آج ممتاز شاعر ڈاکٹر معین احسن جذبی کا یومِ پیدائش ہے۔

——
معین احسن جذبی ایک نظر میں
نام : معین احسن جذبیؔ
پیدائش 21 اگست 1912ء
مقام پیدائش : قصبہ مبارک پور ،
ضلع اعظم گڑھ ( یوپی)
پہلا تخلص ملالؔ دوسرا اور آخری تخلص جذبیؔ
تعلیم : ایم اے 1940ء ۔ پی ایچ ڈی (اردو) 1956ء، مسلم یونیورسٹی ، علی گڑھ
ابتدائی تعلیم : ہایئ سکول ۔ جھانسی
ایف ۔ ایس سی سینٹ جانسن کالج آگرہ 1929ء سے 1931ء تک ۔ بی اے اینگلو عربک کالج (ذاکر حیسن کالج) دہلی 1936ء تا 1938ء تک
ملازمت: 1 ۔ اترپردیش سیکریٹیریٹ لکھنؤ میں مترجم ( مدت ملازمت چار مہینے)
2 ۔ 1938ء میں مہارژٹرا اسکریٹیریٹ بمبئی میں مترجم ۔ 3 ۔ اگست 1943ء سے فروری 1945ء تک نائب مدیر رسالہ "آجکل”
4 ۔ 1945ء سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے شعبہ اردو میں لیکچرار اور 1961ء میں ریڈر
6 ۔ ملازمت سے سبکدوشی : 21 اگست 1974ء
——
تصانیف
——
شعری مجموعے ۔ 1 ۔ فروزاں ۔ 2 ۔ سخن مختصر ۔ 3 ۔ گدازِ شب ( مذکورہ مجموعوں کے منتخب کلام میں شامل ہیں)
نثری تصانیف : 1 ۔ حالی کا سیاسی شعور ( دراصل یہ جذبیؔ کے پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے)
——
یہ بھی پڑھیں : داغ دہلوی کے شاگرد علامہ سیماب اکبر آبادی کا یوم وفات
——
2 ۔ طلسم ہوش ربا
3 ۔ خود نوشت سوانح
اعزازات : غالب ایوارڈ ، امتیاز میر ، مہارشٹر اردو اکادمی ایوارڈ ، ہریانہ اردو اکادمی ایوارڈ ، اقبال سمان ، اعزازِ غالب ( غالب انسٹی ٹیوٹ ، نئی دہلی نے 25 اکتوبر 2000ء کو ان کی ادبی خدمات کی بنا پر اعزاز سے نوازا۔
وفات : ڈاکٹر جذبی 13 فروری 2005ء کو علی گڑھ میں خالق حقیقی سے جا ملے
——
معین احسن ملال سے جذبی تک کاسفر از ڈاکٹر نسرین رئیس خاں
——
بقول جذبی :
” وہ زمانہ بڑا عجیب تھا، ہر ہفتہ پابندی کے ساتھ جلسہ ہوتا تھا اور جب کوئی ادبی ہستی علی گڑھ آتی تھی تو اس کے اعزاز میں اس کی نشست ضرور ہوتی تھی۔ ان ادبی جلسوں میں مقالے، افسانے، غزلیں، نظمیں غرض جو بھی ادبی تخلیق پیش کی جاتی تھی ان پر حاضرین بزم دیر تک گفتگو کیا کرتے تھے جن ممتاز ادبی شخصیتوں نے ان جلسوں کو زینت بخشی ان کے نام یہ ہیں۔ حیات اللہ انصاری، اختر حسین رائے پوری، پروفیسر مجیب، قاضی عبد الغفار بابائے اردو مولوی عبد الحق لیکن بد قسمتی سے انجمن کی ادبی فضا باہمی اختلافات کا شکار ہوگئی۔“جذبی شاعری میں استادی شاگردی کے قائل نہیں ان کا باضابطہ کوئی شاگرد نہیں البتہ انہوں نے اپنے دوستوں کو مشورے دیئے ہیں ان کے کلام پر اصلاح بھی کی ہے۔ مگر وہ کسی کو اپنا شاگرد نہیں کہتے ترقی پسند تحریک کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ اس نے سیاست سے شعر و ادب کو ملا دیا۔ ۸۵۹۱ءمیں جب میرا مجموعہ کلام ”فروزاں“ چھپا تو میں نے اس کے دیباچے میں اپنے خیالات کو وضاحت کے ساتھ پیش کیا اس وقت ترقی پسند تحریک میں شاعر اور ادیب محدود ہوکر رہ گئے تھے۔
