آج معروف کہانی کار ، کالم نگار ، ڈرامہ نگار ، نقاد ، ادیب اور ترقی پسند شاعر ظہیر کاشمیری کا یومِ پیدائش ہے۔

(پیدائش: 21 اگست 1919ء – وفات: 12 دسمبر 1994ء)
——
ظہیر کاشمیری کا اصل نام پیرزادہ دستگیر ظہیر تھا۔ 21 اگست 1919 کو امرتسر انڈیا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام میاں شاہ دین تھا ۔
میٹرک تک ایم اے او ھائی سکول امرتسر سے تعلیم حاصل کی ۔ پھر ایم اے او کالج امرتسر سے بی اے کا امتحان پاس کیا ۔ خالصہ کالج امرتسر میں ایم اے انگریزی میں داخلہ لیا لیکن اسے مکمل نہ کر سکے ۔
گیارہ برس کی عمر سے شعر گوئی کی ابتدا ہوگئی تھی۔تقسیم ہند سے قبل ہی لاہور آگئے تھے۔ابتدا میں فلمی دنیا میں ادبی مشیر کی خدمات انجام دیں کشمیر ان کا آبائی وطن تھا۔
ظہیر کاشمیری زمانہ طالبعلمی میں سیاست میں بھرپور حصہ لیتے رھے پنجاب سٹوڈنٹس فیڈریشن کے صدر ھونے کے ساتھ ساتھ علمی مباحثوں اور ادبی سرگرمیوں مین بھی بھرپور حصہ لیتے رھے ۔ اور متعدد انعامات حاصل کئے ۔
عملی صحافت کا آغاز روزنامہ مساوات سے کیا۔ کالم نگار کی حیثیت سے روزنامہ احسان، حالات، نوائے وقت اور پکار میں لکھتے رھے ۔ ظہیر کاشمیری قیام پاکستان سے قبل فلمی صنعت کے ساتھ وابستہ ہونے کے لیے لاہور آ گئے۔ انہوں نے کئی فلموں کی کہانیاں لکھیں اور ہدایت کاری بھی کی فلم ’’تین پھول‘‘ کی کہانی لکھی اور خود ہی ہدایت کاری بھی کی۔ ، مگر ان کا اصل میدان ادب اور مزدوروں کے حقوق کے لیے جدوجہد تھا اور طبقاتی ناانصافیوں کے خلاف برسرپیکار رہے۔ آپ ترقی پسند شاعر تھے ۔ اس لئے ادب برائے زندگی پر یقین رکھتے تھے اور ہمیشہ اپنے قلم کو انسانی حقوق اور پسے ہوئے عوام کے لیے استعمال کیا ۔ ان کے شعری مجموعوں میں آدمی نامہ، جہان آگہی، چراغ آخر شب اور حرف سپاس کے نام شامل ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : معروف فکشن رائٹر، ناول نگار سجاد ظہیر کا یوم وفات
——
ظہیرکاشمیری 12 دسمبر 1994ء کو لاہور میں وفات پاگئے اور میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔۔
حکومت پاکستان نے ظہیر کاشمیری کو ان کی وفات کے بعد صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔
——
ہم نے ظہیر کاشمیری کو کیوں بھلا دیا؟ ازسلیم سہیل
——
موسم بدلا، رت گدرائی، اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
——
یہ غزل ظہیر کاشمیری نے لکھی، استاد امانت علی خاں نے گائی اور اہلِ جنوں کی آواز بن گئی۔ وہ اسے گلیوں گلیوں گاتے پھرتے ہیں اور اپنے دل کو ٹھنڈک پہنچاتے رہتے ہیں۔ شاعری کی مدد سے کوانٹم فزکس کی گتھیاں سلجھانے والوں کے لیے تو شاید اس میں کوئی دل چسپی نہ ہو مگر جو لوگ اپنی زندگی کی بنیاد محبت پر استوار کرتے ہیں، اُن کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔ جو جنگل گیا نہیں وہ جنگل کی خطرناکیاں کیا جانے۔ وہ چاک گریبانی کو دل لگانے کے خمیازے کے علاوہ اور کیا سمجھ سکتے ہیں مگر اہلِ دل کے نزدیک اس سے اچھا صلہ اور کیا ہو گا۔ بس دنیا والوں اور دل والوں میں یہی باریک سا فرق ہے۔ ایک کا خمیازہ دوسرے کے لیے صلہ کا درجہ رکھتا ہے۔
