اردوئے معلیٰ

آج پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے معروف شاعر مبارک مونگیری کا یومِ پیدائش ہے ۔

مبارک مونگیری(پیدائش: 10 جنوری 1914ء – وفات: 6 اکتوبر 1988ء)
——
مبارک مونگیری 10 جنوری 1914ء میں موضع حسینا، مونگیر ضلع ، صوبہ بہار، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا نام پیدائشی نام مبارک احمد، تخلص مبارک تھا مگر مبارک مونگیری کے قلمی نام سے شہرت پائی۔
والدِ گرامی کا نام مولوی عبد المجید تھا، جو کلکتہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اور انسپکٹر آف اسکولز تھے۔ علم و ادب کا سلسلہ ان کے خاندان میں کئی پشتوں سے چلا آ رہا تھا۔مبارک بچپن ہی میں شفقتِ پدری سے محروم ہو گئے تھے۔ والد کے انتقال کے بعد بڑے بھائی مولوی عبد السلام (انسپکٹر آف اسکولز) کی زیرِ کفالت رہے۔ اسکول کی تعلیم مڈورا کورا اسکول، حسینا،ضلع مونگیر اور موتی ہاری اسکول سے حاصل کی۔
بعد ازاں ڈی جے کالج مونگیرسے مزید تعلیم حاصل کی۔ تقسیم ہند کے بعد وہ مشرقی پاکستان منتقل ہو گئے۔ پہلے گورنمنٹ اسکول چٹاگانگ میں ملازمت اختیار کی لیکن کچھ عرصہ بعد محکمہ ریلوے میں ملازم ہو گئے، جہاں وہ 1973ء تک ملازمت کرتے رہے۔ ۔ 1973ء میں مبارک مونگیری کراچی آ گئے۔ یہاں بھی انہیں ریلوے میں ملازمت ملی۔ پوسٹنگ اسلام آباد ہو گئی تھی۔ لیکن 1984ء میں انہوں نے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے کر کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
——
یہ بھی پڑھیں : سید مبارک شاہ کا یومِ وفات
——
شعر و سخن کا شوق انہیں بچپن سے ہی تھا۔چودہ پندرہ سال کی عمر سے شعر کہنے شروع کر دیے تھے۔ روائتی طور پر کسی کے شاگرد نہیں بنے۔ ابتدا میں اپنے پھوپھا وصی سیگھڑوی اور بعد ازاں اپنے بھائی اور بہنوئی کی تربیت میں رہے۔ اس کے بعد اپنے طور پر شعر کہتے رہے۔ سقوط ڈھاکہ کے موقع پر ابتدا سے 1970ء تک کا سارا کلام ضائع ہو گیا۔
اس حادثے سے وہ اتنے بد دل ہوئے کہ پھر کبھی اپنے کلام کو یک جا کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کراچی آنے کے بعد ان کے صاحبزادے اقبال مجیدی نے بڑی کوشش کے بعد کچھ کلام جمع کر کے شائع کرایا۔ ان کی مطبوعہ کتب میں صحرائے گلستاں تک (مجموعہ غزل، 1982ء)، ذکرِ ارفع (نعتیہ مجموعہ، 1994ء)، بوجھو تو جانیں (منظوم خاکے، 1994ء)، سیلِ خوں (طویل نظم، 2000ء) اور ختم ہوا افسانہ بھی (نظمیں، غزلیں، 2003ء) شامل ہیں۔ ان کے وفات کے بعد بلدیہ عظمیٰ کراچی نےشادمان ٹاؤن نارتھ کراچی سے ناگن چورنگی کی طرف جانے والی ایک سڑک ان کے نام سے منسوب کی ہے۔
مبارک مونگیری 6 اکتوبر 1988ء میں کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔
——
مبارک مونگیری ” ذکرِ ارفع ” کی روشنی میں از ڈاکٹر فرمان فتح پوری
——
مبارک مونگیری ہمارے عہد کے ان شاعروں میں سے ہیں جن کی انسان دوستی اور جن کے کلام کی حیات افروزی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے ۔