معین احسن جذبی کو اپنے معاصر شعراء میں مجاز، فیض احمد فیض، مخدوم محی الدین ، مجروح سلطانپوری اور خلیل الرحمن اعظمی کا کلام پسند ہے۔ مجروح سلطانپوری کو وہ اس دورکا سب سے بہتر شاعر سمجھتے ہیں ان کا کہنا ہے ۔
غزل کہنے کا سلیقہ میری نظر میں اگر ہے تو وہ مجروح میں ہے۔ گو کہ مجروح نے کم کہا ہے لیکن اس میں وہ ساری چیزیں سموئی ہیں جو کہ ایک اچھی شاعری میں ہونا چاہئے۔“
اصناف سخن میں جذبی کو غزل زیادہ پسند ہے لیکن وہ نظم کی اہمیت کے بھی قائل ہیں۔ وہ شاعر کی طبیعت کو تخلیق کے مطابق آزاد رکھنا چاہتے ہیں کسی صنف کا اسے پابند نہیں کرنا چاہتے، ان کے نزدیک جذبے اور کسی کیفیت کااظہار کسی وقت ایک ہی مصرع میں ہوجاتا ہے اور ایسا بھر پور ہوجاتا ہے کہ دوسرے مصرع کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ مثلاً میر کا یہ مصرع
اب کے بھی دن بہار کے یوں ہی گزرگئے
یا فیض احمد فیض کی نظم صبح آزادی کا یہ مصرع
یہ داغ داغ اجالا یہ شب گزیدہ سحر
یہ دونوں مصرعے اپنی اپنی جگہ شاعر کے تجربے کی مکمل ترجمانی کرتے ہیں،ایک ہی مصرع میں سارا تاثر اس طرح سمٹ آیاہے کہ اس کی وضاحت کے لئے دوسرے مصرعے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اس بات کی توضیح کے لئے جذبی کے مجموعے کلام ”فروزاں“ کے دیباچہ کا یہ اقتباس کافی ہوگا۔
میں ہنگامی ادب کا کچھ زیادہ قائل نہیں ہوں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ادھر ایک واقعہ ہوا اورادھر ایک نظم تیار ہوگئی۔ یہ اس وقت تو ممکن ہے جب کہ ذہن پہلے سے اس کے لئے تیار ہو بلکہ شاعر کے مزاج سے بھی ہم آہنگ ہو۔ اسی کو ہضم کرنا اور رچانا بچانا بھی کہتے ہیں۔ اس کے لئے بعض اوقات کا فی مدت درکار ہوتی ہے۔ جو حضرات ہضم کرنے اور رچانے بچانے کو غیر ضروری خیال کرتے ہیں ان کے یہاں گہرائی اور گیرائی کے بجائے جذباتیت اور سطحیت کا پیدا ہونا ضروری اور لازمی ہے۔ اس سلسلے میں ایک اور بات یاد آگئی ، یہ زمانہ سیاسی ہنگاموں کا زمانہ ہے، ہر چھوٹا بڑا شاعر کچھ سیاسی شعور بھی رکھتا ہے لیکن ہمارے بعض ترقی پسند شاعر کسی نہ کسی جماعت سے وابستہ ہیں۔ یہ حضرات اپنی جماعت کی وفاداری کی رو میں صرف وہی دیکھتے اور سوچتے ہیں جو کہ ان کی اپنی جماعت دیکھتی اور سوچتی ہے اس طرح وہ صرف اپنی جماعت کے نقیب بن جاتے ہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : کیا یہ غمِ جاناں کا تو اعجاز نہیں ہے
——
انہیں اس سے غرض نہیں کہ ان کی جماعت کی پالیسی غلط ہے یا صحیح۔ اس رویے سے ایک قسم کا ادبی انتشار پیداہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ۷۴۹۱ءکا زمانہ لیجئے جب ہندوستان آزاد ہوا تھا اس وقت بعض شاعروں نے اپنی جماعت کی پالیسی کے مطابق آزادی کی مدح میں نظمیں لکھی تھیں لیکن چند ماہ بعد جب ان کی جماعت کی پالیسی میں تبدیلی ہوئی تو یہی شاعر ”فریب آزادی“ کے عنوان سے نظمیں کہنے لگے۔ یہ نظمیں پہلی نظموں کی طرح بالکل بے جان تو نہیں تھیں لیکن پڑھنے والے یقینا اس پریشانی میں پڑ گئے کہ پہلی بات درست ہے یا دوسری آزادی کو آزادی سمجھیں یا فریب آزادی۔