ظہیر کاشمیری کا ایک زمانے میں بہت چرچا تھا۔ یہ وہی دور ہے جس میں ترقی پسند تحریک اپنے سفر پر رواں تھی اور اس کی روشنی میں شاعر، ادیب اپنے اپنے کلام کو شکل دے رہے تھے۔ پروفیسر احتشام حسین، سید سجاد ظہیر، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی موجود تھے۔ ظہیر کاشمیری نے فیض اور قاسمی جیسی شاعری کی توانا آوازوں کے درمیان اپنی آواز کو نمایاں رکھا۔ اس آواز کی انفرادیت پر کان دھرا جائے تو کچھ باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ ترقی پسندوں نے رائج رومانی فضا سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے اپنی فکر کی بنیاد کارل مارکس کے نظریات پر رکھی اور غزل کے بجائے نظم کی ہیئت کو ترجیح دی۔
——
یہ بھی پڑھیں : حمید کاشمیری کا یوم وفات
——
ہر کوئی جانتا ہے کہ ظہیر کاشمیری ترقی پسند شاعر تھے لیکن اُن کے کلام کو دیکھا جائے تو اس میں نظم کے بجائے غزلوں کی تعداد زیادہ ہے۔ جہاں انقلاب کا بیان ہے وہاں رومانی فضا بھی موجود ہے۔ اسے ہم انحراف نہیں بلکہ ایک مزاج کَہ سکتے ہیں۔ اسی مزاج نے اِس فکر کی آبرو میں بہت اضافہ کیا۔ اس لہجے کو سمجھنا ہو تو اُس کے لیے تقابل کا سہارا لینا پڑے گا۔ یہ اسلوب ایسا نہیں جس میں کیفی اعظمی، علی سردار جعفری، مخدوم محی الدین، جانثار اختر، احمد ندیم قاسمی، فیض احمد فیض نے شاعری کی ہو۔ ان شعرا کے ہاں عرضِ مدعا سطح پر نظر آ جاتا ہے اور شاعری اور اعلان کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ ظہیر کاشمیری عصری موضوعات بیان کرتے ہیں انھیں مسلط نہیں کرتے ہیں۔ اس سے اُن کی شاعری ایسی قلبی واردات کا بیان بن جاتی ہے جس سے جذبہ آواز بنتا نظر آتا ہے۔
——
میں ہوں وحشت میں گم، میں تیری دنیا میں نہیں رہتا
بگولا رقص میں رہتا ہے، صحرا میں نہیں رہتا
بڑی مدت سے تیرا حسن دل بن کر دھڑکتا ہے
بڑی مدت سے دل تیری تمنا میں نہیں رہتا
——
موجود اور ناموجود کا ایسا اچھا بیان شاعری میں کم کم دیکھنے میں آتا ہے۔ مشاہدہ اپنی انفرادیت کا گواہ بن کر سامنے آتا ہے۔ تناسب کا امتزاج دیدنی ہے۔ وحشت میں گم، علائقِ دنیاوی سے دور، صحرا نوردی، بگولے کی طرح رقصاں رقصاں۔ لفظ جب شاعر پر مہربان ہوتے ہیں تو پھر وہ اپنے پورے سیاق و سباق کے ساتھ اُس پر قربان ہو جاتے ہیں۔ کچھ بھی چھپا کے نہیں رکھتے اور شعر میں ایسے معجزہ پیدا ہو جاتا ہے جس پر کئی علوم نثار کیے جا سکتے ہیں۔ ایک چپ سی لگ جاتی ہے۔ شاعری کو اگر لفظوں کا کھیل کہا جائے تو اِس کے کھیلنے میں پوری زندگی صرف ہو جاتی ہے۔ اور اِس شاعر کی زندگی صرف ہوئی۔