ان کی شاعری کا ہر پہلو اور ہر موضوع اس امر کا مظہر ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش کی سیاسی و سماجی اور اس میں سانس لینے والی اجتماعی زندگی کے نباض و ترجمان ہیں ۔
اس ترجمانی میں انہوں نے انسان اور انسانیت کو محترم و معتبر بنانے کے جو خواب دیکھے ہیں ان کے لیے ایک مدت تک ان کی آنکھیں بے خواب رہی ہیں ۔ لیکن ان کی بے خوابی رائیگاں نہیں گئی ۔ خوابوں کے شرمندۂ تعبیر ہونے کے آثار و امکانات پیدا ہوئے ہیں اور پیدا ہو رہے ہیں ۔
ظالموں کے ہاتھ روز بروز کمزور ہوتے جا رہے ہیں اور مظلوموں میں جبر و استبداد سے آنکھ ملانے کا حوصلہ اور عزم بڑھتا جا رہا ہے ۔
ایسا ہونا کوئی حیرت انگیز بات نہیں اس لیے کہ مبارک مونگیری نے اہلِ ثروت و صاحبانِ اقتدار کی مدح سے اپنے ذۃن و قلم کو کبھی آلودہ نہیں کیا بلکہ دنیا کے سب سے بڑے آدمی اور انسانیت کے سب سے بڑے علمبردار حضرت محمد مصطفیٰ کی رحمت اللعالمین ہی کو مدح و ثنا کے لائق جانا ہے ۔
یہ بھی اسی ذاتِ مبارکہ کا فیضانِ خاص ہے کہ مبارک مونگیری نے اس مدح و ثنا کو کسی ایک ہیئت شعری میں بند کرنے کی کوشش نہیں کی ، شاید ایسا کرنا ممکن بھی نہیں تھا ۔ اس لیے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نعمتیں اور رحمتیں اپنے امتیوں اور خدا کے خاص بندوں پر ہمہ رخ و ہمہ جہت اور ہمہ رنگ و ہمہ صورت ہیں ۔
——
یہ بھی پڑھیں : شہِ دیں کی نعتیں سنانا مبارک
——
نتیجتاََ مبارک مونگیری نے بھی تقریباَ۔ جملہ اصناف مثلاََ مثنوی ، غزل ، مسدس ، مخمس ، رباعی ، تضمین ، قطعہ اور جدید نظم ، سبھی کو انہوں نے نعت گوئی کا وسیلہ بنایا ہے اور ہر وسیلے کو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے شدید اور سچے جذبوں میں ڈھال کر کارگر و کار کشا بنا دیا ہے ۔
مجھے یقین ہے کہ ان کی نعت گوئی ” ذکرِ ارفع ” کی معرفت دین و دنیا دونوں میں ان کی سرخروئی کا وسیلہ ثابت ہو گی ۔
——
منتخب کلام
——
حمدِ باری تعالیٰ
——
ٹھکانا ہر جگہ تیرا ہے منزل چار سُو تیری
تجھے میں نے وہیں پایا جہاں کی جستجو تیری
جسے محبوب سمجھا شانِ لولاکی عطا کر دی
جسے چاہا وہ ٹھہرا دو جہاں میں آرزو تیری
کبھی ایمن کی وادی میں کبھی فاراں کی چوٹی پر
ہوئی ہے جا بہ جا جلوہ گری اے شمع رُو تیری
ترے بحرِ کریمی کا کرے گا کون اندازہ
کرم ہے یم بہ یم تیرا رحمت جو بہ جو تیری
ترے بس میں دل و دیدہ یہ گرویدہ وہ نادیدہ
نظر کو جستجو تیری تو دل کو آرزو تیری
یہ قہّاری و جبّاری بجا اپنی جگہ مولا
امید افزا ہے لیکن آیت لاتقنطو تیری
حجاباتِ تعین لاکھ پردہ دار ہیں لیکن
تماشا جا بجا تیرا تجلی کو بکو تیری
عنادل تیری مدحت میں ہیں مصروفِ نوا سنجی
ثنا خوانی چمن میں کر رہے ہیں رنگ و بو تیری
نبی کی عبدیت نے فرق پیدا کر دیا ورنہ
تھا جلوہ من و عن تیرا ، تھی صورت ہو بہو تیری
——
ولادتِ سرکارِ دو عالم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم
——
حقیقت کے رُوحِ رواں آ رہے ہیں
وہ فخرِ زمین و زماں آ رہے ہیں
زمانے کے راحت رساں آ رہے ہیں
کرم گسترو مہرباں آ رہے ہیں
صداقت کے وہ ترجماں آ رہے ہیں
شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