میرا خیال ہے کہ اگر وہ ابتدا ہی میں اپنے دل و دماغ سے کام لیتے اور اپنے ذاتی رد عمل پر بھروسہ کرتے تو شاید ہی یہ تضاد پیداہوتا ۔سیاست میں مصلحت کو بہت کچھ دخل ہے۔ لیکن مصلحت پر شعر کی بنیاد تو نہیں رکھی جاسکتی مصلحت جزوی صداقت ہوتی ہے اور شاعری کامل صداقت چاہتی ہے۔ اور اس کامل صداقت ہی سے وہ جذبہ پیدا ہوتا ہے جو شعر کی جان ہے۔ مصلحت کی بنا پر جب کبھی کچھ کہا گیا ہے اسے ادب کے بجائے صحافت کے دامن میں جگہ ملی ہے۔
آج کچھ کہنا اور کل اس کی نفی کردینا، صحافت میں تو ممکن ہے مگر شعر ادب میں نہیں۔ شعر و ادب کے لئے ایک مربوط نظام فکر کی ضرورت ہے ایسا نظام فکر جو عقیدہ بلکہ ایمان بن چکا ہو۔ ادھر کچھ عرصہ سے ترقی پسندوں میں ایک رجحان پیدا ہوگیا ہے جو بڑی حد تک تنگ نظری پر مبنی ہے۔ ہمارے شاعر و ادیب یہ سمجھنے لگے ہیں کہ حسن و عشق کاذکر ترقی پسندی کے مذہب میں وہ گناہ ہے جو شاید ہی بخشا جائے ۔ ترقی پسندی صرف سیاست کا نام ہے۔ اس کے علاوہ ادب میں جو چیز بھی آئے گی غیر ترقی پسند ہوگی، یہ رجحان اگر جڑ پکڑ گیا تو ہمارے ادیبوں کی دنیا مختصر سے مختصرہوتی چلی جائے گی۔ مانا کہ سیاست بڑی حقیقت ہے۔ لیکن سیاست کا اثر ہماری زندگی کے کسی شعبہ پر نہیں پڑتا جنسی اور معاشرتی مسائل سے سرمایہ داری کے بھیانک چہرے کی نقاب پورے طور سے نہ اٹھ سکے گی ۔رہے حسن و عشق کے خالص انفرادی جذبات سو ان کے متعلق صرف یہ عرض کروں گا کہ ازل سے آج تک یہ دلوں کو گرماتے رہے ہیں اور گرماتے رہیں گے۔
معین احسن جذبی ہمارے عہد کے بہت ممتاز شاعر و ادیب ہیں۔ وہ خاموش مزاج اور گوشہ نشین شخص ہیں۔ محفلوں میں شرکت اور مباحثوں میں شمولیت ان کے مزاج کا کوئی حصہ نہیں۔ ان کی تمام تر دلچسپیاں، ادبی مطالعہ اور فکر و فن سے تعلق رکھتی ہیں۔
انہوں نے ابتدائے عمر سے لے کر اس زمانہ حیات تک زندگی کی راہ پر سفر کیا ہے۔ اس میں وہ قدم قدم پر مشکلات سے دوچار ہونے کے باوجود یہ کہیے کہ وہ چراغ جلاتے ہوئے گزرے ہیں یہ ان کی شاعرانہ فکر و نظر کے چراغ ہیں۔ان کی ادبی سوچ اور تخلیقی حسیت پر ان کی اپنی تعلیم و تربیت وسائل معاش اور طرز معاشرت کا بھی اثر پڑا ہے کہ وہ بھیڑ کے ساتھ رہنے والوں میں نہیں ہیں۔ شروع ہی سے انہوں نے اپنی شناخت الگ قائم کی۔ اپنے دور کی عصری آگہی اور شعر و شعور سے تو کوئی شاعر بھی بے نیاز انہ نہیں گزر سکتا تو جذبی کیسے گزرتے۔ انہوں نے جوش، اقبال، حالی، اور حسرت غرضیکہ ان تمام ممتاز شخصیتوں کاایک گونہ اثر قبول کیا جو ان کے دور کے اہم حوالوں میں شامل تھے۔ حالی گزر چکے تھے لیکن حالی کا مطالعہ دیر تک اور دور تک رہنما روشنی کے طو ر پر ان کے ساتھ رہا۔