ساری زندگی جس سلطانیِ جمہور کا خواب دیکھا تھا اُس کی نذر جوانی کر دی مگر وہ صبحِ درخشاں نہ آئی۔ جبر کا سورج سوا نیزے پر رہا اور شاعر کا دیکھا ہوا خواب تشنۂ تعبیر رہا۔
——
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
——
اندھیرا اجالے میں نہ بدل سکا۔ ہم اقوامِ عالم میں بھکاری بن گئے۔ جب کاہلی، تن آسانی، بدنیتی، جھوٹ، مکر، فریب، کینہ ہمارا اجتماعی شعار بن جائے گا اور تحقیق، طلب، جستجو اور آسمانی صحائف سے ہمارا عمل دور پر ہوگا تو ادبار تو آئے گا۔
——
یہ بھی پڑھیں : ثناء اللہ ظہیر کا یومِ وفات
——
ظہیر کاشمیری کے قافلے میں کئی موسمی لکھاری، انقلاب کے نعرے کو وردِ زبان بنا کر داخل ہوئے مگر اُن کا انقلاب اپنی احتیاجات کی تکمیل تک تھا۔ وہ ضرورت کے پورا ہونے پر سلطانیِ جمہور کے بجائے سلطانیِ سلطان کے نام کی مالا جپنے لگے مگر اِس شاعر کا وطیرہ مختلف رہا۔ جیلیں کاٹیں، اذیتیں سہیں، تب جا کر اپنے ضمیر کی عدالت میں اطمینان نصیب ہوا۔ شاعری کی دیوی اتنی مہربان بھی نہیں ہوتی کہ آپ کا باطن تو کدورت سے لب ریز ہو اور آپ کا کلام حسن کا نمونہ بن جائے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ آپ دل سے دل ملاؤ گے تو کلام ضو دینا شروع کر دے گا:
——
عکسِ جمالِ یار کا اعجاز دیکھیے
اک چاندنی سی چھو گئی میرے بدن کے ساتھ
——
اس کی ہر تان سے ملتا ہے ستاروں کو گداز
عشق کہتے ہیں جسے، نغمہ جاں ہوتا ہے
حسن کا عکس بھی تسکینِ دل و جاں ہے ظہیر
حسن پر سایہ صاحب نظراں ہوتا ہے
——
یہ انقلابِ زمانہ تھا یا فریبِ نظر
گزر چکا ہے مگر انتظار باقی ہے
وہ کیا شہیدِ محبت تھے جن کی میت پر
مزار ہے نہ چراغِ مزار باقی ہے
——
یہ اور بات کہ تیرے کرم کی نذر ہوئے
شباب ہم پہ بھی تھا تیرے بانکپن کی طرح
——
یہ اور اس طرح کے کئی اشعار ظہیر کاشمیری کی کلیات میں شامل کتابوں ”عظمتِ آدم“، ”تغزل“، ”چراغِ آخرِ شب“ ، ”رقصِ جنوں“ اور ”شعر و غنا“ کا حصہ ہیں جو اس بات کی گواہی دیتے نظر آتے ہیں کہ باطنی سچ کے ساتھ گزاری ہوئی زندگی کیسی ہوتی ہے۔ ہماری اُردو دنیا کا المیہ ہے کہ اگر کسی شاعر کے ساتھ ترقی پسند یا رجعت پسند کا سابقہ لگ گیا تو ہم اُسے بغیر پڑھے رد کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اصل میں یہ ہمارے اُس اجتماعی تاثر کی جھلک ہوتی ہے جو ہم نے خود ہی طاری کیا ہوتا ہے کہ ترقی پسند ہے تو اس طرح کی شاعری ہوگی اور رجعت پسند ہے تو اُس طرح کی شاعری ہوگی اور شاعری کے بارے میں ہم سے بہتر کون جانتا ہے۔ شاعری کی تعبیر میں جاننے کا لفظ ویسے ہی جچتا نہیں۔ ظہیر کاشمیری کی شاعری کا غور سے مطالعہ کیا جائے تو معروف معنوں میں ترقی پسند شاعر احمد ندیم قاسمی یا فیض احمد فیض سے کسی طرح بھی کم نہیں۔
——
یہ بھی پڑھیں : آغا حشر کاشمیری کا یوم پیدائش
——
ہم لوگ آپ آ گئے شب کے فریب میں
اک جھٹ پٹے پہ ہم کو گمانِ سحر ہوا
تیرا مقامِ فن تو بجا ہے مگر ظہیر