زمیں جن کے جلووں سے معمور ہو گی
حیات آدمیت کی پُر نور ہو گی
بدی دفعتاََ دہر سے دور ہو گی
غرض ظلمتِ کُفر کافور ہو گی
وہی زینتِ خاکداں آ رہے ہیں
شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

مشیت کے لب پر ہے رقصاں تبسم
تموج میں ہے آج رحمت کا قلزم
ملائک تحیر کے عالم میں ہیں گم
چھلکتے ہیں رحمت کے پیمانہ و خُم
وہی ساقیِ دو جہاں آ رہے ہیں
شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

قضا و قدر کا مقدس قرینہ
منور تھا جس سے کبھی طُورِ سینا
رسالت کے خاتم کا روشن نگینہ
نبوت کا جلوہ ہے سینہ بہ سینہ
وہ فاراں پہ جلوہ فشاں آ رہے ہیں
شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

وہ نبیوں کے سردار سرکار عالی
زمانہ ہوا جن کے در کا سوالی
یتیم آمنہ کا دو عالم کا والی
وہ انسانیت کی بنا جس نے ڈالی
وہی محسنِ انس و جاں آ رہے ہیں
شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

جو اُترا تھا سرتاج بن کر زمیں پر
قدم لے گیا تھا جو عرشِ بریں پر
نشاں سروری کا تھا جس کی جبیں پر
حکومت ملی جس کو دنیا و دیں پر
وہی سرورِ قدسیاں آ رہے ہیں
شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں

روش اس چمن کی نکھرنے لگی ہے
نئے سر سے دنیا سنورنے لگی ہے
فلک سے تجلی اترنے لگی ہے
حقیقت پھر اک بار ابھرنے لگی ہے
علم دارِ آخر زماں آ رہے ہیں
شہنشاہِ کون و مکاں آ رہے ہیں
——
کیا شامِ آرزو سے مبارکؔ کریں امید
ہم کو بہارِ صبحِ تمنا سے کیا ملا
——
گزرا جو پاس سے تو کلی دل کی کِھل گئی
میرے لیے تو بادِ صبا ہو گیا وہ شخص
——
جو کم نگاہ تھے وہی اہلِ نظر بنے
ہم کو ہمارے دیدۂ بینا سے کیا ملا
——
جو سانس بھی آتی ہے گزرتی ہے قیامت
دن زیست کے یارب ہیں کہ لوہے کے چنے ہیں
——
یا تیغ کے نیچے یا سرِ دار کیا جائے
حق ، حق ہے تو ہر حال میں اظہار کیا جائے
——
عزمِ خودی سلامت ، مشکل بھی کوئی شے ہے
اکثر ہوئی مشیت مجبور آدمی سے
——
الم کی دھوپ میں احباب کام آیا نہیں کرتے
یہ وہ اڑتے ہوئے بادل ہیں جو سایا نہیں کرتے
——
غرورِ حسن کی صورت مری انا کی طرح
وہ بے نیاز ہے مجھ سے مرے خدا کی طرح
——
ہم سے چُھوٹی نہ رسمِ وفا
مثلِ نقشِ قدم رہ گئے
——
تقدیر کی فتنہ سازی کب ، تدبیر کے بس کی ہوتی ہے
بنیادِ نشیمن رکھتا ہوں ، تعمیر قفس کی ہوتی ہے
——
تھک کر بیٹھا کہاں مسافر ، راہ میں ہمت ہار گیا
ناداں اتنا جان نہ پایا منزل تھی دو گام کے بعد
——
دامانِ کرم راہ کے اشجار بنے ہیں
ہے دھوپ اگر تیز تو سائے بھی گھنے ہیں
——
فسردہ لاکھ ہو دل شعلہ سامانی نہیں جاتی
سکوں میں بھی مرے دریا کی طغیانی نہیں جاتی
دم نظارہ بھی اپنی پریشانی نہیں جاتی
بکھر جاتے ہیں جلوے شکل پہچانی نہیں جاتی
دل سادہ میں او ذوق محبت بخشنے والے
ابھی تک تیری بخشش کی گل افشانی نہیں جاتی
ابھی تک پے بہ پے ناکامیوں سے دل نہیں تھکتا
ابھی تک آرزوؤں کی فراوانی نہیں جاتی
نہ جانے کس نظر سے تجھ کو کس عالم میں کب دیکھا
کہ اب تک دیدۂ حیراں کی حیرانی نہیں جاتی
صباؔ نے گدگدایا کچھ نسیم صبح نے چھیڑا
مبارکؔ پھر بھی گل کی پاک دامانی نہیں جاتی
——
الم کی دھوپ میں احباب کام آیا نہیں کرتے
یہ وہ اڑتے ہوئے بادل ہیں جو سایا نہیں کرتے
جگر شق ہو مگر لب پر فغاں لایا نہیں کرتے
شراب غم جو پیتے ہیں وہ لہرایا نہیں کرتے
سہے گا کون پھولوں کے سوا جور خزاں آخر
بہار حسن پر کانٹے تو اترایا نہیں کرتے
نہیں مانوس لب جن سے کچھ ایسی بھی ہیں فریادیں
کچھ آنسو ہیں جو پلکوں پر نظر آیا نہیں کرتے
——
حوالہ جات
——
تحریر : ڈاکٹر فرمان فتح پوری از ذکرِ ارفع
شائع شدہ 1994 ، صفحہ نمبر 7 ۔8
شعری انتخاب از ذکرِ ارفع 1994 ء ، صحرا سے گلستاں تک 1984 ء
یہ نگارش اپنے دوست احباب سے شریک کیجیے
لُطفِ سُخن کچھ اس سے زیادہ