میر کا اثر بھی انہوں نے قبول کیا۔ ان کے لہجے کی نرمی، طبیعت کی درد مندی اور دوسروں سے الگ رہنے کا رویہ یوں بھی ان کو میر سے قریب لے آتا ہے۔ ان کی زندگی میں میر کی طرح ناکامیاں اور جذباتی یا حسیاتی سطح پر نا مرادیاں کچھ زیادہ شامل رہیں۔ جن کی وجہ سے ان کی زندگی کا سوز و گداز ان کی غزل میں شامل ہوگیا اگر چہ وہ فانی کے انداز میں اپنی کسی محرومی پر ماتم کرتے نظر نہیں آتے۔ شروع میں انہوں نے ملال تخلص اختیار کیا۔ وہ بھی ان کی الم پسندی کی نشاندہی کرتا ہے یہ سوز حیات ان کے یہاں ساز حیات بھی ہے۔ اس لئے کہ انہوں نے غم کے اندھیروں میں اپنے شوق وذوق ، اپنے جذبے، اپنے حوصلے اور اپنی انفرادی شخصیت کا قدم قدم پرسہارا لیا ہے جو شعور حیات کے بغیر ممکن نہیں اور اسی نے ان کے شاعرانہ لہجے کو زیادہ حسین و دل آویز بنایا ہے۔
معین احسن جذبی کی زندگی ان کے ذہن ان کی تہذیبی فکر اور ادبی حسیت پربہت کم لکھا گیا ہے کہیں کہیں کچھ تعارفی تحریریں یا نیم تنقیدی اور نیم تحسینی مضامین دیکھنے کو ملتے ہیں اور یہ بھی خال خال جو جذبی کی شخصیت کے ساتھ ادبی نا انصافی ہے۔
راقمہ نے معین احسن جذبی کو جب اپنے خصوصی مطالعے کے لئے انتخاب کیا تو کچھ باتیں پہلے سے بھی ذہن میں تھیں۔ خاص طور پر ان کا یہ حوصلہ کہ انہوں نے کبھی بھی زمانے سے شکست نہیں کھائی۔ وہ عملی زندگی میں بھی اپنے سہارے پر کھڑے رہے اور ادبی سفر میں بھی ان کے سامنے بہت سے موڑ آئے لیکن انہوں نے وقتی طور پر کسی سے کوئی تاثر قبول کرکے اپنی راہ عمل کا کوئی ایسا تعین نہیں کیا جس کے بعد وہ کسی گروہ سے وابستہ ہوجاتے اور اس کی ادبی تائید اور تحسین کے ساتھ ان کی شخصی امیج میں کوئی اضافہ ہوتا۔ ان کے اپنے قدم اپنی ہی زمین پررہے اور زندگی کی راہ انہوں نے اپنے ہی قدموں سے چل کرطے کی۔
مجھے ان کے لب و لہجے میں جو غزلیت کا عنصر ملا ۔اس میں سادگی سنجیدگی اور اثر آفرینی زیادہ دل کو لبھانے والی بات تھی اور بہت سے انسان ایسے ہوں گے جو میری ہی طرح ان کے لہجے میں اپنے دل کی دھڑکنوں کو محسوس کرتے ہوں گے کہ آخر زندگی اس کے ناروا سلوک اور ناسازگار ماحول میں خود کواگر زندہ رکھا جائے تو کیسے اور اپنی شخصیت پر اعتماد کا اظہار کیا جائے تو کس طرح ۔
معین احسن جذبی اپنے زمانے کے بہت سے ذہین ادیبوں، شاعروں اور نقادوں کے دوست رہے ہیں، جس زمانے میں بہت سی اچھی شخصیتیں جمع ہوں اس دور میں اپنی انفرادیت کوقائم رکھنا ایک بڑی بات ہے۔ راقمہ نے جذبی کو ان کے کلام کی اسی روشنی میں دیکھا اور پرکھنے کی سعی کی ہے۔
ان کی زندگی اور اس کے مختلف مدارج جس میں تعلیم و تربیت خانگی حالات خاندانی کوائف ملازمت کا دور دوستی، ہمدردی، خلوص، اتفاق اور نا اتفاقی سبھی چیزیں شامل ہیں، ان سے متعلق معلومات کے لئے راقمہ نے دوبارعلی گڑھ کا سفر کیا ۔جذبی صاحب سے باتیں کی اور جو کچھ وہ فرماتے اور مختلف سوالوں کے سلسلے میں وضاحت کرتے رہے،ان سب کو ریکارڈ کیا۔ تاکہ جب میںاس پر لکھنے کے لئے بیٹھوں تو میری زبان قلم پر آنے والے الفاظ زیادہ تر جذبی صاحب کے اپنے الفاظ ہوںاور جو بات جس لہجے میں کہی گئی ہے میں اس کو اسی ماحول اور پس منظر میں سمجھ سکوں۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر ضیاؔ فتح آبادی کا یومِ وفات