اُس شوخ پر کلام ترا بے اثر ہوا
——
منتخب کلام
——
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
——
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
——
فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے
بت کو یوں پوج رہے ہیں کہ خدا ہو جیسے
——
جب خامشی ہی بزم کا دستور ہو گئی
میں آدمی سے نقش بہ دیوار بن گیا
——
ہم خود ہی بے لباس رہے اس خیال سے
وحشت بڑھی تو سوئے گریباں بھی آئے گی
——
اس دور عافیت میں یہ کیا ہو گیا ہمیں
پتا سمجھ کے لے اڑی وحشی ہوا ہمیں
——
یہ کاروبارِ چمن اس نے جب سنبھالا ہے
فضا میں لالہ و گُل کا لہو اچھالا ہے
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے
ہجومِ گُل میں چہکتے ہوئے سمن پوشو!
زمینِ صحنِ چمن آج بھی جوالا ہے
ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے
ہمارا عشق، ہوس سے بلند و بالا ہے
سنا ہے آج کے دن زندگی شہید ہوئی
اسی خوشی میں تو ہر سمت دیپ مالا ہے
ظہیر ہم کو یہ عہدِ بہار، راس نہیں
ہر ایک پھول کے سینے پہ ایک چھالا ہے
——
لوحِ مزار دیکھ کے جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
بدنام ہو کے عشق میں ہم سرخرو ہوئے
اچھا ہوا کہ نام گیا ننگ رہ گیا
ہوتی نہ ہم کو سایہء دیوار کی تلاش
لیکن محیطِ زیست بہت تنگ رہ گیا
سیرت نہ ہو تو عارض و رخسار سب غلط
خوشبو اڑی تو پھول فقط رنگ رہ گیا
اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے
جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا
کتنے ہی انقلاب شکن در شکن ملے
آج اپنی شکل دیکھ کے میں دنگ رہ گیا
تخیل کی حدوں کا یقیں نہ کر سکا
لیکن محیطِ زیست بہت تنگ رہ گیا
کل کائنات فکر سے آزاد ہو گئی
انسان مثال دست تہِ سنگ رہ گیا
ہم ان کی بزمِ ناز میں کیوں چپ ہوئے ظہیر
جس طرح گھٹ کے ساز میں آہنگ رہ گیا
——
یہ بھی پڑھیں : معروف شاعر ظہیر غازی پوری کا یوم پیدائش
——
تری چشمِ طرب کو دیکھنا پڑتا ہے پرنم بھی
محبت خندۂ بے باک بھی ہے گریہ غم بھی
تھکن تیرے بدن کی عذرکوئی ڈھونڈ ہی لیتی
حدیثِ محفلِ شب کہہ رہی ہے زلفِ برہم بھی
بقدرِ دل یہاں سے شعلۂ جاں سوز ملتا ہے
چراغِ حسن کی لو شوخ بھی ہے اور مدہم بھی
مری تنہائیوں کی دل کشی تیری بلا جانے
مری تنہائیوں سے پیار کرتا ہے ترا غم بھی
بہاروں کے غزلخواں آج یہ محسوس کرتے ہیں
پسِ دیوارِ گل روتی رہی ہے چشمِ شبنم بھی
قریب آتے مگر کچھ فاصلہ بھی درمیاں رہتا
کمی یہ رہ گئی ہے باوجودِ ربطِ باہم بھی
ظہیر ، ان کو ہمارے دل کی ہر شوخی گوارا تھی
انہیں کرنا پڑے گا اب ہمارے دل کا ماتم بھی
——
موسم بدلا، رُت گدرائی اہلِ جنوں بے باک ہوئے
فصلِ بہار کے آتے آتے کتنے گریباں چاک ہوئے
گُل بوٹوں کے رنگ اور نقشے، اب تو یونہی مٹ جائیں گے
ہم کہ فروغِ صبحِ چمن تھے، پابندِ فتراک ہوئے
مہرِ تغیّر اس دھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا!
