں اس کے قیام کے ذریعہ آنے والی نسلوں کے لیے ریاست کا سب سے بڑا کتب خانہ فراہم کیا۔ 1872ء میں قائم کردہ مدرسہ عالیہ بھی ان ہی کے دور حکمرانی کی یادگار ہے۔
1884ء میں محبوب علی پاشاہ کے دور میں ہی سرکاری زبان فارسی کی بجائے اردو کی گئی۔ تحقیق و تالیف اور ترامیم کے لیے دنیا بھر میں کبھی مشہور رہے۔ دائرۃ المعارف کا 1892 میں قیام عمل میں لاکر اس انسانیت نواز حکمراں نے تعلیمی تحقیق کو ریاست میں ایک نئی جہت عطا کی۔
اسی طرح باغ عامہ (پبلک گارڈن) عوام کے لیے کھولنے کا اعزاز بھی ان ہی کو جاتا ہے۔
نواب میر محبوب علی خاں نے انتظامی اصلاحات کے لیے 1874 میں قانونچے مبارک متعارف کروایا جس کے ذریعہ وزراء و امرا اور حکام کے اختیارات متعین کیے گئے۔
آج تلنگانہ قانون ساز اسمبلی کی جو عظیم عمارت دیکھتے ہیں، 1905ء میں اس کا سنگ بنیاد بھی رکھا گیا تھا۔
اسی طرح 1908ء میں قائم نظام آبزروٹری بھی محبوب علی پاشاہ کی کئی ایک یادگاروں میں سے ایک یادگار تھی۔
——
منتخب کلام
——
منہ نہ کھولے بحر میں جب تک صدف
آبِ نسیاں سے گُہر ملتا نہیں
——
آصفؔ تو کبھی قول سے اپنے نہیں پھرتا
وہ اور کوئی ہو گا ، کہا اور کِیا اور
——
آصف کو جان و مال سے اپنے نہیں دریغ
گر کام آئے خلق کی راحت کے واسطے
——
کبھی نہ دب کے لیں گے ہم ان سے آصف
وہ شاہِ حسن سہی، شہر یار ہم بھی ہے
——
لو اور سنو کہتے ہیں وہ دیکھ کر مجھکو
یہ شخص بلاشبہ ہے دیوانہ کسی کا
——
نہیں ہے اگر تو ہمارا تو کیا ہے
زمانہ میں کوئی کسی کا ہوا ہے
——
لاؤ تو قتل نامہ مرا میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سرِمحضر لگی ہوئی
——
مژدہ قاصد کا روح افزا تھا
وہ فرشتہ خدا نے بھیجا تھا
جلوۂ یار کیا کہوں کیا تھا
اُس کی قدرت کا اک تماشا تھا
میں نے پوچھا رقیب کیسا تھا
جل کے بولے ترا کلیجا تھا
اب یہ جانا کہ ہم کو دھوکا تھا
دل ہمارا نہ تھا تمہارا تھا
لوٹتا تھا کوئی تڑپتا تھا
کُوئے قاتل میں اک تماشا تھا
ابھی آنسو پلک تک آیا تھا
ابھی دیکھا تو ایک دریا تھا
بزم میں اُس کی ایک میلا تھا
ہم نہ تھے اُس جگہ زمانا تھا
حشر میں بھی کہیں گے تجھ سے ہم
تجھ پہ دعوا ہے تجھ پہ دعوا تھا
اختلافِ مزاج سے نہ نبھی
کوئی قصہ نہ کوئی جھگڑا تھا
اُنکو بزمِ عدو میں جب دیکھا
راگ تھا رنگ تھا تماشا تھا
ماتمِ غیر میں وہ سو سو بار
مجھ سے کہتے تھے تجھ سے اچھا تھا
جا کے کنجِ لحد میں ہم سمجھے
زندگی عمر بھر کا جھگڑا تھا
درِ جاناں پہ جُبہہ سائی کی
اپنی تقدیر کا یہ لکھا تھا
دلِ عُشاق پر چھری سی پھری
کیا کہوں اک نگاہ میں کیا تھا
کہتے ہیں وہ کہے سُنے پہ نہ جاؤ
غیر کے پاس تم نے دیکھا تھا ؟
کہتے ہوں گے عدم میں اہلِ عدم
زندگی کا عجیب میلا تھا
چال تھی اُس کی یا قیامت تھی
نقشِ پا سے بھی فتنہ برپا تھا
زلف میں دل اگر نہ تھا نہ سہی
کیوں جی مٹھی میں آپ کی کیا تھا
کہتے ہیں قتل کر کے عاشق کو
اس نے کیا اپنے دل میں سمجھا تھا
غور کر لو شبِ فراق کا غم
مجھ سے کیا پوچھتے ہو تم کیا تھا
جلوہ تیرا کسی زمانے میں
جس نے دیکھا تھا اُس نے دیکھا تھا
دل نشیں غیر کا خیال رہا
وہ تو خلوت میں بھی نہ تنہا تھا
اب زمانے کا رنج ہے آصفؔ
کیا خوشی کا کبھی زمانا تھا
——
شعری انتخاب از محبوب الکلام شمارہ نمبر 2 ، گلدستۂ فیض
مصنف : میر محبوب علی خان آصف