——
اس کے لئے میں نے مختلف وقتوں میں اپنے اساتذہ سے بھی باتیں کیں ان میں زیادہ تر وہ دانشور تھے جو معین احسن جذبی صاحب کو جانتے تھے۔ ان کے طالب علم رہ چکے تھے۔ یا دوست تھے۔ میں نے جذبی صاحب کی بہت سی تحریروں کو پڑھا جن تک میری رسائی ہوئی اور اپنا بہت سا وقت ان شاعروں، ادیبوں اور نقادوں کے مطالعہ میں گزارا جو معین احسن جذبی صاحب کے دور سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس میں خصوصیت کے ساتھ ترقی پسند تحریک اور اس سے وابستہ ممتاز شاعر بھی آجاتے ہیں۔
غزل معین احسن جذبی تک پہونچنے سے پہلے حالی سے اقبال تک یا پھر یہ کہئے کہ فیض و فراق تک اپنا سفر حیات طے کر چکی تھی۔ اس میں معین احسن جذبی بھی آکر شامل ہوگئے۔ اسی طرح جب ہم معین احسن جذبی کی نظم پر غورکرتے ہیں تو اس میں جدید اردو نظم کی راہ ارتقا کے کئی موڑ ملتے ہیں اور بات صرف اسی پر ختم نہیں ہوجاتی جدید غزل کا مطالعہ نو کلاسیکی غزل کے مطالعہ کے بغیر نا مکمل کہا جاسکتا ہے۔ اسی لئے راقمہ نے اس میں لکھنو کے ان اساتذہ کو بھی شامل کیا جنہوں نے اس صدی کے نصف اول میں غزل کو نئے رنگ آہنگ سے آشنا کیا ہے۔
——
منتخب کلام
——
ابھی سموم نے مانی کہاں نسیم سے ہار
ابھی تو معرکہ ہائے چمن کچھ اور بھی ہیں
——
یا اشکوں کا رونا تھا مجھے یا اکثر روتا رہتا ہوں
یا ایک بھی گوہر پاس نہ تھا یا لاکھوں گوہر ٹوٹ گئے
——
جب کبھی کسی گل پر اک ذرا نکھار آیا
کم نگاہ یہ سمجھے موسم بہار آیا
——
اللہ رے بے خودی کہ چلا جا رہا ہوں میں
منزل کو دیکھتا ہوا کچھ سوچتا ہوا
——
اے موج بلا ان کو بھی ذرا دو چار تھپیڑے ہلکے سے
کچھ لوگ ابھی تک ساحل سے طوفاں کا نظارہ کرتے ہیں
——
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں نے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
——
مرنے کی دعائیں کیوں مانگوں جینے کی تمنا کون کرے
یہ دنیا ہو یا وہ دنیا اب خواہش دنیا کون کرے
جب کشتی ثابت وسالم تھی، ساحل کی تمنا کس کو تھی
اب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو آگ لگائی تھی تم نے اس کو تو بجھایا اشکوں سے
جو اشکوں نے بھڑکائی ہے اس آگ کو ٹھنڈا کون کرے
دنیا نے ہمیں چھوڑا جذبؔی ہم چھوڑ نہ دیں کیوں دنیا کو
دنیا کو سمجھ کر بیٹھے ہیں اب دنیا دنیا کون کرے
——
ملے غم سے اپنے فرصت، تو سنائیں وہ فسانہ
کہ ٹپک پڑے نظر سے مئے عشرتِ زمانہ
یہی زندگی مصیبت، یہی زندگی مسرت
یہی زندگی حقیقت، یہی زندگی فسانہ
کبھی درد کی تمنّا، کبھی کوششِ مداوہ
کبھی بجلیوں کی خواہش، کبھی فکرِ آشیانہ
مرے قہقہوں کی زد پر کبھی گردشیں جہاں کی