صدیوں کے افتادہ ذرّے، ہم دوشِ افلاک ہوئے
دل کے غم نے دردِ جہاں سے مل کے بڑا بے چین کیا
پہلے پلکیں پُرنم تھیں، اب عارض بھی نمناک ہوئے
کتنے الہڑ سپنے تھے جو دورِ سحر میں ٹوٹ گئے
کتنے ہنس مُکھ چہرے ، فصل بہاراں میں غمناک ہوئے
برقِ زمانہ دور تھی لیکن مشعلِ خانہ دور نہ تھی
ہم تو ظہیر اپنے ہی گھر کی آگ میں جل کر خاک ہوئے
——
ساغر اچھل رہے تھے جدھر دیکھتے رہے
ہر شے میں ان کا حسنِ نظر دیکھتے رہے
گلشن کو ہم برنگِ دگر دیکھتے رہے
ہر گام پر خزاں کا خطر دیکھتے رہے
ہم نے تو کروٹوں میں جوانی گزار دی
حسرت سے بزمِ غیر کا در دیکھتے رہے
وہ جنبشِ نقاب کا منظر نہ پوچھیے
کیا دیکھنا تھا اپنا جگر دیکھتے رہے
وہ بار بار دل میں جلاتے رہے چراغ
ہم سر جھکا ئے شمعِ سحر دیکھتے رہے
محسوس ہو رہا تھا کوئی سلسلہ ظہیر
پہروں زمین راہ گزر دیکھتے رہے
——
کسی سنولائی ہوئی شام کی تنہائی میں
دو سرکتے ہوئے سایوں میں ہوئی سرگوشی
بات چھوٹی تھی — مگر پھیل کے افسانہ بنی
میں نے اکثر یہی سوچا ، ترا خوش رنگ بدن
نقرۂ ناب کا ترشا ہوا ٹکڑا ہو گا
دودھیا ، سرد ، حرارت سے تہی
جس پہ طاری ہو خود اپنے ہی تصور کا جمود
کوئی اعجازِ پرستش جسے چونکا نہ سکے
تو مگر پھول کی پتی سے سبک تر نکلی
اوس کے لمس سے جو آپ ہی جھک جاتی ہو
اک ہلورہ بھی جسے ٹھیس لگا سکتا ہو
تو مگر خوابِ محبت تھی فرشتوں نے جسے
بیٹھ کر چاند ستاروں میں بنا صدیوں تک
اپنے بلور کے ایوان سجانے کےلئے!
دمِ گفتار ۔۔۔ تیرے ہونٹوں سے رستی ہوئی بات
جیسے گیتوں کے بہاؤ میں مخاطب کو لئے
چھوڑ آئے کسی رومان بھری وادی میں
تیری شب تاب جوانی کی ضیا نے اکثر
ہالۂ نور مرے گرد کیا ہے تعمیر
اور میں حجلۂ تنویر میں پہروں بیٹھا
تیرے مانوس تنفس کی صدا سنتا رہا
ابھی کچھ اور بھی راتیں ہیں پسِ پردۂ غیب
ابھی کچھ اور بھی نغمے ہیں پسِ پردۂ ساز
کئی راتوں کئی نغموں سے گزرنا ہو گا
دیکھ ! وہ چاند کی چوٹی کا چمکتا مینار
اسی مینار میں دونوں کو پہنچنا ہوگا