مرے آنسوؤں کی رَو میں کبھی تلخیِ زمانہ
کبھی میں ہوں تجھ سے نالاں، کبھی مجھ سے تو پریشاں
کبھی میں ترا ہدف ہوں، کبھی تو مرا نشانہ
جسے پا سکا نہ زاہد، جسے چھُو سکا نہ صوفی
وہی تار چھیڑتا ہے مرا سوزِ شاعرانہ
——
ہم ایک خواب لیے ماہ و سال سے گزرے
ہزاروں رنج ہزاروں ملال سے گزرے
ہمیں ملا جو کوئی آسماں تو صورت ماہ
نہ جانے کتنے عروج و زوال سے گزرے
کبھی غریبوں کی آہوں میں کی بسر ہم نے
کبھی امیروں کے جاہ و جلال سے گزرے
وہ بے سہارا سے کچھ لوگ جان سے بیزار
خبر ملی ہے کہ اوج کمال سے گزرے
یہ زندگی بھی عجیب راہ تھی کہ ہم جس سے
قدم بڑھاتے جھجکتے نڈھال سے گزرے
حقیقتیں تو نگاہوں کے سامنے تھیں مگر
ہم ایک عمر فریب خیال سے گزرے
حکایت گل و بلبل پہ خندہ زن ہیں وہی
جو شام ہجر نہ صبح وصال سے گزرے
گلے لگاتی ہے منزل انہیں بھی اے جذبیؔ
قدم قدم پہ جو خوف مآل سے گزرے
——
کتنی بلندیوں پہ سر دار آۓ ہیں
کسی معرکہ میں اہل جنوں ہار آۓ ہیں
گھبرا اٹھے ہیں ظلمت شب سے تو بارہا
نالے ہمارے لب پہ شرربار آۓ ہیں
اے قصہ گو ازل سے جو بیتی ہے وہ سنا
کچھ لوگ تیرے فن کے پرستار آۓ ہیں
پائی گلوں سے آبلہ پائی کہ جب نہ داد
دیوانے ہیں کہ سوۓ لب خار آۓ ہیں
غم خواریوں کی تہہ میں دبی سی مسرتیں
یوں میرے پاس بھی مرے غم خوار آۓ ہیں
پہنچے ہیں جب بھی خلوت دل میں تو اے ندیم
اکثر ہم اپنے آپ سے بے زار آۓ ہیں
اس بزم میں تو مے کا کہیں ذکر تک نہ تھا
اور ہم وہاں سے بے خود و سرشار آۓ ہیں
اس کی گلی میں ہم نے لٹا دی متاع جاں
اس کی گلی سے ہم تو سبک سار آۓ ہیں
کرتے رہے ہیں فن کی پرستش تمام عمر
محشر میں کیسے کیسے گنہ گار آۓ ہیں
جذبیؔ جو ہو سکے تو مری حیرتوں سے پوچھ
کس طرح میرے ذہن میں اشعار آۓ ہیں
——
داغِ غم دل سے کسی طرح مٹایا نہ گیا
میں نے چاہا بھی مگر تم کو بھلایا نہ گیا
عمر بھر یوں تو زمانے کے مصائب جھیلے
تیری نظروں کا مگر بار اٹھایا نہ گیا
روٹھنے والوں سے اتنا کوئی جا کر پوچھے
خود ہی روٹھے رہے یا ہم سے منایا نہ گیا
پھول چننا بھی عبث ، سیرِ بہاراں بھی پھول
دل کا دامن ہی جو کانٹوں سے بچایا نہ گیا
اُس نے اس طرح محبت کی نگاہیں ڈالیں
ہم سے دنیا کا کوئی راز چھپایا نہ گیا
تھی حقیقت میں وہی منزلِ مقصد جذبیؔ
جس جگہ تجھ سے قدم آگے بڑھایا نہ گیا
——
نظم: میرے سوا
تو ہی بتلا کہ بھلا میرے سوا دنیا میں
کون سمجھے گا ان آنکھوں کے تبسم کا گداز
ان شرربار نگاہوں میں مگر میرے سوا
دیکھ پائے گا بھلا کون کرم کے انداز
جن فضاؤں میں بھٹکتے ہیں خیالات ترے
ہے وہاں کون بجز میرے ترا ہم پرواز
کون پڑھ پائے گا تحریر جبین شفاف
کس کو مل سکتا ہے بے وجہ تغافل کا جواز
کون سمجھے گا بجز میرے ترا حزن و الم
جب ترے دوش پہ بکھری بھی نہ وہ زلف دراز
تو ہی بتلا کہ بھلا کون سمجھ پائے گا
تیرے ہونٹوں سے بہت دور تری آہ کا راز
جذب ہو کر شب تاریک کے سناٹے میں
کون اس طرح سنے گا ترے دل کی آواز